دفتر ششم: حکایت: 51
ہم در تقریرِ قصۂ قاضی و صوفی
پھر قاضی اور صوفی کے قصے کے ذکر میں
1
گفت قاضی ثَبِّتِ الْعَرش اے پسر تا برو نقشے کنم از خیر و شر
ترجمہ: قاضی نے کہا اے عزیز! پہلے محل قائم کرو تاکہ اس پر اچھا یا برا نقش کروں۔
مطلب: ’’ثَبِّتِ الْعَرْشَ ثُمَّ انْقُشْ‘‘ ایک مثل ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ پہلے تخت کو قائم کرو پھر اس پر نقش و نگار کرو۔ یعنی ہر تصرف کے لیے محل ہونا چاہیے۔ مطلب یہ کہ حکمِ سزا کے لیے پہلے ملزم کو دیکھ لو کہ مستوجب سزا ہے یا نہیں پھر دعویٰ کرو۔ سو ظاہر ہے کہ
2
کو زنندۂ، کو محلِّ انتقاماین خیالے گشتہ است اندر سقام
ترجمہ: کہاں (غریب) مارنے والا (ایک نیم جان آدمی)؟ (اور اس کی مار ہی کیا؟ اور) کہاں انتقام کا محل؟ (کہ وہ سزا کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا) (ارے!) یہ تو (اس کو) بیماری کی حالت میں مارنے کا ایک خیال سا ہو گیا (اس لیے مار بیٹھا ہو گا)۔
3
شرع بہرِ زندگان و اغنيا ست شرع بر اصحابِ گورستان کجا ست
ترجمہ: (تم حکمِ شرع کے مطابق طالب انتقام ہو حالانکہ) شرع (میں جسمانی سزا) زندوں کے لیے اور (مالی تاوان) مال داروں کے لیے ہے۔ شرع (کا حکم) قبروں والوں پر کہاں ہے؟ (جو نہ زندہ ہیں نہ مالدار ہیں)۔
مطلب: یہ مریض شدتِ ضعف سے پہلے ہی اہل قبور سے مشابہ ہے۔ اب اس پر کوئی حد و تعزیر جاری کرنا اس کو قبل از وقت مار ڈالنا ہے۔ فقہ کا مسئلہ ہے جو حد سزائے موت سے کم ہو اس میں مجرم کی قوتِ تحمل شرط ہے اور مریض و ضعیف کی صحت و قوت کا انتظار واجب ہے۔ عمداً اس کے خلاف کرنا جائز نہیں اجتہادًا غلطی ہو جائے تو معاف ہے ’’فَاِنْ زَنَی الْمَرِیْضُ وَ حَدُّہٗ الرَّجْمُ رُجِمَ وَ اِنْ کَانَ حَدُّہُ الْجَلْدَ لَمْ یُجْلَدْ حَتّٰی یَبْدَأَ‘‘(قدوری) یعنی ”اگر مریض زنا کرے اور اس کی سزا (بوجہ محصن ہونے کے) رجم ہو تو سنگسار کیا جائے اور اگر اس کی سزا (بوجہ غیر محصن ہونے کے) تازیانے ہوں تو صحت یاب ہونے تک مہلت دی جائے‘‘۔
4
آن گروہے کز فقیری پے برندصد جہت زان مردگان فانی ترند
ترجمہ: وہ لوگ جو درویشی کا سراغ پا چکے ہیں (مغلوب الحال ہونے کے باعث) مُردوں سے سو درجہ زیادہ فانی ہیں۔
5
مرده از یک رُوست فانی در گزند صوفیاں از صد جہَت فانی ترند
ترجمہ: (یعنی) مُرده تو ایک ہی حیثیت سے فانی ہے کہ کسی مرض میں مبتلا ہو کر جان نکل گئی۔ صوفیہ (مغلوب الحال) صد ہا حیثیت سے فانی ہو گئے ہیں۔
6
مرگ یک ست و این سی صد ہزار ہریکے را خونبہائے بے شمار
ترجمہ: موت تو ایک (ہی ہلاکت) ہے اور یہ (فنائے صوفیہ) سی صد ہزار (قتل ہیں اور) ہر ایک (قتل) کے بے شمار خون بہا ہیں۔
مطلب: صوفیہ کی فنا سے یہاں واردات و احوال مراد ہیں جو ان کو مغلوب اور بے خبر کر دیتے ہیں۔ چونکہ ان کے درمیان افاقہ ہوتا رہتا ہے اس لیے ان کو متعدد موتوں سے تشبیہ دینا صحیح ہو گیا۔ اس فنا سے فنائے اصطلاحی مراد نہیں کیونکہ اس میں بیخودی اور غلبۂ حال نہیں ہوتا جس سے وہ فانی فی الله غير مكلّف ہو جائے۔ بلکہ یہاں ان مغلوب الحال اور اپنی ہستی سے بے خبر درویشوں کا ذکر مقصود ہے جو بے خبری میں بے ہوش اور مغمیٰ علیہ سے مشابہ ہوں، ان کا غیر مکلّف ہونا ظاہر ہے انہی کو غیر مکلّف ہونے میں مردے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ آگے اس فنائے صوفیہ کے انفع ہونے کا ذکر ہے کہ حق تعالیٰ ان کی اس اختیاری موت کے بے شمار خونبہا ادا اور فرماتا ہے اور خون بہا سے یہاں محبت و قرب کے ثمرات مراد ہیں اس کی تائید میں آگے فرماتے ہیں:
7
گرچہ کُشت این قوم را حق بارہا ریخت بہر خونبہا انبارہا
ترجمہ: اگرچہ ان لوگوں کو حق تعالیٰ نے بارہا مار ڈالا ہے (مگر) خونبہا کے لیے بھی (مال کے) ڈھیروں کے ڈھیر بکھیر دیئے ہیں (جیسے صوفیہ میں ایک قول مشہور ہے ’’مَنْ قَتَلْتُهٗ فَاَنَا دِیَتُهٗ‘‘)۔
8
ہمچو جرجیس اند ہر یک در سِرارکُشتہ گَشتہ زنده گَشتہ شصت بار
ترجمہ: (ان لوگوں میں سے) ہر شخص حضرت جرجیس کی مانند ہے کہ باطن میں ساٹھ مرتبہ قتل ہوا (اور) زندہ ہوا ہے۔ (حضرت جرجیس کا قصہ اور ان کے بار بار قتل ہو کر زندہ ہونے کا واقعہ جلد ششم میں مفصل گزر چکا ہے۔)
9
کشتہ از ذوقِ سنانِ دادگر می بزارد کہ بزن زخمِ دگر
ترجمہ: (اور یہ قتل ان کو اس قدر مرغوب ہوتا ہے کہ جو شخص خداوندِ) عادل کے نیزے کے ذوق سے مارا گیا وہ زاری (اور التجا) کرتا ہے کہ اور زخم لگا دے۔ وَ نِعْمَ مَا قَالَ مرزا جانِ جَانان المظہر شہید رحمۃ اللہ علیہ ؎
فدائے ہمّت آن قاتلم کہ بعد از مرگ بنعشِ من دو سہ زخمِ دگر مزید کند
امیر خسروؒ ؎
تیر چو جانان زند جلوه دلے را کنند تیغ چو سلطان کشد مژدہ سرے را دہند
جامیؒ ؎
راحت شمر ز دوست و لا دستِ تیغ را تو تیغ را مبین بنگر کان ز دستِ کیست
ولہٗ ؎
چون رسید پیکان تو بر سینہ آنگہ بگذرد از رسیدن درد بگذشتن بسے افزون بود
10
واللہ از عشق وجودِ جان پرست کشتہ بر قتلِ دُوُم عاشق تر ست
ترجمہ: واللہ (زندہ لوگوں کو اپنی) زندگی پسند ہستی کے ساتھ جو عشق ہے، اس سے زیادہ مقتول اپنے قتلِ ثانی پر عاشق ہے۔
مطلب: اس کی وجہ یہ ہے کہ شہید اپنی شہادت کے ثمرات ایسے عجیب دیکھتا ہے کہ عنصری زندگی کی ان کے آگے کچھ بھی حقیقت نہیں اور چونکہ قتل بعد قتل میں مزید ترقیات مضمر ہیں، اس لیے شہید اگر بار بار زندہ ہو تو ہر بار شہید ہونے کی تمنا کرے گا۔ اس کی نظیر رسول الله ﷺ کا یہ قول ہے ’’وَدِدْتُ اَنْ اُقْتَلَ فِيْ سَبِيْلِ اللّهِ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلَ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر 36) یعنی ’’میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر مارا جاؤں‘‘۔ آگے عود ہے قصہ کی طرف:
11
گفت قاضی من قضا دارِ حَیَم حاکمِ اصحابِ گورستاں کَیَم
ترجمہ: قاضی نے کہا (اجی صوفی صاحب!) میں تو زنده (آدمی) پر حکم چلانے والا ہوں۔ اہلِ قبور کا حاکم کب ہوں۔
12
این بصورت گر نہ در گور ست پست گورہا در دودمانش آمد ست
ترجمہ: (اور یہ غریب بیمار) اگرچہ بظاہر قبر میں دفن نہیں ہوا (مگر فی الحقیقت) اس کے خاندانِ (وجود) میں بہت سی قبریں موجود ہیں (یعنی اس کی رگ رگ میں مردنی چھا چکی ہے)۔
13
بس بدیدی مردہ اندر گور تو گور را در مردہ بیں اَے کور تو
ترجمہ: تو نے قبر کے اندر مردے (دفن ہوتے) تو بہت دیکھے ہوں گے اے بے بصیرت! (جس کو اب تک اس زندہ نما مُردوں کی حالت اچھی طرح نظر نہیں آتی) مُردے کے اندر قبر (بنی ہوئی بھی) دیکھ لے۔
14
گر ز گورے خشت بر تو اوفتاد عاقلان از گور کے خواہند داد
مطلب: تو اگر کسی (اونچی جگہ کی) قبر سے تجھ پر اینٹ آ پڑے تو عقل مند قبر سے کب داد خواہی کریں گے؟ (اس زنده نما مردہ کے چانٹے کی مثال اسی قسم کی ہے)۔
15
گردِ خشم و کینۂ مردہ مگرد ہین مکن با نقشِ گرمابہ نبرد
ترجمہ: (پس) مردہ کے غصہ و کینہ کے درپے نہ ہو، ہاں حمام کی تصویر سے لڑائی نہ کر۔
مطلب: قاضی کی اس تقریر میں دو احتمال ہو سکتے ہیں یا تو حکم ہے مہلت و انتظار کا مدعا علیہ کی صحت تک اور انکار ہے فی الحال سزا دینے سے یا سفارش ہے معاف کر دینے کے لیے۔ اول احتمال پر یہ حکمِ منصبی ہے جس پر قاضی جبر کر سکتا ہے اور ثانی پر منصبی نہیں۔ مدعی کو اختیار ہے۔ (کلید)
16
شکر کن زندۂ بر تو نزد کانکہ زنده رد کند حق کرد رَد
ترجمہ: (ارے!) شکر کر کہ کسی زندہ نے تجھ کو مارا کیوں کہ جس کو زنده (مار پیٹ کر) دھتکارے اس کو حق تعالیٰ نے دھتکار دیا۔
مطلب: بحر العلوم کے نزدیک یہاں سے مولانا زنده بحق کے ذکر کی طرف انتقال فرماتے ہیں اور صاحب کلید فرماتے ہیں کہ یہ شعر بلسانِ قاضی اور اگلے اشعار بلسانِ مولانا ہیں۔ پہلی صورت میں یہ استبعاد ہے کہ مولانا کو زندہ بحق کے مطلق ذکر کی طرف انتقال فرمانا تھا جس کے لیے سابقاً مردہ کے ذکر کی مناسبت کافی تھی۔ مولانا کو صوفی سے خطاب اور پھر اس پر اس زندہ بحق کے دستِ تعدی دراز کرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ دوسری صورت میں یہ مشکل پیش آتی ہے قاضی کی تقریر ظاہری مردوں اور زندوں سے متعلق ہے۔ زندہ بحق کے ذکر سے قاضی کو سلوک کے بیان کی طرف انتقال کرنے کی کیا ضرورت؟ اور اس کا کیا موقع؟ منصبِ قضا کا تعلق عالمِ ظاہر سے ہے نہ کہ معاملاتِ باطن سے۔ راقم کی ناقص رائے یوں آتی ہے کہ قاضی نے کہا اجی صوفی صاحب! آپ کے ساتھ جو یہ بدسلوکی ہوئی تو شکر کرو کہ ایک نیم مردہ آدمی کے ہاتھ سے ہوئی، ورنہ اگر کوئی قوی ہیکل آدمی یہی حرکت کر بیٹھتا تو نہ جانے آپ کی کیا حالت ہوتی۔ مولانا قاضی کی زبان سے اتنی بات نقل کرنے پائے تھے کہ معاً آپ کے ذہن زندہ کے لفظ سے زندہ بحق کی طرف منتقل ہو گیا اور آپ کے اندازِ تکلم سے سارا شعر زنده بحق کے ذکرِ قالب میں ڈھل گیا۔ آگے اسی زندہ بحق کا ذکر ہے:
17
خشمِ احيا خشمِ و زخمِ او ست کہ بحقِ زنده است آن پاکیزه پوست
ترجمہ: زندہ (بحق) حضرات کا غصہ حق تعالیٰ کا غصّہ اور عذاب ہے کیونکہ وہ پاکیزہ وجود زندہ بحق ہے۔
مطلب: جو شخص باقی بالحق متخلق باخلاق الله ہو وہ بالکل تابع حق ہو گا۔ پس اس کا ردّ و قبول حکمِ خداوندی کے مطابق ہو گا۔ یہ شخص نائب حق اور حجۃ اللہ ہوتا ہے ارشاد و مشیخت اسی کی شان ہوتی ہے۔ پاکیزه پوست میں یہ اشاره مضمر ہے کہ اس کا جسم بھی معاصی کی آلودگی سے پاک ہوتا ہے اور اس میں ان جاہلوں کا ردّ ہے جو سلوک میں اعمالِ ظاہری کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ آگے زندہ بحق کی مثال پیش فرماتے ہیں:
18
حق بکشت او را و در پاچہ اش دمید پوست قصّابانہ از وَے در کشید
ترجمہ: حق تعالیٰ نے اس کو کُشتہ کیا اور اس کے پاؤں میں پھونک مار دی (اور) قصائیوں کی طرح کھال اس سے کھینچ لی۔
مطلب: حاصلِ تمثیل یہ ہے کہ قصائیوں کی عادت ہے کہ بکری کو ذبح کرنے کے بعد اس کے پاؤں کی طرف سے کھال کھینچنے کی ابتدا کرتے ہیں اور جہاں جہاں موقع چربی کا ہے وہاں ساتھ ساتھ کھال کے اندر پھونک بھی مارتے جاتے ہیں، تاکہ چربی پھول کر گوشت پر نظر آئے اور گوشت فربہ معلوم ہو۔ پس مولانا باقی بالله و زنده بحق کی حالت کو بکری کی اس حالت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یعنی پہلے اس کو درجۂ فنا ہوتا جاتا ہے پھر نفخۂ ربانیہ سے مشرف کیا جاتا ہے اور اس سے اس میں صفت مرضيۂ الٰہیہ راسخ ہو جاتی ہے اور رذایلِ بشریہ جسمانیہ زائل ہو جاتی ہیں جس کو پوست کشیدن سے تعبیر فرمایا۔ (کلید)
19
نفخ در وَے باقی آمد تا مآب نفخِ حق نبود چو نفَخِ آن قصاب
ترجمہ: (مگر نفحِ قصاب اور نفخۂ ربانیہ میں بڑا فرق ہے چنانچہ) اس (باقی بحق) ميں نَفخۂ (ربانیہ کا اثر) قیامت تک کے لیے باقی رہا (بخلاف اس کے نفخِ قصاب کا اثر تھوڑی دیر تک رہتا ہے۔ پس) نفخِ حق اس قصاب کے نفخ کا سا نہیں ہے۔
20
فرق بسیار ست بین النفختیناین ہمہ زین ست و باقی جملہ شین
ترجمہ: (غرض) دونوں نفخوں میں بڑا فرق ہے۔ یہ (نفخِ حق) بالکل خوبی (ہی خوبی) ہے اور باقی (نفخ خواہ قصاب کے ہوں یا کسی اور کے) سراپائے عیب ہیں۔
21
این حیات از وے برید و شُد مُضِر وان حیات از نفخِ حق شد مُستمِر
ترجمہ: (فرق کی صورت یہ ہے کہ) اس (نفخ قصاب) نے اس (مذبوح) سے زندگی منقطع کر دی اور (اس لیے) وہ ضرر رساں ہوا اور وہ (زندہ بحق کی) زندگی نفخِ حق کی بدولت دائمی ہو گئی۔
مطلب: ظاہر ہے کہ نفخِ قصاب بکری کی زندگی منقطع نہیں کرتا بلکہ خود قصاب اس کی زندگی کا خاتمہ کر کے پھر نفخ کرتا ہے۔ پس قطع کی اسناد نفخ کی طرف بطور اسناد الشی الی سببہٖ ہے کیونکہ نفخ اپنے اغراض کے اعتبار سے ذبح کا موجب ہوتا ہے۔ حیاتِ باقی کا دوام اس نصِّ قرآنی ثابت ہے کہ ﴿خَالِدِيْنَ فِیْهَا اَبَدًا﴾ (الاحزاب: 65) اہل دوزخ کے خلود سے یہ شبہ نہ کیا جائے کیونکہ اس کی شان ﴿لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَ لَا يَحْیٰی﴾ (الاعلٰی: 13) ہے۔ (کلید بہ تبدیلِ عبارت)
22
این دم آن دم نیست کاید آن بشرح ہین بر آ زین قعرِ چَہ بالائے صرع
ترجمہ: یہ نفخ وہ نفخ نہیں ہے جو بیان ہو سکے (کیونکہ یہ وجدانی ہے اس لیے اس کی مثال بھی ناقص رہی تو) ہاں! (اس کی شرح کی فکر چھوڑ کر اس کے حصول کی کوشش کرو اور توجہ بحادث کے) اس کنویں کی گہرائی سے (نکل کر توجہ بقدیم کے) محل پر چلے آؤ۔ (آگے پھر قاضی کہتا ہے):
23
نیستش بر خر نشاندن مجتہد نقشِ ہیزم را کسے بر خر نہد
ترجمہ: اس (غریب بیمار) کو (بطور سزا) گدھے پر بٹھانا کوئی مسئلہ شرعی نہیں ہے۔ بھلا کوئی ہیزم کے نقش کو گدھے پر رکھتا ہے؟ (ہیزم کو تو البتہ رکھتے ہیں سو یہ تو ضعف و نقاہت میں نقشِ ہیزم کی مانند ہے)۔
24
بر نشستِ او نہ پشتِ خر سزد پشتِ تابوتیش اُولٰی تر سزد
ترجمہ: اس کی نشست کے لیے گدھے کی پشت زیبا نہیں (بلکہ مثلِ مُردہ ہونے کی وجہ سے) کسی تابوت کی پشت اس کے لیے زیادہ مناسب ہے (پس اس کو گدھے پر بٹھانا ظلم ہو گا)۔
25
ظلم چہ بود، وضعِ غير موضعش ہِین مکُن در غير موضع ضائِعش
ترجمہ: (کیونکہ) ظلم کیا ہوتا ہے؟ (کسی چز کو) ایسی جگہ استعمال کرنا جو اس (کے استعمال) کی جگہ نہ ہو۔ خبردار! اس (چیز) کو بے موقع ضائع نہ کرو۔
26
گفت صوفی پس روا داری کہ اُو سِیلیَم زدبے قصاص و بے تُسو
ترجم: صوفی نے کہا پھر تم اس بات کو روا رکھتے ہو کہ اس نے میرے چانٹا (جو) مارا (تو وہ) بے قصاص اور بے عوضِ قلیل کے (ہے)؟
24
کے روا باشد کہ ہر خرسِ قلاش صوفیان را صفع اندازد بلاش
ترجمہ: (یہ) کب جائز ہے کہ ہر ذلیل ریچھ صوفیوں کے بے وجہ طمانچہ مارے۔
28
گفت صوفی را چہ باک از صفع، خیز با چنین بیمار کمتر کن ستیز
ترجمہ: (قاضی نے) کہا ایک صوفی کو طمانچہ کی کیا پروا (ہو سکتی ہے جو پہلے ہی نفس کش اور متواضع ہوتا ہے) اٹھو ایسے بیمار کے ساتھ جھگڑا مت کرو (یعنی اپنے دعوے سے دست بردار ہو کر محکمۂ قضا سے چلے جاؤ۔ یہ شعر قلمی نسخہ اور متن منہاج القوٰی دونوں میں نہیں ہے)۔
29
گفت قاضی تو چہ داری بیش و کم گفُت دارم در جہان من شش درم
ترجمہ: (مگر جب) قاضی نے (دیکھا کہ صوفی ترکِ دعوے پر راضی نہیں تو بیمار سے مخاطب ہوا اور) کہا تیرے پاس کم و بیش کیا کچھ (مال) ہے؟ اس نے کہا دنیا میں میرے پاس (صرف) چھ درم ہیں۔
مطلب: دنیا کی قید اس لیے لگائی کہ آخرت کا ذخيرۂ اجر اس سے الگ رہے۔ نولکشوری نسخے میں یہ شعر یوں درج ہے ؎ ہین چہ داری صوفیا از بیش و کم الخ یعنی ہاں اے صوفی! تمہارے پاس کم و بیش کیا کچھ مال ہے الخ؟ اس صورت میں گویا قاضی صوفی کو کچھ مال بطورِ تاوان بیمار سے دلانے کے بجائے الٹا اس بیمار کو بطورِ امداد دلانے کا قصد کر رہا ہے۔ اس نسخے کی صورت میں سلسلۂ کلام بلا تكلف مربوط ہو جاتا ہے۔ مقدرات و محذوفات نکالنے کی صورت نہیں رہتی اور دونوں شعروں میں قاضی کا خطاب صوفی سے ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں قاضی کی اس ستم ظریفی سے کہ الٹا مدعی سے مدعا علیہ کو تاوان دلانے لگا۔ لطفِ حکایت بھی بڑھ جاتا ہے جو عمومًا حکایت سے مطلوب ہوتا ہے۔ مگر چونکہ اکثر معتبر کتب مثلاً قلمی نسخہ متن منہج القوٰی اور متن کلید مثنوی میں یہ شعر اسی صورت میں درج ہے جس طرح یہاں درج کیا گیا ہے۔ اس لیے قیاس ہے کہ کسی ناقل نے گفت قاضی کے مضمون کو خطاب بہ صوفی سمجھ لیا۔ کیونکہ اوپر سے یہی سلسلہ چلا آتا ہے اور بیمار کے مخاطب ہونے کی کوئی صراحت نہیں۔ اس لیے اس نے توضیح کے لیے یہ لفظی تصرف کیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
30
گفت قاضی سہ درم تو خرج کُن آن سہ دیگر را بدو دہِ بے سخن
ترجمہ: (یہ سن کر) قاضی نے کہا کہ (اچھا) تین درم تو تم (اپنی ضروریات میں) خرچ کرو (اور) وہ باقی تین بلا حجت اس (صوفی) کو دے دو (اگر یہ صوفی سے خطاب ہو تو بے سخن کا لفظ خوب چسپاں ہوتا ہے۔ یعنی تمہیں بطورِ امداد بیمار کو یہ نقدی دینے میں کوئی عذر نہ ہونا چاہیے۔ بخلاف اس کے بیمار کو اس قلیل تاوان کے دینے میں کیا عذر ہو سکتا ہے جو زیادہ سزا پانے سے خائف تھا)۔
31
زار و رنجور ست و درویش و ضعیف سہ درم می بایدش ترّه و رغيف
ترجمہ: (پھر صوفی سے بطور سفارش کہا یہ بے چارہ) عاجز اور بیمار اور محتاج اور کمزور ہے۔ تین درم اس کو ساگ اور روٹی کے لیے (بھی) چاہییں۔ (دوسرے نسخے کی صورت میں یہ بتانے کا تکلف کرنا نہیں پڑتا کہ یہ صوفی سے خطاب ہے کیونکہ اس میں اوپر سے خطاب بہ صوفی چلا آتا ہے)۔
32
قاضی و صوفی بہم در قیل و قال لیک آن رنجور زارِ سخت حال
33
بر قِفائے قاضی افتادش نظر از قفائے صوفی آمد خوب تر
ترجمہ: (غرض اسی طرح) قاضی اور صوفی (تو) باہم قیل و قال میں (مشغول) تھے لیکن وہ (جو) بیمار عاجز (اور) بد حال (تھا اس نے کیا گل کھلایا کہ اتفاقاً) اس کی نگاہ قاضی کی گُدی پر جا پڑی (جو فربہ و گداز ہونے کی وجہ سے چپت جمانے کے لیے) صوفی کی گُدی سے زیادہ موزوں معلوم ہوئی۔
34
راست می کرد از پے سیلیش دستکہ قصاصِ سیلیم ارزان شد ست
ترجمہ: (پس) اس کے چانٹا مارنے کے لیے ہاتھ کو تولنے لگا (اور اس نے سوچا) کہ میرے چانٹے کا قصاص ارزاں ہو گیا (اس کی بار بار ادائیگی کیا مشکل ہے اب چانٹے مارتا جاؤں گا اور تین تین درم تاوان دیتا جاؤں گا۔ اس شعر کے لفظ قصاص اور ارزاں اس متعارف نسخے کے مؤید ہیں جو ہم نے درج کیا ہے یعنی تاوان دینا ہی قصاص ہوسکتا ہے نہ کہ اُلٹا امداد لینا۔ الا بتاویلِ بعید اور ارزانی بھی اسی تاوان کی مفید ہے وصول کرنے کی صورت میں تو ارزانی سے سراسر نقصان ہے)۔
35
سُوئے گوشِ قاضی آمد بہرِ راز سیلیے آورد قاضی را فراز
ترجمہ: (یہ سوچ کر) قاضی کے کان کے پاس آیا (اس بہانہ سے کہ گویا کوئی) بھید کی بات (کہنے) کے لیے (آتا ہے اس لیے قاضی نے بھی منع نہ کیا اور پاس آکر) ایک چانٹا قاضی (کی گدی) پر جمایا (’’فراز‘‘ یہاں بمعنی بَر ہے یعنی بر قاضی نہ کہ بمعنی بالا از بلندی کَمَا زَعَمَ بَعْضُہُمْ)
36
گفت ہر شش را بگیرید اے دو خصم من شوم آزاد و بے خرخاش و وصم
ترجمہ: (اور) بولا اے دونوں مدعیو! تم پورے چھ درم ہی لے لو۔ میں (سارا مال خرچ کر کے) آزاد اور بے خرخشہ اور بے عیب ہو جاؤں گا (جس نسخے کی رو سے قاضی صوفی سے نقدی دلا رہا ہے۔ اس میں بگیرید کے بجائے بیارید درج ہے۔ یعنی بیمار نے جب دیکھا کہ صوفی کے چانٹا مارنے کے عوض الٹا انعام مل رہا ہے تو ایک چانٹا قاضی کے بھی جڑ دیا اور کہا دونوں تین تین درم لاؤ مگر دوسرے مصرعہ کے الفاظ ’’آزاد‘‘ ’’و بے‘‘ ’’وصم‘‘ اس تقدیر کے خلاف ہیں۔(فَافْھَم)