دفتر 6 حکایت 54: صوفی کا قاضی سے ایک سوال کرنا

دفتر ششم: حکایت: 54



سوال کردنِ صوفی از قاضی

صوفی کا قاضی سے ایک سوال کرنا

1

 گفت صوفی چون زیک کان ست زر این چرا نفع ست و آن دیگر ضرر

ترجمہ: صوفی نے پوچھا کہ سونا جب ایک ہی معدن سے (آتا) ہے تو (ہر جگہ ایک ہی طرح کا ہونا چاہیے پھر معدنِ آفرینش سے) یہ (ایک مخلوق) مفید اور وہ دوسری مضر کیوں ہے؟

2

 چونکہ این جملہ ز یکدست آمد ست این چرا ہشیار و آن مست آمد ست

ترجمہ: جب یہ تمام (مخلوق) ایک دست (قدرت) سے (پیدا ہوتی) ہے تو (سب کی حالت ایک سی ہو پھر) کیا وجہ ہے کہ یہ ہوشیار ہے اور وہ مست ہے؟

3

چون ز یک دریا ست این جُوہا روان این چرا زہرست و آن نوشِ روان

ترجمہ: جب ایک دریا (ئے وحدت) سے یہ (مخلوقات کی) نہریں نکلی ہیں تو (سب یکساں ہونی چاہییں پھر) یہ زہر (کی طرح تلخ) اور وہ نوشِ جان (یعنی شیریں) کیوں ہے؟

4

 چون ہمہ انوار از شمسِ بقا ست صبحِ صادق، صبحِ کاذب از چہ خاست؟

ترجمہ: جب یہ تمام انوار نورِ آفتابِ بقا سے ہیں تو (سب کو برابر ہونا چاہیے پھر) صبح صادق اور صبح کاذب (الگ الگ) کیوں پیدا ہو گئیں؟

5

 چون ز یک سرمہ ست ناظر را کَحَل از چہ آمد راست بینی حوَل

ترجمہ: جب (ہر) آنکھ کو ایک سرمہ سے سرمگینی (حاصل ہوتی) ہے (تو ساری آنکھوں کی حالت مساوی ہو) پھر (کسی آنکھ میں) درست بینی اور (کسی میں) کج بینی کیوں ہے؟

6

 چونکہ دارالضَّرب را سلطان خدا ست نقد را چُون ضرب خُوب و ناروا ست

ترجمہ: جب ٹکسال کا بادشاہ خداوند (واحد) ہے تو (سب سکے بحالتِ واحد ہونے چاہییں پھر) نقدی کا ٹھپا کھرا اور کھوٹا کیوں ہے؟

7

 چون خدا فرمود ره را راہِ من ای خفیر از چیست و آن یک راہزن؟

ترجمہ: جب حق تعالیٰ نے راہِ (دین) کو راہِ من فرمایا ہے (جس کے امن کوئی خطرہ نہ ہونا چاہیے) تو پھر یہ (ایک شخص) راہبر اور وہ ایک راہزن کیوں ہے؟ (اس میں اس قسم کی آیات کی طرف اشارہ ہے ﴿وَالَّـذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّـهُـمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 69) ”جن لوگوں نے ہماری راہ میں کوششیں کیں ہم (بھی) ان کو ضرور اپنے راستے دکھائیں گے“ 

8

 از یک اِشکم چون رسد حَبر و سفیہ  چُون یقیں شد کہ اَلْوَلَدُ سِرُّ اَبِيْهِ

ترجمہ: ایک ہی پیٹ سے عالم و جاہل کیوں پیدا ہوتے ہیں جب کہ یہ یقینی ہے کہ اولاد اپنے باپ کا راز (خفی) ہوتی ہے۔

مطلب: یہ ایک مقولہ ہے یعنی باپ کے اندر اخلاق و اطوار کا جو ایک راز پنہاں ہوتا ہے وہ فرزند کی شکل میں ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔ اب ہر شخص فرزند کو دیکھ کر اس کے باپ کے اخلاق و اطوار کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس بنا پر کہتے ہیں کہ باپ کی تمام اولاد کو باپ کا نمونہ اور سب کو یکساں ہونا چاہیے۔ پھر ان میں تفاوت کیوں ہے؟

9

 وحدتے کہ دید با چندین ہزار صد ہزاران جنبش از عینِ قرار

ترجمہ: (اسی طرح) اتنے ہزار (آثارِ مختلفہ) کے ساتھ (مبدء کی) وحدت کس سے دیکھی ہے؟ (اور) لاکھوں حرکتیں عین قرار سے (کس نے دیکھی ہیں؟)

مطلب: جس طرح ایک باپ کی اولاد کا باپ کے اخلاق و اطوار سے متفاوت ہونا اور خود باہم مختلف ہونا موجب تعجب ہے۔ اسی طرح واحدِ حقیقی کو مخلوقاتِ لا تعداد و لا تحصی میں اختلافِ شدید ہونا باعثِ حیرت ہے اور یہ ایسی مثال ہے کہ جیسے مصدر میں قرار ہو اور اس سے صادر ہونے والے امور کثیرہ میں حرکت ہو۔ واضح رہے کہ اس سے نعوذ باللہ وحدت کی نفی پر استدلال مقصود نہیں بلکہ تعجب مقصود ہے۔ صوفی کے سوال کا حاصل یہ ہے کہ عادۃً یہ بات مستبعد معلوم ہوتی ہے کہ خالق جس میں کوئی حیثیت بھی اختلاف کی نہیں اس کی مخلوق میں ایسا اختلافِ عظیم ہو۔ با وجودیکہ ظاہراً مؤثر و متاثر میں اور جاعل اور مجعول میں اور مصدر و صادر میں اور علت و معلول میں مناسبت ہونی چاہیے۔ آگے قاضی اس سوال کا جواب دیتا ہے: