دفتر ششم: حکایت: 50
رفتنِ آن صوفی سوی آن سیلی زنش و بُردنِ او را بقاضی
صوفی کا اس تھپڑ مارنے والے (بیمار) کی طرف جانا اور اسے قاضی کے پاس لے جانا
1
رفت صوفی سوی آن سیلی زنش دست زد چون مدعی در دامنش
ترجمہ: صوفی اس تھپڑ مارنے والے کی طرف بڑھا (اور)مدعی کی طرح اس کے دامن پر ہاتھ مارا۔
2
اندر آوردش بر قاضی کشان کین خرِ اِدبار را بر خر نشان
ترجمہ: (اور) اس کوکھینچ کرقاضی کے پاس لایاکہ اس بد بختی کے گدھے کو (بطورِ سزا) گدھے پر بٹھائے۔
3
یا بزخمِ دُرّه او را دِہ جزا آنچنان کہ رائے تو بیند سزا
ترجمہ: یا اس کو دُرّے کی ضرب سے سزا دیجیے (غرض) جس طرح آپ اپنی رائے کے مطابق مناسب سمجھیے۔ (کیجئے)۔
مسئلہ: چونکہ یہ سزا تعزیر تھی، حد نہ تھی اس لیے حاکم کی رائے پر مفوض ہے۔ ’’ھُوَ قَدْ یَکُوْنُ بِالْحَبْسِ وَ بِالصَّفْحِ وَ بِتَحْرِیْکِ الْاُذُنِ وَ بِالْکَلَامِ الْعَنِیْفِ وَ بِالضَّرْبِ وَ قَدْ یَکُوْنُ بِنَظْرِ الْقَاضِیْ اِلَیْہِ بِوَجْہٍ عَبُوْسٍ وَ لَیْسَ فِیْہِ شَیءٌ مُّقَدَّرٌ وَ اِنَّمَا ھُوَ مُفَوَّضٌ اِلٰی رَأْیِ الْاِمَامِ عَلٰی مَا تَقْتَضِیْ جِنَایَاتُھُمْ‘‘ یعنی ”تعزیر کبھی قید کے ساتھ، تھپڑ مارنے کے ساتھ کان کھینچنے کے ساتھ، سخت کلامی کے ساتھ، مار پیٹ کے ساتھ اور کبھی قاضی کا اس کی جانب سختی کے ساتھ دیکھنے سے ہوتی ہے اور اس میں کوئی متعین صورت نہیں بلکہ امام کی رائے پر موقوف ہے کہ جیسا دیکھے سزا دے۔“ (عینی شرح کنیز)
4
كانکہِ از زجر تو میرد در دُمار بر تو تاوان نیست باشد آن جُبار
ترجمہ: (اور اس کو سزا دینے میں آپ کا کوئی نقصان نہیں) کیونکہ جو شخص آپ کی (معمولی) ضرب سے مر جائے، ایسی موت بے سزا ہے آپ پر کوئی تاوان (و ضمان) نہیں۔
مسئلہ: ’’وَ مَنْ حَدَّہُ الْاِمَامُ اَوْ عَزَّرَہٗ فَمَاتَ فَدَمُہٗ ھَدْرٌ لِاَنَّہٗ فَعَلَہٗ بِاَمْرِ الشَّرْعِ وَ فِعْلُ الْمَامُوْرِ بِہٖ لَا یَتَقَیَّدُ بِشَرْطِ السَّلَامَۃِ‘‘ یعنی ”اور جس شخص کو امام حد لگائے یا تعزیر کرے پس وہ مر جائے تو اس کا خون رائیگاں ہے، کیونکہ اس نے یہ کام شرع شریف کے حکم سے کیا ہے اور حکم کی بجا آوری کرنے والے کا فعل سلامتی کی شرط سے مقید نہیں‘‘۔ (جوہرہ نیّرہ)
5
وانکہ ز زجرِ تو بیند مرگِ خویش فارغ از دوزخ رَوَد تا خُلد پیش
ترجمہ: اور (اس کے علاوہ اس طرح مر جانے والے کا فائدہ بھی ہے کیونکہ) جو شخص آپ کے سزا دینے سے اپنی موت مر جائے تو وہ دوزخ سے بچ کر جنت کی طرف آگے چلا جائے گا۔
مسئلہ: جن علما کے نزدیک عقوبات، کفارات ہیں ان کے نزدیک تو صرف اجرائے عقوبت، خواہ حد ہو یا تعزیر سزا پانے والا اس گناہ سے پاک ہو جاتا ہے اور جن کے نزدیک کفارات نہیں ان کے نزدیک اس میں ایک قید اور ہو گی۔ یعنی وہ سزا پانے والا اس سزا کو خوشی سے گوارا کر لے کہ گوارا نہ کرنا موقوف ہے۔ اپنے فعل سے نادم ہونے پر اور یہ توبہ ہے اور توبہ مکفر ہے اور چونکہ یہاں صاحبِ حق نے اس سزا میں اپنا انتقام لے لیا ہے اس لیے حق العبد بھی معاف ہو جائے گا۔ جیسا کہ ندامت سے حق اللہ معاف ہو گیا جو کہ حق العبد کے ضمن میں پایا گیا ہے اور اگر یہ تقریر کی جائے کہ محلِ بحث میں اصل حق عبد ہی ہے اور اس کی درخواست پر انتقام لے لیا گیا۔ اس لیے مردہ بلا اشتراطِ توبہ معاف ہو گیا اور ”رود تا خلد پیش“ کا حکم صحیح ہو گیا تو اور بھی قصرِ مسافت ہو جائے گا۔ (کلید) آگے ”بر تو تاوان نیست“ کے مضمون کی توضیح فرماتے ہیں۔
6
در حد و تعزیرِ قاضی ہر کہ مُرد نیست بر قاضی ضمان کو نیست خُرد
ترجمہ: قاضی کی حدود و تعزیر میں جو شخص مر گیا تو قاضی پر (اس کے قتل کا) ضمان نہیں ہے کیونکہ قاضی کوئی معمولی(آدمی) نہیں ہے۔
7
نائبِ حق ست و سایۂ عدلِ حق آئینہ ہر مُسْتَحِق و مُسْتَحَق
ترجمہ: (بلکہ) وہ حق تعالیٰ کا نائب ہے اور حق کے عدل کا سایہ ہے، وہ ہر مدعی و مدعا علیہ (کے سچ اور جھوٹ کو منکشف کرنے) کا آئینہ ہے۔
8
کو ادب از بہرِ مظلومی کند نہ برای عرض و خشم و دخلِ خود
ترجمہ: کہ وہ (ظالم کو) ایک مظلوم (کی داد رسی) کے لیے سزا دیتا ہے نہ کہ مال (کمانے) اور غصہ (نکالنے) اور اپنی آمدنی (بڑھانے) کے لیے۔
9
چون برای حقّ و روزِ آجل ست گر خطایی شد دَیت بر عاقِل ست
ترجمہ: چونکہ (قاضی کی یہ سیاست) حق تعالیٰ (کی بجا آوری) اور یومِ قیامت (کی سرخروئی) کے لیے ہے۔ (تو اس میں) اگر کوئی غلطی بھی ہو گئی تو (اس کی) دیت (قاضی کے) عاقلہ پر ہے۔ (تو قاضی کے ساتھ یہ رعایت ضروری ہے کہ اس پر دیت کا بار نہ ڈالا جائے۔ بلکہ اس کے خویش و اقربا پر بھی نہ ڈالا جائے۔ چنانچہ:)
10
عاقلہ او کیست دانی، ہست حق سوی بیت المال برگردان ورق
ترجمہ: اس (قاضی) کا عاقلہ تم جانتے ہو کون ہے؟ حق تعالیٰ ہے (اور اس عاقلہ پر دیت ہونے کا مطلب سمجھنے کے لیے) بیت المال (کی بحث) کی طرف ورق الٹاؤ۔
مطلب: ’’ورق برگردانیدن‘‘ سے یہاں لغوی معنی مراد ہیں نہ کہ اصطلاحی، جو کتبِ لغت میں مذکور ہے۔ یعنی مسائلِ بیت المال کا بیان کھول کر دیکھو تو ہاں تم کو یہ مسئلہ مل جائے گا کہ جب قاضی سے حدود میں غلطی ہو جائے اور کوئی آدمی نا حق مارا جائے تو اس کی دیت بیت المال سے دلائی جائے۔ ’’وَ اِنْ رُّجِمَ رَجُلٌ بِشَھَادَۃِ اَرْبَعَۃٍ ثُمَّ وُجِدَ اَحَدُھُمْ عَبْداً اَوْ مَحْدُوْدًا فَدِیَۃُ المَرْجُوْمِ عَلٰی بَیْتِ الْمَالِ لِاَنّہٗ حَصَلَ بِقَضَاءِ الْقَاضِیْ وَ ھُوَ خَطَاءٌ مِّنْہُ وَ خَطْؤُہٗ فِیْ بَیْتِ الْمَالِ لِاَنَّ عَمَلَہٗ یَقَعُ لِلْمُسْلِمِیْنَ فَیَجِبُ غُرْمُہٗ فِیْ مَالِھِمْ‘‘ یعنی ”اگر کوئی آدمی چار کی گواہی پر سنگسار کر ڈالا جائے پھر ان گواہوں سے ایک غلام یا سزا یافتہ معلوم ہو تو اس مقتول کی دیت بیت المال کے ذمہ ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ قاضی کی قضاوت سے ہوا ہے اور یہ اس کی خطا ہے اور اس کی خطا کا اثر بیت المال پر ہے کیونکہ اس کی کارگزری مسلمانوں کے لیے ہے۔ پس اس کا تاوان مسلمانوں ہی کے مال سے ادا ہو گا“ (عینی شرح کنیز)۔ اور بیت المال حق تعالیٰ کا خزانہ ہے۔ پس جب قاضی کا عاقلہ حق تعالیٰ ہے تو بیت المال سے دیت کا دلانا گویا حق تعالیٰ کی طرف سے دیت دلانے کا ہم معنی ہوا۔ غرض قاضی کے حکم و سیاست سے جو شخص ناحق مارا جاتا ہے چونکہ قاضی کا یہ فعل اتباعِ نفس کے لیے نہیں بلکہ اتباعِ شرع میں ہے۔ غَايۃً فی الباب یہ کہ اس اتباع میں اس سے خطائے اجتہادی واقع ہو گئی جو معاف ہے۔ لہٰذا اس کو مذکورہ رعایت دی جاتی ہے۔ بخلاف اس کے جو شخص کوئی اس قسم کی تعدّی و جنایت، نفس کے لیے کرے وہ قابلِ عفو نہیں۔ آگے یہی بات فرماتے ہیں:
11
آنکہ بہرِ خود زند او ضامن ست وانکہ بہرِ حق زند او آمن ست
ترجمہ: جو شخص (کسی کو) اپنے (نفس کے) لیے مارے وہ ذمہ دار ہے اور جو شخص (کسی کو) حق تعالیٰ (کے حکم کی بجا آوری) کے لیے مارے (اگرچہ اس میں اس سے خطا ہی واقع ہو جائے) وہ (قصاص، دیت، تعزیر وغیرہ سزاؤں سے) امن میں ہے۔ (آگے اس بات کے ثبوت میں ایک مسئلۂ فقہ پیش فرماتے ہیں):
12
گر پدر زد مر پسر را او بمُرد آن پدر را خُون بہا باید شمُرد
ترجمہ: اگر باپ نے بیٹے کو (اس قدر) مارا (کہ) وہ مر گیا تو اس باپ کو خون بہا شمار کر دینا چاہیے۔
13
زانکہ او را بہر کارِ خویش زدخدمتِ او ہست واجب بر وَلَد
ترجمہ: (خون بہا) اس لیے (واجب ہوا) کہ اس نے اس (بیٹے) کو اپنے کام کے لیے مارا (اس بنا پر) اس کی خدمت اولاد پر واجب ہے (اور خدمت کے لیے مارنا اپنے نفس کے لیے مارنا ہے)۔
14
چون مُعلِّم زد صبی را شد تَلَف بر معلِّم نیست چیزے لاتَخَفْ
ترجمہ: (بخلاف اس کے) جب استاد لڑکے کو مارے (اور) وہ مر جائے تو استاد پر کچھ (تاوان) نہیں (اے استاد!) تم مت ڈرو۔
مسلہ: باپ عموماً ادب کے لیے مارتا ہے جس کی تدبیر معمولی انداز میں کان کھینچنے اور دھمکی سے بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس کی ضرب جو مفضی بقتل ہو معاف نہیں۔ بخلاف اس کے استاد تعلیم کے لیے مارتا ہے جس کے بدوں بد شوق لڑکے کا اور کوئی علاج نہیں اس لیے وہ مقید بشرط سلامتی نہیں۔ ’’اَلْاَبُ اِذَا ضَرَبَ الْاِبْنَ فِیْ اَدَبٍ اَوِ الْوَصِیُّ ضَرَبَ الْیَتِیْمَ فَمَاتَ یَضْمَنُ عِنْدَ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ رحمۃ اللّہ علیہ وَ اِنْ ضَرَبَہُ الْمُعَلِّمُ اِنْ کَانَ بِغِیْرِ اِذْنِھِمَا فَلَا ضَمَانَ عَلٰی اَحدٍ‘‘ یعنی ”اگر باپ بیٹے کو کسی ادب کے لیے مارے یا وصی یتیم کو مارے اور وہ مر جائے تو امام صاحب کے نزدیک باپ یا وصی ضامن ہو گا اور اگر استاد مارے، اگر ان دونوں کی اجازت کے بغیر مارے تو کسی پر بھی ضمان نہیں‘‘ (فتاوی عالمگیریہ کتاب الجنايات باب تاسع 9)۔ آگے اس فرق کی وجہ ارشاد ہے:
15
کان معلِّم نائب افتاد و امین ہر امینی ہست حکمش این چنین
ترجمہ: کیونکہ وہ استاد و نائب اور امین واقع ہوا ہے (اور) ہر امین کا حکم اسی طرح ہے (کہ وہ امانت کے تلف ہونے پر ضامن نہیں ہوتا)۔
مطلب: جب کسی لڑکے کو اس کا ولی تعلیم کی غرض سے معلم کے سپرد کرتا ہے تو گویا وہ معلم ولی کا نائب ہے، جو تعلیم کے کام کو جس کو ولی سرانجام نہیں دے سکتا تھا اس کی طرف سے سرانجام دیتا ہے اور لڑکا معلم کے پاس گویا ولی کی امانت ہے اور امانت کے بارے میں یہ حکم ہے کہ ’’اَلْوَدِیْعَۃُ اَمَانَۃٌ فِیْ یَدِ الْمُوْدَعِ فَاِذَا ھَلَکَتْ لَمْ یَضْمَنْھَا‘‘ یعنی ”ودیعت امانت ہے صاحب ودیعت کے ہاتھ میں ہے پس اگر امانت ہلاک ہو جائے تو وہ ضامن نہ ہو گا“ (قدوری)۔ اس سے ظاہر ہے کہ معلم اس لڑکے کے ساتھ تعلیم و تادیب و توبیخ کا جو سلوک کرے گا وہ اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ لڑکے کی بہتری کے لیے اور اس کے ولی کی طرف سے بطور نائب کرے گا۔ نفس کے لیے تو جب کرتا کہ اس لڑکے پر معلم کی کوئی خدمت واجب ہوتی اور لڑکا اس کی بجا آوری میں تقصیر کرتا۔ حالانکہ:
16
نیست واجب خدمتِ اُستا برو پس نبود اُستا بہ زجرش کار جو
ترجمہ: استاد کی خدمت اس (لڑکے) پر واجب نہیں ہے کہ پس اس کی زجر (و تادیب) سے استاد اپنے کام کا مطالبہ کرنے والا نہیں ہو گا۔
17
ور پدر زد از برای خود زدستلاجَرَم از خون بہا دادن نرست
ترجمہ: اور اگر باپ نے مارا ہے تو اپنے نفس کے لیے مارا ہے اس لیے خون بہا دینے سے نہیں بچ سکتا۔
18
پس خودی را سر ببر ای ذوالفقار بیخودی شو فانی و درویش وار
ترجمہ: (جب نفس کے لیے کوئی کام کرنے اور حق کے لیے کرنے میں اس قدر فرق ہے) تو خودی کا سر (ریاضات کی) تلوار سے کاٹ ڈالو (اور) خودی سے پاک اور فانی اور درویش کی طرح (بے نفس) ہو جاؤ۔
19
چون شدی بیخود ہر آنچ تو کُنی مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَیْتَ ٓامنی
ترجمہ: جب تم بے خود ہو گئے تو (پھر) جو کچھ کرو گے (اس میں) تم مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْت (کے مصداق) بے خوف ہو جاؤ گے (آیۃ ﴿مَا رَمَيْتَ۔۔۔﴾ (الانفال: 17) کا ترجمہ اور تفسیر کئی مرتبہ پچھلی جلدوں میں درج ہو چکی ہے)۔
20
آن ضمان بر حق بود نہ بر امینہست تفصیلش بفقہ اندر ببین
ترجمہ: (اس وقت کی غلطی کا) وہ ضمان حق تعالیٰ پر ہو گا نہ کہ (حق کے) امین پر ۔(چنانچہ) اس کی تفصیل فقہ کے اندر (موجود) ہے دیکھ لو۔
انتباه: مولانا نے اوپر کے اشعار میں صوفی کی زبان سے جو فقہی مسائل بیان فرمائے ہیں وہ سب فقہ حنفی کے مسائل ہیں جو مولانا کے حنفی ہونے کا ایک روشن ثبوت ہے۔ پھر یہاں آخر میں صریحًا فقہ پر اظہار اعتماد فرمانا اور اس کا حوالہ دینا آپ کے سنی و حنفی ہونے پر پوری مہر تصدیق ہے۔ لہٰذا ان شیعہ اور اہل حدیث لوگوں کو شرمانا چاہیے جو مثنوی کے اشعار سے اپنے اپنے مذہب کے لیے تائیدی مطالب نکالنے کا فضول تکلف کیا کرتے ہیں اور مولانا نے مسائلِ فقہ کے ضمن میں جو عاقلہ کا ذکر فرمایا اور پھر کہا قاضی کا عاقلہ حق تعالیٰ ہے۔ تو یہ توحید کی طرف انتقال تھا۔ جیسے کہ مولانا کی عادت شریفہ ہے۔ تمام قصص و حكایات سے بلکہ بات بات سے توحید کی طرف انتقال فرماتے رہتے ہیں۔ آگے اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ مثنوی میں جو کچھ ہے وہ توحید کا بیان ہے یا متعلقاتِ توحید کا۔ دوسری بات کا ذکر نہیں۔
26
ہر دکانے راست سَودائے دگر مثنوی دکّانِ فقر ست اے پسر
ترجمہ: (قاعدہ ہے کہ) ہر دکان کی تجارت (دوسری دکان سے) جداگانہ ہوتی ہے۔ تو اے عزیر! یہ مثنوی (صرف) فقر (و درویشی) کی دکان ہے (جس میں توحید سب سے بڑا بحث ہے۔ آگے دو مثالوں سے یہ ثابت فرماتے ہیں کہ مثنوی میں اگر کچھ اور مباحث درج ہیں تو وہ بھی توحید کے تابع ہیں)۔
22
در دکّانِ کفش گر چرم ست خُوب قالبِ کفش ست اگر بینی تو چوب
ترجمہ: (دیکھو) موچی کی دکان میں چمڑا خوب ہے (اور یہی اصلی ہے باقی اس کے متعلقات ہیں۔ چنانچہ) اگر تم (اس میں) لکڑی دیکھو تو وہ جوتی کا قالب ہے۔
23
پیشِ قَزَّازان خزِّ ادکن بود بہرِ گز باشد اگر آہن بود
ترجمہ: (اسی طرح) ابریشم فروشوں کے پاس ابریشم سیاہ کا کپڑا ہو گا (اور) اگر اس میں لوہا ہو گا تو وہ گز کے لیے ہو گا۔
24
مثنویِّ ما دكّانِ وحدت ست غیر واحد ہر چہ بینی آن بت ست
ترجمہ: (اسی طرح) ہماری (یہ) مثنوی توحید کی دکان ہے (بلکہ اس میں ذکر) واحد (حقیقی) کے سوا تم جو (مضمون) دیکھو (تو) وہ (مثل) بت ہے۔
انتباہ: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مثنوی شریف میں واحد تعالیٰ شانہٗ کے ذکر کے سوا اور کچھ مذکور ہونا بمنزلہ بت ہے، تو پھر اس میں صد ہا امثال و حکایات اور قصصِ روایات کیوں درج کئے۔ اگرچہ وہ تبعان میں درج کئے ہیں مگر جب وہ بمنزلہ بت ہے تو بت کا تو ترک کرنا ہی واجب تھا۔ آگے اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ کبھی کبھی مصلحتاً بت کے ذکر سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔
25
بت ستُودن بہرِ دام عامہ را ہمچنان کہ اَلْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی
ترجمہ: بت کی تعریف کرنا عام (جاہل سامعین) کو پھانسنے کے لیے ایسا سمجھو جیسے اَلْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ (کا قصہ)۔
26
خواندش اندر سورۂ وَالنَّجْمِ زود لیک آن فتنہ بُد از سورہ نبود
ترجمہ: (یعنی آنحضرت ﷺ نے) اس (عبارت) کو (جس میں یہ لفظ تھے) سورہ والنجم میں جلدی سے (بطور مذمتِ اصنام) پڑھ دیا لیکن وہ ایک امتحان تھا، سورة کا جزو نہ تھا۔
27
جملہ کفار آن زمان ساجد شُدند ہم سِرے بود آنکہ سر بر در زدند
ترجمہ: (بس اس کے بعد سورة پر جب حضور ﷺ نے سجدہ کیا) تو اس وقت سب کفار (بھی) سجدہ کیے چلے گئے (اور) یہ (سجدہ کرنا) بھی (تقدیر کا) ایک بھید تھا کہ انہوں نے (حق تعالیٰ کے) در پر سر رکھ دیا (حالانکہ اس کے ظاہری اسباب موجود نہ تھے)۔
28
بعد ازین حرفے ست پیچاپیچ و دُور با سلیمان باش و دیوان را مشور
ترجمہ: اس کے بعد ایک (مشکل) بات ہے (جو) پیچ در پیچ اور (عام لوگوں کے ذہن سے) دور ہے۔ تم (اس بات سے سکوت اختیار کر کے) سلیمان علیہ السلام کے ساتھ رہو (جو شیطان کو قابو میں رکھتے تھے) اور (اس بات کے اظہار سے) شیاطین کو شورش میں نہ ڈالو، (کہ وہ عوام کو شبہات میں مبتلا کرنے لگیں)۔
مطلب: اوپر کے اشعار میں ایک قصہ کی طرف اشارہ ہے جس کو مؤرخین اور بعض مفسرین نے نقل کیا ہے۔ وہ قصہ ہے کہ یہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سورة النجم تلاوت فرماتے تھے جب آپ نے یہ دو آیتیں پڑھیں ﴿اَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰى وَ مَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرٰى﴾ یعنی ”کیا تم نے لات اور عزٰی کو دیکھا اور تیسرے مناۃ کو“ (النجم: 19-20) تو آپ کی زبان مبارک پر بلا قصد یہ الفاظ جاری ہو گئے ’’تِلْکَ الْغُرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی‘‘ یعنی ”یہ بڑی مورتیاں ہیں ان کی شفاعت کی امید ہے‘‘ مشرکین نے جو اس مجلس میں موجود تھے سن کر کہا ’’مَا ذَکَرَ اٰلِھَتَنَا بِخَیْرٍ قَبْلَ الْیَوْمِ‘‘ یعنی ’’آج سے پہلے ہمارے معبودوں کا ذکر اچھے پیرایہ میں کبھی نہیں کیا تھا‘‘ پھر جب آپ نے آیتِ سجدہ پر سجدہ کیا تو ان مشرکین حاضرین نے بھی سجدہ کیا۔ اتنے میں حضرت جبریل علیہ السلام نے حاضر ہو کر کہا یہ الفاظ جو آپ نے پڑھ دیے اس سورہ سے نہ تھے بلکہ شیطان نے القا کر دیے۔ مثنوی کے ظاہر الفاظ کی بنا اسی روایت پر معلوم ہوتی ہے مگر تمام محدثین کے نزدیک یہ روایت بالکل غلط اور موضوع ہے۔
مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں ”حق آنست کہ ایں قصہ موضوعہ است زنادقہ آن را وضع کرده اند و چون دابِ مؤرخان ست کہ ہر چند شنوند مے نویسند فرق میانِ صحیح و باطل نمی کنند و محدثان معتبران حکم بموضوع بودن این کرده اند، و نیز اگر این چنین بودے اعتماد بر وحی نماندے کہ شاید اینہم از القائے شیطان باشد“
اس کے بعد لکھتے ہیں ”بعض مؤرخان این چنین نقل کرده اند کہ این الفاظ بر زبانِ شریف آن سرور ﷺ جاری شده بود بلکہ شیطان در سکوتِ آن سرور ﷺ بعد آیت قرأت این الفاظ کرد کہ مستمعان دانستند کہ این الفاظ داخل سورة است و بر زبانِ شریف جاری شده پس مشرکان خوش شدند و مجمل ابيات مثنوی این می تواند شد و برین ابيات مولوی حمل باید کرد کہ این قولِ مؤرخان اسلم از قول اول ست و کفرِ جلی نیست“ اس تقدیر پر ”خواندش اندر سورہ الخ“ میں ضمیر فاعل شیطان کی طرف راجع ہو گی (فَافْھَمْ) لیکن ’’این نیز از احوالِ موضوعہ است کہ سند صحیح ندارد و نیز حاصل این قول آنست کہ شیطان بنغمۂ آن سرور ﷺ این الفاظ بزبانِ خود راند تا مستمعان بہ جہل افتادند۔ و این نیز باطل ست کہ دخلِ شیطان در قرآن باین وجہ نیز مزیل اعتماد بر وحی ست‘‘۔
آگے چل کر لکھتے ہیں ”بالجملہ این اقاویلِ مؤرخان ہمہ موضوع و منقرٰی اند و مومن را سزاوار نیست کہ تجویزِ صدق این اقاویل کند و زیاده است کہ تصدیق آن کند آن قریبِ کفر ست‘‘۔
سب سے بڑی نقلی دلیل اس قصہ کے موضوع ہونے کی یہ ہے کہ کتب صحاح میں غرانیق العلیٰ قصے کا کہیں ذکر تک نہیں اور جن راویوں سے یہ فضول افسانہ منسوب ہے ان میں سے کسی سے بھی اس کی سند کسی صحابی تک نہیں پہنچ سکی۔ بخاری شریف میں صرف اتنی روایت ہے ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَجَدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ بِالنَّجْمِ وَ سَجَدَ مَعَهُ الْمسُْلِمُوْنَ وَالْمُشْرِکُوْنَ وَالْجِنُّ وَالْاِنْسُ‘‘ یعنی ”ابن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے سورہ نجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں اور مشرکوں اور جنوں اور انسانوں نے سجدہ کیا“ (انتہٰی)۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکوں کا سجدہ کرنا اس بات کو مستلزم نہیں کہ ان کے کانوں میں بتوں کی مدح پہنچی ہو اس لیے وہ خوش ہو کر شاملِ سجدہ ہوئے، بلکہ ممکن ہے کہ جب مسلمانوں نے سجدہ کیا تو ان کی دیکھا دیکھی بلا قصد مشرکین بھی سجده میں گر پڑے ہوں۔ جیسے مجمعِ عام میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق کوئی فعل کرتا ہے تو بعض اوقات تمام اہلِ مجمع بلا تحقیق اس فعل میں شریک ہو جاتے ہیں۔ یا ممکن ہے کہ جب مسلمانوں نے سجدہ کیا ہو تو مشرکین کے تسامح و رواداری نے جہاں ان مسلمانوں کے ساتھ شریکِ مجلس ہونے اور ان کے پیغمبر کا کلام سننے کی اجازت دے دی تھی ان کے ساتھ شریکِ سجدہ ہونے کی بھی اجازت دے دی ہو اور اس وقت جب کہ مسلمان سجدے میں پڑے ہوں ان کو اپنا مخالفانہ انداز میں بیٹھے رہنا نا مناسب نظر آیا ہو۔ مذکورہ واقعہ میں مشرکین کے تسامح و رواداری کا احتمال اس وقت اور بھی قوی ہو جاتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ تلاوت میں سجدہ کرنے کا یہ پہلا موقع تھا اس لیے ابھی سجدۂ تلاوت مشرکین کی نظر میں خاص شعائرِ اسلام سے قرار نہیں پایا تھا اور ان کو اس فعل سے چنداں نفرت نہ تھی۔ بخاری شریف کی روایت ہے۔ ’’اَوَّلُ سُوْرَۃٍ اُنْزِلَتْ فِيْهَا سَجْدَۃٌ النَّجْمُ‘‘ ”سب سے پہلی سورہ جس میں سجده نازل ہوا، سورہ نجم ہے“۔
اب یہ سوال باقی رہ گیا کہ مولانا روم نے اپنے بیان میں ایسی غلط و بیہودہ اور موضوع اور جعلی روایت سے اسناد کیوں کیا؟ اس کے جواب میں صاحبِ کلیدِ مثنوی فرماتے ہیں ”مولانا کا مقصود اس قصے کی طرف اشارہ کرنے سے خود قصہ کا اثبات نہیں ہے بلکہ مقصود محض تمثیلی ہے جس کے لیے محض مثال من وجہِ شہرت کافی ہے۔ خواہ ثابت ہو یا نہ ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس مثال کے فرض سے کوئی قبحِ شرعی لازم نہ آئے۔ سو یہاں اس کے ظاہر پر جو قبح لازم آتا ہے مولانا نے اس کے جواب اور توجیہِ قصہ کی طرف ساتھ ساتھ اشارہ کر دیا ہے‘‘ صاحبِ کلیدِ مثنوی نے اس تقدیر پر کہ اس قصے کو ایک صحیح واقعہ تسلیم کر لیا جائے اور مولانا پر موضوع روایت نقل کرنے کا الزام وارد نہ ہونے پاۓ۔ اس کی ایک عجیب و بدیع مگر دقیق و پُر پیچ تاویل سپردِ قلم فرمائی ہے جس کی نقل کی یہاں گنجائش نہیں۔ اگر کسی کو شوق ہو تو کلیدِ مثنوی میں ملاحظہ کر لے۔ آگے پھر قصے کی طرف عود ہے:
29
ہِین حدیثِ صوفی و قاضی بیار وان ستمگارِ ضعيفِ زار زار
ترجمہ: ہاں! (اب) صوفی اور قاضی کا قصہ بیان کرو اور اس ظالم (بیمار) کا جو کمزور (اور) زار و نزار تھا۔