دفتر ششم: حکایت: 57
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ وَّ لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ خَبِیْرٌ وَ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِنِ الدَّاعِی اِلَی اللّٰہِ وَ السِّرَاجِ الْمُنِیْرِ وَ عَلیٰ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ مَا تَعَاقَبَتِ الْاَعْوَامُ اِلیٰ یَوْمِ الْمَصِیْر اَمَّا بَعْدُ
یہاں سے مفتاح العلوم کی سولھویں جلد شروع ہوتی ہے۔ پندرہویں جلد کا خاتمہ ایک صوفی اور قاضی کی گفتگو پر ہوا تھا اور یہ سلسلۂ گفتگو صوفی کے اس سوال تک پہنچا تھا کہ حق تعالیٰ نے رنج و راحت، بہار و خزاں، ترقی و تنزل وغیرہ مختلف و متضاد احوال جو پیدا کیے ہیں تو ان میں کیا حکمت ہے۔ راحت، بہار، ترقی وغیرہ ایک طرح کے خوشگوار احوال پر اکتفا کیوں نہیں کیا تاکہ مخلوق آرام و اطمینان سے بسر کرتی۔ آگے قاضی اس کے جواب میں ایک ترک اور درزی کا قصہ سناتا ہے۔ جس کا ملخص یہ ہے کہ ایک ترک کو دعوٰی تھا کہ کوئی چالاک سے چالاک درزی بھی میرے کپڑے میں خیانت نہیں کر سکتا اور وہ اپنی زیرکی و بیدار مغزی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے ایک عیار درزی سے اطلس کا چوغہ قطع کرانے گیا۔ درزی نے جس کو گاہک کے رو برو کپڑا اڑانے کی مکمل مہارت تھی اس کو اس قسم کے عجیب و غریب لطائف و مضاحک اور امثال و حکایات سنائیں کہ وہ ان کی دلچسپی سے ہنسنے، قہقہے لگانے اور لطف اٹھانے میں مشغول ہو گیا اور اسے درزی کی قطع و برید کی طرف کچھ التفات نہ رہی۔ درزی نے جس طرح چاہا کپڑے سے ٹکڑے پر ٹکڑا کاٹ کر چھپایا اور اس زیرک کو الو بنایا۔ قاضی کا مقصد اس حکایت سے یہ ہے کہ دنیا کی خالص خوشی و مسرت تو اس ترک کی خوشی کی طرح، ایک طرح کا نشہ ہے جس میں سراسر نقصان ہے۔ غم و رنج ہی اس نشے سے بیدار کرنے والی کیفیات ہیں جو انسان کو نقصان سے بچاتی ہیں۔ پس راحت کے ساتھ رنج اور خوشی کے ساتھ غم کا ہونا قرینِ مصلحت ہے اور ان متضاد حالات کے پیدا کرنے میں خداوند تعالیٰ کی ہی حکمت ہے۔
جوابِ قاضی سوالِ صوفی را و قصۂ ترک و درزی را مثل آوردن
قاضی کا صوفی کے سوال کا جواب دینا اور ترک اور درزی کا قصہ بطورِ مثال پیش کرنا۔
1
گفت قاضی بس تہی رَو صوفیی خالی از فطنت چو کاف کوفیی
ترجمہ: قاضی نے کہا تم تو خالی ہاتھ جانے والے صوفی ہو (اور خط) کوفی (ک) کاف کی طرح عقل سے خالی ہو۔
2
تو نہ بشنیدی کہ آن پر قند لبغدرِ خیّاطان ہمے گفتے بشب
ترجمہ: کیا تم نے وہ (قصہ) نہیں سنا کہ ایک شیریں بیان (قصہ گو) رات کے وقت درزیوں کی دغا بازی بیان کرتا تھا۔
مطلب: قصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ قصہ گو درزیوں کی فریب کاری اور ان کے کپڑوں کے ٹکڑے چُرانے کا قصّہ سُنا رہا تھا۔ سامعین میں سے ایک ترک کو جوش آ گیا۔ بولا کوئی عیار درزی میرا کپڑا اڑا لے تو جانوں۔ یہ کہا اور ایک چالاک ترین درزی کے پاس اطلس کا چوغہ قطع کرانے جا پہنچا۔ درزی نے باتوں باتوں میں ترک کا من موہ لیا اور اس کو ایسے دلچسپ لطیفے سنانے شروع کیے کہ وہ ہنستا ہنستا لوٹ جاتا اور بیدم ہو جاتا۔ ادھر درزی آنکھ بچا کر کپڑا قطع کرتا ہوا اس کا ایک آدھ ٹکڑا کتر کر چھپا لیتا۔ قاضی کا مقصود اس حکایت سے یہ ہے کہ دنیا کی خوشی و مسرت اور عیش طرب جس کو تم غم و الم اور تکلیف و مصیبت کے شائبہ سے خالی دیکھنا چاہتے ہو، سراسر نقصان و خسران کا باعث ہے جس طرح اس ترک کی ہنسی خوشی نے اسے درزی کے ہاتھوں لٹوا دیا۔ غرض قصہ گو قصہ سنا رہا تھا۔ اور:
3
خلق را در دزدیِ آن طائفہمے نمود افسانہائے سابقہ
ترجمہ: وہ لوگوں کو اس جماعت کی چوری کے متعلق گذشتہ واقعات دکھا رہا تھا۔
4
قصہ پاره ربائی در بُرینمے حکایت کرد او با آن و این
ترجمہ: (وہ قصہ گو ان درزیوں کے کپڑا) قطع کرنے میں ٹکڑا اڑا لے جانے کا قصہ عوام کو سنا رہا تھا۔
5
درسَمَر مے خواند درزی نامۂگردِ او جمع آمده ہنگامۂ
ترجمہ: وہ داستاں گوئی میں (ایسا خوش بیان تھا گویا کتاب) درزی نامہ پڑھ رہا تھا۔ (اور مشتاقانِ سماعت کی) ایک بھیڑ اس کے گرد لگ رہی تھی۔ (آگے مولانا داستاں گو کی خوش بیانی کے ذکر سے ایک ارشادی مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)
بیان حدیث ’’اِنَّ اللّٰهَ يُلَقِّنُ الْحِكْمَةَ عَلٰى لِسَانِ الْوَاعِظِيْنَ بِقَدْرِ حِلْمِ الْمُسْتَمِعَيْنَ‘‘۔
اس حدیث کا بیان کہ اللہ تعالیٰ واعظوں کی زبان پر سامعین کی طلب کے موافق، حکمت کی باتیں جاری کر دیتا ہے۔ صاحب کلید فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی تو کچھ تحقیق نہیں لیکن مضمون بالکل صحیح اور تجربہ شدہ ہے۔
6
مُستمع چون یافت جاذبِ آن وقودجملہ اجزایش حکایت گشتہ بود
ترجمہ: اس آتش بیان (داستان گو) نے جب سامع کو (قصہ کا) جاذب (اور شائق) پایا تو اس کی رگ رگ (مجسم) حکایت بن گئی تھی۔
7
جذبِ سمع ست ار کسے را خوش لبی ستگرمیِ وجدِ معِلّم از صبی ست
ترجمہ: اگر کسی کی خوش بیانی (زور پر) ہے (تو اس کو سامعین کے حسنِ) سمع کا جذب (تحریک دے رہا) ہے (چنانچہ) مدرس کے ذوق (تقریر) کی گرمی لڑکے (کے شوق و توجہ) کی بدولت ہے (جو سبق پڑھ رہا ہے)۔
8
چنگیے را کو نواز و بست و چارچون نیابد گوش گرد و چنگ وار
ترجمہ: سرنگی بجانے والا جو چوبیس راگنیاں گاتا ہے۔ جب کوئی (سننے کا شائق) کان نہیں پاتا تو (مایوسی سے) سرنگی کی طرح (خم مَر اور خاموش) ہو جاتا ہے۔
9
نے حراره یادش آید نے غزلنے دہ انگشتش بجنبد در عمل
ترجمہ: (پھر) نہ اس کو ترانہ یاد آتا ہے، نہ غزل، نہ (بجانے کے) کام میں اس کی دس انگلیاں حرکت کرتی ہیں۔
10
گر نبُودے گوشہائے غیب گیروحی ناوردے ز گردُون یک بشیر
ترجمہ: (اسی طرح) اگر غیب کی باتیں قبولیت کرنے والے کان نہ ہوتے تو آسماں سے ایک فرشتہ بھی وحی نہ لاتا۔
مطلب: امورِ غیب کی اطلاع وحی کے ذریعے ہوتی ہے۔ اور وحی حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتہ کے ذریعے آتی تھی۔ جس کو پہلے انبیا علیھم السلام قبول کرتے پھر انبیا سے ان کی امّت اجابت قبول کرتی تھی۔ بشیر سے مراد فرشتہ ہے اور ایک بشیر کے لفظ سے متبادر ہوتا ہے کہ وحی لانے والے کئی فرشتے ہیں۔ سو حاملِ وحی صرف حضرت جبریل علیہ السلام ہیں۔ مگر وحی کے وقت ان کے ساتھ ملائکہ کی ایک جماعت ہوتی تھی۔ قال الله تعالىٰ ﴿اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ یَسْلُكُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًاۙ﴾ (الجن: 27) ”مگر ہاں اپنے برگزیدہ پیغمبروں پر تو وہ (بھی اس احتیاط سے کہ) اُن کے آگے اور اُن کے پیچھے (فرشتوں کا) پردہ رکھتا ہے۔‘‘
11
ور نُبودے دیدہ ہائے صنع بِیننے فلک گشتے نہ خندیدے زمین
ترجمہ: اور اگر (صانعِ حقیقی کی) صنّاعی (کا تماشا) دیکھنے والی آنکھیں نہ ہوتی تو نہ فلک گردش کرتا، نہ زمین (اس کی تاثیر سے) نباتات کے ساتھ رونق پذیر ہوتی۔
12
آن دَم لَولاک این باشد کہ کاراز برائے چشمِ تیز ست و نظار
ترجمہ: وہ لولاک کا مضمون بھی یہی ہے کہ (سب) صنعت (تخلیقی) چشم تیز اور صاحب نظر کے لیے ہیں۔
مطلب: چونکہ آنحضرت ﷺ اولاً اور آپ کے اتباع تبعاً صاحب نظر ہیں، اس لیے افلاک وغیرہ پیدا کیے گئے۔ اگر کوئی صاحبِ نظر نہ ہوتا تو پیدا نہ کئے جاتے۔ صاحب کلید فرماتے ہیں کہ یہ ایک توجیہ متحمل ہے لیکن چونکہ مطلوب اس پر موقوف نہیں اس لیے احتمالِ مخالف قادح و مضر نہیں۔ چنانچہ یہی مضمون کہ اہل نظر کی نظر للاستدلال علٰى التوحيد اعظم غایات ہے۔ خلق سمٰوٰت والارض کی اس آیت میں ارشاد کیا گیا کہو ﴿مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًاؕ﴾ (ص:27) (انتہی)
13
عامہ از عشقِ ہم خوابہ و طبقکے بود پرواۓ عشقِ صنعِ حق
ترجمہ: (مگر) تمام لوگوں کو (جو صاحبِ نظر نہیں ہوتے) ہمخواب عورت (کے لطفِ وصل) اور طشتِ طعام (کی لذتِ اكل) سے عشق کیوجہ سے حق تعالیٰ کی صناعی دیکھنے کی پروا کب ہوتی ہے؟
(آگے طلب کے جالبِ مقصود ہونے کی ایک اور مثال ارشاد ہے):
14
آب تُتماجی نریزی در تغارتا سگے چندے نباشد طعمہ خوار
ترجمہ: تم آش کا پانی (جو بعض جانوروں کی خوراک ہے) تغار میں (کبھی) نہ ڈالو جب تک کہ چند کتے طالبِ غذا نہ ہوں۔
15
رو سگِ کہفِ خداوندیش باشتا رہاند زین تغارت اصطفاش
ترجمہ: جاؤ حق تعالیٰ کی خداوندی کی غار کے کتے بن جاؤ۔ تا کہ اس کی برگزیدگی تم کو اس (حرص و شہوت) کے تغار سے چھڑائے۔
مطلب: جس طرح اصحابِ کہف کا کتا غار میں مطمئن بیٹھا ہے۔ ﴿وَ كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِؕ﴾ (الکہف: 18) اسی طرح تم بھی حق تعالیٰ کی خداوندی پر بھروسا رکھو تاکہ وہ شہوتِ بطن و فرج سے تم کو نجات دلائے۔ آگے عود ہے قصہ کی طرف: