دفتر 6 حکایت 66: ایک عورت اور اس کے شوہر کی کہانی اور اُن کی گفتگو

دفتر ششم: حکایت: 66



حکایتِ زن با شوہر و ماجرائے ایشان

ایک عورت اور اس کے شوہر کی کہانی اور اُن کی گفتگو

 1

آن یکے زن شوئے خود را گفت ہَے  اے مروّت را بیک رہ کردہ طَے

2

ہیچ تیمارم نمی داری چرا تا بکَے داری درین خواری مَرا

ترجمہ: ایک عورت نے اپنے خاوند کو کہا۔ سنو اے میاں! جنہوں نے مرّوت کو یکبارگی طے کر دیا۔ تم کیوں میری کچھ غمخواری نہیں کرتے؟ کب تک مجھ کو اس خواری میں رکھو گے؟ 

3

گفت شو من نفقہ چاره می کنم  گر چہ عُورم دست و پاۓ می زنم

 ترجمہ: خاوند نے کہا میں (تمہارے) خرچ کی تدبیر تو کرتا ہوں۔ اگرچہ نادار ہوں (تاہم اپنے مقدور کے موافق) ہاتھ پاؤں مارتا ہی رہتا ہوں۔

4

نفقہ و کسوہ است واجب اے صنم  از منت این ہر دو ہست و نیست کم

ترجمہ: پیاری! تمہارے لیے خرچ اور کپڑا (ہی مجھ پر) واجب ہے (سو) یہ دونوں (حاضر) ہیں اور (ان میں) کمی نہیں ہے۔ 

5

آستینِ پیرہن بنمود زن  بس درشت و پُر وَسخ بُد پیرہن

ترجمہ: (اس پر) عورت نے پیراہن کی آستین دکھائی (اور) یہ پیراہن بڑا کُھردرا اور میلا تھا۔ 


6

گفت از سختی تنم را مے خورد کس کسے را کسوہ زینْسان آورد

ترجمہ: (ساتھ ہی) بولی یہ (پیراہن اتنی) سختی سے میرے بدن کو کھا رہا ہے (ذرا خیال تو کرو کہ) کوئی (خاوند) کسی (بیوی) کو ایسی پوشاک لا کر دیتا ہے؟ (عورت کی اس نا شکری و بے صبری پر مرد کو غصہ آگیا۔ چنانچہ:)

7

گفت اے زن یک سوالت می کنم مردِ درویشم ہمین آمد فنم

ترجمہ: کہنے لگا اے عورت! میں تجھ سے ایک سوال کرتا ہوں۔ میں غریب آدمی ہوں۔ مجھ سے اتنی ہی تدبیر بن آتی ہے (کہ ایسا کپڑا مہیا کر سکوں)۔ 

8

ایں درشت ست و غليظ و ناپسند  لیک بِندیش اے زنِ اندیشہ مند


این درشت و زشت تر یا خود طلاق  این ترا مکروہ تر یا خود فراق

ترجمہ: (بے شبہ) یہ (پیراہن) کھردرا ہے اور موٹا ہے اور نا پسند ہے۔ لیکن اے سوچنے (پرکھنے) والی عورت! (اتنا) سوچ لے (کہ) یہ پیراہن زیادہ درشت اور بد نما ہے یا طلاق؟ یہ تجھے زیادہ نا پسند ہے یا جدائی؟ (آگے مولانا اس حکایت کو مدعا پر چسپاں فرماتے ہیں):

 10

ہمچنان اے خواجۂ تشنیع زن  از بلا و فقر و از رنج و مِحَن

11

لاشک این ترکِ ہوا تلخی دِہ ست  لیک از تلخیِّ بُعدِ حق بہ است

 ترجمہ: اسی طرح اے خواجہ صاحب! جو بلاؤ فقر اور رنج و تکالیف پر اظہار نا پسندیدگی کر رہے ہو۔ بے شک یہ ترکِ مراد ناگوار ہے مگر بُعدِ حق کی ناگواری سے بہتر ہے۔ 

12

گر جہاد و صوم سخت ست و خَشِن  لیک آن بہتر ز بُعد اے ممتحِن

ترجمہ : اگر (ریاضت و) مجاہدہ اور روزہ (جو حصولِ قرب کے لیے اختیار کیا جاوے) سخت اور ناگوار ہے۔ تو اے آزمائش کرنے والے! وہ بُعد (عن الحق) سے بہتر ہے۔

 13

رنج کے ماند دمے کان ذوالمنن  گویدت چُونی تو اے رنجورِ من

ترجمہ: اس لمحہ میں رنج کہاں رہے گا۔ جب وہ (خداوند) صاحب احسانات تم سے کہے گا کہ اے میرے بیمار تیرا کیا حال ہے؟

14

ور نگوید کِت نہ آن فہم و فن ست  لیک آن ذوقِ تو پُرسِش کردن ست

ترجمہ: اور اگر (تمہارے علم میں یہ) نہ کہے کہ تم کو وہ فہم اور ہنر (تعقل) نہیں ہے (کہ الہام کا ادراک کر سکو) لیکن وه تمہارا ذوق ہی پُرسش کرتا ہے۔ 

