دفتر ششم: حکایت: 61
خطاب با ہر نفسے کہ بمثلِ این بلا مبتلا ست
ہر نفس کے ساتھ خطاب جو اس قسم کی بلا میں مبتلا ہے
1
اے فسانہ گشتہ و محو از وجودچند افسانہ بخواہی آزمود
ترجمہ: اے شخص! جو (اپنی عبرتناک حالت سے لوگوں کے لئے بمنزلہ) افسانہ بن رہا ہے اور (اپنی) ہستی سے محو ہے تو کہاں تک افسانہ کو آزمائے گا۔
مطلب: اے غافل! تو کہاں تک اس ترک کے طلبِ افسانہ کی طرح دنیا کے سامانِ عیش کا طالب رہے گا۔ اور سیر ہونے میں نہیں آئے گا۔ حتی کہ تیری طلبِ دنیا میں انتہائی سعی اور سامانِ آخرت سے محرومی لوگوں کے لئے ایک عبرتناک افسانہ بن گئی۔
2
خنده مین تر از تو ہیچ افسانہ نیست بر لبِ گورِ خرابِ خویش ایست
ترجمہ: تجھ سے زیادہ مضحکہ خیز کوئی افسانہ نہیں۔ ذرا اپنی گورِ خراب پر کھڑا ہو (یعنی اپنی موت کو یاد کر)۔
3
اے فرو رفتہ بقبرِ جہل و شک چند جوئی لاغ و دَستانِ فلک
ترجمہ: اے شخص! جو جہل و شک کی قبر میں گڑا ہوا ہے تو زمانہ کی بازی اور فریب کا طالب کہاں تک رہے گا؟ (عیشِ دنیا جو دنیا کا ایک فریب ہے۔ اس کا طالب کب تک رہے گا؟)
4
تا بکَے نوشی تو عِشوہ این جہان کہ ز غفلت ماند بر قانوں نہ جان
ترجمہ: تو کب تک اس جہان کا فریب کھائے گا؟ اب تو نہ تیری عقل قانون پر ہے، نہ جان۔
5
لاغِ این چرخ ندیمِ کُرد و مَرِد آبروئے صد ہزاران چون تو بُرد
ترجمہ: اس چرخ کی بازی نے جو کہ باریش لوگوں اور بے ریش لڑکوں کا ندیم ہے۔ تم جیسے لاکھوں (غافلوں) کی اَبرو برباد کر دی۔
6
میدرد میدوزد این درزیِّ عام جامۂ صد سالگان و طفلِ خام
ترجمہ: یہ (زمانہ کا) درزی اعظم سو سال کے بڈھوں اور کم عمر بچوں کے لئے (کپڑے) قطع کرتا اور سیتا ہے۔
مطلب: ہر شخص اپنی قسمت کے موافق زندگی کا جامہ پاتا ہے اور وہ جامہ آخر کہنہ ہو کر اس سے اتر جاتا ہے۔ ﴿وَ مَا يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖ إِلَّا فِي كِتَابٍ﴾ (فاطر :11) ”اور نہ کسی کی عمر زیادہ اور نہ کم کی جاتی ہے مگر (یہ سب) کتاب (لوحِ محفوظ) میں (لکھا ہوا موجود) ہے۔“
زندگی انسان کی ہے بے اعتبارزندگی ہے اک لباسِ مستعار
پہنی ہو پوشاک جس نے مانگ کرحیف ہے اس پر وہ اترائے اگر
7
پیر و طفلان شستہ پیشش بہر گدتا بسعد و نحس او لاغے کند
ترجمہ: بڈھے اور بچے (سب) اس کے سامنے گدائی کے لئے بیٹھے ہیں تاکہ وہ (اپنے) سعد و نحس سے (ان کے ساتھ) بازی کرے (ہر پیر و جوان زمانہ سے اسبابِ معیشت کا سائل ہے اور ادھر وہ کسی کو آباد اور کسی کو برباد کر رہا ہے۔)
8
لاغِ او گر باغہا را داد داد چُون دَے آمد دادہا برباد داد
ترجمہ: اس کی بازی نے اگر باغوں کو (سرسبزی و شادابی کا) انعام بخشا ہے۔ تو جب خزاں آئی اس نے سب انعامات کو برباد کر دیا۔
مطلب : باغات کی سرسبزی ستاره سعد کی تاثیر سے ہے اور خزاں کی تباہ کاری ستارہ نحس کا اثر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہان کے اسبابِ عیش پر غافل نہ ہو کہ اس سے ضرر پہنچتا ہے۔ جیسے اس درزی کے لطائف و ظرائف نے ترک کو لہو میں مشغول کر کے نقصان پہنچایا۔ صاحب کلید فرماتے ہیں کہ سعد و نحس کا ذکر بناًء علی المشہور کر دیا۔