دفتر ششم: حکایت: 62
گفتنِ درزی تُرک را کہ اگر یکبار دیگر لاغ گویم قبایت تنگ شود
درزی کا تُرک کو کہنا کہ اگر ایک بار اور میں نے لطیفہ کہا تو تیری قبا تنگ ہو جائے گی۔
1
گفت درزی ترک را زین درگذروائے بر تو گر کنم لاغِ دگر
ترجمہ: درزی نے ترک کو کہا (اب) اس (مشغلہ) کو چھوڑ دے۔ تیرے حال پر افسوس ہو گا اگر میں اور تمسخر کروں گا۔ (یعنی تو تمسخر کی بات سن کر پھر لوٹ جائے گا اور میں پھر اپنی کارستانی کروں گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ:)
2
بس قبایت تنگ آید بازپساین کند با خویشتن خود ہیچ کس
ترجمہ: پھر تیری قبا بہت تنگ ہو جائے گی۔ بھلا کوئی شخص اپنے ساتھ ایسا (سلوک) کرتا ہے۔
3
سرِّ این خنده اگر دانستیےآن ز صد گریہ بتر دانستیے
ترجمہ: اگر تو اس ہنسی کے نتیجے کو سمجھتا تو اس کو صد ہا گریہ و زاری سے بدتر جانتا۔ (آگے مولانا کا ارشادی مقولہ ہے:)
4
ترک خنده کن اَیا اے ترکِ مستزانکہ عمرت رفت، خواہی گشت پست
ترجمہ: ارے او ترکِ مست! ہنسی چھوڑ دے کیونکہ تیری عمر گئی گذری، تو پست ہو جائے گا۔
مطلب: اے غافل! اشتعالِ شہواتِ ذمیمہ کو ترک کر دے۔ تیری عمر جو مشابہ اطلس کے ہے، ترک کے اطلس کی طرح ضائع ہو چکی۔ اگر اب بھی تو نہ سنبھلا تو اور بھی تباہ ہو جائے گا۔
5
چونکہ بنہاد آن قبا درزی زدستاسپ را برباد داد آن ترکِ مست
ترجمہ: جب درزی نے اُس قبا کو ہاتھ سے رکھا (اور ظاہر ہوا کہ ترک مدعی کی آنکھوں کے سامنے اچھا خاصا کپڑا اڑ گیا تو شرط کے موافق) اس ترک مست نے گھوڑے کو برباد کر دیا۔ (آگے ترک و درزی کے قصے کی تطبیق ہے جوابِ قاضی کے ساتھ:)
6
مخلصش بشنو تویے آن ترکِ گُولعالمِ غدّار خیّاطِ چو غُول
ترجمہ: (اب تم) اس (بیان) کا خلاصہ سن لو، وہ ترک احمق تو ہے۔ (یہ) بے وفا جہان درزی (ہے) جو شیطان سے مشابہ ہے۔
7
اطلسے کز بہرِ تقوٰی و صلاحدوخت باید خرچ کردی از مزاح
ترجمہ: (عمر کا) جو اطلس پرہیز گاری اور نیکو کاری کے لئے سینا چاہیے تھا تم نے اس کو مذاق اور دل لگی میں صرف کر ڈالا۔
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
بیا اے کہ عمرت بہفتاد رفتمگر خفتہ بودی کہ بر باد رفت
ہمہ برگِ بودن ہمے ساختیبتدبیر رفتن نہ پرداختی
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
زین پنج روزہ عمر کہ چون برق و باد رفتغم ہائے بے شمار باین دلفگار ماند
8
اطلست عمر و مضاحک شہوت ستروز و شب مقراض و خنده غفلت ست
ترجمہ: اطلس تیری عمر ہے اور ہزلیات شہوت ہے (اور) دن اور رات قینچی ہیں اور خنده غفلت ہے۔
9
اسپ ایمان ست و شیطان در کمین با خود آ افسانہ را بگذار ہین
ترجمہ: گھوڑا ایمان ہے اور شیطان (ان شرط باندھنے والوں کی طرح اس) تاک میں ہے (کہ اس گھوڑے کو تم سے اڑا لے) تم (ذرا) ہوش میں آؤ۔ خبردار! افسانہ کو چھوڑ دو۔
10
اطلسِ عمرت بمقراضِ شہوربُرد پارہ پارہ خیّاطِ غرُور
ترجمہ: (یہ) مکار درزی تمہاری عمر کے اطلس کو مہینوں کی قینچی سے (کتر کر) ٹکڑے ٹکڑے (کر کے) اڑا لے گیا۔
مطلب: یعنی مہینے گزرتے جاتے ہیں اور تمہاری عمر ختم ہوتی جاتی ہے جیسے امام شافعی کا قولِ مشہور ہے کہ ’’اَلْوَقْتُ سَیْفٌ قَاطِعٌ‘‘۔ یعنی ”وقت ایک کاٹنے والی تلوار ہے“ کہ اس کے گذرنے سے ہر چیز فنا ہوتی جاتی ہے۔ صاحبِ کلید فرماتے ہیں کہ عالم کو جو یہاں خیّاطِ غَرور اور غدّار کہا ہے۔ اسی طرح اس کے قبل کے اشعار میں فلک کو صاحبِ داستان اور عالمِ صاحب عشوہ کہا ہے اور بعض تصرفات کو بھی اس کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ سب محاورات شاعرانہ پر مبنی ہے ورنہ حدیث میں ’’سَبُّ الدَّہْر‘‘ سے ممانعت آئی ہے اور ’’اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الدَّھْرُ‘‘ میں دہر کی طرف تصرفات کی نسبت سے بھی ممانعت فرمائی ہے۔ چونکہ دہر ظرف ہے، واقعات کا اس کی طرف اسناد مجازی کر دی گئی۔ جیسے ’’اَنْبَتَ الرَّبِيْعُ الْبَقَلَ‘‘ اور چونکہ بانضمام جہل مکلّف وہ واقعات سبب ہو جاتے ہیں دھوکے میں پڑنے کے۔ اس کو داستان و عشوہ و غدر وغیرہ سے تعبیر کر دیا گیا۔ جیسے کہ اللہ کے قول میں غرور کو حیاتِ دنیا سے منسوب کیا گیا ہے کہ ﴿فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا﴾ (لقمان: 33) (انتہی)۔ آگے جوابِ قاضی کی طرف عُود ہے جو صوفی کے اس سوال سے متعلق ہے کہ ؎
گفت صوفی کہ چہ بودے کاین جہانابروئے رحمت کشادے جادوان
11
تو تمنّا مے بری کاختر مداملاغ کردے سعد بودے بر دوام
ترجمہ: تو تمنا کرتا ہے کہ ستارہ ہمیشہ خوش طبعی کیا کرتا (اور) ہمیشہ مبارک ہی رہتا۔
12
سخت مے تولی ز تربیعاتِ اووز وبال و کینہ و آفاتِ اُو
ترجمہ: تو اس کی نحوستوں سے گریز کرتا ہے اور اس کے وبال اور کینہ و آفات سے (گھبراتا ہے)۔
13
سخت مے رنجی ز خاموشیِ اووز نحوس و قبض و کین کوشیِ او
ترجمہ: (اگر کوئی مبارک ستارہ ہے) تو اس کے (مسرت انگیز باتوں سے) خاموش ہونے پر رنجیدہ ہوتا ہے۔ (جس طرح ترک کو درزی کی خاموشی ناگوار تھی) اور (اگر کوئی منحوس ستارہ ہے) اس کی نحوست اور رکاوٹ اور کینہ وری سے (ناراض ہوتا ہے)۔
14
مشتری و زہرہ چون در رقص نیست چونکہ بہرام و زحل را نقص نیست
ترجمہ: (اور کب ناراض ہوتا ہے) جبکہ مشتری و زہره (جو مبارک ستارے ہیں اپنی سعادت سے) رقص میں نہیں ہیں (اور) جبکہ مریخ اور زحل (جو منحوس ستارے ہیں ان کی نحوست) میں کمی نہیں ہے۔
15
کہ چرا زہرہ طرب در رقص نیستبر سعود و رقص و نحسِ او مایست
تر جمہ: (تو رنجیدہ اس بات پر ہوتا ہے) کہ کیوں خوشی (پیدا کرنے) والا زہرہ رقص میں (مشغول) نہیں ہے (آگے مولانا فرماتے ہیں کہ:) تو اس (مبارک و منحوس ستارے) کی سعادت و رقص اور نحوست پر اعتماد نہ کر۔
مطلب: کواکب کی سعادت کا متوقع اور ان کی نحوست سے متنفر ہونا فضول ہے۔ سعادتِ کواکب سے یہاں مراد لذات و شہوات ہیں اور نحوست سے مراد مصائب و بلیات۔ مطلب یہ کہ تم کو شہوات کے دلدادہ اور بلیات سے نالاں نہ ہونا چاہیے کیونکہ تمنائے شہوات کا نتیجہ سراسر نقصان و زیاں ہے۔ آگے بھی یہی ارشاد ہے:
16
اخترت گوید کہ گر افزون کنملاغ را پس کُلّیت مغبون کنم
ترکیب: اخترت میں تا ضمیرِ مفعولی ہے، یعنی ’’اختر ترا گوید‘‘۔ کلّیت کی تاء بھی ضمیرِ مفعولی ہے یعنی ترابکلی مغبوں کنم۔
ترجمہ: (تمہاری تمنائے شہوات پر) اختر تم سے کہتا ہے کہ اگر میں خوش طبعی زیادہ کروں گا تو تم کو بالکل ہی زیاں یافتہ کر دوں گا۔
مطلب: شہوات دنیہ اور لذاتِ دنیویہ کا انہماک عمر کو ضائع اور روح کو تباہ کر دیتا ہے۔
عمر خیام ؎
پیوستہ ز بہرِ شہوتِ نفسانیاین جانِ شريف را ہمے رنجانی
سعدی ؎
پدر چون دورِ عمرش منقضی گشتمرا این یک نصحیت کرد و بگذشت
کہ شہوتِ آتش از وے بپرہیز بخور بر آتشِ دوزخ مکن تیز
دران آتش نداری طاقتِ سوز بصبر آبے برین آتش زن امروز
17
تو مبیں قلّابِی این اخترانعشقِ خود بر قلب زن بیں اے فلان
ترجمہ: اے شخص! تو ان (منحوس) ستاروں کی گردش کو (نا پسندیدگی کی نظر سے) نہ دیکھ (بلکہ) اپنے عشق کو گردش واقع کرنے والے (قادرِ مطلق) سے متعلق (کرنا مناسب) سمجھ ؎
چھوڑ پروائے کواکب نہ ہو پابندِ فلکوہی ہوتا ہے جو کرتا ہے خداوندِ فلک
آگے گردشِ کواکب کی شکایت کرنے والوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی تسکین میں فرماتے ہیں: