دفتر 6 حکایت 55: اُن قاضی صاحب کا صوفی کو جواب دینا

دفتر ششم: حکایت: 55



جواب گفتنِ آن قاضی صوفی را

اُن قاضی صاحب کا صوفی کو جواب دینا

1

 گفت قاضی صوفیا خِیره مشو یک مثالے دربیانِ این شنو

ترجمہ: قاضی نے کہا اے صوفی! تو حیران نہ ہو اس کے بیان میں ایک مثال سن لے۔

2

این ببین و حالِ این را نیک دان ور نہ بینی حال را نیکو بخوان

ترجمہ:اس (مثال) کو (حواس سے) دیکھ لے اور اس کے حال کو اچھی طرح سمجھ لے اور اگر (اتفاق سے مثال کو) دیکھ نہ سکے تو اس کے حال کو اچھی طرح (میرے کلام میں) پڑھ لے (پھر یہ مثال سمجھ میں آ جائے گی اور استبعاد جاتا رہے گا)۔

3

 ہمچنانکہ بے قراریِّ عاشقان حاصل آمد از قرارِ دلستان

ترجمہ: (دیکھو) جس طرح عاشقوں کی بے قراری معشوق کے قرار سے حاصل ہوئی۔

4

 او چُو کُہ در ناز ثابت آمده عاشقان چون برگہا لرزان شده

ترجمہ: وہ (معشوق) تو ناز میں پہاڑوں کی طرح ثابت (قدم) ہے (اور) عاشق لوگ پتوں کی طرح کانپ رہے ہیں۔

5

 خندۂ او گریہ ہا انگیختہ آبرویش آبرو ہا ریختہ

ترجمہ: اس (معشوق) کی ہنسی نے عاشقوں کی نالہ و زاری بلند کر دی، اس کی آبرو نے بہت سی آبروئیں برباد کر دیں۔

مطلب: دیکھو یہاں قرار بے قراری کا مبدا ثبات، لرزہ کا مبدا، خنده گریہ کا مبدا اور آبرو بے آبروئی کی مبدا ہو گی اور یہ تمام مبادی معشوق کے افعال و صفات ہیں اور ظاہر ہے کہ محبوب کے ہر فعل کو عاشق کے عشق اور اس کے آثار میں دخل ہے۔ پس جس طرح ان مثالوں میں، مبادی و آثار میں تقابل ہے اسی طرح یہ تمام کائنات کی کثرت اس ذاتِ واحد سے صادر ہو رہی ہے۔ حالانکہ کثرت و وحدت میں تقابل بلکہ تضاد ہے۔ آگے خود مولانا یہی ارشاد فرماتے ہیں:

6

 این ہمہ چون و چگونہ چُون زَبَد بر سرِ دریائے بیچُون می طپد

ترجمہ: (اسی طرح) یہ تمام کیفیات (یعنی ممکناتِ کثیرہ) جھاگ کی طرح دریائے بیچوں کی سطح پر حرکت کر رہی ہیں۔

7

 ضِدّ و نِدّش نیست در ذات و عمل زان بپوشیدند ہستیہا حُلل

ترجمہ: ذات و افعال میں اس (بیچون) کی کوئی ضد اور مثل نہیں ہے اسی لیے موجودات نے (وجود کی) پوشاکیں پہن رکھی ہیں۔ (یعنی اس کی ضد نہ ہونے سے کائنات وجود میں آئی ہے۔ ورنہ کائنات پیدا نہ ہوتی۔ آگے اس کی وجہ ارشاد ہے:)

8

 ضِدّ ضِدّ را بود و ہستی کے دہد بلکہ زو بگریزد و بیرُون جہد

ترجمہ: ضد (اپنی) ضد کو وجود و ہستی (میں) کب (آنے) دیتی ہے؟ بلکہ اس سے گریز و کنارہ کشی کرتی ہے۔ (یعنی ضد اپنی ضد کی علتِ وجود نہیں ہو سکتی نہ دونوں مجتمع ہو سکتے ہیں اور ند یعنی مثل کا بھی یہی حال ہے چنانچہ:)

9

ندّ چه بود مثل، مثلِ نیک و بد مِثل، مثلِ خویشتن را کے کند

ترجمہ: نِدّ کیا ہے؟ (وه) مثل ہے (خواہ کسی) نیک کی مثل (ہو) اور (یا کسی) بد کی (مثل ہو اور) ایک مثل اپنی دوسری مثل کو کب بنائے گی؟

10

 چونکہ دو مثل آمدند اے متقی این چہ اولیٰ تر ازان در خالقی

ترجمہ: (کیونکہ) اے پرہیزگار! جب دو چیزیں (آپس میں من كل الوجوه) مثل ہیں، تو اس (ایک مثل) کو اس (دوسری) پر خالقیت (و علّيت) میں ترجیح کیوں؟ (یعنی دو مثلوں میں سے ایک کا علت اور دوسری کا معلول ہونا ترجیح بلا مرجح ہے)۔

11

 بر شمارِ برگِ بُستان ضِدّ و نِدّ چُون کفے بر بحر بے نِدّست و ضِدّ

ترجمہ: (غرض تمام عالم کے) اضداد و انداد باغ کے پتوں کی گنتی میں جھاگ کی طرح دریائے بے ضِدّ و نِدّ پر (جاری) ہیں (يہ عود ہے اوپر کے مضمون شعر ؎ ”این ہمہ چون و چگونہ چون زَبَد الخ‘‘ کی طرف)

12

بے چگونہ بین تو بُرد و ماتِ بحر چون چگونہ گنجد اندر ذاتِ بحر

ترجمہ: (اے مخاطب!) تو اس دریائے (قدم) کے تصرفات کو اس طرح دیکھ رہا ہے کہ ان کی کیفیت معلوم نہیں، تو پھر ذاتِ دریا میں کیفیت کے متعلق سوال کرنے کی گنجایش کہاں ہو سکتی ہے؟ (جب اس کے افعال اس قدر بے کیف ہیں تو اس کی ذات کے ہمارے فہم و عقل سے برتر ہونے کا کیا ٹھکانا)۔

13

کمترینِ لُعبتِ او جانِ تست این چگونہ و چُونِ جان کے شد درست

ترجمہ: (دیکھو) اس کا ادنیٰ سا کھلونا تمہاری رُوح ہے (کم از کم اسی پر غور کر کے دیکھو کہ) یہ رُوح کے متعلق چون و چگوں (کے ساتھ سوال کرنا) کیونکر درست ہے؟

14

 پس چنان بحرے کہ در ہر قطرہ زان زین بدن ناشی تر آمد عقل و جان

15

 کے بگنجد در مضیقِ چند و چُون عقلِ كل آنجاست از لَایَعْلَمُوْنَ

ترجمہ: پس ایسا دریا جس کے ایک ایک قطرہ میں اس (مقدار و کیفیت کے ساتھ موصوف ہونے والے) بدن سے زیادہ عقول و ارواح پیدا ہوتی ہیں (جو کہ مقدار و کیفیت سے منزہ ہیں) مقدار و کیفیت کے تنگ مقام میں کب سما سکتا ہے؟ وہاں تو عقلِ کل بھی نا وافقوں میں سے ہے۔

مطلب: جب اس کی ایک مخلوق مثلاً روح مجہول الکنہ والوصف ہے تو وہ خود جو کہ خالق ایسی ایسی بے شمار ارواح و عقول کا ہے۔ کیونکہ مدرک الکنہ و الوصف ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ممکن کا احاطۂ علمی ممکن ہے اور واجب کا محال۔ جب وہ ممکن ہی مثالِ محال ہو رہا ہے تو وہ محالِ حقیقی کب ممکن ہو گا؟ (کلید)

16

 عقل گوید مر جسد را کاے جماد بُوئے بردی ہیچ ازان بحرِ معاد

ترجمہ: عقل جسم کو کہتی ہے کہ اے (مخلوق) جمادی! تو نے اس بحرِ معاد کا کچھ سُراغ پایا؟ (یعنی عقل کنۂ حق کے سمجھنے میں جسم سے استمداد کرتی ہے)۔

17

 جسم گوید من یقین سایۂ توام یاری از سایہ کہ جوید جانِ عَم

ترجمہ: جسم (اس کے جواب میں) کہتا ہے میں یقیناً تیرا سایہ (یعنی تیرے تابع) ہوں۔ بھلا اے جانِ عم! (اپنے) سایہ (اور تابع) سے مدد کون مانگتا ہے؟

18

 عقل گوید کاین نہ آن حیرت سرا ست کہ سزا گستاخ تر از ناسزا ست

ترجمہ: عقل (پھر جسم سے) کہتی ہے کہ (ادراک کنہ میں) یہ (مقام) کوئی ایسا (معمولی) حیرت کدہ نہیں ہے کہ جس میں ایک قابلِ (ادراک) کسی نا قابلِ (ادراک) سے زیادہ دلیر ہو (یعنی یہ حیرت کا بہت بڑا مقام ہے جس میں قابل و نا قابل بس ایک صف میں کھڑے ہیں)۔

19

اندرین جا آفتابِ انورے خدمتِ ذرّه کند چُون چاکرے

ترجمہ: (بلکہ بعض صورتوں میں تو یہاں کامل کو ناقص کی طرف احتیاج ہوتی ہے۔ چنانچہ) اس مقام میں نورانی سُورج ذرّے کی خدمت کرتا ہے (اور خدمت بھی کیسی؟) غلامی کی مانند۔

20

 شیر این سو پیشِ آہو سر نہد باز این جا پیشِ تیہو پر نہد

ترجمہ: شیر اس طرف ہرن کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ باز یہاں تیتر کے آگے پر گرا دیتا ہے۔

21

 این ترا باور نیاید مصطفیﷺ چون ز مسکینان ہمی جوید دُعا

ترجمہ: (اگر) تم کو اس (بات) کا یقین نہیں آتا (کہ ادنیٰ سے اعلیٰ کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تو سنو) خود حضرت مصطفیٰ ﷺ مسکینوں سے دُعا کے خواہاں کیوں ہیں؟

مطلب: اوپر یہ ذکر تھا کہ عقل ادراکِ کنہ میں جسم سے امداد چاہتی ہے۔ اس لیے امکان کی تائید میں مطلق استفاده کا ذکر فرماتے ہیں جو بعض اوقات کوئی اعلیٰ ادنیٰ سے کیا کرتا ہے اور اس کی روشن ترین نظیر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو قرب و قبول میں سب مقربین سے افضل و اعلیٰ ہیں ازدیادِ قرب کے لیے اپنے سے کم رتبہ لوگوں کی دعا چاہتے ہیں۔ چنانچہ احادیث سے ثابت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’اَخِیْ اَشْرِکْنَا فِی الدُّعَا‘‘ ’’بھائی ہم کو بھی اپنی دعا میں شامل کر لیا کرو‘‘ اور امت کو تعلیم فرمایا کہ میرے لیے مقام وسیلہ کا سوال کیا کرو اور ترغیب دی کہ مجھ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا کرو کہ وہ بھی رحمت کی دعا ہے۔ ’’صَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ مُقْبَلَتَنِی‘‘ اور ظاہر ہے کہ اگر یہ سب دعائیں نافع نہ ہوتیں تو آپ امر کیوں فرماتے۔ دیکھئے کامل بلکہ اکمل نے خود اپنے غلاموں سے دعا کی درخواست فرمائی گو وہ غلام اس دعا کے قابل بھی حضور ہی کے طفیل سے ہوئے ہیں۔ آگے اس پر ایک شبہ اور پھر اس کا جواب نقل فرماتے ہیں:

22

 گر بگوئی از پٔے تعلیم بُود عینِ تجہیل از چہ رُو تفہیم بود

ترجمہ: اگر تم کہو کہ یہ (دعا کی درخواست امت کی) تعلیم کے لیے تھی (تاکہ وہ ازراہِ تواضع اپنے سے کم مرتبہ لوگوں سے دعائیں کرایا کریں نہ کہ استفادہ کے لیے) تو (اس کا جواب یہ ہے کہ پھر تو یہ) عین غلط فہمی میں ڈالنا ہوا۔ سمجھانا کیونکر ہو گا؟

مطلب: تعلیم و تفہیم تو بتانے اور سمجھانے کو کہتے ہیں اور یہاں بقول تمہارے جب دعا سے طالبِ دعا کو کچھ فائدہ متوقع نہیں تو طلبِ دعا کی ترغیب دینا گویا لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنا ہے۔ کیونکہ ایک کامل جو ناقص سے دعا کا طالب ہو گا، تو اس خیال سے ہو گا کہ مجھے اس کی دُعا سے فائدہ پہنچے گا۔ حالانکہ تمہاری دانست میں اس کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم مبارک تجہیل کے نقص سے پاک ہے۔ اس لیے تمہارا یہ احتمال باطل ہے کہ طلبِ دعا کی ترغیب محض تعلیم کے لیے ہے نہ کہ فائدہ کے لیے۔

23

 بلکہ می داند کہ گنجِ بے شمار در خرابیہا نہد آن شہریار

ترجمہ: (غرض آپ کی یہ طلبِ دعا محض تعلیم کے لیے نہ تھی) بلکہ (اس کی وجہ خاص یہ تھی کہ) حضور ﷺ جانتے ہیں کہ وہ بادشاہ بے شمار خزانہ کو ویرانے میں رکھتا ہے۔

مطلب: یعنی رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہے کہ اولیاء اللہ اکثر فقر و مسکنت کے لباس میں ہوتے ہیں۔ ان کی دُعا اللہ تعالىٰ قبول فرماتا ہے کیونکہ حق تعالیٰ اکثر عالی پایہ و گراں مایہ ہستیوں کو ذلت و خواری کے غبار میں چھپاتا ہے جس طرح خزانہ کو ویرانے میں چھپایا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے ’’رُبَّ اَشْعَثَ مَدْفُوعٍ بِالْاَبْوَابِ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہ لَاَبَرَّہٗ‘‘ (مسلم شریف، حدیث نمبر 6848) یعنی ”بہت سے پراگنده مو اشخاص ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کے دروازوں پر دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ (لیکن ان کا درجہ عند اللہ اس قدر بلند ہوتا ہے کہ) اگر وہ اللہ (کے بھروسے) پر قسم کھا لیں تو اللہ اسے ضرور پوری کر دے“ شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول منقول ہے کہ ”جس بندے کو اللہ پسند فرما لیتا ہے اس کو مخلوق پسند نہیں کرتی اور جو اپنے آپ کو خود پسند کر لیتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا“۔ سعدیؒ ؎

کسے را کہ نزدیک ظنّت بد او ست چہ دانی کہ صاحبِ ولایت خودِ او ست

درِ معرفت بر کسانی ست باز  کہ در ہا ست بر رُوۓ ایشان فراز

غرض رسول اللہ ﷺ مساکینِ اُمّت و غربائے ملّت سے دعا کے خواہاں اس لیے ہیں کہ آپ کو اس سے نفع متوقع ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ ایک عالی مرتبہ انسان بھی اپنے سے کم مرتبہ آدمی سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اسی بنا پر روح بدن سے ادراکِ کنہ میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ آگے یہ ارشاد ہے کہ محجوبین کی مساکین سے بدگمانی محض ان کی نادانی ہے۔

24

 بدگمانی نعلِ معکوسِ وی ست گرچہ ہر جُزویش جاسوسِ وی ست

ترجمہ: بدگمانی اس (ویرانہ) کا الٹا (نشانِ) نعل ہے (جو بد گمان کو سمتِ مخالف کی طرف لے جاتا ہے) اگرچہ (واقع میں دیوانہ کا) ہر جُز اس گنج کا سراغرسان ہے۔

مطلب: گھوڑے کے نشانِ نعل سے سوار کا سراغ مل سکتا ہے کہ وہ کدھر گیا ہے لیکن اگر بالفرض اس کے گھوڑے کے نعل الٹے ہوں تو ظاہر ہے پھر سراغرسان اس کا سراغ نہیں پا سکتا۔ بلکہ اگر سوار مغرب کو گیا ہے تو سراغرسان اس کی تلاش میں مشرق کو چلا جائے گا۔ یہاں مساکین اہل اللہ سے متعلق بدگمانی رکھنے کو نعلِ معکوس سے تشبیہ دی ہے کہ اسی طرح بدگمانی رکھنے والے بھی ان سے مستفیض ہونے کے بجائے ان سے متنفر اور ان کے فیوض سے محروم رہ جاتا ہے۔ اگرچہ عاقلین کی نظر میں ان کا تمام وجود حق تعالیٰ کی تجلیات کا مظہر ہوتا ہے۔

25

 بل حقیقت در حقیقت غرقہ شد زین سبب ہفتاد، بل صد فرقہ شد

ترجمہ: بلکہ در حقیقت (اہلِ ضلالت کی نظر میں) اصلیت ہی ناپید ہو گئی، اس سبب سے (اہل مذاہب کے) ستر بلکہ سو فرقے پیدا ہو گئے۔

مطلب: اوپر کہا تھا کہ نعلِ معکوس کا نشان حصولِ مطلب میں مانع ہوتا ہے۔ اب اس سے ترقی کر کے فرماتے ہیں کہ بلکہ یہاں نشان ہی ناپید ہے الٹے یا سیدھے نعل کا نشان سرے سے ہے ہی نہیں۔ الٹے نشان سے لوگ گمراہ ہوتے تھے مگر وہ سب کے سب گمراہی میں یکساں اور غلط عقیدے پر متفق تھے کیونکہ ان کی وجۂ استد لال ایک تھی۔ اب عدمِ نشان کی وجہ سے ہر شخص اپنے قیاس سے کام لیتا ہے اور جداگانہ نتیجہ اخذ کرتا ہے اس لیے ستر چھوڑ سینکڑوں مذاہبِ باطلہ پیدا ہو گئے۔ صاحبِ کلید فرماتے ہیں کہ یہاں ہفتاد فرقے سے مراد وہ مشہور فرقے اہلِ بدعت کے نہیں ہیں کیونکہ ان کی گمراہی غرقِ نعل کے مشابہ نہیں کہ خود اسلام پرست متفق ہیں۔ بلکہ مراد کفار کے فرقے میں اور ہفتاد سے مراد کثرت ہے اس لیے آگے صد بڑھا دیا تاکہ اور کثرت پر دلالت ہو اور واقع میں کفار کے فرقے صد ہا ہیں۔ پس بعض محشین کی یہ توجیہ کہ اہلِ بدعت کے فرقے اول بہتّر تھے جس کو بضرورت شعر ستر کہہ دیا پھر ان سے شعبے پیدا ہو کر سو ہو گئے یہ بناء الفاسد على الفاسد ہے (انتہٰی)۔ آگے عود ہے قاضی کے اصل جواب کی طرف یعنی ”گفت قاضی واجب آمد مان رضا“:

26

 با تو قُلما شیست خواہم گفت ہان صوفيا خوش پہن بکشا گوشِ جان

ترکیب: ’’با تو‘‘ جار و مجرور متعلق بہ ’’خواہم گفت‘‘۔’’قلما شیست‘‘ بمعنی قلما شے دیگر است۔

ترجمہ: ایک (عجیب نکتہ مثل) متاعِ گرانمایہ (اور بھی) ہے۔ میں تم سے بیان کروں گا ہاں اے صوفی! گوشِ جان کو اچھی طرح فراخ کر کے کھول (اور سن) لے۔

27

 مر تُرا ہر زخم کاید ز آسمان منتظر می باش خِلعت بعد ازان

ترجمہ: (وہ نکتہ یہ ہے کہ) تم کو جو صدمہ عالمِ بالا سے پہنچے اس کے بعد (غیبی) انعام کے منتظر رہا کرو۔ صائب: ؎

آورد روئے عشرت رُوئے زمین بمن تا قانع از جہاں بمقامِ رضا شدم

ولہٗ

عشق عالم سوز را تسلیم سازد مہربان  بر خلیل اللہ آتش سنبل و ريحان شود

28

آن قِفا دیدی صفا را ہم ببین گِردِ ران با گردن آمد اے امین

ترجمہ: تم نے وہ چپت تو دیکھ لی (جو اس بیمار نے میرے ماری) اَے امین! (اب اس کے انعام میں) صفائی (باطن) کو بھی دیکھو (جو مجھے حاصل ہونے والی ہے کیونکہ) رنج کے ساتھ راحت بھی (ملتی) ہے۔

مطلب: اہل اللہ کو ہر بلا و مصیبت کی تہ میں گوناگوں لذتیں محسوس ہوتی ہیں۔ حضرت المجدد رحمۃ اللہ علیہ کو جب جہانگیر بادشاہ نے نظر بند کر لیا اور وہ آپ کو بحالتِ نظر بندی اپنی جنگی مہمات کے سفروں میں ساتھ ساتھ لیے پھرتا رہا۔ آپ اس وقت احباب و اقارب کی دُوری اور ہزار ہا متوسلین کی مہجوری سے جو تکلیف اٹھا رہے ہوں گے اور نا اہلوں کی رفاقت اور بے دینوں کی صحبت سے جو تلخی محسوس کر رہے ہوں گے، ظاہر ہے۔ مگر آپ نے اپنے مکتوبات میں ان تکالیف اور تلخیوں کی لذت کا ذکر بڑے پُر لطف الفاظ میں فرمایا ہے۔ قاضی کہتا ہے کہ چپت کھا کر کم از کم میرے نفس کو جو ذلت حاصل ہوئی اور اس کے جذبۂ غرور کی جو سرکوبی ہوئی یہ بھی کیا کچھ كم انعام ہے جس سے تہذیبِ نفس و تزکیۂ باطن متصور ہے۔ حضرت ابراہیم ادھم سے کسی نے پوچھا کہ کبھی آپ نے اپنے نفس کی مراد پوری ہوتی بھی دیکھی۔ فرمایا دو دفعہ میرا نفس ذلیل اور میں کامیاب ہوا ایک دفعہ میں کشتی میں سوار ہوا، میرے کپڑے میلے اور پرانے تھے، بال بڑھے ہوئے اور الجھے ہوئے تھے۔ کشتی والے حقارت کے ساتھ مجھ پر ہنستے تھے۔ ایک مسخرے نے زبانی تحقیر کے علاوہ مجھے ہاتھ سے بھی ستانا شروع کیا۔ وہ بار بار میرے سر پر چپت لگاتا تھا اور میں اپنے نفس کی یہ ذلت دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کڑکڑاتے جاڑے میں زور کی بارش ہونے لگی میں سرما و باراں سے بچنے کے لیے ایک مسجد میں گھسا تو اہلِ مسجد نے مجھے ایک حقیر گلیم پوش دیکھ کر باہر نکال دیا۔ دوسری مسجد میں گیا تو وہاں سے بھی نکالا گیا۔ تیسری مسجد میں گیا تو وہاں بھی یہی سلوک ہوا۔ آخر میں نے ایک حمام کی بھٹی میں سر دے دیا۔ جس کی راکھ سے میرا منہ اور سر آلودہ ہو گیا اور میں نے اپنی مراد حاصل کی۔ غرض جب اللہ کے حکم سے یہ تکالیف و مصائب بندے کو پیش آتی ہیں تو حق تعالیٰ ان کے ثمرات سے بندے کو محروم نہیں رکھتا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

29

 کو نہ آن شاہ ست کِت سیلی زند کہ نہ تاج و تخت بخشد مستند

ترجمہ: کیونکہ وہ (بادشاہ حقیقی) ایسا بادشاہ نہیں ہے کہ تمہارے چپت لگائے تو تاج اور تکیہ دار تخت نہ بخشے۔

30

جملۂ دنیا را پرِ پشّہ بہا سیلئے را رشوتِ بے منتہا

ترجمہ: (یہ تمہاری غلطی ہے کہ تم دنیا کی عزت چاہتے ہو۔ حالانکہ) تمام دنیا کی قیمت مچھر کے پر کے برابر ہے (اور تم نا حق چپت کھانے سے ڈرتے ہو کیونکہ) ایک چپت پر بے انتہا انعام ملتا ہے۔

مطلب: حدیث شریف سے ثابت ہے کہ دنیا مچھر کے برابر بھی نہیں ’’لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰهِ جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ مَا سَقٰى كَافِرًا مِنْها شَرْبَةَ مَاءٍ‘‘۔ (ترمذی شریف، حدیث نمبر 2320) ترجمہ پیچھے گزر چکا ہے۔

31

 گردنت زین طوقِ زرّینِ جہان چُست در دُزد و ز حق سیلی ستان

ترجمہ: (بس) اپنی گردن دُنیا کے اس زریں طوق سے جلدی نکال لو اور حق کی طرف (کوئی) صدمہ (پہنچے تو اسے) قبول کرو۔ صائبؒ ؎

این کاہہا چنین کہ مقید بدان اند ہرگز بوصلِ کاہرباے نمی رسند

ولہٗ ؎ 

در دلِ ہر کہ رضا رنگِ اقامت ریزد چشم شورد سخن تلخ کم از زمزم نیست

32

 آن قِفا ہا کانبیا برداشتند زان بلا سر ہائے خود افراشتند

ترجمہ: جو صدمات انبیا علیہم السلام نے برداشت کئے ہیں ان بلاؤں سے انہوں نے سر بلندی حاصل کی ہے۔

33

 لیک حاضر باش در خود اے فتٰی تا بخانہ او بیاید مر تُرا

ترکیب: پہلے مصرعہ میں ’’خود‘‘ سے مراد خانۂ خود ہے مضاف الیہ کو مضاف کا قائم مقام کیا گیا ہے۔ دوسرے مصرعہ میں ’’خانہ‘‘ مضاف ’’ترا‘‘ اس کا مضاف الیہ آخر میں واقع ہوا ہے۔

ترجمہ: لیکن اَے جوان! (اس خلعت اور سربلندی کے حصول کی شرط یہ ہے کہ) تم اپنے (خانۂ قلب) میں حاضر مع الحق رہو تاکہ وہ (بادشاہِ حقیقی خلعت لے کر) تمہارے خانہ (قلب) میں آئے۔

مطلب: حصول خلعت کے لیے مطلق نزولِ بلا کافی نہیں بلکہ ایک خاص شرط یہ ہے کہ طالبِ خلعت کو حضور مع الحق حاصل ہو۔ یعنی وہ حق تعالیٰ کی طرف رضاء و محبت کے ساتھ متوجہ رہے۔ پھر امید ہے کہ حق تعالیٰ کی توجہ اس سے اس پر فیوض و برکات نازل ہوں گی۔ حدیثِ قدسی ہے ’’وَ مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّیْ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ ذِرَاعًا، وَ مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّيْ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا وَ مَنْ اَتَانِيْ یَمشِیْ اَتَيْتُهٗ هَرْوَلَةً‘‘ (مسلم شریف، حدیث نمبر 6981) اللہ فرماتا ہے ’’جو شخص مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے میں اس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں اور جو مجھ سے گز بھر قریب ہوتا ہے میں اس سے دونوں ہاتھوں کی درازی بھر قریب ہوتا ہوں اور جو شخص میری طرف چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں‘‘۔

 34

ورنہ خلعت را برد او باز پس کہ نیابیدم بخانہ ہیچ کس

ترجمہ: ورنہ (اگر تم حاضر مع الحق نہ رہے تو) وہ خلعت کو واپس لے جائے گا کہ میں نے تو گھر میں کسی کو نہیں پایا (تو خلعت کس کو دیا جاتا)۔

رفع اشتباه: ’’نیابیدم‘‘ پر یہ اشکال نہ کیا جائے اللہ تعالیٰ کے ’’یافتن‘‘ بمعنی دیدن سے کون سی چیز خارج ہو سکتی ہے۔ بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کا علم مطابق واقع کے ہے گو واقع سے متقدم بھی ہے۔ پس جو شخص حضور سے خالی ہے حق تعالیٰ کا علم اس کی نسبت یہی ہو گا کہ یہ خالی ہے۔ اتصاف بالحضور کا علم کیسے ہوگا ورنہ نعوذ باللہ علم میں غلطی لازم آئے گی۔ فافہم۔ (کلید)