دفتر ششم: حکایت: 65
جواب گفتن قاضی صوفی را
قاضی کا صوفی کو جواب دینا
قاضی کے جواب کا ماحصل یہ ہے کہ بے شک حق تعالیٰ کو یہ قدرت ہے، مگر لذات و مرغوبات کے ساتھ مضرتوں اور تلخیوں کے شامل نہ ہونے سے وہ حکمت فوت ہو جاتی، جو ان دونوں کی شمولیت میں متصور ہے۔ یعنی ابتلا و امتحان چونکہ اس ابتلا کا ثمره، اجرِ آخرت اور کمالِ روحانی ہے اور ان ثمرات کے مرغوب و مطلوب ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اس لیے ان کا موقوف علیہ یعنی ابتلا بھی مطلوب ہوا اور وہ مضرتوں اور تلخیوں کو برداشت کرنے ہی میں ممکن ہے۔
1
گفت قاضی گر نبودے امرِ مُرور نبودے خوب و زشت و سنگ و دُر
2
ور نبودے نفس و شیطان و ہواور نبودے زخم و چالیش و وغا
3
پس بچہ نام و لقب خواندے مَلِکبندگانِ خویش را اے منہتک
ترجمہ: قاضی نے کہا اگر (عالم میں) تلخ امور نہ ہوتے، اور اگر اچھا اور برا اور پتھر اور موتی نہ ہوتے اور اگر نفس و شیطان اور ہوس نہ ہوتی اور اگر زخم اور حملہ اور جنگ نہ ہوتی، تو اے (خالص لذتوں کی طلب میں) منہتک ہونے والے! (وہ) بادشاہ (حقیقی) اپنے بندوں کو کس نام اور لقب سے پکارتا؟
مطلب: دنیا میں چونکہ حسن و قبح، خیر و شر، نور و ظلمت دوش بدوش موجود ہیں، اس لیے حسن اور خیر اور نور نمایاں ہوتے ہیں۔ ورنہ یہ نمایاں نہ ہوتے، نہ ان کے ساتھ کسی بندے کا موصوف ہونا ظاہر ہوتا، ورنہ وہ اس وصف سے پکارا جا سکتا۔ آگے مولانا ارشاد فرماتے ہیں کہ ان مکارہ کی موجودگی کی بنا پر کسی طرح نیک بندے صفاتِ حسنہ سے موصوف اور ان کے ساتھ مدعو ہوتے ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان مکاره کا وجود ضروری ہے۔
4
چون بگفتے اے صبور و اے حلیمچوں بگفتے اے شجاع و اے کریم
ترجمہ: (اگر مکروہاتِ زمانہ اور ایذاءِ اعدا نہ ہوتی تو پھر کسی بندے سے صبر و حلم کا ظہور کیونکر ہوتا اور) وہ (شاہ حقیقی اس بندے کو) اے صبور اور اے حلیم کیونکر کہتا؟ (اگر مصائب جنگ نہ ہوتے تو کسی سے شجاعت و جوانمردی کا ظہور کب ہوتا؟ اور) وہ (شاہ حقیقی اس کو) اے بہادر اور اے جوانمرد کیونکر کہتا؟ (کریم بمعنی جوانمرد بھی آتا ہے کذا فی المنتخب)۔
5
صابرین و صادقین و منفقینچون بُدے بے رہزنِ دیو لعین
ترجمہ: ملعون، ڈاکو، شیطان کے بدوں اہلِ صبر اور اہلِ صدق اور (خدا کی راہ میں مال) خرچ کرنے والے کیونکر (ظاہر) ہوتے؟
مطلب: شیطان نیک بندوں کو بے صبری، ترکِ صدق اور علومِِ انفاق پر آمادہ کرنا چاہتا ہے اور وہ اس کی مخالفت میں ان فضائل کو بیش از پیش اختیار کرتے ہیں۔ اگر شیطان نہ ہوتا تو یہ اصحاب ان فضائل کا یہ اہتمام و التزام نہ کرتے۔
6
رستم و حمزه و مخنّث یک بُدےعلم و حکمت باطل و مُندَک بُدے
ترجمہ: (اگر) رستم اور حمزہ رضی اللہ اور ہجڑا ایک (برابر) ہوتے، (تو) علم اور دانائی باطل اور ریزہ ریزہ ہو جاتی۔
7
علم و حکمت بہرِ راہ و بیرہی ستچون ہمہ رہ باشد آن حکمتِ تہی ست
ترجمہ: (کیونکہ) علم و حکمت، راہ (راست پر چلنے) اور بے راہی (سے بچنے) کے لیے ہے جب سراسر راہ (راست ہی) ہو (بیراہی نہ ہو) تو وہ حکمت بے فائدہ ہے۔
8
بہرِ این دکّانِ طبع شوره آبہر دو عالم را روا داری خراب
ترجمہ: تم اس دکانِ (نفس و) طبیعت کے لیے جو فاسد و کاسد ہے دونوں عالم کے ویران رہنے کے روادار ہوتے ہو۔
مطلب : اوپر بیان ہو چکا ہے کہ دنیا کے مکارہ و مضرات کی غایت حصولِ کمال اور اجرِ آخرت ہے اور انہی امور کے لیے انسان پیدا ہوا ہے۔ اگر یہ امور نہ ہوتے تو انسان نہ ہوتا۔ انسان نہ ہوتا تو دونوں عالم نہ ہوتے۔ پس تمہارا لذات اور حظوظِ خالصہ کی تمنا کرنا اور مضرت و مضارہ کے بالکلیہ منہدم ہونے کی آرزو رکھنا اس بات کو مستلزم ہے کہ دونوں عالم نہ ہوں۔ آگے قاضی کہتا ہے:
9
من ہمے دانم کہ تو پاکی نہ خاموین سوالت ہست از بہرِ عوام
ترجمہ: یہ تو میں جانتا ہوں کہ تم (عملی فرو گذاشت سے) پاک ہو اور (عملی) خامی (بھی) تم میں نہیں اور یہ تمہارا سوال عوام کے لیے (اس مسئلہ کو صاف کر دینے کی غرض سے) ہے۔
مطلب: کسی بحث میں فضول تکرار اور غلط طریقۂ استدلال اختیار کرنے کی دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو اس کی بنا جہل اور علمی خامی پر ہو گی یا بحث کرنے والا اس مسئلہ کو بخوبی جاننے اور سمجھنے کے باوجود محض اپنے تفوق اور ہمہ دانی کے اظہار کے لیے بحث کو طول دے رہا ہو گا۔ قاضی اپنے حسنِ ظن سے ان دونوں احتمالوں کو رفع کرتا ہوا ایک تیسرا اچھا اعمال ظاہر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نہ تو کسی بد نیتی سے دیدہ و دانستہ اس بحث کو طول دے رہے ہو نہ ان مسائل سے بے خبر ہو، بلکہ تم نے عام لوگوں کے افادہ کے لیے یہ گفتگو اختیار کی جو تعلیمِ عوام کا مبارک و مؤثر طریقہ ہے۔ جیسے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام ایمان اور احسان کے متعلق سوال کیے تھے تاکہ حاضرین صحابہ آپ ﷺ کے جوابات سے مستفید ہوں۔ آگے مولانا فرماتے ہیں:
10
جورِ دَوران و ہر آن رنجے کہ ہستسہل تر از بُعدِ حق و غفلت ست
ترجمہ: (واقعی قاضی کی تحقیق صحیح ہے) زمانہ کی سختی اور ہر تکلیف جو (بندے کو پہنچتی ہے) وہ (فائدہ سے خالی نہیں چنانچہ اس سے غفلت اور قربِ حق کے حصول کی طرف توجہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے جور و تکلیف) حق کی دوری اور غفلت سے زیادہ آسان ہے۔
11
زانکہ اینہا بگذرد وان نگذرددولت آن دارد کہ جان آگہ برد
ترجمہ: کیونکہ یہ (مصائب و شدائد تو دُنیا کے ساتھ) ختم ہو جاتے ہیں اور وہ (بُعد عن الحق) ختم نہیں ہوتا (بلکہ آخرت تک اس کا اثر پہنچتا ہے۔ اور اصلی) دولت تو وہ شخص ( اپنے پاس) رکھتا ہے جو (آخرت میں اپنے ساتھ) جانِ آ گاہ لے جاوے۔
12
رنج و درد و جور و فقرِ این دیارصعب نبود چون فراق و بُعدِ یار
ترجمہ: اس عالم (دنیا) کا رنج اور درد اور سختی محبوب (حقیقی) کی دوری و مہجوری سے زیادہ سخت نہیں ہے۔
مطلب: غرض تکالیفِ دنیویہ اکثر توجہ الی اللہ کا سبب ہوتی ہیں۔
ع جب کیا ظلم بتوں نے تو خدا یاد آیا
اس لیے ان پر راضی رہنا چاہیے۔ اگر ان پر راضی نہ ہوں گے تو پھر بُعد عن الحق کی مصبیتِ عظمٰی سہنی پڑے گی۔ اب تم خود دیکھ لو کہ ان دونوں میں سے کونسی مصیبت کو ترجیح دینی چاہیے۔ آگے اس کی تائید میں ایک قصہ ارشاد ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر سے ضرورت میں تنگ ہونے کی شکایت کی۔ شوہر نے کہا میں تمہاری ضروریات جس قدر پوری کر رہا ہوں اس سے زیادہ نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر تم چاہو تو طلاق دے سکتا ہوں۔ اب تم خود دیکھ لو کہ طلاق لینا تمہارے لیے سہل ہے یا موجودہ تنگی برداشت کرنا۔