دفتر ششم: حکایت: 68
قصہ فقیر روزی طلب بے کسب و دعائے او مستجاب شدن
ایک محتاج کا قصہ جو (کمانے کی مشقت) کے بغیر روزی چاہتا تھا اور اس کی دعا کا قبول ہو جانا
1
آن یکے بیچارۂ مفلس ز درد کو ز بے چیزی ہزاران زخم خورد
2
لابہ کردے در نماز و در دُعا کاے خداوند و نگہبان رُعا
ترجمہ: ایک مفلس بیچارہ جس نے تہیدستی سے ہزاروں تکلیفیں برداشت کی تھیں۔ دردِ (دِل) سے نماز و دُعا میں زاری کرتا تھا کہ اے خداوند اور اے گلہ کے نگہبان!
3
بے ز جَہدے آفریدی مر مرا بے فنِ من روزیم ده زِین سرا
ترجمہ: (جس طرح) یوں کسی مشقت کے بغیر تو نے مجھے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح اس عالم سے میری محنت کے بغیر مجھے روزی (بھی) دے۔
4
پنج گوہر دادیم در دُرجِ سر پنج حسِّ دیگرے ہم مستتر
ترجمہ: تو نے مجھے (حواسِ ظاہر کے) پانچ گوہر سر کے ڈبے میں بخشے ہیں۔ (اور) پانچ پوشیدہ حواس اور بھی دیے ہیں (پنج حواس ظاہر اور پنج حواس باطن کی تفصیل کئی بار گذر چکی ہے۔)
5
لَا يُعَد این داد وَ لَا يُحصٰی ز تو من کلیلم از بیانش شرم رُو
ترجمہ: (غرض) تیری طرف سے یہ بے حد و بے شمار عطیات ہیں میں ان کے بیان سے عاجز اور شرمندہ ہوں۔
6
چونکہ در خلّاقیم تنہا توئی کارِ رزاقیم ہم کُن مُستوی
ترجمہ: جب میرے پیدا کرنے میں تو اکیلا (فاعل) ہے۔ تو میری رزق رسانی کا کام بھی تو ہی درست کر دے (کہ مجھے کمانا نہ پڑے)۔
7
سالہا زو این دُعا بسیار شدعاقبت زاریِّ او بر کار شد
ترجمہ: برسوں اس کی طرف سے یہ دعا بکثرت ہوئی۔ آخر اس کی زاری کام دے ہی گئی۔
8
ہمچو آن شخصے کہ روزیِّ حلال از خدا میخواست بے کسب و کلال
ترجمہ: اس شخص کی طرح جو خداوند تعالیٰ سے حلال روزی بدوں کسب و تعب کے چاہتا تھا۔
9
گاؤ آوردش سعادت عاقبت عہدِ داؤدِؑ لدُنّی معدلت
ترجمہ: آخر خوش نصیبی اس کے پاس ایک بیل کو لے آئی۔ (یہ واقعہ)حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد میں (ہوا) جو خداداد انصاف والے تھے۔ (یعنی ان کا لا ثانی انصاف کسی استاد کی تعلیم اور کسی درسگاہ کے فیض کا منت کش نہ تھا۔ یہ قصہ مثنوی شریف کے تیسرے دفتر میں مذکور ہوا ہے۔)
10
این مُتَیّم نیز زاری ہا نمود ہم ز میدانِ اجابت گو ربُود
ترجمہ: (پس اسی طرح) اس (بے مشقت روزی کے) مشتاق نے بھی بہت زاریاں کیں (اور) یہ بھی میدانِ قبولیت سے (مراد مندی کی) گیند جیت لے گیا۔
11
گاه بد ظن می شدے اندر دُعااز پئے تأخیرِ پاداش و جزا
ترجمہ: (اور ایام دعا میں اس کی حالت یہ تھی کہ) کبھی نتیجہ و جزا کی تاخیر کے سبب سے دُعا سے بدگمان ہو جاتا۔
12
باز اِرجاے خداوندِ کریمدر دلش بشّار گشتے و زعیم
ترجمہ: پھر خداوند کریم کا امید دلانا (کہ ﴿لاَ تَقنَطُوا مِن رَّحْـمَةِ اللّٰه﴾ (الزمر: 53)) اس کے دل میں بشارت رساں اور کفیل ہو جاتا۔ (یعنی بطور القاء و الہام)
13
چون شدے نومید در جہد از كلال از جنابِ حق شنیدے کہ تعال
ترجمہ: جب (وہ) مشقت (اور اتفاق) میں تھکن کی وجہ سے نا امید ہو جاتا تو جانب حق سے (بطور القا کے) سنتا کہ (ادھر) آؤ (یعنی دُعا کرتے رہو اور قبول کے امیدوار رہو۔ آگے دوسرے مضامین ارشادیہ کی طرف انتقال ہے:)
14
خافض ست و رافع ست این کردگاربے ازین دو برنیاید ہیچ کار
ترجمہ: (جس طرح وہ طالبِ رزق امید و نا امید کی دو متضاد حالتوں میں رہا تھا اسی طرح) وہ کردگار (ہر چیز کو) پست کرنے والا (بھی) ہے اور بلند کرنے والا (بھی) ان دو کے بدون کوئی کام وقوع میں نہیں آتا۔
15
خفضِ ارضی بین و رفعِ آسمانبے ازین دو نیست دورانش اے فلان
ترجمہ: اے شخص! زمین کی پستی کو دیکھ اور آسمان کی بلندی کو (بھی دیکھ) ان دو کے بدون اس (آسمان) کی گردش (زمین کے گرد) نہیں ہے۔
مطلب: آسمان کی گردش زمین کے گرد اس طرح ہے کہ آسمان فوق ہے اور زمین محیط ہے اور زمین اس کے اندر اور اس کے تحت ہے۔ آسمان کے لیے گردش کا اثبات بناءً علی المشہور کیا ہے۔ یہ تو دو چیزوں میں بلندی و پستی کی مثال تھی۔ آگے اس سے ترقی کر کے ایک چیز کے اندر دو متضاد کیفیتوں کا ہونا بیان فرماتے ہیں:
16
خفض و رفع این زمین نوعے دگر نیم سالے شوره نیمے سبز و تر
ترجمہ: اس زمین کی پستی و بلندی ایک اور نوع کی بھی ہے۔ (وہ یہ کہ) نصف سال بنجر ہے اور نصف سال سرسبز و شاداب ہے۔ (کیونکہ جس زمین میں فصل ربیع کی کاشت ہوتی ہے وہ خریف میں بے کاشت رہتی ہے اور جس میں خریف کی کاشت ہوتی ہے وہ ربیع میں بے حد خراب رہتی ہے۔)
17
خفض و رفعِ روزگارِ با کُرَب نوع دیگر نیم روز و نیم شب
ترجمہ: پُر اضطراب زمانہ کی پستی و بلندی دوسری طرح کی ہے۔ (جیسے) نصف دن ہے، نصف رات۔ (یہ بسائط کا ذکر تھا۔ آگے یہی تضادِ کیفیات ایک مرکبِ عنصری میں دکھاتے ہیں:)
18
خفض و رفع این مزاجِ ممتزِج گاہ صحّت گاه رنجوری مُضِجّ
ترجمہ: (ہر) مرکب (عنصری) کے اس مزاج کی پستی و بلندی (یہ ہے کہ) کبھی تندرستی ہے، اور کبھی چیخنے والے (بیمار) کی بیماری۔
19
ہم چنین دان جملہ احوالِ جہان قحط و خصب و صلح و جنگ و اِفتنان
ترجمہ : اس طرح تمام احوالِ عالم کو سمجھ لو (کہ کہیں) قحط (ہے) اور (کہیں) ارزانی اور (کہیں) صلح (ہے) اور (کہیں) جنگ اور فتنہ انگیزی۔
20
این جہان با این دو پَر اندر ہوا ست زین دو جانْہا موطنِ خوف و رجا ست
ترجمہ: یہ جہان انہی (خفض و رفع کے) دو پروں سے (ہستی کی) ہوا میں (اڑ رہا)ہے۔ انہی دونوں (متضاد کیفیتوں) سے جانیں خوف و امید کا مقام (بن رہی) ہیں۔
21
تا جہان لرزان بود مانندِ برگدر شِمال و در سمُوم و بعث و مرگ
ترجمہ: تاکہ (سارا) عالم (خوف و رجا سے) پتے کی طرح شمالی ہوا اور گرم ہوا اور زندگی و موت میں تھرتھراتا رہے۔
مطلب: یہ احوال متضادہ اس لیے رکھے گئے ہیں تاکہ بندے کو ان مختلف حالتوں میں واقع ہونے کا احتمال رہے جس سے خوف و رجا کی دونوں کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں اور ان دونوں کیفیتوں میں پایا جانا حالتِ محمودہ ہے۔ بخلاف اس کے امید محض معاصی و جرائم پر جرأت دلانے والی اور خوف محض عبادات و طاعت سے معطل کر دینے والا ہے۔ ’’عَن اَنَسٍ قَالَ دَخَلَ النَّبِیُ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلٰى شَابٍّ وَّ ھُوَ فِيْ الْمَوْتِ قَالَ كَيْفَ تَجِدُکَ قَالَ اَرجُوْ اللهَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ وَ اِنّی اَخَافُ ذنُوبِى فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا یَجْتَمِعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ فِیْ مِثْلِ ھٰذَا لْمَوْطِنِ اِلَّا اَعْطَاہُ اللّٰہُ مَا یَرْجُوْا وَ اٰمَنَہٗ مِمَّا یَخَافُ‘‘
یعنی ”انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک جوان کے پاس تشریف لے گئے۔ بحالیکہ وہ نزع میں تھا۔ تو آپ نے پوچھا تجھے اپنی حالت کیسی نظر آتی ہے۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اللہ سے امید وار بھی ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا بھی ہوں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایسے وقت میں جب کسی بندے کے دل میں یہ دو باتیں جمع ہوں تو اللہ اس کی امید پوری کرتا ہے، اور جس بات سے وہ ڈرتا ہے اس سے امن بخشتا ہے‘‘۔ (مشکوة)
22
تا خُمِ یک رنگیِ عیسٰیِ مابشکند نرخِ خُمِ صد رنگ را
ترجمہ: (دنیا میں یہ خوف اور امید کی حالت اس لیے قائم رکھی گئی ہے) تاکہ ہمارے عیسٰی کی یک رنگی کا مٹکا صد رنگ مٹکے کے نرخ کو شکستہ (اور بے قدر) کر ڈالے۔
مطلب: عیسٰی سے مراد تشبیہاً محی حقیقی اور ’’خُمِ یک رنگی‘‘ سے مراد عالمِ غیب ہے کہ اس میں یہ اختلافِ احوال جو کہ موجب تشویش و کلفت ہو، نہیں ہے۔ بلکہ وہاں سراسر جمعیت و طمانیت ہی ہے۔ چنانچہ اس عالم کے ساتھ تعلق پیدا ہو جانے سے جب اس اختلاف کے انتفا سے اس کے فیوض و برکات نازل ہونے لگتے ہیں۔ تب اس جمعیت کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور اس اختلاف کے انتفا سے اس کو ’’خُم یک رنگ‘‘ کہہ دیا اور ’’خُمِ صد رنگ‘‘ سے مراد یہ عالم ہے جس کا اوپر سے ذکر چلا آرہا ہے۔ گو خمِ عیسٰی کا معجزہ اس کا عکس مشہور ہے کہ ایک خم میں سے مختلف الوان نکلتے تھے۔ ہاں اس کا یک رنگی سے کنایہ ہونا بایں معنی ہو سکتا ہے کہ سب رنگوں کا ایک معدن سے نکلنا یک رنگی ہے گو ظاہراً صد رنگی ہو (کلید ملخصًا)۔ آگے اس خم یک رنگی کی تقریر فرماتے ہیں:
23
کان جہان ہمچون نمکسار آمد ست ہر چہ آنجا رفت بے تلوین شد ست
ترجمہ: (اس عالم کو خُمِ یک رنگی کی مانند اس لیے کہا ہے) کہ وہ عالم نمکسار کے مانند ہے۔ (پس) جو چیز وہاں گئی وہ بے رنگ ہوگئی (ہر چیز کہ در کانِ نمک رفت نمک شد)۔
مطلب: عالمِ غیب کے ساتھ تعلق ہونے سے وہ صد رنگی جو تعلقاتِ دنیا کی وجہ سے مختلف پریشانیوں کی صورت میں لاحق حال ہو جاتی ہے۔ ﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ﴾ (الرعد: 28)۔ آگے اس عالم کی یک رنگی کی ایک مثال ارشاد ہے:
24
خاک را بین، خلق رنگارنگ رامے کند یک رنگ اندر گورہا
ترجمہ: خاک کو دیکھو جو رنگا رنگ مخلوق کو قبروں میں یک رنگ کر دیتی ہے۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
اگر سر فرازے بکیوان بر استدگر تنگدستے بزندان در است
چو خیل اجل بر سرِ ہر دو تاختنمے شاید از یکدگر شان شناخت
25
این نمک سارِ جُسومِ ظاہر ست خود نمک سارِ معانی دیگر ست
ترجمہ: یہ خاک تو اجسام ظاہری کی کانِ نمک ہے (اور) اشیائے باطنی کی (جن میں روح بھی داخل ہے) کانِ نمک اور ہے (یعنی عالمِ غیب)۔
26
این نمک سارِ معانی معنوی ست از ازل آن تا ابد اندر نوی ست
ترجمہ: (اور) وہ اشیائے باطنی کا نمکسار (خود بھی) باطن (و مستتر) ہے (اور اس کی یک رنگی یہاں تک ہے کہ) وہ ازل سے ابد تک تازگی میں (رہنے والا) ہے (کیونکہ تازگی کے بعد کہنگی کا طاری ہونا یک رنگی کے خلاف ہے۔ آگے اس تازگی کی علت بیان فرماتا ہے:)
27
این نوی را کہنگی ضدّش بودآن نوی بے ضد و بے ندّ و عدد
ترجمہ: اس تازگی (ظاہری) کی (جو عالمِ حسی کی صفت ہے) کہنگی (کا سبب) اس (عالمِ حسی کے (اجزا کی) ضد ہوتی ہے۔ (اور اس عالم کی) وہ تازگی بدون ضد اور بدوں مقابل اور بدون شمار (مدت) کے ہے۔
مطلب: عالمِ حسی کے اجزا پر بہ تدریج اور باتقضائے مدت ان کی ضد طاری ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ حتّٰی کہ وہ شے اس سے فنا ہو جاتی ہے۔ جیسے آبِ گرم کی گرمی بہ تدریج برودتِ ہوا سے فنا ہو جاتی ہے مگر عالمِ غیب کی نہ کوئی ضد ہے نہ مرورِ زمانہ کا اس پر اثر ہے۔ آگے اسی رنگ سازی کی ایک اور تشبیہ ہے کہ:
29
آن چناں کز صقلِ نور مصطفیٰؐ صد ہزاراں نوعِ ظلمت شد ضیا
ترجمہ: جیسے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نور کے صیقل سے لاکھوں قسم کی (کفری) تاریکیاں (ہدایت کی) روشنی بن گئیں۔
29
از جہود و مشرک و ترسا و مُغ مجملگی یک رنگ شد زان اَلپ و اُلُغ
ترجمہ: (چنانچہ) یہود اور مشرکین اور نصاریٰ اور مجوس میں سے (جس قدر لوگ اسلام لائے) سب کے سب اس دلیر و بزرگ کی بدولت (صبغۃ اللہ میں پڑ کر) یک رنگ ہو گئے۔
30
صد ہزاران سایہ کوتاه و درازشد یکے در نُورِ آن خورشیدِ راز
ترجمہ: لاکھوں (قسم کے کفر و شرک کے) چھوٹے بڑے سائے اس آفتابِ معنوی کی روشنی میں ایک ہو گئے۔
31
نے درازے ماند و نے کوتہ نہ پہنگونہ گونہ سایَہ در خورشید رہن
ترجمہ: (ان سایوں میں سے) نہ کوئی لمبا (باقی) رہ گیا، نہ چھوٹا، نہ چوڑا، طرح طرح کے ساۓ اس آفتابِ معنوی (کی روشنی) میں مغلوب ہو گئے۔
انتباہ: عالمِ غیب دو ہیں۔ ایک وہ عالمِ غیب جو اس وقت موجود اور غیوبت کے حجاب میں مستور ہے۔ اس عالم سے عارفین کے قلوب پر فیوض و برکات کا نزول ہوتا ہے۔ دوسرا عالمِ آخرت جو بالفعل موجود نہیں۔ اس کا وقت پھر آنے والا ہے۔ اور اس وقت وہ مستقبل کے پردے میں مستور ہونے کی وجہ سے عالمِ غیب کہلاتا ہے۔ موجودہ عالمِ غیب مستتر ہے اور یک رنگ ہے۔ مگر عالمِ آخرت مستتر نہ ہو گا بلکہ واقعاتِ محشر سب کی نظر میں ہوں گے۔ ہاں یک رنگ وہ عالم بھی ہو گا۔ عالمِ دنیا کی طرح وہاں رنگا رنگی نہ ہو گی کہ آج کوئی بد کار ہے کل کو نیکو کار بن جاتا ہے یا آج نیکو کار ہے کل کو زمرۂ اشرار میں شامل ہو جاتا ہے۔ بلکہ وہاں سب کا ایک ہی غیر متغیر رنگ ہو گا یا مقبول یا مردود۔ آگے مولانا عالمِ آخرت کو عالمِ غیب کے عام بیان سے مستثنٰی فرما کر ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
32
لیک یک رنگی کہ اندر محشر ستبر بد و بر نیک کشف و ظاہر ست
ترجمہ: (گو موجوده عالمِ غیب کی یکرنگی مستتر ہے۔) لیکن جو یک رنگی (دوہرے عالمِ غیب یعنی) محشر میں ہے وہ (ہر) بد و نیک پر نمایاں اور ظاہر (ہونے والی) ہے۔
33
کہ معانیِ آن جہان صُورت شود نقشہا مان در خورِ خصلت شود
ترجمہ: (اس کی وجہ یہ ہے) کہ معنوی امور اس عالم میں (کسی نہ کسی) صورت (نمایاں) ہو جائیں گے (یعنی) ہماری (ظاہری) شکلیں (اور صورتیں ہماری) خصلت کے مطابق ہوں گی۔ (جیسے احادیث میں نمایاں کے بارے آیا ہے کہ وضو کے اثر سے وہ روشن پیشانی اور روشن دست و پا ہوں گے۔)
34
گردد آنگہ فکرِ نقشِ نامہ ہااین بِطانہ روئے کارِ جامہ ہا
ترجمہ : اس وقت (باطنی) فکر خطوط کی تحریر بن جائے گا (جس کو سب پڑھ سکتے ہیں اور) یہ استر کپڑوں کا ابره (بن جائے گا جو نگاہوں کے سامنے ہو گا)۔
مطلب: ﴿يَومَ تُبْلَى السَّرَآئِرُ﴾ (الطارق: 9) ’’ان (لوگوں کے دلوں) کے بھید جانچے جائیں گئے‘‘ ﴿وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُورِ﴾ (العٰديٰت: 10) ’’اور (لوگوں کے) دلوں میں جو باتیں (مخفی) ہیں (وہ سب) ظاہر کر دی جائیں گی‘‘۔
35
این زمان سرِ ہا مثال گاو پیسںدُوکِ نُطق اندر ملل صد رنگ ریس
ترجمہ: اس وقت تو دنیا میں (اس قدر خلط ملط ہو رہا ہے کہ) پوشیدہ باتیں (سیاہی و سفیدی آمیختہ) ابلق بیل کی مانند (ہو رہی) ہیں۔ (کہ ان میں نیک و بد خیالات مخلوط ہیں۔ اور) گویائی کا تکلا (مختلف) مذاہب میں سو طرح کے رنگ کاتنے والا ہے۔ (یعنی مختلف مذاہب والے بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔)
36
نوبتِ صد رنگی ست و صد دلی عالمِ یک رنگ کَے گردد جلی
ترجمہ: اس وقت (تردد سے) صد رنگی اور (تذبذب سے) صد دلی کی نوبت ہے۔ (دیکھئے وہ) عالمِ یک رنگ (جس میں سب رنگ الگ پہچانے جائیں گے) کب ظاہر ہو گا؟
37
نوبتِ زنگی ست رُومی شد نہان این شب است و آفتاب اندر رہان
ترجمہ: اب تو (بد رنگ) زنگی کا دورہ ہے (خوشرنگ) رُومی چُھپ گیا۔ (گمراہی کی) رات کا وقت ہے، (حقیقتِ) آفتاب قيد (حجاب) میں ہے۔
38
نوبتِ گرگ ست و یوسف زیرِ چاهنوبتِ قبطی ست و فرعون ست شاه
ترجمہ: (اس وقت تو) بھیڑیے کی نوبت ہے اور یوسف کنویں میں ہیں۔ قبطی کی نوبت ہے اور فرعوں برسرِ حکومت ہے (یعنی اکثر باطل غالب اور حق مغلوب ہے)۔
39
تا ز رزقِ بیدریغ و خیره خند این سگان را حصہ باشد روز چند
ترجمہ: (اور یہ حالات اس لیے ہیں) تا کہ بیدریغ اور بے پروا رزق سے ان کتوں کو بھی چند روز حصہ مل جائے۔ (﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ﴾ (النسا: 77) ورنہ اگر اعمال کے حقائق کا یہیں ظہور ہو جاتا تو ان کتوں کو تمتُّع کا وقت کب ملتا۔)
40
در درُونِ بیشہ شیران منتظر تا شود اَمرِ تَعَالَوْا منتشر
ترجمہ: جنگل کے اندر شیر منتظر (بیٹھے) رہیں تاکہ (حق تعالیٰ کی طرف سے) چلے آؤ کا حکم نَافذ ہو جائے ﴿لَیَجْمَعَنَّـکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْـہِ﴾ (الانعام: 87)
41
پس برون آیند آن شیران ز مَرجبے حجابے حق نماید دخل و خرج
ترجمہ: پس (اس وقت) شیر چراگاہ سے باہر آئیں گے۔ (اور) حق تعالیٰ بلا حجاب (ہر چیز کا) دخل و خرج ظاہر کر دے گا۔ (﴿وَ نَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾ (الانبياء: 47))
42
جوہرِ انسان بگیرد برّ و بحر پیسہ گاوان بِسملانِ روزِ نحر
ترجمہ: (اور اس وقت) جوہرِ انسان (یعنی انسان کامل) بر و بحر پر قبضہ کر لے گا (یعنی وہ سلطانِ وقت ہو گا اور حق و باطل کو مختلط کرنے والے) ابلق بیل روزِ قربانی ذبائح ہوں گے۔ (﴿وَ ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ (السجده: 14))
43
روزِ نحرِ رُستخیزِ سہمناک مومنان را عید و گاوان را ہلاک
ترجمہ: پس قیامت کا ہولناک روزِ نحر اہلِ ایمان کی عید ہے اور بیلوں کی ہلاکت ہے۔ (﴿وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ وَّ وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ تَظُنُّ اَنْ يُّفْعَلَ بِـهَا فَاقِرَةٌ﴾ (القيمة: 22-25))
44
جملہ مُرغانِ آب آن روز نَحْرہمچو کشتیہا روان بر روئے بَحْر
ترجمہ: (اور) تمام (نجات پانے والے لوگ جو طمانیت کی رفتار میں گویا) آبی پرندے ہوں گے اس روزِ نحر میں سطح سمندر پر کشتیوں کی طرح روان ہوں گے۔ (یعنی پل صراط پر آسانی سے گزر جائیں گے۔)
45
تا کہ یَھْلِكُ مَن هَلَكَ عَن بَيِّنَهْ تا کہ یَنجُوا مَن نَجَا وَاستَیْقَنَهْ
ترجمہ: یہ کشف سراسر پوری طرح اس لیے ہو گا تاکہ جو کوئی ہلاک ہو بعد دلیل کے ہلاک ہو۔ (اور) تاکہ جو کوئی نجات پائے وہ نجات پائے۔ بحالیکہ وہ اس روز کا یقین رکھتا ہو۔
مطلب: یعنی نجات اور ہلاک ایسی دلیلِ واضح سے ہو جس میں خود صاحب معاملہ کوبھی شک نہ رہے اور یہ اسرار کے کشف تام کے بدون نہیں ہو سکتا۔ اس شعر میں اس آیت کے کلمات مقتبس ہیں ﴿لِّيَـهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰى مَنْ حَىَّ عَنْ بَيِّنَةٍ﴾ ۗ(الانفال: 42) ”تاکہ جو شخص ہلاک ہونے والا ہے۔ وہ حجت تمام ہوئے پیچھے ہلاک ہو اور جو زنده رہنے والا ہے وہ بھی حجت تمام ہوئے پیچھے زندہ رہے۔‘‘ یہ آیت قیامت کے بارے میں نہیں بلکہ جنگِ بدر کے متعلق ہے۔ پس یہاں آیت کی تفسیر نہیں بلکہ تشبیہ مقصود ہے۔
46
تا کہ بازان جانبِ سُلطان روندتا کہ زاغان سوئے گورستان روند
ترجمہ: (اور کشفِ اسرار پوری طرح اس لیے ہو گا) تاکہ (نجات کا وقر و اعزاز پانے والے) باز سلطان (حقیقی) کی بارگاہ میں باریاب ہوں (اور) تاکہ (عذاب کی ذلت و خواری پانے والے) کوّے (عقوبات کے) گورستان کو سدھاریں۔
47
کاستخون و اجزائے سُرگین ہمچون نان نُقلِ زاغان آمد ست اندر جہان
ترجمہ: کیونکہ دنیا میں ہڈیاں اور گوہر کے اجزا کووّں کی (ایسی) غذا ہیں۔ جیسے (انسان کی غذا) روٹی (اس لیے وہ قبرستان کی طرف جایا کرتے ہیں)
انتیاه: ’’گورستان‘‘ سے مراد ان اقوام کا گورستان ہے جو اپنے مُردوں کو ایسے گڑھوں میں گاڑ دیتے ہیں جو زیادہ گہرے نہیں ہوتے۔ حتّٰی کہ کتے وغیرہ مردار خوار جانور ان لاشوں کو نکال لیتے ہیں اور ان پر کوے بھی جمع ہوجاتے ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان کی یہ کیفیت نہیں ہوتی وہاں پر قبر کا گہرا دہانہ اور پھر اس کے اندر میت کے لیے لحد کا مضبوط و مسدود ٹھکانا، ان امکانات سے بری ہے۔ اس لیے وہاں کووّں کی بھی آمد و رفت نہیں ہوتی۔ ’’سُرگین‘‘ کے ذکر سے یہ مقصود ہے کہ کوا گندگی خوار جانور ہے اس لیے گندی سڑی لاش بھی اس کی غذا ہے اور ورنہ قبرستان میں گوبر لید کا کوئی کام نہیں۔ آگے اسی مضمون کا تتّمہ ہے:
48
قندِ حکمت از کجا زاغ از کجا کِرم سرگین از کجا باغ از کُجا
ترجمہ: کہاں قندِ حکمت اور کہاں کوا؟ کہاں گوبر کا کیڑا اور کہاں باغ؟ (کہ ان میں کچھ بھی تناسب نہیں۔)
49
نیست لائق غَزْوِ نفس و مردِ غر نیست لائق عُود و مُشک و کُونِ خر
ترجمہ: جہادِ نفس اور مرد کم ہمت کا جوڑ نہیں، عُود و مُشک اور کُونِ خر میں مناسبت نہیں۔ (جہاد بکفار کو جہادِ اصغر اور جہادِ نفس کو جہاد اکبر کہتے ہیں۔ اس لیے فرماتے ہیں:)
50
چون غزا ندہد زنان را ہیچ دستکے دہد آنکہ جہادِ اکبر است
ترجمہ: جب زنانوں کو جہاد (اصغر کا شرف) حاصل نہیں ہو سکتا تو وہ (جہاد) کب حاصل ہو جو جہادِ اکبر ہے۔ (یعنی جہادِ نفس)
51
جز بنادر در تنِ زن رستمے گشتہ باشد خفیہ ہمچون مریمؑے
ترجمہ: سوائے اس کے کہ (شاذو) نادر عورت کے قالب میں کوئی رستم (دل) مخفی ہو گیا ہو۔ اس کی مثال حضرت مریم علیہا السلام ہیں۔ (نہ ہر زن زن ست و نہ مرد مرد)
مطلب: حضرت ابو موسٰی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ۔ ’’كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيْرٌ وَ لَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ اِلَّا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ و آسِيَةُ اِمْرَأَةُ فِرْعَوْنَ و فَضْلُ عَائِشَةَ علَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ علٰى سَائِرِ الطَّعَامِ‘‘ یعنی ”مردوں میں سے تو بہت کامل ہوئے ہیں عورتوں میں سے صرف مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کامل ہوئی ہیں۔ اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت باقی تمام کھانوں پر“ (متفق علیہ۔ مشکوٰة)
52
آنچنانکہ در تنِ مردان زنان خفیہ اند و مانده از ضعفِ جنان
ترجمہ: جس طرح کہ مردوں کے قالب میں عورتیں مخفی ہیں اور (وہ مرد) ضعفِ قلب کے باعث (جہاد سے) محروم رہ گئے۔
مطلب: دنیا میں جہاں مرادوں، نیتوں اور خیالوں میں اختلاط ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی زکورت اور انوثت بھی مختلط ہے۔ کوئی صورت کا مرد دل سے عورت ہے، کوئی صورت کی عورت دل سے مرد ہے۔ قیامت کے روز یہ اختلاط بھی مرتفع ہو جائے گا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
53
آن جہان صورت شود در مادگی ہر کہ در مردی ندید آمادگی
ترجمہ: اس عالم میں وہ شخص جس نے (دنیا کے اندر) مردانگی میں (اپنی) آمادگی نہ دیکھی ہو گی زنانہ صورت میں (ظاہر) ہو گا۔ (یہ مطلب نہیں کہ وہ بالکل ہی عورت بن جائے گا۔ بلکہ مدعا یہ ہے کہ اس کا یہ وصف نمایاں اور غیر مستور ہو جائے گا۔)
54
روزِ عدل و عدل و داد اندر خور استکفش زانِ پا، کُلاہ آن سر است
ترجمہ: (غرض وہ) عدل کا دن (ہو گا) اور عدل اور عطا (سے موافقِ عمل دونوں) مناسب ہیں (اور وہ عدل یہ ہے کہ) کفش پاؤں کا حق ہے(اور) ٹوپی سرکا حق۔
55
تا بمطلب در رسد ہر طالبے تا بغربِ خود روَد ہر غاربے
ترجمہ: تاکہ ہر طالب اپنے مطلب کو پہنچ جاوے (اور) تاکہ ہر غروب ہونے والا اپنی جائے غروب کی طرف چلا جائے۔
56
نیست ہر مطلوب از طالب دریغ جفتِ تابش شمس و جفتِ آب میغ
ترجمہ: (ہاں) کسی مطلوب میں طالب سے بخل نہیں (چنانچہ) تپش کا رفیق سورج ہے، پانی کا رفیق بادل کما قیل ؎
قسمت کیا ہر چیز کو قسّام ازل نےجو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا
انتباه: حق تعالیٰ کی شان عدل کا زیادہ ظہور تو قیامت ہی میں ہو گا۔ جہاں سرائر و ضمائر بالکل مکشوف ہو جائیں گے اور ہر مخلوق اپنے نتیجہ اور غایت کو پہنچ جائے گی۔ جس کا یہاں تک بیان چلا آیا ہے۔ مگر دنیا میں یعنی اس کے عدل کا ظہور ہوتا ہے جو قدرے تامل کے بعد صاف معلوم ہو جاتا ہے۔ آگے اس کا بیان ہے:
57
ہست دنیا قہرخانۂ کردگار قہر بین چون قہر کردی اختیار
ترجمہ: دنیا (بھی کسی نہ کسی حد تک) حق تعالیٰ کے قہر (کے ظہور) کی جگہ ہے۔ جب تو نے قہر و ظلم اختیار کیا تو (اس کی پاداش میں) قہر ہی دیکھنا۔
مطلب: گو دنیا میں حق تعالیٰ کی رحمت کا پلّہ بمقابلہ قہر کے راجح ہے۔ حتٰی کہ کفار پر بھی یہاں رحمت کی اقسام ہیں۔ تاہم بعض اوقات ظالموں پر ان کے ظلم کی پاداش میں یہاں بھی قہر نازل ہو جاتا ہے۔ باطناً تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ احياناً ظاہراً بھی ہوتا ہے۔ آگے ان امتوں کا ذکر فرماتے ہیں جو اپنی بد اعمالیوں کی پاداش میں حق تعالیٰ کے قہر سے ہلاک ہو چکی ہیں۔
58
استخوان و موئے مقہوران نِگر تیغِ قہر افگنده اندر بحر و بر
ترجمہ: موردِ قہر ہونے والوں کی ہڈیاں اور بال دیکھ لو (جو ان کی تباہی کی یادگار ہیں۔) تیغِ قہر نے ان کو بحر و بر کے اندر بکھیر ڈالا ہے۔
59
پرّ و بالِ مرغ بین بر گردِ دامشرح قہرِ حق کننده بے کلام
ترجمہ: مرغ کے بال و پر جال کے گرد (بکھرے ہوئے) دیکھ لو جو کلام (لفظی کے) بغیر (بزبانِ حال) قہرِ حق کی شرح کر رہے ہیں۔
60
مُرد اُو بر جاش خر پشتہ نشاند وانکہ کہنہ گشت پشتہ ہم نماند
ترجمہ: وہ (مقہور) تو مر گیا (اور) اپنی جگہ مٹی کا بڑا سا ڈھیر چھوڑ گیا (جو اس کی قبر ہے) اور جس (مقہور) پر بہت زمانہ گذر گیا (اس کا) مٹی کا ڈھیر بھی نہ رہا (یعنی قبر بھی مٹ گئی)۔
61
ہر کسے را جفت کرده عدلِ حق پیل را پیل و بق را جنسِ بق
ترجمہ: عدلِ حق نے ہر شخص کو (اس کے کسی ہم نسبت کے ساتھ) قرین کر رکھا ہے۔ (چنانچہ) ہاتھی کو ہاتھی کے ساتھ (اور) مچھر کو مچھر کی جنس کے ساتھ۔
62
مونسِ احمد بمجلس چار یار مونسِ بوجہل عتبہ و ذوالخمار
ترجمہ: حضرت احمد ﷺ کے رفيقِ مجلس میں چار یار (پاک) ہیں اور ابوجہل کے ساتھی عتبہ اور ذوالخمار ہیں۔
63
کعبۂ جبریلؑ و جان ہا سِدْرۂقِبلۂ عبدالبُطُون شد سفرۂ
ترجمہ: حضرت جبرائیل علیہ السلام اور دیگر روحانیات کا کعبہ سدرہ ہے (اور) بندہ شکم کا قبلہ خوان ہے۔
64
قبلۂ عارف بود نورِ وصالقبلۂ عقلِ مفلسِف شد خیال
ترجمہ: عارف کا قبلہ نورِ وصال ہوتا ہے، فلسفی کی عقل کا قبلہ خیال (ہی) ہوتا ہے۔
65
قبلۂ زاہد بود یزدانِ برّقبلۂ طامع بود ہمیانِ زر
ترجمہ: زاہد (و عابد) کا قبلہ خداوندِ محسن ہے (حریص و) طامع کا قبلہ سونے کی ہمیانی ہے۔
66
قبلۂ مردانِ حق اعمالِ نیک قبلۂ نااہل جہلِ مُرده ریگ
ترجمہ: مردانِ حق کا قبلہ نیک اعمال ہیں۔ نالائق کا قبلۂ جہل ذلیل ہے۔
67
قبلۂ معنی وران صبر و درنگقبلۂ صورت پرستان نقشِ سنگ
ترجمہ: اہل معنٰی کا قبلہ صبر اور سکون ہے (جو صابرانہ مراقبات میں انوارِ غیب کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے) ظاہر پرستوں کا قبلہ پتھر کی مورتی ہے۔ (جو اپنے معبود کو بنظرِ ظاہر دیکھنے کے لیے اسے اپنے ہاتھوں سے بنا لیتے ہیں۔)
68
قبلۂ باطن نشینان ذُوالمنن قبلۂ ظاہر پرستان رُوئے زن
ترجمہ: خلوت میں بیٹھنے (اور ذکر و شغل کرنے) والوں کا قبلہ (خداوند) صاحبِ احسانات ہے۔ (اور حسنِ) ظاہر پر مرنے والوں کا قبلہ عورت کا چہرہ ہے۔
69
قبلۂ عاشق حق آمد اے پسرقبلۂ باطل بلیس ست اے پدر
ترجمہ: اے عزیز! عاشق (حقیقی) کا قبلہ حق ہے۔ (اور) اے بزرگوار! اہل باطل کا قبلہ ابلیسِ لعین ہے۔
70
قبلۂ فرعون دُنيا سر بسر قبلۂ خربنده چہ بُوَد کُونِ خر
ترجمہ: فرعون کا قبلہ سراسر دُنیا ہے۔ (اور کیوں نہ ہو) گدھے کے خادم کا قبلہ کیا ہوتا ہے؟ گدھے کی مقعد۔(خربندہ گدھے کے مالک کو کہتے ہیں، جو اس کا خادم ہے۔ غیاث)
71
ہمچنین بر می شمر تازه و کہن ور ملُولی رَو تو کارِ خویش کُن
ترجمہ: اس طرح ہر تازہ و کہنہ (مخلوق) کو گنتے جاؤ (کہ سب میں اسی طرح تناسب نظر آئے گا اور اگر تم (اس قسم کی مثالوں کو شمار کرنے اور سمجھنے سے) ملول ہو تو جاؤ اپنا کام کرو۔ (ہمیں بھی سمجھانے کی کچھ ضرورت نہیں۔)
72
رزق ما در کاسِ زرین شد عقاروان سگان را آبِ تتماج و تغار
ترجمہ: ہم (عارف) لوگوں کا رزق پیالۂ زریں میں شراب (طہور) ہے (یعنی اس قسم کے معارف جو مذکور ہو رہے ہیں) اور اُن (دنیوی) کتوں کے لیے آش کا پانی ہے، اور تغاری۔ (آگے بمقولۂ حق ارشاد ہے گویا خود خداوند تعالیٰ فرماتا ہے:)
73
لائق آنکہ بُد اُو خود داده ایم درخورِ آن رزق بفرستاده ایم
ترجمہ: وہ جس (چیز) کے لائق تھا، ہم نے خود اس کو وہی چیز دے دی (اور) اس (دوسرے) کے لائق رزق (اس کو) بھیج دیا۔
74
عاشقِ نان ساختیم آن خواجہ راسیر از جال ساختیم این را چرا
ترجمہ: اس ایک معزز آدمی کو ہم نے روٹی کا عاشق بنا دیا (اور) اس دوسرے کو ہم نے جان سے (بھی) سیر کر دیا (یہ) کیوں؟ (سنو:)
75
خوئے آن را عاشقِ نان کرده ایمجانِ این را مستِ جانان کرده ایم
ترجمہ: اس لیے کہ اس (ایک) کی سرشت کو روٹی کا دلدادہ بنا دیا ہے۔ اس (دوسرے) کی جان کو محبوب (حقیقی) کا عاشق کر دیا ہے۔
76
چون بخوے خود خوشی و خرّمی پس چرا از خوردِ خویت می رمی
ترجمہ: جب تم اپنی عادت پر خوش و خرم ہو، تو کس لیے اپنی عادت کی مناسب (چیز) سے بھاگتے ہو؟
77
مادگی خوش آیدت چادر بگیر رستمی خوش آیدت خنجر بگیر
ترجمہ: (اگر) تم کو مؤنث ہونا پسند ہے، تو (زنانہ) چادر پہن لو (اور اگر) رستم ہونا پسند ہے، تو خنجر پکڑ لو (اور آمادۂ جنگ ہو جاؤ)۔
78
غازیی خوش آیدت جوشن بپوش ور بحیزی مائلی رو کُون فروش
ترجمہ: (اگر) تم کو غازی ہونا پسند ہے تو جوشن پہن لو اور اگر تم مخنَّث پن کی طرف مائل ہو تو جاؤ برا کام کرایا کرو۔ (جو مخنّثوں کا پیشہ ہے۔)
79
این سخن پایان ندارد آن فقیرگشتہ است از زخمِ درویشی عقیر
ترجمہ: یہ بحث تو انتہا نہیں رکھتی (ادھر) وہ فقیر محتاجی کے زخم سے زخمی ہو رہا ہے۔ (اس کی بھی خبر گیری کرو۔)