دفتر 6 حکایت 15: پہره دار کا شور و واویلا کرنا بعد اس کے کہ چور قافلہ والوں کے اسباب اڑ الے گئے



ہائے ہوئے کَردنِ پاسبان بَعد از بُردنِ دزد اسبابِ کاروان را

پہره دار کا شور و واویلا کرنا بعد اس کے کہ چور قافلہ والوں کے اسباب اڑ الے گئے

1

پاسبانے بود در یک کاروان حارسِ مال و قماشِ آن مَہان

ترجمہ: کسی قافلے میں ایک پہرہ دار تھا (جو) ان سرداروں کے مال و اسباب کا نگہبان (تھا جو اس قافلے میں تھے)۔

2

پاسبان شب خفت و دُزد اسباب بُرد رخت ہا را زیرِ ھر خاکے فشرد

ترجمه: پہره دار رات کو سو گیا اور چور اسباب لے گیا (اور) سارا سامان مٹی کے نیچے دبا دیا۔

3

رُوز شد بیدار گشت آن کاروان دید رفتہ اسپ و سیم و اشتران

ترجمہ: دن چڑھا اور وہ قافلے دار بیدار ہوئے تو (اپنے سب) گھوڑے نقد مال اور اونٹ گم پائے۔

4

پاسبان در ہَے ہَے و چوبک زدن گرم گشتہ خود ہم او بُد راہزن

ترجمه: (اب) پاسبان (بھی) ہائے ہائے کرنے اور چوب لگانے میں سرگرم ہوا (حالانکہ) خود وہی راہزن تھا (جس کی غفلت نے رہزنوں کو یہ موقع دیا)۔

5

پس بدو گفتند کاَے حارس بگو تا چہ شد این رخت و این اسباب کو

ترجمہ: پس قافلہ والوں نے اس سے کہا اے پہرہ دار! بتا تو یہ سامان کیا ہوا؟ اور یہ اسباب کہاں گیا؟ (اب پہرہ دار اپنی غفلت اور نیند کے قصور کو چھپانے کے لئے جھوٹے بہانے تراشتا ہے)۔

6

گُفت دزدان آمدند اندر نقاب رختہا بُردند از پیشم شتاب

ترجمہ: وہ بولا چور نقاب پہنے ہوئے آئے اور میرے سامنے جلدی جلدی اسباب لے گئے۔

7

قوم گفتندش کہ اے چون تَلِّ ریگ پس چہ میکردی؟ چہ؟ اے مردہ ریگ!

ترجمہ: لوگوں نے اس سے کہا کہ اے بے حس آدمی ! پھر تو کیا کر رہا تھا؟ تو کس کام کا ہے؟ اے فرو مایہ!

8

گفت من یک کس بُدم ایشان گروه با سلاح و با شجاعت با شکوه

ترجمہ: وہ بولا میں اکیلا تھا وہ گروہ (کا گروہ تھے ، سب) مسلح و بہادر اور پر ہیبت ( تھے)۔

9

گفت اگر در جنگ کم بودت اُمید نعره بایستے زدن کہ برجہید

ترجمہ: کہا اگر تجھ کو (ان کے ساتھ ) لڑنے میں (غالب آنے کی) امید نہ تھی تو چیخ ہی مار دی ہوتی کہ (لوگو) اٹھ کھڑے ہو۔

10

گفت آن دم کارد بنمودند و تیغ کہ خَمُش ورنہ کُشیمت بے دریغ

ترجمہ: وہ بولا، اس وقت انہوں نے مجھے چھری اور تلوار دکھائی کہ چپ ره ورنہ ہم تجھ کو بے دریغ قتل کرڈالیں گے۔

11

آن زمان از ترس من بستم دہان این زمان فریاد و ہیہائے و فغان

ترجمہ: (اس لئے) اس وقت تو میں نے خوف کے مارے منہ بند رکھا۔ اب ہائے ہائے اور شور (مچا رہوں)۔

12

آن زمان بستہ دمم کہ دم زنم این زمان چندان کہ خواہی می کنم

ترجمہ: اس وقت تو میرا سانس (تک) رک گیا (مجھے اتنی تاب نہ تھی) کہ اف (بھی کرتا، فریاد تو کہاں کرسکتا تھا ہاں) اب جتنا چاہو (شور و غوغا) کئے جاتا ہوں۔

مطلب: تمثیلی کہانی ختم ہوئی جس کا مدعا یہ تھا کہ جس طرح اس پاسبان کا یہ نالہ بے ہنگام، بے سود تھا اسی طرح تمہاری توبۂ بے ہنگام لاحاصل ہے۔ چنانچہ آگے فرماتے ہیں:

13

چونکہ عمرت برد دیوِ فاضحہ بے نمک باشد اعوذ و فاتحہ

ترجمہ: جب رسوا کننده شیطان تیری عمر کو برباد کر چکا اور موت سر پر آ پہنچی تو (اس وقت) اعوذ و فاتحہ کا پڑھنا بے مزہ ہے۔

مطلب: شیطان کے عمر کو برباد کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس نے تجھے معاصی وسیئات میں ڈال دیا اور اس حالت میں عمر برباد ہو گئی پس برد کی اسناد شیطان کی طرف مجازی ہے۔ اعوذ اور فاتحہ کنایہ ہے توبہ سے کیونکہ فاتحہ میں حق تعالیٰ کی حمد اور اعوذ میں شیطان کی مذمت ہے اور توبہ کا مضمون ان دونوں باتوں کو متضمن ہوتا ہے، اس لئے کہ معصیت سے نفرت ظاہر کرنا سبب معصیت یعنی شیطان کی ذم کومستلزم ہے اور حق تعالیٰ سے مغفرت مانگنا اس کی حمد و ثنا کو مستلزم ہے اور یہی توبہ کا مضمون ہے۔

14

گرچہ باشد بے نمک اکنون چنین ہست غفلت بے نمک تر زان یقین

ترجمہ: اگر چہ اب ( قربِ موت میں) رونا (اور توبہ کرنا) بے مزہ ہے لیکن (نالہ و توبہ سے اب بھی) غفلت (روا رکھنا ) يقيناً ان سے زیادہ بے مزہ ہے۔

مطلب: یہ مضمونِ سابق سے استدارک ہے یعنی گو قربِ موت میں توبہ اصولاً لاحاصل ہے مگر پھر بھی توبہ نہ کرنے سے کرنی ہی اچھی ہے، کیونکہ ایک تو توبہ نہ کرنا سرکشی کی دلیل ہے اور اس وقت سرکشی کے بجائے بہرحال نیاز مندی اچھی ہے مومن عاصی کا مرتے وقت توبہ کرنا گو اصولاً بے موقع ہے مگر احیاناً مفید ہو جاتا ہے۔ دوسرے کبھی تو یہ ایسی حالت میں مقبول بھی ہو جاتی ہے اور یہ آیت ﴿وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ۔۔۔﴾ (النسا: 18) (مذکورہ سابق) کے منافی نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں جو بحقِ عاصی غیر کافر فرمایا ہے کہ اس کی توبہ حضورِ موت کے وقت مقبول نہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی توبہ مقبول فرمانے کا وعدہ نہیں اور ویسے بلا وعده اگر مشیت سے فضل ہو جائے تو کوئی امر مانع نہیں اور کافری میں اس کا اس لئے احتمال نہیں کہ وہاں مانع قائم ہے، یعنی نصوص قطعیہ اس امر پر شاہد ہیں کہ کافر کسی صورت میں محل مغفرت نہیں اور دوسری نصوص سے ثابت ہے کہ مومن کے لئے محض فضل بھی موجبِ مغفرت ہو جاتا ہے اگرچہ عدل اس کی مغفرت کا متقاضی نہ ہو۔ (کلید)

15

ہمچنان بے نمک مے نال نیز کہ ذلیلان را نظر کن اَے عزیز

ترجمہ: (پس) اسی طرح بے مزه گریہ بھی کرتے رہو کہ اے (خداوندِ) غالب! ہم ذلیل لوگوں پر (رحم و کرم کی) نظر فرما۔

16

قادری بے گاه چہ بُوَد یا بگاه از تو چیزے فوت کے شد اے الٰہ!

ترجمه: (کیونکہ) تو (ہر بات پر) قادر ہے بے وقت کیا، اور بر وقت کیا۔ اے خداوندِ کریم! تیرے قبضے سے کوئی چیز کب نکلتی ہے۔

17

گفت لَا تَاْسَوْا عَلىٰ مَافَاتکُم کے شود از قدرتش مطلوب گم

ترجمہ: (اسی لئے تو) حق تعالیٰ نے فرمایا کہ جو چیز تم سے فوت ہو جائے اس پر افسوس نہ کرو (یہ نہیں کہا کہ ہم سے گم ہو جائے پس) کوئی مطلوب اس کی قدرت سے کب فوت ہوسکتا ہے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ کی قدرت کے وسیع ہونے پر ہے یہ ایک لطیف اور اچھوتا استدلال ہے پوری آیت یہ ہے ﴿مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِى الْاَرْضِ وَلَا فِىٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِىْ كِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْـرَاَهَا ۚ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيْـرٌ لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتَاكُمْ ۗ وَاللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ﴾ (لوگو)جتنی مصیبتیں (روئے) زمین پر نازل ہوتی ہیں اور جو (خود) تم پر نازل ہوئی ہیں (وہ سب) ان کے پیدا کرنے سے پہلے ہم نے کتاب (لوحِ محفوظ) میں لکھ رکھی ہیں اور بے شک یہ اللّٰہ کے نزدیک (ایک) سہل (سی بات) ہے (اور یہ ہم نے تم کو) اس لئے جتا دیا ہے کہ کوئی چیز تم سے جاتی رہے تو اس کا رنج نہ کرو اور کوئی نعمت خدا تم کو عطا کرے تو اس پر اتراؤ مت اور اللہ کسی اترانے والے، شیخی باز کو پسند نہیں کرتا“۔ (الحدید: 22-23) اس آیت کا مفاد تو یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بندوں کو اپنی تقدیر سے اس لئے مطلع کر دیا کہ وہ فوت مغلوب پر غمگین اور حصولِ مقصد پر مفتخر نہ ہوں بلکہ تمام حالات کو وابستہ تقدیر سمجھیں۔ عمر خیام غفرلہُ

گر کارِ تو نیک ست بہ تدبیرِ تو نیست ور نیز بَدست ہم بہ تقصیرِ تو نیست تسلیم و رضا پیشہ کن شاد بزی لیکن نیک و بد جہان بتقدیر تو نیست

اور مولانا کی وجہِ استدلال اس آیت سے یہ ہے کہ دیکھو حق تعالیٰ نے فوت مطلوب کو بندوں کے ساتھ منسوب کیا ہے، یعنی وه چیز بندوں کے قابو سے نکلی ہے خداوند تعالیٰ کے قابو سے نہیں نکلی تو معلوم ہوا کہ وہ اب بھی خداوند تعالیٰ کے قبضہ میں ہے۔ آگے پھر قصہ چلتا ہے: