دفتر 6 حکایت 49: دوبارہ پھر اس صوفی کے قصّے کی طرف رجوع کرنا جو دریا کے کنارے پر تھا

دفتر ششم: حکایت: 49



بارِ دیگر رجوع کردن بقصّۂ آن صُوفی بر لبِ جُوئے

دوبارہ پھر اس صوفی کے قصّے کی طرف رجوع کرنا جو دریا کے کنارے پر تھا۔

1

 گفت صوفی در قصاصِ یک قفا  سَر نشاید باد دادن از عمےٰ

ترجمہ: صوفی نے (اپنے دل میں) کہا چَپت کے انتقام میں کور چشمی سے (اپنا) سر برباد نہ کرنا چاہئے۔

2

خِرقَۂ تسلیم اندر گردنم  بر من آسان کرد سیلی خوردنم

ترجمہ: (نیز) خِرقَہ تسلیم جو میری گردن میں (پڑا) ہے اس نے مجھ پر میرا چَپت کھانا آسان کر دیا۔

3

 دِید صوفی خصمِ خود را سخت زار  گفت اگر مُشتَش زَنم من خصم وار

4

 اُو بیک مُشتم بریزد چُون رَصاص  شاه فرماید مرا زجر و قِصاص

ترجمہ: صوفی نے اپنے مدّعا علیہ کو بالکل زار (نزار) دیکھا تو (اپنے جی میں) کہا اگر میں حریفوں کی طرح اس کے ایک گھونسا مار دوں تو وہ میرے ایک ہی گھونسے سے رانگ کی طرح بکھر جائے گا (پھر) بادشاہ میرے خلاف سزا و قصاص کا حکم دے گا۔

5

 خیمہ ویران ست و بشکسته وَتد  اُو بہانہ مے کند تا درفتد

ترجمہ: (اس کی مثال یہ ہے کہ) خیمہ ویران اور کھونٹی ٹوٹ گئی ہے، وہ بہانہ ڈھونڈتا ہے تاکہ گر پڑے۔

6

 بہرِ این مُردہ دریغ آید دریغ  کہ قصاصم اُفتد اندر زیرِ تیغ

ترجمہ: افسوس پر افسوس کرتا ہے کہ اس مُردہ کی وجہ سے مجھ پر تہِ تیغ قصاص واقع ہو۔


7

چون نمی تانست کف بر خصم زد  عزمش آمد کِش بر قاضی بَرد

ترجمہ: (غرض) جب وہ اپنے مدّعا علیہ پر ہاتھ نہ چلا سکا تو اس کا ارادہ ہوا کہ اس کو قاضی کے پاس لے جائے۔

مطلب: یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ جب صوفی پر خِرقَہ تسلیم کی وجہ سے چَپت کھانا آسان ہو چکا جیسے کہ اوپر گذرا، تو اب وہ قاضی کی عدالت کی طرف رجوع کیوں کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چَپت کھانا آسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ درویش آدمی کسی مخالف کی ایسی حرکت پر غصّے اور طیش میں نہیں آتا، تاہم گستاخ لوگوں کی ایسی بے جا حرکات کا اِنسداد ضروری ہے۔ جس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہے کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے، تاکہ دوسرے غریب صوفی ایسے بے باک لوگوں کے ہدفِ مظالم نہ ہوں۔ کیونکہ اگر صوفی پر خود تحمّلِ ایذا آسان ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ عامّہ صوفیہ کو ہدفِ ایذا ہوتے دیکھنا بھی آسان ہو۔ تو اب درویش پر قفا خوری کے آسان ہونے اور اس کے ایک اور مصلحت سے رجوع بہ محکمۂ قضا کرنے میں منافات نہ رہی۔ فافہم۔ غرض صوفی ہر چند متحمّل اور ضابِطِ نفس تھا، مگر حفظِ حقوق ہر حالت میں لازم ہے۔ اس بنا پر وہ قاضی کی عدالت میں جانا ضروری سمجھتا تھا۔

8

 کہ ترازوے حق ست وکیلِ او زان سوۓ حق ست دائم مَیلِ اُو

ترکیب: دوسرے مصرعہ کی ترکیب دو طرح ہو سکتی ہے۔ (1) ’’ز‘‘ جاره ’’آن سوئے حق‘‘ بمعنی ’’جانبِ مخالف حق‘‘ مجرور مل کر تعلق ’’مَیل‘‘ کے (۲) ’’زان‘‘ بمعنی ازیں جہت الگ ہو اور سوئے حق الگ ہو۔ لہٰذا ترجمہ بھی دو طرح ہو گا۔

ترجمہ: کیونکہ وہ (قاضی) حق کی (تعیین کے لیے بمنزلہ) ترازو و پیمانہ ہے (حق کی دوسری جانب یعنی ناحق و باطل سے ہمیشہ اس کو اعراض و انکار ہے یا یوں کہو) اسی لیے حق کی طرف ہمیشہ اس کا میلان ہے۔

9

 مَخَلص ست از مکرِ دیو و حیلہ اَش  مامَن ست از قيدِ دیو و قِیلہ اَش

ترجمہ: (وہ قاضی) شیطان کے مکر اور اس کے حیلے سے رہائی (پانے) کا سبب ہے۔ شیطان کی قید اور اس کے قول سے امن (پانے) کا سبب ہے۔

مطلب: یعنی قاضی کی عدالت میں شیطان کا مکر و فریب نہیں چلتا، اگر ’’قیلہ‘‘ بکسرِ قاف -لطائف کی تحقیق کے مطابق- بمعنی قیلولہ ہو، جس سے مراد خواب نیمروز ہے، تو مطلب یہ ہو گا کہ قاضی کی عدالت میں شیطان کو یہ قدرت نہیں کہ کسی کو دن دیہاڑے محوِ خواب یعنی غرقِ غفلت کر سکے، جیسے کہ اس کی عام عادت ہے۔ پس ’’قیلہ اش‘‘ میں مسبّب کی اضافت سبب کے ساتھ ہے، یعنی: قیلولہ پیدا کردۂ اُو۔

10

 ہست اُو مِقراضِ اَحقاد و جِدال  قاطعِ جنگِ دو خصم و قیل و قال

ترجمہ: وہ (قاضی) کینوں اور لڑائی کے (کاٹ ڈالنے کے) لیے قینچی ہے۔ دو فریقوں کی جنگ اور بحث کا قطع کرنے والا ہے۔

11

 دیو در شیشہ کُنَد اَفسُونِ اُو  فتنہ ہا ساکن کُنَد قانونِ اُو

ترجمہ: اس کا کلام دیو (سیرت لوگوں) کو سیاست کے شیشے میں (مقید) کر لیتا ہے۔ اس کا قانون فتنوں کو تھام لیتا ہے۔

12

 چُون ترازو دید خصمِ پُر طمع  سرکشی بگُذارَد و گردَد تَبع

ترجمہ: (کیوں نہ ہو) ترازوئے (عدل ایسی چیز ہے کہ اس) کو جب حریفِ حریص دیکھ لیتا ہے تو سرکشی چھوڑ دیتا اور تابع ہو جاتا ہے۔

13

 ور ترازو نیست گر افزون دِہیش  از قَسم راضی نگردَد آگہیش

ترجمہ: اور اگر ترازو نہیں ہے تو اگر اس کو زیادہ بھی دے دو تو اس کی آگاہی (اور ہوشیاری اس کو اس قدر بدگمان رکھے گی کہ) قسم کھانے سے بھی (اس کو) راضی نہ ہونے دے گی۔ (راضی نگردد، اِسناد آگہی کی طرف مجازی ہے، بطور اِسناد المسبّب اِلی السبب)۔

14

کےَ شَوَد راضی زِ تُو طمعِ تہیش  از پَے بے دانِشی و ابلہیش

ترجمہ: (ایسی حالت میں) اس کی بھوکی طمع، جو اس کی بے وقوفی اور حماقت کی وجہ سے ہے، تم سے کب راضی ہو۔

15

 ہست قاضی رحمت و دفعِ سِتیز  قطرۂ از بحرِ عدلِ رُستخیز

ترجمہ: (غرض) قاضی تو (حق تعالیٰ کی) رحمت ہے اور دفعِ نزاع (کا سبب) ہے (اور) عدلِ قیامت کے دریا کا ایک قطرہ ہے۔ (یعنی قیامت میں جس عدل کا ظہور ہو گا عادل قاضی اس کا ایک مظہر ہے۔ جس طرح قطره دریا کا مظہر ہوتا ہے۔)

آگے توحید کے مضمون کی طرف انتقال ہے:

16

 قطرہ گرچہ خُرد و کوتہ پا بود  لُطفِ آبِ بحر ازُو پیدا بود

ترجمہ: قطره اگرچہ (مقدار میں) چھوٹا اور (رفتار میں) کوتاہ قدم ہوتا ہے (کہ طاقتِ سیلانی نہیں رکھتا) لیکن آبِ دریا کی لطافت اس سے ظاہر ہوتی ہے (اسی طرح ممکنات باوجود ناقص ہونے کے ذات و صفاتِ حق کی مظہر ہیں)۔

17

 از غبار اَر پاک داری کلّہ را  تُو زِ یَک قطره بہ بینی دَجلہ را

ترجمہ: (مگر اس مظہریت کے احساس کے لیے ترکِ لذائدِ نفسانیہ شرط ہے چنانچہ) اگر تم اپنے منہ کو (لذّتوں کے) غبار سے پاک رکھو تو ایک قطرہ سے نہر کو دیکھو (آگے مظہریت کی چند تشبیہات اور ارشاد ہیں):

18

 جُزوہا بر حالِ كُلہا شاہد است چُون شَفَق غمّازِ خورشید آمد ست

ترجمہ: (اسی طرح تمام) اجزا اپنے کُل کے حال پر شاہد ہیں، جس طرح شَفَق آفتاب کی خبر رساں ہے۔

19

 آن قسم بر جسمِ احمد ﷺ راند حق  آنچہ فرمود ست اُقْسِمْ بِالشَّفَقْ

ترجمہ: وہ قسم (جس کا ذکر دوسرے مصرعہ میں آتا ہے) جسمِ احمد ﷺ پر حق تعالیٰ نے جاری فرمائی ہے، یعنی وہ جو فرمایا ہے کہ: " قسم کھاتا ہوں میں شفق کی"۔

مطلب: قرآن مجید میں ﴿فَلَا اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ(الانشقاق: 16) آیا ہے، جس میں "لا" زائد ہے اور معنی مراد اس سے اُقْسِم ہیں۔ اس لیے مولانا نے اُقْسِمُ درجِ مصرعہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں وزن میں گنجائش بھی اسی قدر تھی۔ اس شعر میں بھی مظہریت کی ایک تشبیہ ہے، یعنی مولانا نے بطورِ اعتبار شفق سے مراد جسمِ محمّدی لیا کہ وہ مظہر ہے خورشیدِ روحِ محمّدی کا۔ آگے ایک اور تشبیہ پیش فرماتے ہیں:

20

 مور بر دانہ چرا لرزان بُدے  گر ازان یک دانہ خرمن دان بُدے

ترجمہ: چیونٹی ایک دانے (کے فوت ہونے) پر کیوں لرزاں (و ترساں) ہوتی اگر وہ اس ایک دانہ (کے ذریعہ) سے خرمن کی جاننے والی ہوتی (اسی طرح جس کو ممکنات سے واجب کی معرفت ہو گئی وہ خوف و حزن سے مامون ہو گیا ﴿لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(یونس: 62))۔

آگے پھر قصّہ چلتا ہے:

21

 بر سرِ حرف آ کہ صوفی بے دل است  در مکافاتِ جفا مُستَعجِل است

ترجمہ: (اب مطلب کی) بات پر آ جاؤ کیونکہ صوفی بے دل ہو رہا ہے (اور) ظلم کا بدلہ لینے میں جلدی کر رہا ہے۔ (آگے نصیحت کے مضمون کی طرف انتقال ہے:)

22

اے تو کردہ ظلمہا چون خوشدلی  از تقاضائے مکافا غافلی

ترجمہ: اے شخص! کہ تو بہت ظلم کر چکا ہے کیونکر خوش دل ہے (اور) جزائے عمل کے تقاضے سے غافل ہے۔

23

 یا فراموشت شدست آن کردہات  کہ فرو آویخت غفلت پَردَہات

ترجمہ: یا تجھ کو اپنے وہ کئے ہوئے کام فراموش ہو گئے، جو تیری عقل (ناقص) نے تیرے (آگے غفلت کے) پردے ڈال دیے﴿وَ عَلٰی اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ (البقرۃ: 7)

گر زمانہ کے ہاتھوں سے پہنچے کچھ ایذا  نہ ہونا چاہیے مغموم و بے قرار تجھے 

بغور دیکھے تو عملوں کی اپنے فردِ حساب  ضرور کوئی ملا ہے تیرا اُدهار تجھے

24

 گرنہ خصمیہا ستے اندر قَفات جِرمِ گردُون رَشک بُردے بر صَفات

ترجمہ: اگر تیرے تعاقب میں خصومتیں نہ ہوتیں تو جرمِ فلک (جو ہر وقت منوّر رہتا ہے) تیری صفائی (اور نورانیت) پر رَشک لے جاتا ۔

25

لیک محبوسی برائے آن حقوق اَندک اَندک عذر می خواہ از عُقُوق

ترجمہ: لیکن تو ان حقوق (ومخاصمات) کے سبب (باطن کی ظلمت و کدورت میں) مقیّد ہو رہا ہے (اس لیے تجھ کو لازم ہے) کہ آزار دہی (گزشتہ) سے تھوڑی تھوڑی عذر خواہی کرتا رہ (یعنی جو جو اصحابِ حقوق ملتے جائیں وقتاً فوقتاً ان سے معافی مانگتا رہ۔)

26

 تا بیکبارت نگیرد مُحتسِب  آبِ خود روشن کُن اَکنُون اے مُحِبّ

ترجمہ: تاکہ تجھ کو مُحتسِب (حقیقی آخرت میں) یکبارگی (اور اچانک) نہ پکڑ لے۔ (لہٰذا) اے دوست! ابھی سے اپنا پانی صاف کر لے۔

مطلب: یکبارگی کا مطلب یہ ہے کہ جب تجھ کو اس مؤاخذہ کا خیال بھی نہ ہو گا، اس طرح کہ یا تو بلا دلیل اپنے گناہ معاف ہو جانے کا یقین کر لیا ہو یا طلبِ دنیا کے اِنہماک میں آخرت کے معاملہ کی طرف اِلتفات ہی نہ کیا ہو۔ پانی سے اعمال کو تشبیہ دی ہے کہ پانی مادۂ حیاتِ جسمی ہے اور اعمال مادۂ حیاتِ روحانی ہیں اور تائید اس تشبیہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ جناب رسول الله ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا ایک چشمہ جاری ہے اور آپ نے اس کی تعبیر میں فرمایا: ’’ذَلِك عَمَلُهٗ‘‘۔ الحدیث۔ (کلید)