مطلب: محبوبِ حقیقی بطورِ الہام جو تمہارا حال پوچھ رہا ہے۔ ممکن ہے کہ تم کو اس کا ادراک نہ ہو کیونکہ اس کے ادراک کے لیے بڑی صلاحیت درکار ہے۔ مگر آخر تم کو وہ ذوق تو حاصل ہے جس سے اپنی روح میں ایک اطمینان و جمعیت محسوس ہوتی ہے اور اس قسم کا ذوق و وجدان اکثر اہل نسبت کو حاصل ہوتا ہے۔ پس وہی اس کی طرف سے بمنزلہ پرسشِ احوال ہے۔ آگے اس مضمون کو سمجھانے کے لیے معشوقانِ مجازی کا ایک دستور بیان فرماتے ہیں: 

15

 آن ملیحان کہ طبیبانِ دل اند سوئے رنجوران بہ پُرسش مائل اند

ترجمہ: (دیکھو) وہ حسین لوگ جو (عاشقوں کے) دل کے طبیب ہیں (اپنے) بیماروں کی طرف عیادت کے لیے مائل ہوتے ہیں۔

16

ور حذَر از ننگ و از نامی کنند چارۂ سازند و پیغامی کنند

 ترجمہ: اور اگر (اعلانیہ عیادت کے لیے جانے میں) ننگ و نام سے ڈرتے ہیں (کہ مُبادا رقیب لوگ بد نام کریں) تو کوئی تدبیر (حیلہ) کرتے ہیں اور کسی کے ہاتھ پیغام (رسانی) کرتے ہیں۔

 17

ورنہ در دلِ شان بود آن مفتکَر نیست معشوقے ز عاشق بیخبر

ترجمہ: اور اگر (یہ بھی ممکن) نہ ہو تو (کم از کم) ان کے دلوں میں (اپنے عاشق کی) وہ فکر (ضرور) ہوتی ہے۔ (غرض) کوئی معشوق (اپنے) عاشق سے بے خبر نہیں ہے۔ 

18

اے تو جویائے نوادِر داستان ہم فسانہ عشق بازان را بخوان

ترجمہ: اے (شخص) تو جو عجیب عجیب کہانیوں کا طالب ہے۔ ذرا عاشقوں کی کہانی بھی پڑھ (کہ تجھ کو اکثر وارداتِ عشقِ حقیقی کا راز ان مجازی عاشقوں کے احوال سے سمجھ میں آ جائے گا۔ بُعد عن الحق کی مذمت کے بعد اب آگے یہ شکایت ہے کہ تم نے عمر بھر اپنے بعید ازحق ہونے کا احساس نہ کیا)۔ 

19

بس بجوشیدی درین عہدِ مدید تُرک جوشے ہم نگشتی اَے قدِید

ترجمہ: اے (بے استعداد آدمی! جو روکھا سوکھا ہونے میں) خشک گوشت! (سے مشابہ ہے) تو اس زمانۂ دراز میں (طلبِ غیرِ حق کے لیے) خُوب جوش میں آتا رہا (اور پختہ بن گیا مگر طلبِ حق میں) نیم پختہ بھی نہ ہوا۔ 

20

دیدۂ عمرے تو داد و داوری  وانگہ از نادیدگان ناسی تری

 ترجمہ: تو نے ایک عمر (دراز) تک (حق تعالیٰ کی) عطا اور حکومت دیکھی ہے (جس کا تقاضا یہ تھا کہ تو متنبہ ہوتا) اور (حال یہ ہے کہ) تو اس وقت بے دیکھے لوگوں سے بھی زیادہ بھولنے والا ہے۔ 

21

ہر کہ شاگردیش کرد اُستاد شد تو سپس تر رفتۂ اے گُولِ لُد

ترجمہ: جس نے اس (داد و داوری والے) کی شاگردی کر لی (یعنی) افعالِ القیہ پرغور کر کے معرفت حاصل کی) وہ استاد بن گیا۔ (مگر) تو اور بھی پیچھے کو چلا گیا، اے اہلِ خصومت کے احمق! 

22

خود نبود از والدینت اعتبار  ہم نبُودت عبرت از لیل و نہار

 ترجمہ: نہ تجھ کو (اپنے) والدین ہی سے عبرت ہوئی نہ تجھ کو رات اور دن کے تقلُّب سے عبرت ہوئی۔

 مطلب: والدین سے عبرت یوں ہوسکتی ہے کہ وہ کہاں گئے، مجھ کو بھی وہیں جانا ہے۔ اس سے عالم دنیا کا تعلق کم ہو جاتا ہے یا یوں عبرت ہو سکتی ہے کہ والدین با وجود اپنے عجز و افتقار کے مجھ کو اس قدر نفع پہنچاتے ہیں تو اس نفع کا مبداء حقیقی ضرور کوئی دوسرا قادرِ غنی ہے۔ اس سے اُس ذاتِ پاک کے ساتھ تعلق استوار ہو جاتا ہے (کلید)۔ آگے ایک مثال سے اس فقدانِ تنبہ اور عدم اصلاحِ نفس پر شرم دلاتے ہیں: