دفتر ششم: حکایت: 63
مثل در تسکینِ فقیران از جورِ روزگار
جورِ زمانہ سے محتاج ہو جانے والوں کی تسلی کے لیے ایک مثال
1
آن یکے مے شد برَه سوئے دکانپیشِ رہ را بستہ دید او از زنان
ترجمہ: ایک شخص راستے میں دکان کی طرف چلا جا رہا تھا۔ اُس نے راستے کا آگا عورتوں سے رکا ہوا دیکھا (جو اتفاقا وہاں جمع ہوں گی)۔
2
پائے او می سوخت از تعجیل و راهبستہ از جوقِ زنان ہمچو ماه
ترجمہ: اس کا پاؤں جلدی (چلنے) کی غرض سے (اس قدر بیقرار تھا گویا) انگاروں پر (رکھا تھا اور) چلا جاتا تھا، اور راستہ ماہرو عورتوں کی بھیڑ سے بند تھا (چلتا تو کہاں سے گزرتا)۔
3
رُو بیک زن کرد و گفت اے مستہانہے چہ بسیارند این دخترچگان
ترجمہ: (ناچار) ایک عورت سے مخاطب ہوا اور کہا اے ذلیل! (بڑهیا) اوفّو یہ نوعمر لڑکیاں کس قدر زیادہ جمع ہیں۔
4
رُو بدو کرد آن زن و گفت اَے مَہینہیچ بسیاریِّ ما منگر چنین
ترجمہ: (اور) وہ عورت اس کی طرف متوجہ ہوئی اور بولی اے ذلیل! (مردوے) تو ہماری کثرت کو یوں (بنظرِ حقارت) بالکل مت دیکھ۔
5
بین کہ با بسیاریِّ ما بر بساطتنگ مے آید شما را انبساط
ترجمہ: (بلکہ اس بات کو) دیکھ کہ فرش (زمین) پر ہماری کثرت کے با وجود تم کو (لذتِ صحبت سے) خوشدلی حاصل کرنا نایاب نظر آتا ہے۔
6
در لواطہ می فتید از قحطِ زن فاعل و مفعول رُسوائے زمن
ترجمہ: (یہی وجہ ہے کہ) عورتوں کی نایابی (کے خیال) سے تم لوگ (لذت صحبت کے لئے) لواطت میں مبتلا ہوئے ہو (یعنی لڑکوں کے ساتھ منہ کالا کرتے ہو۔ حتٰی کہ) فاعل و مفعول دونوں زمانہ (بھر) میں خوار (ہوتے ہیں)۔
مطلب: عورت کا مقصود یہ ہے کہ تم نے عورتوں کی کثرت کو بنظرِ نفرت دیکھا اور اس بات پر نظر نہ کی کہ تم ہی لوگ ایک وقت عورتوں کو نایاب سمجھ کر ان لذائذ کے حصول کے لئے ناکردنی کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہو جن کا حصول عورتوں سے متوقع ہے۔ پس جو بات سرسری اور معمولی تھی اس کو خاص اہمیت سے دیکھا اور جو بات بڑی اہم اور قابل توجہ تھی اس کو نہ دیکھا اور نظرانداز کر دیا۔ اسی طرح مصائبِ دنیا سے شکایت کرنے والے ان مصائب اور ان تلخیوں کو تو بڑی تکلیف کے ساتھ محسوس کرتے ہیں، اور اس بات کا خیال تک نہیں کرتے کہ وہ خود اسی دنیا کے غلام ہیں اور اس سے فوائد حاصل کرنے کی امید پر مر مٹ رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ایسی دل بستگی ہے کہ گویا اس سے کبھی کوئی اذیت و زحمت نہیں پہنچی۔ آگے خود مولانا اس مثال کو مقصود کے ساتھ تطبیق دیتے ہیں:
7
تو مَبین این واقعاتِ روزگارکز فلک می گردد اینجا ناگوار
ترجمہ: تم روزگار کے ان واقعات کو نہ دیکھو جو فلک کی طرف سے تم کو اس جگہ ناگوار گذرے ہیں۔
8
تو مَبین تخسیرِ روزی و معاشتو مَبین این قحط و خوف و ارتعاش
ترجمہ: تم روزی اور معاش کی کمی کو مت دیکھو (اور) قحط اور خوفِ (فاقہ) اور لرزۂ (دہشت) کو مت دیکھو (جو تقدیر سے پیش آ گیا)۔
9
بین کہ با این جملہ تلخیہائے اومردۂ اویند و ناپروائے او
ترجمہ: (بلکہ اس بات پر) نظر کرو کہ اس کی تمام تلخیوں کے با وجود تم اس پر جان دیتے ہو اور اس کی طرف سے بے پروا ہو۔ (یعنی پھر بھی عالمِ اسباب کے دلدادہ ہو اور اپنی تدابیر سے اس کی تلخیوں کو دور کرنے اور عیش و نشاط کو تازه کرنے کی توقع رکھتے ہو۔)
10
رحمتے دان امتحانِ تلخ رانقمتے دان ملک مرو و بلخ را
ترجمہ: (پس مصائب ونوائب کے) تلخ امتحان کو تم رحمت سمجھو (اور) مرو و بلخ کی سلطنتوں کو عذاب سمجھو۔
مطلب: مصائب و بلیات جن سے تم گریز کرتے اور گھبراتے ہو۔ وہ دراصل عین رحمت ہیں کہ وہ صبر اور رضا و تسلیم کے فضائل کے ظہور کے باعث ہیں۔ ان سے دنیا میں گناہوں کا کفارہ مقصود ہے اور آخرت میں ترقیِ درجات متوقع ہے۔ بخلاف اس کے جاہ و دولت جس کے تم دلدادہ ہو، بمنزلۂ عذاب ہے کہ اس سے غفلت اور بُعد عن الحق پیدا ہوتا ہے جو دنیا و آخرت میں خائب و خاسر رہنے کا باعث ہے۔ چنانچہ ہزارہا ایسے نظائر پیش کر چکے ہیں کہ مصائب سے گریز کرنے والے اور ان پر تسلیم و رضا سے کام نہ لینے والے مصائب میں تباہ ہو گئے اور جاہ و دولت پر لات مارنے والے دارین میں تاجِ شرف سے سرفراز ہوئے۔
آگے اس کی دو نمایاں نظیریں ارشاد فرماتے ہیں:
11
آن براہیم از تلف بگریخت و مانْد وین براہیمؑ از شرف بگریخت و رانْد
ترجمہ: اُس ابراہیم (نام یہودی) نے (اپنے بخل کی وجہ سے مال و دولت کے) تلف سے گریز کیا تو (نجات پانے سے) رہ گیا اور یہ (حضرت) ابراہیم (خلیل الله علیہ السلام دنیوی جاہ و) شرف سے بچ نکلے تو (جادۂ قرب و قبولیت پر) دوڑے گئے۔
12
این نسوزد وان بسوزد اے عجبنعلِ معکوس ست در راہِ طلب
ترجمہ: (شاید تم کہو کہ) ہائیں یہ نہ جلیں اور وہ جل جائے (یہ تو) بڑے تعجب کی بات ہے (گویا) طلب کی راہ میں الٹے نعل ہیں۔
مطلب: ترجمہ میں مقدرات کے اظہار سے یہ مقصود ہے کہ یہ تعجب مولانا کو نہیں بلکہ فریقِ مخالف تعجب کرے تو کر سکتا ہے۔ ورنہ حقیقت میں یہ تعجب کی بات نہیں اور مخالف کو تعجب یوں آ سکتا ہے کہ طلب سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مطلوب تک پہنچ جاویں۔ مگر یہاں الٹا حساب ہے ایک بندۂ دنیا تلفِ مال سے اس لئے گریز کرتا ہے کہ احتیاج و بے زری کی سوزش میں نہ جلے۔ مگر وہ آتش جہنم میں جلنے کا مستوجب ہو جاتا ہے۔ دوسرا بندۂ مولا رضائے مولا میں دنیوی جاه و دولت پر لات مار دیتا ہے اور کفار معاندین کی جلائی ہوئی آگ میں اپنے آپ کو ڈال دینے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے، تو وہی آگ اس کے لئے گلزار بن جاتی ہے۔ یہ تضادِ احوال نعلِ معکوسں کی مانند ہے کہ طلب ہوتی ہے کس چیز کی اور طالب نکل جاتا ہے کدھر۔
اختلافِ شارحین: ان تینوں آخری شعروں کے بیان، مطلب اور ربطِ مضمون میں شارحین مختلف ہیں۔ ہم نے جو انداز اختیار کیا ہے وہ کلیدِ مثنوی کے بیان کی روشنی میں سپردِ قلم ہوا ہے۔ اب ذرا دوسرے شارحین کی تحقیق معلوم کرنے کے لئے پھر تینوں شعروں کو زیرِ نظر کر لیجیے ؎
رحمتے دان امتحانِ تلخ رانقمتے دان ملکِ مرو بلخ را
آن براہیمؑ از تلف بگریخت ماندوین براہیمؑ از شرف بگریخت راند
این نسوزد وان بسوزد اے عجبنعلِ معکوس ست در راہِ طلب
یہ واضح رہے کہ اکثر نسخوں میں دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں ’’از تلف نگریخت‘‘ بصیغہ نفی درج ہے اور قلمی نسخہ بھی اس کے مطابق ہے۔ شرح مولانا بحر العلوم کا متن بھی صیغۂ منفی پر مشتمل ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ یہ مصرعہ شعر سابق کے مصرعہ اولیٰ کی مبین ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے آزمائش کے وقت آگ سے گریز نہ کی اور آپ ہلاک سے خائف نہ ہوئے تو اللہ سبحانہٗ کے حفظ میں رہے اور دوسرا مصرعہ بیتِ سابق کے مصرعہ ثانیہ کا مبین ہے۔ حاصل یہ کہ ابراہیم زرتشت نے شرف سے گریز کیا اور آتش پرستی کی اجازت دی تو وہ راندۂ درگاہ اور گرفتارِ نقمت ہو گیا۔ تیسرے شعر میں فرماتے ہیں کہ وہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام آگ میں نہ جلے اور آگ ان کی فرمانبردار ہو گئی اور اس زرتشت نے آگ کو معبود سمجھا۔ حالانکہ آگ اس کو جلا رہی ہے اور اس کی دشمن ہے کیونکہ وہ حق سے بعید ہو گیا (انتہٰی)۔ صاحب منہج القوٰی نے دوسرے مصرعہ میں ابراہیم زرتشت کے بجائے حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر سمجھا ہے اور یہ احتمال اوپر کے مصرعہ محاذی میں سلطنت مرو و بلخ کے ساتھ مناسبت رکھنے کے لحاظ سے مقرون بصواب بھی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ ابراہیم بن ادھم نے سلطنت بلخ سے دست بردار ہو کر فقیری اختیار کی تھی۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کا امتحان کرنا ایک طرح سے رحمت ہے اور مرو و بلخ وغیرہ کی سلطنت گونہ عذاب ہے۔ چنانچہ وہ ابراہیم علیہ السلام آگ میں گرائے جانے کے وقت ہلاک سے خائف نہ ہوئے اور سلامت رہے اور یہ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ دنیوی شرف و سیادت سے بھاگے تو ترقی کر گئے۔ تعجب ہے کہ یہ ابراہیم اوصافِ بشریہ کے پاک ہونے کے سبب سے آگ میں نہ جلے اور ان ابراہیم بن ادھم کو اوصافِ بشریہ میں کسی قدر ملوث ہونے کے سبب سے آتشِ رياضات میں جلنا پڑا، اور اس کا راز راہ طلب کا نعلِ معکوس ہے کیونکہ ابراہیم نبی علیہ السلام نے تلف سے گریز نہ کیا وہ بچ گئے اور ابرہیم ولی نے شرف سے گریز نہ کیا تو آتش میں پڑ گئے۔ حاصل یہ کہ بعض اوليا تلف کی جانب جاتے ہیں تو باقی با شرف رہتے ہیں اور بعض شرفِ ظاہری سے گریز کرتے ہیں تو شرفِ معنوی سے محظوظ ہو جاتے ہیں۔ ہذا ما قال۔