دفتر 6 حکایت 67: ایک عارف کا کسی قسّیس (پادری سے پوچھنا) کہ بلحاظ عمر تو بڑا ہے یا تیری ڈاڑھی

دفتر ششم: حکایت: 67



پرسیدنِ عارفے از کشیش کہ تو بسال بزرگتری یا ریشِ تو

ایک عارف کا کسی قسّیس (پادری سے پوچھنا) کہ بلحاظ عمر تو بڑا ہے یا تیری ڈاڑھی


عارفے پُرسید زان پیرِ کشیش کہ توئی خواجہ مُسِن تر یا کہ ریش

ترجمہ: ایک عارف نے کسی بڈھے پادری نے پوچھا کہ صاحب تم زیادہ عمر رسیدہ ہو یا (تمہاری) ڈاڑھی؟ 

2

گفت نے من پیش ازو زائیده ام بس بہ بے ریشی جہان را دیده ام

ترجمہ: (پادری بھی زرا گاؤدی تھا جو نہجِ سوال کو نہ سمجھا اور) بولا نہیں میں اس سے پہلے پیدا ہوا ہوں۔ بہت دنوں ڈاڑھی نہ ہونے کی حالت میں، میں نے جہان کو دیکھا ہے (پھر اس کے بعد ڈاڑھی نکلی ہے)۔ 


3

گفت ریشت شد سفید از حال گشت خوۓ زشتِ تو نگردید ست وَشت

 ترجمہ: (عارف نے) کہا تیری ڈاڑھی سفید ہو گئی (پہلی) حالت سے بدل گئی (مگر) تیری بری خصلت درست نہ ہوئی۔ (حالانکہ تجھ کو اپنی اصلاح کے لیے ڈاڑھی سے زیادہ وقت ملا ہے۔)

4

او پس از تو زاد و از تو بگذرید تو چنین خشکی ز سَودائے ثَرید

 ترجمہ: وہ تجھ سے پیچھے پیدا ہوئی اور تجھ سے سبقت لے گئی (اور) تو طعامِ مرغوب کی دھن میں وہی کورے کا کورا ہے۔ 

5

 تو بران رنگی کہ اوّل زادۂ یک قدم زان پیشتر ننہادۂ

ترجمہ: تو (اب تک) اسی حالت پر ہے (جس پر) کہ پہلے پیدا ہوا تھا اس (حالت) سے ایک قدم آگے نہیں بڑھایا۔ 

6

دوغ ترشی ہمچنان در معدنے خود نگردی زو مخلِّص روغنے

ترجمہ: تو (وہ) کھٹی چھاچھ ہے (جو) اسی طرح برتن میں پڑی ہے۔ تو اُس (چھاچھ) سے الگ ہو کر گھی نہیں بنا۔ 

7

ہم خمیری خُمَّ رَالطِّيْنَه دری گرچہ عمرے در تنورِ آذری

ترجمہ: نیز تو خمیر ہے (یعنی ایسا بے جوہر و بے کمال ہے کہ گویا ابھی اپنے) آب و گِل کے خمیر کیے جانے کی حالت میں ہے. اگرچہ ایک عمرِ طویل سے آگ کے تنور میں (پک رہا) ہے۔ 

مطلب: آذر یا آتش سے مراد وہ واقعاتِ آفاقیہ و انفسیہ ہیں جن کے مشاہدہ سے انسان کے علم وعمل میں پختگی پیدا ہو سکتی ہے۔(کلید) 

8

چون حشیشی پا بگِل بر ہِشتۂ گرچہ از بادِ ہوس سرگشتۂ

ترجمہ: تو گھاس کی مانند ہے کہ مٹی کے اندر قدم جما رکھا ہے۔ اگرچہ ہوس کی ہوا سے سرگردان ہے۔ 

مطلب: گھاس کے اوپر کے حصے کو ہوا حرکت دیتی ہے۔ مگر اس کی جڑ مٹی کے اندر غیر متحرک رہتی ہے، اسی طرح تیرا وجودِ ظاہری بتقاضائے ہوس مستعد کار ہے۔ مگر تیرا باطن طلب حق میں متحرک نہیں ہوتا۔ 

9

 ہمچو قومِ موسیٰؑ اندر حَرِّ تِیہ ماندۂ چل سال بر جا اے سفیہ

ترجمہ: اے کمینے! (تیری مثال) حضرت موسٰی علیہ السلام کی قوم کی مانند (ہے جو چالیس سال تک وادیِ) تیہ کی گرمی میں (سرگرداں رہی اسی طرح) تو (بھی) چالیس سال سے ایک ہی جگہ پر قائم ہے۔ 

10

می روی ہر روز تا شب ہَرولہ خویش می بینی در اوّل مرحلہ

ترجمہ: تو ہر روز شب تک دوڑ کر چلتا ہے (مگر پھر) اپنے آپ کو پہلی منزل میں دیکھتا ہے۔ 

مطلب: قومِ موسیٰ علیہ السلام کا یہی حال تھا کہ وہ لوگ وادیِ تیہ سے نکلنے کے لیے سارا دن چلتے۔ تھک کر رات کو سو جاتے پھر صبح کو اٹھتے تو اپنے آپ کو اس مقام پر پاتے جہاں سے چلے تھے۔ اسی طرح تو اپنے نزدیک تو مقصود میں بڑی ترقی کرتا ہے۔ لیکن واقع میں تو رو بمقصود نہیں ہوتا۔ بلکہ مقصود کی طرف تو ایک قدم بھی نہیں بڑھا۔

11

 نگذری زین بُعدِ سِہ صد سالہ تو تا کہ داری عشقِ آن گوسالہ تو

ترجمہ: تو اس تین سو برس بھر کی دُوری سے پار نہ ہو سکے گا۔ جب تک کہ تو (قومِ موسیٰ علیہ السلام کے سے) اس بچھڑے کا عشق رکھتا ہے۔ (جس سے مراد غیر اللہ ہے)۔ 

12

 تا خیالِ عجل شان از جان نرفت بُد بر ایشاں تَیہ چون گرداب زفت

ترجمہ: (دیکھو) جب تک (گوسالہ) سامری کا خیال ان لوگوں کے دل سے نہیں گیا تھا۔ (اس وقت تک وادیِ) تیہ ان کے لیے ایک سخت بھنور کی مانند (مصیبت خیز) رہی۔ 

13

 غیر این عجلے ازو یابیدۂ بے نہایت لطف و نِعمت دیدۂ

ترجمہ: (یاد رکھ کہ جس ذاتِ عالی صفات کے ساتھ تجھ کو تعلق استوار کرنا چاہیے) وہ اس گوسالہ کا غیر ہے۔ جس (کی شان یہ ہے کہ اس) سے تو نے بے انتہا لطف پایا ہے اور انعام دیکھا ہے۔

14

گاؤ طبعی زان نکوئیہاے زفت از دلت در عشقِ آن گوسالہ رفت

ترجمہ: تو (اکل و شرب کی طمع میں) بیل کی سی طبیعت والا ہے۔ اس لیے اس گو سالہ (لذات) کی دھن نہیں۔ تیرے دل سے اس گوسالہ کے عشق کی وجہ سے (حق تعالیٰ کے) بڑے بڑے احسانات جاتے رہے۔ 

15

 بارے اکنون تو ز ہر جزوت بپرس صد زبان دارند این اجزائے خُرس

16

 ذکرِ نعمت ہائے رزّاقِ جہان کہ نہان شد آن در اوراقِ زمان

ترجمہ: (اگر تیرے دل سے وہ احسانات فراموش ہو گئے تو) آخر اپنے (وجود کے) ایک ایک جز سے رزاقِ عالم کی ان نعمتوں کا ذکر پوچھ لے جو اوراقِ زمانہ میں مخفی ہو رہے ہیں۔ تیرے یہ اجزا (بیانِ نعماء کے لیے) سینکڑوں زبانیں رکھتے ہیں۔ 

مطلب: یعنی زمانہ کے واقعات و حوادث اوراقِ کتاب کی مانند ہیں جن میں ان نعمتوں کا ذکر لکھا ہے۔ ان نعمتوں میں سے بعض وہ بھی ہیں جن کا تعلق تیرے اجزا سے ہے۔ اور یہ اجزا اگر زبانِ قال کے لحاظ سے گونگے ہیں تو ان کے حال کی سینکڑوں زبانیں ان نعمتوں کا اظہار کر رہی ہیں۔ 

17

روز و شب افسانہ جویائی تو چُست جزو جزوِ تو فسانہ گوے تُست

ترجمہ: تو دن رات مستعدی کے ساتھ افسانے (سننے) کا طالب رہتا ہے (وہی قصۂ ترک کا استعارہ ہے)۔ تیرا ایک ایک جز افسانہ کہہ رہا ہے۔ (سن لے دور جانے کی ضرورت نہیں۔) 

18

 جزو جزوت تا برستت از عدم چند شادی دیده است و چند غم

ترجمہ: (چنانچہ) تیرا ایک ایک جزو (بتا رہا ہے کہ) جب سے وہ عدم سے پیدا ہوا ہے اس نے کتنی خوشیاں اور کتنے غم دیکھے ہیں۔ (غم کا تو خود بھی ہر شخص شاکی رہتا ہے البتہ خوشی محتاجِ ثبوت ہے کیونکہ رلانے کا نام ہے، ہنسانے کا نام نہیں سو خوشی کا ثبوت ظاہر ہے۔) 

19

 زانکہ بے لذّت نروید ہیچ جزو  بلکہ لاغر گردد از ہر پیچ جزو

ترجمہ: اس لیے کہ لذت (کی خوشی) کے بغیر کوئی جزو (نشو و) نمو نہیں پاتا بلکہ (وہ) جزو ہر پیچ و تاب سے لاغر ہو جاتا ہے۔

مطلب: چونکہ تیرے اجزا و اعضا طفلی سے لے کر ما بعد شباب تک برابر نشو و نمو پاتے رہے ہیں۔ اس لیے ثابت ہوا کہ تجھ کو بہت سی لذتیں اور خوشیاں حاصل ہوتی رہی ہیں۔ پھر بھی جو تجھ کو اس کے ثبوت میں شبہ ہو جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ:

 20

 جزو ماند و آن خوشی از یاد رفت بل نرفت آن خفیہ شد از پنج و ہفت

ترجمہ: جزو تو (باقی) رہ گیا اور وہ خوشی (جس سے اس جزو کو نمو حاصل ہوا تھا) یاد سے جاتی رہی (نہیں) بلکہ (یاد سے بھی) نہیں گئی (البتہ) ان حواسِ خمسہ اور ہفت اندام (یعنی جسمِ ظاہری) سے مخفی ہو گئی۔

مطلب: ان خوشیوں کے جو آثار عارض ہونے کے وقت حواسِ خمسہ سے محسوس ہوتے تھے اور جو حرکاتِ وجدیہ ان آثار سے جسم میں پیدا ہوتی تھیں، وہ اس وقت یعنی زوالِ عروض کے بعد مدرکاتِ باطنہ میں محفوظ و مخزون ہو گئے جن میں سے قوتِ حافظہ خازن معانی اور قوتِ حس مشترک خازن صور بھی ہے۔ اس لیے بل از یاد نرفت کا حکم صحیح ہو گیا (کلید)۔ آگے اس خفائے مؤثر اور بقائے آثار کی چند مثالیں ارشاد ہیں:

22

 ہمچو تابستان کہ از وَے پنبہ زاد  ماند پنبہ رفت تابستان زیاد

ترجمہ: جیسے موسم گرما کہ اس (کے اثر) سے روئی پیدا ہوئی (پھر) روئی تو رہ گئی (اور) موسم گرما یاد سے جاتا رہا۔

 23

یا مثالِ یخ کہ زاید از شتا شد شتا پنہان و آن یخ پیشِ ما

ترجمہ: یا جیسے یخ جو موسمِ سرما سے پیدا ہوتا ہے (پھر) موسم سرما تو چھپ گیا اور وہ یخ ہمارے سامنے (موجود رہ گیا)۔ 

24

ہست آن یخ زان صعوبت یادگار  یادگارے صیف در دَے این ثمار

ترجمہ: (سو) وہ یخ تو (موسمِ سرما کی) اس صعوبت کی یادگار ہے (اور) موسم گرما کی یادگار موسم خزاں میں یہ پھل ہیں (جو موسم گرما میں پیدا ہوتے ہیں)۔

25

چون زنے کہ بیست فرزندش بود ہر یکے حاکیِّ حالِ خوش بود

ترجمہ: (اور) جیسے ایک عورت کہ اس کے بیس (یا کم و بیش) فرزند ہوں تو ان میں سے ہر ایک (فرزند) اس عورت کی گذشتہ لذتِ جماع کے) حالِ خوش کا مظہر ہو گا (جو تولدِ فرزند کے لیے لازمی ہے)۔

 26

حمل نبود بے ز مستی و ز لاغ بے بہارے کے شود زاینده باغ

ترجمہ: (کیونکہ) مستی اور خوش فعلی کے بغیر حمل (قرار گیر) نہیں ہوتا (جیسے) بہار کے بغیر باغ (پھل) پیدا نہیں کرتا۔ 

27

 حاملان و بچّگانِ شان در کنار شد دلیلِ عشقبازی با بہار

ترجمہ: (چنانچہ) حمل والے (درخت) اور ان کی آغوش میں بچے (یعنی پھل پھول) بہار کے ساتھ (درختوں کے) عشقبازی کرنے کی دلیل ہیں۔ 

28

ہر درختے در رضاعِ کودکان ہمچو مریمؑ حامِل از شاہے نہان

ترجمہ: ہر درخت (اپنے) بچوں کے دودھ پلانے میں مریم علیہا السلام کی طرح ایک سلطان سے باطن میں حاملہ ہیں۔ 

مطلب: بچوں سے مراد پھل پھول اور دودھ پلانے سے مراد درخت کے خاص مادے سے پھلوں پھولوں کی افزایش ہے۔ اور سلطان سے مراد بھی وہی پھل پھول ہیں جو قبلِ ظہور گویا حالتِ حمل میں ہیں اور نہاں اسی حالتِ قبلِ ظہور کو کہا اور بعد ظہور کے جب تک تزاید و بالیدگی میں ہیں۔ گویا حالتِ رضاع میں ہیں۔ پس دونوں حکم صحیح ہو گئے اور تشبیہ بمریم علیہا السلام اس میں ہے کہ وہ بھی ایک سلطانِ دین یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ حاملہ تھیں اور بوجہ عدم مسِّ رَجُل وہ حمل بہت ہی باطن تھا کہ کسی کو کنواری کے حاملہ ہونے کا احتمال ہی نہ تھا۔ جیسے شوہر والی عورت میں احتمال تو ہوتا ہے (کلید)۔ آگے اور مثال ہے خفاءِ مؤثر اور ظہورِ اثر کی: 

29

گرچہ در آب آتشے پوشیده شُد صد ہزاران کف برو جوشیده شد

ترجمہ: اگرچہ (کھولتے ہوئے) پانی میں آگ مخفی ہو گئی (یعنی آگ کے آثار ظاہر ہوتے ہیں چنانچہ) لاکھوں بلبلے اس پر جوش مارنے لگے (جو آگ کے مظہر ہیں)۔

 30

گرچہ آتش سخت پنہان می تند کف بده انگشت اشارت می کند

ترجمہ: اگرچہ آگ (اس پانی میں) پوشیدہ طور سے آمد و رفت کر رہی (لیکن) بلبلا دسوں انگلیوں سے (اس کے موجود ہونے کی طرف) اشارہ کر رہا ہے۔ (آگے ایک اور مضمون کی طرف انتقال ہے):

31

 ہمچنین اجزائے مستانِ وصال حامل از تمثالہائے قیل و قال

ترجمہ: اسی طرح مستان وصال (حق) کے اجزا (و اعضا اس وجہ سے کہ وہ) پیکر ہائے حال و قال سے (متاثر و) حامل ہیں۔ (حال و قال پر دلالت کرتے ہیں)۔

مطلب: یعنی جس طرح مذکورہ مثالوں میں آثارِ ظاہرہ مؤثرات مخفیہ پر دلالت کرتے ہیں۔ اسی طرح واصلانِ حق کے باطن میں جو حال و قال کی صورتیں مخفی و موثر ہیں۔ ان کے اجزائے وجود کے آثار سے ظاہر ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان اجزا کی دلالت حال و قال پر اس طرح ہے کہ:

32

 در جمالِ حال وا مانده دہان چشم غائب مانده از نقشِ جہان

ترجمہ: جمالِ حال میں (فرطِ حیرت سے) منہ کھلا (کا کھلا) رہ گیا اور آنکھ نقشِ عالمِ شہادت کے دیکھنے سے غائب رہ گئی۔

مطلب: جب غلبۂ حال میں منہ کھلا رہ جاتا ہے اور آنکھ دُنیا کے نقشہ کو نہیں دیکھتی تو ان آثار سے وہ کیفیت جو باطن میں ہے ظاہر ہو جاتی ہے۔ حال کے ساتھ قال کو بھی امرِ باطنی قرار دیا ہے۔ بایں وجہ کہ اس سے مراد قولِ تقلیدی بلا مشاہدہ نہیں۔ بلکہ وہ قال مراد ہے جو کشف و شہود سے ناشی ہو خواہ وہ کلامِ نفسی ہو۔ یعنی وہ مضامین و اسرار کہ قلب میں جوش زن ہوں اور زبان پر نہ لائے جائیں۔ اور یہی احتمال زیادہ مناسب بمقام ہے یا وہ کلام لفظی ہو یعنی وہ مضامین و اسرار کہ زبان پر بھی آ جائیں۔ گو غامض ہونے کے سبب عوام کے فہم سے بالاتر ہوں۔ آگے اسی حال و قال کے خفی ہونے کا سبب بتاتے ہیں یعنی چونکہ: 

33

 آن موالید از رہِ این چار نیست لا جَرَم منظورِ این ابصار نیست

ترجمہ: (چونکہ) وہ (حال و قال) ان چار (عنصروں) کے (مقرر) طریق سے پیدا نہیں ہوتے۔ اس لیے ان (ظاہری) آنکھوں سے نظر نہیں آتے۔ (کیونکہ ہر چیز کے مدرک بہ بصارت ہونے کے لیے اس کا مادی ہونا شرط ہے اور یہ مادی نہیں ہیں۔)

34

 آن مواليد از تجلّی زاده اند لاجرم مستورِ پرده ساده اند

ترجمہ: وہ پیدا شده حال و قال (تجلّی حق) سے پیدا ہوئے ہیں (چونکہ تجلیات مادی و مبصر نہیں ہیں) اس لیے (یہ موالید بھی عالمِ غیب کے) بے رنگ پردہ میں مستور (و مخفی) ہیں۔

35

زاده گفتیم و حقیقت زاد نیست این عبارت جُز پَئے ارشاد نیست

ترجمہ: ہم نے (ان حال و قال کو تجلی سے) پیدا شده کہہ دیا اور فی الحقیقت (بمعنی متعارف) پیدا شدہ نہیں ہیں۔ یہ پیرایہ بیان سمجھانے کی غرض کے سوا اور کچھ نہیں۔ 

مطلب: حال و قالِ باطنی کو زادہ کہنے پر یہ اشکال وارد ہوتا تھا کہ ولادت و زادن کے لیے متوالدین کی مادیت لازم ہے، اور یہاں تجلّی حق اور حال و قال دونوں غیر مادی ہیں۔ شعرِ بالا میں اس اشکال کو رفع کیا ہے یعنی حال و قال کو زاده مجازََا کہا ہے۔ بالمعنی الحقیقی نہیں، اور فہمِ سامع کی رعایت سے مجاز و استعارہ استعمال کر لیا جاتا ہے اور چونکہ مذکوره حال و قال امورِ ذوقیہ و وجدانیہ سے ہیں جن کی تعبیر کے لیے الفاظ کافی نہیں اور ان کو لفظوں میں بیان کرنے کی صورت میں اکثر اشخاص کے مبتلائے غلط فہمی ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے آگے فرماتے ہیں:

36

 ہِین خَمُش کن تا بگوید شاه قُلْ بلبلی مفروش با این جنس گل

ترجمہ: ہاں (محجوبین کے سامنے اس مضمون سے) خاموشی (اختیار) کرو یہاں تک کہ بادشاہ (حقیقی خود) حکم دے کہ بولو (ورنہ خواہ مخواہ) تم اس پھول کے ہم جنس (حال و قال) کے ہوتے ہوئے بلبل بننے کی کوشش نہ کرو۔ (یعنی حال و قال جو اپنی لطافت میں پھول سے مشابہ ہیں۔ خود اپنی مہک اور خوشرنگی سے اپنے وجود کا اظہار کر رہے ہیں۔ تم کو بولنے کی کیا ضرورت۔ آگے یہ ارشاد ہے:) 

37

 این گل گویا ست پُر جوش و خروش بلبلا ترکِ زبان کن باش گوش

ترجمہ: یہ (حال و قال خود) ایک بولتا ہوا پھول ہے جو جوش و خروش سے پُر ہے۔ اے بلبل! (جو اس کے اسرار بیان کرنے لگا ہے) تو زبان (سے کام لینا) چھوڑ دے (اس کے اسرار بیان نہ کر اور) کان بن جا (یعنی خود اسی سے اس کے اسرار سن)۔

مطلب: اوپر یہ ذکر تھا کہ مستانِ حق کے اجزائے وجود ان کے باطنی حال و قال کو ظاہر کرتے ہیں۔ اب آگے یہ ارشاد ہے کہ یہ حال و قال حق تعالیٰ کے وصال و قرب پر دال ہیں۔

38

 ہر دو گون تمثالِ پاکیزه مثال شاہدِ عدل اند بر سرِّ وصال

ترجمہ: (یہ) ہر دو قسم کے پیکر پاکیزہ مثال (یعنی حال و قال حق تعالیٰ کے قرب و) وصال کے راز پر شاہد عدل ہیں۔ 

مطلب: مذکوره حال و قال کے لیے اوپر بھی تمثال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ چونکہ وہ عالمِ غیب سے ہونے کی بنا پر غیر مادی ہیں اور انسان کے وجودِ مادی سے متعلق ہونے کی وجہ سے مجرد بھی نہیں۔ اس لیے ان کا وجود اشیائے عالم مثال سے مشابہ ہے۔ بدیں وجہ ان کے لیے تمثال کا لفظ موزوں سمجھا گیا اور ان دونوں کی دلالت وصال پر اس لیے ہے کہ حال و قالِ مقبول بھی قربِِ حق کا سبب ہے اور پھر وہ قرب بھی سب ہے مزید حال و قال کا، تو حال و قال باعتبارِ قرب کے سبب و مسبب دونوں ہیں اور دلالت شے کی اپنے سبب اور مسبب دونوں پر ہوتی ہے (ہٰکذا استفاد من الکلید)۔ آگے وصال کی حقیقت بیان فرماتے ہیں تاکہ معنی لغوی پر محمول سے کسی کو غلطی واقع نہ ہو: 

39

 ہر دو گون حسنِ لطيفِ مرتضٰی  شاہدِ احیاء و حشرِ ما مضٰی

 ترجمہ: (اس وصال کی تفسیر یہ ہے) کہ دونوں قسم کے لطیف و پسندیدہ حُسن (یعنی حال و قال) بقا و فنائے ماضی کے شاہد ہیں۔ 

مطلب: صاحبِ کلید فرماتے ہیں کہ وصل سے مراد یہ فنا و بقا ہے کہ اماتت اخلاقِ ذمیمہ اور اکتساب اخلاق حمیدہ کہ فنا و بقائے حسی ہے اور ترکِ توجہ الى غیر اللہ اور غلبہ توجہ الى اللہ کے فنا و بقائے علمی ہے یہی قرب ہے حق تعالیٰ کا۔ قال السعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

تعلق حجاب ست و بے حاصلی چو پیوند ہا بگسلی واصلی

و قال آخر ؎

تو درو گم شو وصال اینست و بس گم شدن گم کن کمال اینست و بس

آگے دو مثالیں اس بات کی تائید میں پیش فرماتے ہیں کہ حال و قال سے وصل کا راز ظاہر ہوتا ہے:

40

 ہمچو یخ کاندر تموزِ مُستَجَد ہر دم افسانہ زمستان می کند

 ترجمہ: (اس دلالت کی مثال ایسی ہے) جیسے یخ، جو تازه شدید گرمی میں ہر وقت موسم سرما کو یاد لاتا ہے۔

41

 ذکرِ آن اریاحِ سردِ زمہریر اندران ایَّامِ و ازمانِ عسیر

ترجمہ: (یعنی) شدید سرما کی ان سرد ہواؤں کا ذکر (آتا ہے جو) ان ایام اور مصیبت خیز زمانوں میں (چلتی ہیں)۔ 

42

ہمچو آن میوه کہ در وقتِ شتا می کند افسانۂ لطفِ صبا

ترجمہ: (اور اس دلالت کی مثال ایسی ہے) جیسے وہ میوہ جو موسمِ سرما میں بادِ صبا کے لطف کا ذکر (بزبانِ حال) کرتا ہے۔

43

 قصۂ دورِ تبسّمہائے شمس وان عروسانِ چمن را طمس و لمس

ترجمہ : (یعنی) آفاب کے دَورِ تبسمات کا قصّہ اور ان عروسانِ چمن کے (ساتھ) ملنے اور ان کو چھونے کا قصہ بیان کرتا ہے۔

انتباہ: یہاں سے اوپر تیرھویں شعر ؎ ہمچنیں اجزائے مستانِ وصال الخ سے پہلے یہ مضمون چلا آ رہا تھا کہ انسان کو جو گونا گوں نعمتیں حاصل ہیں ان سے منعم پر استدلال کر کے اس کا شکر بجا لانا چاہیے پھر اس شعرِ مذکور سے ایک اور مضمون کی طرف انتقال ہو گیا۔ اب اس مضمون کو یہاں ختم کر کے پھر سابقہ بیان کی طرف عود فرماتے ہیں: 

44

 حال رفت و مانْد جُزوت یادگار یا ازو واپُرس یا خود یاد آر

ترجمہ: (وہ خوشی کا) حال تو (یاد سے) چلا گیا اور تیرا جزو (جس نے اس سے نشو و نما پائی تھی) یادگار رہ گیا (تو اس خوشی کا پتا) یا تو اس (جزو) سے پوچھ لے (کہ وہ بزبانِ حال اس کا حال بتا دے گا) یا (اس کے واسطہ سے) خود (سوچ کر) یاد کر لے۔ 

45

 چون فرو گیرد غمت گر چُستیی زان دمِ نومید کن واجُستیی

ترجمہ : جب تجھ کو غم گھیرے تو اگر تو (عقل و ہوشیاری میں) چست ہے۔ تو (غم و غصہ کے) اس نا امید کرنے والے وقت سے مطالبہ کرتا رہ۔

46

 گفتیش اے غصّۂ مُنکر بحال راتبہ انعامہا را زان کمال

ترجمہ: (یعنی) اس سے کہہ کہ اے (غم و) غصہ جو! (زبانِ) حال سے (ان) وظائفِ انعامات کا انکار کر رہا ہے جو اس ذی کمال (یعنی حضرت ذوالجلال) سے فائض ہیں۔ 

مطلب: اوپر منعم کی بخشی ہوئی نعمتوں کو یاد کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ یہاں ان دو شعروں سے ان حالات کا ذکر شروع ہوتا ہے جن میں عاقل انسان کو عمومًا ان خداداد نعمتوں کا خیال نہیں رہتا۔ یعنی غم و الم فقر و فاقہ، بلا و مصیبت وغیرہ اور ان حالات میں تذکرہ انعامات اور توجہ بشکر کی یہ تدبیر بتاتے ہیں کہ خود اس غم و غصہ اور رنج و الم کو ڈانٹ دینا چاہیے جو خواہ مخواہ خداوند تعالیٰ کے احسانات و انعامات سے غافل کر رہا ہے۔ اور اس سے سوال کرنا چاہیے کہ: 

47

 ہر دمت گرنہ بہار و خُرّمی ست ہمچو چاشِ گل تنت انبار چیست

ترجمہ : اگر تجھے ہر دم بہار (عیش) اور (دولت) خرمی (حاصل نہیں ہے، تو تیرا (یہ) بدن (ناز و نعمت سے پل کر) پھولوں کے ڈھیر کی طرح (لال گلال) کیوں ہے؟ 

48

 چاشِ گل تن، فکرِ تو ہمچون گلاب  منکرِ گل شد گلاب اینت عُجاب

ترجمہ: بدن تو پھولوں کا ڈھیر ہے (اور) تیری قوتِ فکریہ مثل گلاب کے ہے (پھر) گلاب گل کا انکار کر رہا ہے۔ (اوہو!) بڑے تعجب کی بات ہے۔

مطلب: جو قوتِ فکریہ حالتِ غم و غصہ میں خداداد نعمتوں کی منکر ہے۔ وہ خود بدن کے نشوونما کا نتیجہ ہے۔ جیسے گلاب گل کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ اگر بدن کو غذا نہ پہنچے تو قوائے دماغیہ مضمحل بلکہ معطل ہو جائیں اور بدن کا نشو و نما موقوف ہے نعمت و لذت پر جیسے کہ اوپر ثابت ہوا۔ پس قوتِ فکریہ کا وجود خود بلسانِ حال مدعی ہے۔ بدن کے نشو و نمو کا بھی اور اس کے واسطے سے معترف ہے نعمائے حق کا با وجود اس کے پھر قوتِ فکریہ کا نعمتوں سے منکر ہونا انکارِ نشو و نما کو مستلزم ہے۔ کیونکہ وہ نعمتیں نشو و نما کی موقوف علیہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے لازم ہیں اور لازم کا انکار ملزوم کا انکار ہے۔ پس نعمتوں کے انکار کی مثال ایسی ہوئی جیسے گلاب وجودِ گل کا انکار کرے جس کا عجیب ہونا ظاہر ہے (کلید)۔ آگے کفران کی مذمت اور شکر کی مدح کرتے ہیں: 

49

از کَپی خویانِ کفران کَہ دریغ بر نبی خویان نثارِ مہر و میغ

ترجمہ: بوزنہ(یعنی بندر) خصال نا سپاس لوگوں سے تو گھاس (کا) بھی دریغ (آتا) ہے (کہ خدا کرے ان کو اتنا بھی نہ ملے۔ اور) نبی خصال لوگوں پر سورج اور ابر (تک) قربان۔ 

مطلب: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿لَئِن شَكَرْتُمْ لاَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِی لَشَدِيدٌ(ابراہیم: 7) ”اگر تم (ہمارا) شکر ادا کرو گے تو ہم تم کو اور زیادہ نعمتیں دیں گے۔ اور اگر تم نے ناشکری کی تو (تم کو معلوم ہے کہ) ہماری مار (بھی بڑی) سخت ہے“۔ کافر نعمت و نا شکر لوگوں کو بندر کے ساتھ تشبیہ شاید اس لیے دی گئی ہے کہ بندر انسانی افعال کی نقل و محاکات کرنے کے با وجود وہی بندر کا بندر اور حیوانِ لا یعقل ہے۔ اسی طرح جو انسان نعمائے الٰہیہ کا احساس اور احساناتِ خداوندی کا ادراک نہیں رکھتا وہ بظاہر انسان ہونے کے با وجود حیوان لا یعقل کی مانند یعنی ﴿کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ (الاعراف: 179) کا مصدق ہے۔ کیونکہ وہ آنکھوں کے با وجود خداوندی نعمتوں کو نہیں دیکھتا دل سے ان کو نہیں سمجھتا سوچتا۔ ﴿لَھُمْ قُلُوْبٌ لَا یَفْقَھُوْن بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَا یَسْمَعُوْن بِھَا اُوْلَئِكَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُوْلَئِكَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ (الاعراف: 179) ”ان کے دل تو ہیں (مگر) ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھیں بھی ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے اور ان کے کان بھی ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ (غرض) یہ لوگ چارپایوں کی طرح کے ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دین سے بالکل بے خبر ہیں“ 

50

 آن لجاج و کفر قانونِ کَپی ست وان سپاس و شکر منہاجِ نبی ست

 ترجمہ: وہ مخالفت اور کفران بندر کا دستور ہے اور وہ شکر و سپاس نبی کا طریقہ ہے۔

51

 با کپی خویان تَہتُّکْہا چہ کرد با نبی رویان تنسُّکْہا کرد

ترجمہ: (دیکھ لو) بوزنہ خصال لوگوں کے ساتھ ان کے ارتکابِ معاصی کے کیا (عبرت ناک برتاؤ) کیا؟ (اور) نبی خصال لوگوں کے ساتھ ان کی طاعات و عبادات نے کیا (اچھا سلوک) کیا؟ ﴿اُولٰٓـئِکَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرۃ: 5) 

52

در عمارت ہا سگانند و عَقُور در خرابیہا ست گنجِ عزّ و نُور

ترجمہ: (کافرِ نعمت لوگوں کے جاہ و ثروت کو نہ دیکھو کہ خوشنما) عمارتوں میں کتے (بھی ہوتے) ہیں اور (کتے بھی) کٹکھنے (اور صابر و شاکر لوگوں کے فقر و مسکنت پر نہ جاؤ کہ) ویرانوں میں عزت و نور کے خزانے ہیں۔ 

مطلب: جس طرح ویرانوں میں خزانے مدفون ہوتے ہیں اسی طرح اہل اللہ کے شکستہ و در مانده اجسام میں علم و عرفاں کے فضائل و انوار موجود ہیں۔ پس در خرابیہا میں مشبہ بہ مذکور اور مشبہ یعنی اہل اللہ کے مضمحل اجسام مقدر ہے۔ اور گنج عزّ و نور میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں مذکور ہیں۔ آگے فرماتے ہیں کہ حقیقتِ امر تو یہی ہے لیکن اس کے ادراک کے لیے عقلِ دین کی ضرورت ہے کہ ظاہر پر محدود نہ رہے اور حقیقت کو دیکھے۔ یہاں عقلِ دنیا کافی نہیں جو محض ظاہری نعمت و زحمت کو دیکھتی ہے اور اس نعمت کو نہیں دیکھتی جو زحمتِ ظاہری کے اندر مضمر ہے۔ اور وہ اہل اللہ کا حصہ ہے نہ اس زحمت کو دیکھتی ہے جو ظاہری نعمت میں پنہاں ہے۔ اور وہ دنیا پرستوں کے لیے ہے انہی ظاہر بینوں کی غلطی کا ذکر ہے۔ 

53

 گر نبُودے ایں بزُوغ اندر کسُوف گم نکردے راہ چندین فیلسوف

 ترجمہ: اگر یہ (آفتاب حقیقت کا) طلوع (ظاہری شکستہ حالی کا) گرہن میں (مستور) نہ ہوتا تو اتنے (بڑے بڑے) فلاسفر (جو دنیوی علوم کے ماہر تھے) راہ (حقیقت) گم نہ کرتے۔ 

54

 زیرکان و موشگافانِ دِہی  دیده بر خُرطوم داغ ابلہی

ترجمہ: (مگر اس مستوریِ حقیقت کے سبب سے بڑے بڑے) زیرکان و موشگافان دانا نے اپنی ناک پر ابلہی کا داغ دیکھ لیا ﴿سَنَسِمُہٗ عَلَی الْخُرْطُوْمِ(القلم: 16) "ہم عنقریب اس کے ناکڑے پر داغ لگا دیں گے"۔ 

انتباہ: آگے اس مستوریِ حقیقت اور طالب کی خطا و غلط بینی کی مثال میں ایک قصہ ارشاد فرماتے ہیں۔ جس کا ملخص یہ ہے کہ ایک شخص کو خواب میں ایک خزانہ کا پتا بتایا گیا اس نے اس پتے اور نشان کے سمجھنے میں غلطی کی اور مدتوں اس غلطی کی تعبیر کی بنا پر طلبِ خزانہ میں حیران و سر گردان رہا۔ آخر بالہامِ حق اس کو صحیح پتا معلوم ہوا تو خزانہ کا کھوج لگ گیا۔ پس اس قصے میں خزانے کا ویرانہ میں ہونا مضمونِ بالا کی مستوریِ حقیقت کے مناسب ہے اور طالبِ گنج کی غلطی جویائے حقیقت کی غلط بینی پر چسپاں ہے۔