دفتر 6 حکایت 56: پھر اس صوفی کا اس قاضی سے سوال کرنا ربطِ مضمون: صوفی نے پہلے یہ سوال کیا تھا کہ خالقِ واحد سے اضدادِ کثیرہ کا صدور کیونکر ہوا؟ جب قاضی کے جواب سے یہ شبہ رفع ہو گیا تو اب پوچھتا ہے کہ ان احوالِ متضادہ کے پیدا کرنے میں حکمت کیا ہے۔ ہر چیز کی ایک ہی خوشگوار حالت کیوں نہیں رہتی۔ اگر دنیا ایک ہی پُر لطف حالت پر رہتی تو اس میں کیا قباحت تھی "

دفتر ششم: حکایت: 56



باز سوالِ کردن آن صوفی ازان قاضی

پھر اس صوفی کا اس قاضی سے سوال کرنا

ربطِ مضمون: صوفی نے پہلے یہ سوال کیا تھا کہ خالقِ واحد سے اضدادِ کثیرہ کا صدور کیونکر ہوا؟ جب قاضی کے جواب سے یہ شبہ رفع ہو گیا تو اب پوچھتا ہے کہ ان احوالِ متضادہ کے پیدا کرنے میں حکمت کیا ہے۔ ہر چیز کی ایک ہی خوشگوار حالت کیوں نہیں رہتی۔ اگر دنیا ایک ہی پُر لطف حالت پر رہتی تو اس میں کیا قباحت تھی۔

1

گفت صوفی کہ چہ بودے کاین جہان  اَبْروئے رحمت کشادے جاودان

ترجمہ: صوفی نے کہا (اس میں) کیا (مضائقہ) تھا؟ کہ یہ عالم ابروئے رحمت کو ہمیشہ کشادہ رکھتا۔

2

 ہر دمے شورے نیاوردے بہ پیش  برنیاوردے ز تلوینہاش نیش

ترجمہ: (یہ عالم) ہر لحظہ (فتنہ و فساد کا) شور برپا نہ کرتا (اور) اپنی رنگ برنگیوں سے نیش کو ظاہر نہ کرتا۔

3

شب نہ دُزدیدے چراغِ روز را  دَے نبودے باغِ عیش اندوز را

ترجمہ: (کالی) رات دن کے چراغ (یعنی آفتاب) کو نہ چھپاتی۔ عیش بہم پہنچانے والے باغ کے لیے خزاں نہ ہوتی۔

4

جام صحت را نبودے سنگِ تب  ایمنی را خوف ناوردے کَرَب

ترجمہ: تندرستی کے پیالے کو بخار (وغیرہ کسی مرض) کے پتھر کا (خوف) نہ ہوتا (کہ وہ اس کو چکنا چور کر دے گا)۔ بے خوفی پرکوئی خوف اضطراب نہ لاتا۔

5

خود چہ کم گشتے ز جود و رحمتش  گر نبودے خرخشہ در نعمتش

ترجمہ: (غرض) اگر اس (منعمِ حقیقی) کی نعمت میں (زوالِ نعمت کا) خدشہ نہ ہوتا تو اس کی بخشش اور رحمت میں کونسی کمی آ جاتی۔ (شروع کے شعر میں رحمت کا اسناد مجاًزا ظرف یعنی جہاں کے ساتھ کیا تھا یہاں رحمت کے مسند الیہ حقیقی کو ظاہر کیا ہے۔)

6

حال بودے خوب و خوش بر جُملگان  تیره کم بودے روانِ اِنس و جان

ترجمہ: (پھر دنیا میں) سب کی حالت اچھی اور خوشگوار رہتی۔ انس و جن کی جاں مکدر نہ ہونے  پاتی۔

7

جاودان بودے حضور و ذوقِ خوش  دائما در جان بُدے ہم شوق خوش

ترجمہ: (اور اس یکساں خوشگوار حالت کا یہ نفع بھی ہوتا کہ) ہمیشہ حضور (مع اللہ) اور ذوقِ کامل (میسر) رہتا اور ہمیشہ روح میں شوقِ کامل بھی رہتا۔

مطلب : دائمی راحت و فراغت کا اثر حضور مع الله اور ذوقِ کامل سمجھنا نیک نیتی کا ثمرہ ہے۔ جیسے حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے صحابہ سے دریافت فرمایا کہ جب فتوحات اور سامانِ بے فکری کی وسعت ہو گی تو تمہارا کیا حال ہو گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بس کاروبارِ دنیا سے بے فکر ہو کر فراغِ خاطر سے خوب عبادت کریں گے اور حضور ﷺ نے اس کے جواب میں وسعتِ دنیا کا جو خاصہ بیان فرمایا تھا۔ یعنی اس سے دینی امور میں فتور آ جانا، وہی حاصل ہے قاضی کا یہ جواب انشاء اللہ اگلی جلد میں آئے گا۔

وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ عَلَی اخْتِتَامِ الْمجَلَّدِ الْخَامِس عَشَرَ مِنْ مِّفْتَاحِ الْعُلُوْمِ شرح مثنوی مولانا روم عَلٰی صَاحِبِھَا اَلْفُ اَلْفُ رَحْمۃٍ مِّنَ اللّٰہِ الْقَیُّوْم۔