دفتر 6 حکایت 58: ایک ترک کا درزیوں کی چوری کا قصہ سننا

دفتر ششم: حکایت: 58



شنیدنِ ترک حکایتِ دزدی درزیان را

ایک ترک کا درزیوں کی چوری کا قصہ سننا


 چونکہ دزدیہائے بیرحمانہ گفت  کہ کنند آن درزیان اندر نہفت

2

اندران ہنگامہ تر کے از خطا  سخت تیره شد ز کشفِ آن غطا

ترجمہ: جب اس (داستان گو) نے ان بے رحمانہ چوریوں کا ذکر کیا جو (چور) درزی لوگ خفیہ طور سے کیا کرتے ہیں، تو اس مجمع میں ایک ترک جو خطا کا رہنے والا تھا اس پردہ کے کھلنے سے سخت مکدر ہوا۔ (دوسرے لوگ تو درزیوں کے ہتھکنڈے دیکھنے کے عادی تھے۔ اس لئے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ یہ ترک غیر علاقہ کا تھا، اور درزیوں کی کارستانیوں سے نا واقف تھا۔ اس لئے وہ یہ حال سن کر برہم ہوا۔)


شب چو روزِ رُستخیز آن رازہا  کشف می کرد از پئے اہلِ نُہٰی

ترجمہ: وہ (داستان گو) رات کے وقت روزِ قیامت کی طرح (جب کہ تمام لوگوں کے راز فاش ہو جائیں گے) درزیوں کے ان رازوں کو (جو ان کی چوری سے متعلق ہیں) اہلِ عقول کے لئے کھول رہا تھا۔ (یہاں جو قیامت اور اس کے کشفِ اسرار کا ذکر بطورِ تشبیہ آ گیا تو مولانا آگے اس کی تشبیہ کی تحقیق کی طرف بطورِ ارشاد انتقال فرماتے ہیں):

 4

ہر کجا آئی تو در کُنجے فراز  بینی آنجا دو عدُو درکشفِ راز

ترجمہ: تم جہاں بھی کسی گوشے میں آؤ گے تو وہاں دو دشمنوں کو (تم اپنے) راز کے فاش کرنے میں (مصروف ) پاؤ گے۔ (وہ دو دشمن کون کون ہیں؟)


5

آن زبان را محشرِ مذکُور دان وان گُلوے رازگو را صُور دان

 ترجمہ: (ایک تو زبان ہے) اس زبان کو محشرِ مذکور سمجھو۔ اور (دوسرا گلو) اس گلو کو جو راز بیان کرنے والا ہے، صورِ (اسرافیل) سمجھو۔ (گلو آواز نکالتا ہے تو زبان کشفِ راز کی قیامت برپا کر دیتی ہے۔ نہ گلو آواز نکالتا، نہ زبان بولتی، نہ صور پھونکا جائے، نہ قیامت آئے۔)

6

کہ خدا اسبابِ خشمی ساخت ست وان فضائح را بکوے انداخت ست

ترجمہ: (اور ان اسرار کے انکشاف کی وجہ یہ ہے) کہ خداوند تعالیٰ نے غصّے کے بعض اسباب پیدا کیے ہیں (ان اسباب سے غصے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور غصے کے واسطہ سے جب کہ آدمی بے سوچے سمجھے بولنے بکنے لگتا ہے) ان رسوائیوں (کی ہنڈیا) کو چوراہے میں ڈال دیا ہے۔

مطلب: آدمی خواہ کیسی ہی مخفی سے مخفی جگہ میں بیٹھ کر کچھ کہے اور خواہ کیسے ہی ہمراز آدمی سے کہے اس کا افشاں ہو جانا یقینی ہے۔ اسی بنا پر کہا ہے۔ ’’وَ سِرُّکَ مَا كَانَ عِندَ امْرِءٍ۔ وَ سِرُّ الثَّلاثَۃِ غَيْرُ الخَفِىِّ‘‘ یعنی ”راز وہی مخفی رہ سکتا ہے جو دل کے اندر محفوظ رہے۔ جو راز تین شخصوں (یعنی) زبان اور ہر دو لب کے درمیان آ جائے وہ مخفی نہیں رہ سکتا“۔

پس یہ زبان اور دونوں لب اور بقول مولانا زبان اور گلو گویا افشائے راز کرنے والے دشمن ہیں۔ لہٰذا کسی راز کو ان کے سپرد نہ کرنا چاہیے۔ آدمی اپنے اور دوسرے کے راز کا بے احتیاطی سے اظہار بلا غصہ بھی کرتا ہے مگر غصہ کے وقت کسی کے فضائح و عیوب کو طشت از بام کرنے پر جس شدید بے احتیاطی سے آمادہ ہوتا ہے، دوسرے وقت نہیں ہوتا دوسرے وقت احتیاط اور مصلحت اندیشی کا دامن اس کے ہاتھ سے بالکل باہر ہوتا ہے۔