دفتر 6 حکایت 53: قاضی کا صوفی کو ٹھیک جواب دینا

دفتر ششم: حکایت: 53



جوابِ با صواب دادنِ قاضی صوفی را

قاضی کا صوفی کو ٹھیک جواب دینا

 1

گفت قاضی واجب آمد مان رضا ہر قفا و ہر جفا کآرد قضا

ترجمہ: قاضی نے کہا ہم لوگوں کو راضی (بقضا) رہنا ضروری ہے ہر اس (غیبی) چانٹے اور سختی پر جو قضا (ۓ الٰہی ہم پر) نازل کرے (ایک نسخہ میں ہر قضا کے بجائے ہر وفا درج ہے، مگر باقی نسخوں میں جن میں قلمی نسخہ بھی ہے ہر قفا لکھا ہے)۔

2

 خوش دلم در باطن از حکمِ زُبُر  گرچہ رُویم شد تُرش کہ اَلْحَقُّ مُرْ

ترجمہ: اس لیے میں باطن میں کتب (الٰہیہ) کے حکم پر خوش دل ہوں (جن میں رضا بقضا کا حکم لکھا ہے) اگر چہ (ظاہر میں) میرا منہ ترش ہو گیا کیونکہ (امر) حق (طبعاً) تلخ ہوتا ہے۔

3

 این دلم باغ ست و چشم اَبروَش  ابر گرید باغ خندد شاد و خوش

ترجمہ: میرا یہ دل باغ ہے اور میری آنکھ ابر کی مانند ہے (تو دیکھو) ابر روتا ہے (اور) باغ شاد و خوش ہنستا ہے (اسی طرح میرا ظاہر ترش ہے اور باطن مسرور ہے۔ آگے مولانا فضیلتِ بکا کی طرف انتقال فرماتے ہیں)۔


4

سالِ قحط از آفتابِ خیره خند  باغہا در مرگ و جان کندن رسند

ترجمہ: قحط سالی میں (جب گریۂ ابر نہیں ہوتا) آفتاب (کی حدت) سے جو بے باکی کے ساتھ ہنستا ہے، باغات موت اور جانکنی کو پہنچ جاتے ہیں (ابر و باراں کے نہ ہونے سے آفتاب کی روشنی تیز اور زیادہ گرم ہوتی ہے غرض اس سے خندہ کی خرابی اور گریہ کی خون ثابت ہوئی)۔

5

ز امرِ حق وَابْکُوْا کَثِیْرًا خواندۂ چُون سرِبریان چہ خندان ماندۂ

ترجمہ: حق تعالیٰ کے (بصیغۂ) امر (کفار کو ان کے حال پر یوں مطلع فرمانے سے کہ) ”اور تم خوب روؤ گے‘‘ تم پڑھ چکے ہو (پھر بکری کی اس) سری کی طرح جو آگ پر بھونی جا رہی ہو کیوں ہنس رہے ہو۔

مطلب: قرآن مجید کے کلمات یوں ہیں ﴿فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیرًا (التوبہ: 82) وزن کی مجبوری سے لام اور یا درج نہ ہو سکے۔ پہلے مصرعہ کے ترجمہ میں تکلف کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ مولانا کے کلام سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے اس آیت میں بکاء کا حکم دیا ہے، حالانکہ یہ بات نہیں بلکہ منافقین کو جو ایک غزوہ میں شریک ہونے سے ٹل گئے تھے اور مسلمانوں سے استہزا کرتے تھے۔ بطورِ وعید فرمایا ہے کہ آج تم ہنستے ہو مگر ایک دن ایسا آئے گا کہ تم کو بہت رونا پڑے گا۔ پس یہ امر نہیں بلکہ خبر ہے بکری کی سری کو جب بھونتے ہیں تو اس کا چمڑا سکڑ جانے سے دانت ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اس کی اس حالت کو ہنسی سے تشبیہ دی ہے۔ پس مطلب یہ ہے کہ جب حق تعالیٰ نے منافقین کو ان کے خندۂ بیجا پر وعید کی ہے تو تم کیوں خندہ کرتے ہو۔

6

روشنیِ خانہ باشی ہمچو شمع  گر فروباری تو ہمچون شمع دمْع

ترجمہ: تم شمع کی طرح گھر کے (بقعۂ) نور (بن جانے کے باعث) ہو جاؤ اگر شمع کی طرح اشکباری کرو۔

نورِ خورشید دہد دیدۂ دل را صائب  گریہ چون شمع نہان در دل شبہا کردن

7

 آن ترشروئیِ مادر یا پدر حافظِ فرزند شد از ہر ضرر

ترجمہ: ماں یا باپ کی وہ ترش روئی (جو) فرزند (کی کسی بری حرکت پر ہوتی ہے اس) کو ہر ضرر سے بچاتی ہے (بخلاف اس کے اگر ماں باپ اس کی حرکت پر ہنستے تو وہ گستاخ نڈر اور لوگوں کے لیے خطرناک اور خود موردِ آفات ہو جاتا)۔ وَ نِعْمَ مَا قَالَ الصَّائِبؒ ؎

خنده کردن رخنہ در قصرِ حيات افگند ست میشوی از ہر نسیمے ہمچو گل خندان چرا

8

ذوقِ خنده دیدهٔ اے خیره خند ذوقِ گریہ بین کہ ہست آن كانِ قند

ترجمہ: اے بیبیاکی سے ہنسنے والے! تم نے ہنسی کا (تلخ) مزا تو دیکھ لیا (اب) گریہ (و بکا) کا (شیریں) ذائقہ بھی دیکھو کہ وہ قند کی کان ہے۔

9

 چون جہنم گریہ آرد یادِ آن  پس جہنّم خوش تر آید از جنان

ترجمہ: (گریہ و بکا ایسی مفید و مغتنم ہے کہ) جب جہنم کی یاد سے رونا آئے (اور قیامت کو اس رونے سے ثمرات حاصل ہوں گے) تو (اس وقت وہ) جہنم بہشت سے بھی زیادہ پیاری معلوم ہو گی (کہ اس کی یاد سے ثمرات ملے)۔

10

خندہا در گریہا آمد کتیم   گنج در ویرانہ ہا جُو اے سلیم

ترجمہ: (یہ) گریہ و زاری (تو ایسی چیز ہے کہ اس) میں (گونا گوں) ہنسیاں پنہاں ہیں۔ اے سیدھے سادھے آدمی! (جس طرح) ویرانوں میں خزانہ تلاش کیا جاتا ہے (اسی طرح ہنسی کو رونے میں تلاش کرو)۔ وَ نِعْمَ مَا قِیْل ؎

بود شہدِ تبسم گریۂ تلخِ پشیمانی  لب از حسرت گزیدن خندۂ دندان نما باشد

11

ذوق در غمہا ست پَے گم کرده اند  آبِ حیواں را بہ ظلمت بُرده اند

ترجمہ: غموں میں ذوق (و سرور) ہے (مگر بحکمِ حق اس کا) نشان گم کر دیا گیا ہے (تاکہ سرورِ عاجل کی خواہش کرنے والوں اور راحتِ آجل کے منتظر رہنے والوں کا امتحان ہو جائے جیسے کہ) آبِ حیات کو تاریکی میں رکھا گیا ہے۔ حافظؒ ؎

دمے با غم بسر بردن جہان یکسر نمی ارزد بمی بفروش دلقِ ماکزین بہتر نمی ارزد

صائبؒ ؎ 

خوش آنکہ از دو جہان گوشہ غمے دارد  ہمیشہ سر بگریباں ماتمے دارد

(آگے ایسی نظیر پیدا کرنے کی ترغیب ہے جس سے سرورِ عاجل اور راحتِ آجل کا فرق سوجھ سکے):

12

 باژگونہ نعل از ره تا رُباط  چشمہا را چار کن در احتیاط

ترجمہ: راستے سے (لے کر) منزل تک الٹے نعل بنے ہوئے ہیں (تاکہ منزل کا پتا نہ لگے پس) تم (منزل شناسی کے لیے) بطورِ احتیاط (دو کی بجائے) چار آنکھیں بنا لو (جو شخص چاہتا ہے کہ کوئی سراغ نہ پا سکے وہ جوتے میں الٹے نعل لگا لیتا ہے، تاکہ اگر وہ مشرق کو گیا ہے تو لوگ اس کی تلاش میں مغرب کو نکل جائیں)۔

13

 چشمہا را چار کن در اعتبار  یار کن با چشمِ خود دو چشمِ یار

ترجمہ: (پس اگر تم سراغ پانا چاہو تو) عبرت (اور استدلال صحیح) کے لیے (دو کے بجائے) چار آنکھیں بنا لو (یعنی) اپنی آنکھوں کے ساتھ (مرشد) محبوب کی دو آنکھیں شامل کر لو۔ حافظؒ ؎

خیز تا از در میخانہ کشادے طلبیم  بر در دوست نشینیم و مرادے طلبیم

14

 اَمْرُهُمْ شُوْرٰی بخواں اندر صُحُف  یار را باش و مکن از ناز اُف

ترجمہ: کتبِ الٰہیہ ہیں۔ اَمْرُهُمْ شُوْرٰی پڑھ لو۔ مرشد (محبوب) کے ہو کر رہو اور ناز (دعوائے استغنا) کے سبب اُف (کا کلمہ) نہ کہو۔

مطلب: پوری آیت یوں ہے ﴿وَالَّـذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِـمْ وَ اَقَامُوا الصَّلَاةَۖ وَ اَمْرُهُـمْ شُوْرٰى بَيْنَـهُمْۖ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُـمْ يُنْفِقُوْنَ(الشورٰی: 38) ”اور جو اپنے پروردگار کا حکم مانتے اور نماز پڑھتے اور ان کے (جتنے) کام (ہیں) آپس کے مشورے (سے ہوتے) ہیں اور ہم نے ان کو جو دے رکھا ہے اس میں سے (راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں)‘‘۔ 

15

 یار باشد راه را پشت و پناه  چونکہ نیکو بنگری یار ست راہ

ترجمہ: (مرشد) محبوب (ہی) طریق (سلوک میں مرید) کا پشت و پناه ہوتا ہے۔ اگر تم اچھی طرح غور کرو تو مرشد (کی صحبت) ہی طریقِ سلوک ہے۔

مطلب: مرشد کی صحبت طریقِ سلوک میں از بس ضروری ہے ورنہ سخت خطرہ ہے۔ حافظؒ ؎

طريقِ عشق پُر آشوب و فتنہ است اے دل  بیفتد آنکہ درین رہ برہبرے نرسید

اگر مرشد کے ساتھ محبت و تعلقِ روحی کا رابطہ قوی ہو تو پھر کسی بات کی ضرورت نہیں اور ’’یار ست راہ‘‘ کا مطلب یہی ہے۔ پیچھے کسی جلد میں حضرت المرشد سلمہ الله تعالیٰ کا ارشاد نقل کیا گیا تھا جس کا ملخص یہ ہے کہ رابطہ شیخ اگر بوجۂ کامل حاصل ہو تو حصولِ کمال کے لیے یہی کافی ہے۔ پھر اذکار و مراقبت کے بغیر ہی سلوک طے ہو سکتا ہے۔ یہاں تک پیر کی رفاقت کی تعلیم تھی۔ آگے عام رفقائے اہل فضل کی رفاقت کے بعض آداب ارشاد فرماتے ہیں:

 

16

 چونکہ در یاران رسی خامُش نشین  اندران حلقہ مکن خود را نگین

ترجمہ: جب تم (ایسے بزرگ) رفقا (کی محفل) میں پہنچو تو خاموش بیٹھے رہو اس حلقہ میں (اظہارِ فضل و علم سے) اپنے آپ کو (حلقہ انگشتری کے) نگینے کی طرح نمایاں کرنے کی کوشش نہ کرو۔ سعدیؒ ؎

بچشمِ کسان در نیاید کسے کہ از خود بزرگی نماید بسے

اگر کوتہی، پائے چوبین مبند کہ در چشمِ طفلان نماید بلند

17

در نمازِ جمعہ بنگر خوش بہ ہوش  جملہ جمعند و یک اندیش و خموش

ترجمہ: (اس کی تائید میں) تم) جمعہ کی نماز میں (خطبہ کی کیفیت) اچھی طرح ہوش کے ساتھ دیکھ لو (کہ وہاں) سب (طرح کے کثیر الکلام اور شریں بیان لوگ) جمع ہیں اور (پھر کوئی نہیں بولتا بلکہ استماعِ خطبہ میں سب) یک خیال اور خاموش رہتے ہیں (اسی طرح بزرگوں کی صحبت میں خاموش بیٹھنا چاہیے)۔

18

 رختہا را سوئے خاموشی کشان چون نشان جوئی مکن خود را نشان

ترجمہ: (غرض) تم خاموشی (کے مقام) میں (اپنا) ٹھکانا بناؤ۔ اگر تم (حقیقت کا) نشان تلاش کرتے ہو تو اپنے آپ کو نشان (کی طرح ممتاز و مشہور) نہ بناؤ۔

19

 گفت پیغمبر کہ در بحرِ ہموم  در دلالت دان تو یاران را نجوم

ترجمہ: پیغمبرِ خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ غم و فکر کے دریا میں (جب اطمینان کا ساحل نظر نہ آئے تو کسی کشتیِ قلب کی) رہنمائی کے لیے (ہمارے) اصحاب کو ستارے سمجھو (اور ان کی رفتار سے راستہ معلوم کرو۔ اشاره بحديث ’’اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَيِّهِمُ اقْتَدَیْتُمُ اھْتَدَیْتُمْ‘‘ (مشکٰوۃ المصابیح، حدیث 6009) یعنی ’’میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی تم پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے‘‘)۔

20

 چشم در استارگاں نہ، رہ بجوے نطق تشویشِ نظر باشد، مگوے

ترجمہ: (پس اپنی) آنکھ کو (ان آسمانِ صحبتِ نبوی کے) ستاروں میں جمائے رکھو (اور ان کی مدد سے) راہ تلاش کرو۔ بولنا نظر کی تشویش (کا باعث) ہے (اس لیے) مت بولو (بغور نظر کرنے والا بولتا نہیں اگر بولے تو کسی چیز کی طرف بغور نظر نہیں کر سکتا۔ مطلب یہ کہ بزرگوں کے ملفوظات سنو اور سوچو، خود نہ بولو)۔

21

 گر دو حرفِ صدق گوئی اے فلان  گفت تیره در تبع گردد روان

ترجمہ: (اور) اے شخصِ (غیر کامل! تو خواہ حضورِ شیخ میں نہ ہو بہرحال خاموش ہی رہے تو اچھا ہے کیونکہ) اگر تم دو باتیں ٹھیک کہو گے تو اس کے ساتھ ہی مکدر کلام جاری ہو جائے گا۔

22

 این نخواند کہ الكلام اے مستہام فِیْ شُجُوْنٍ جَرَّهٗ جَرُّ الْكَلَام

ترجمہ: اے مردِ حیران! کیا تم نے یہ (کہیں لکھا ہوا) نہیں پڑھا کہ کلام (مختلف) شعبوں میں (واقع ہو جاتا ہے اور) کلام (کے سلسلے) کی درازی اس کو (کسی نہ کسی شعبے میں) کھینچ لے جاتی ہے۔

مطلب: ایک مثل مشہور ہے ’’اَلْحَدِيْثُ ذُوْ شُجُوْنٍ‘‘ (شرح السنۃ للبغوی، حدیث نمبر 3434) ایک بات دوسری بات کو نکال لاتی ہے۔ مولانا نے اس شعر میں دونوں مثلوں کو جمع فرما دیا ہے۔ آگے اسی بیان کا حاصل ارشاد ہے:

23

ہِین مشو شارع دران حرفِ رَشَد  چون سخن بیشک سخن را می کَشَد

ترجمہ: ہاں! تم اس ٹھیک بات کا آغاز ہی نہ کرو (تاکہ مکدر کلام کے آنے کی نوبت ہی نہ آئے جب کہ بلاشبہ ایک) بات، (دوسری) بات کو کھینچ لاتی ہے۔

24

 نیست در ضبطت چُو بکشادی دہان  درپَے صافی شود تِیره روان

ترجمہ: (اور اس کی وجہ یہ ہے کہ) جب تم منہ کھول دو (اور بولنے لگو تو کلام) تمہارے قابو میں نہیں رہتا (اس لیے صاف کلام) کے پیچھے مکدر (کلام) چل پڑتا ہے۔ (غیر کامل کے بعد اب کامل کے کلام کا ذکر فرماتے ہیں):

25

 آنکہ معصومِ رہِ وحیِ خدا ست  چون ہمہ صاف ست بکشاید روا ست

ترجمہ: (البتہ) وہ (انسانِ کامل) جو وحیِ الٰہی کی راہ کا شہسوار (اور) لغزش سے محفوظ ہے چونکہ وہ سب (پاک) صاف (کلام بولتا) ہے (اس لیے اگر) وہ (کلام پر منہ) کھولے تو روا ہے۔

26

 زانکہ مَا یَنْطِقُ رَسُوْلٌ بِالهَوٰى کے ہوا زاید ز معصومِ خُدا

ترجمہ: کیونکہ کوئی رسول خواہش (نفسانی) سے نہیں بولتا (اور) جس کو خدا (نفسانیت سے) محفوظ رکھے اس سے خواہشِ نفسانی کب پیدا ہوتی ھے؟ (اشاره بکلام حق تعالیٰ ﴿وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ (النجم: 3-4)

27

خویشتن را ساز مِنْطِیقے ز حال  تا نگردی ہمچو من سخره مقال

ترجمہ: (پس) تم (بھی ان حضرات کے اتباع میں) اپنے آپ کو (قال کے بجائے) حال سے کثیر النطق بنا لو تاکہ تم میری طرح مغلوبِ گویائی نہ ہو جاؤ

مطلب: مولانا نے بطور تواضع و فروتنی اپنے آپ کو مغلوبِ مقال کہا حالانکہ آپ اہل حال ہیں اور آپ کا سارا کلام بھی حال کا آئینہ ہے۔ اس صورت میں آپ نے مخاطب کو اپنے ساتھ مغلوبیت منفیہ میں تشبیہ دی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نفیِ مغلوبیت میں تشبیہ مراد ہو جس کی تقدیر یوں ہو گی کہ ’’چنانکہ من سخره مقال نگردیدم تو ہم نگردی‘‘ یعنی ”تم بھی میری طرح مسخر مقال ہونے سے بچ جاؤ“ مگر اس میں ایک طرح سے انانیت کی بُو پائی جاتی ہے جو مولانا کی شان سے بعید ہے۔

پیچھے قاضی کا یہ قول گذر چکا ہے کہ ہم کو تمام مصائبِ مقدرہ پر راضی بقضا رہنا چاہیے۔

گفت قاضی واجب آمد مان رضا  ہر قَفا و ہر جفا کآرد قضا

آگے اس کے متعلق صوفی سوال کرتا ہے کہ خداوندِ واحد سے جفا و وفا، سخط و رضا، منع و عطا، وغیرہ اضداد کا صدور کیونکر ہوتا ہے، جبکہ واحد بسیط سے امورِ متکثرہ و متضادہ کا صدور عادۃً ممتنع ہے۔