دفتر ششم: حکایت: 48
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لِلْمَاضِیْن هَمُّ
المَْوتِ وَ اِنَّمَا لَهُمْ حَسرَةُ الفَوْتِ
نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ مرنے والوں کو موت کا غم نہیں بلکہ ان کو
(اعمالِ حسنہ کا موقع) فوت ہونے کی حسرت ہے
1
راست فرمود آن سپہدارِ بشر کہ ہر آنکہ کرد از دنیا گذر
2
نیستش درد و دریغ و غبنِ موت بلکہ ہستش صد دریغ از بہرِ فوت
ترجمہ: ان سيد البشر ﷺ نے صحیح فرمایا ہے کہ جس شخص نے دنیا سے انتقال کیا اس کو موت کا درد اور افسوس اور (اس کے) زیان (کا خیال) نہیں ہے (کیونکہ وہ واقع میں افسوس اور زیان کی چیز نہیں ہے) بلکہ اس کو صد افسوس (اعمالِ صالحہ کا موقع اور عمر کے) فوت ہونے کے سبب سے ہے۔
3
لَيْسَ لِلْمَاضِیْنَ هَمُّ الْمَوْت گفت لیک شان با حسرتِ فوت اند جفت
ترجمہ: (چنانچہ) آپ نے فرمایا ہے کہ مرنے والوں کو موت کا غم نہیں لیکن وہ لوگ (موقع) ہاتھ سے جاتے رہنے کی حسرت کے قرین ہیں۔
4
کہ چرا قبلہ نکردم مرگ رامخزنِ ہر دولت و ہر برگ را
ترجمہ: کہ میں نے موت کو نصب العین کیوں نہ بنایا، ہر دولت اور ہر سامان کے (اس) خزانے کا کیوں نہ تاکا۔ صائبؒ
ندارد داغِ غربت، وقعتِ رحلت عاقبت بینیکہ پیش از مرگ چشم از عالم غدّار می بندد
5
قبلہ کردم من ہمہ عمر از حَوَل آن خیالاتے کہ گم شد در اَجَل
ترجمہ: میں نے کج نظری سے ساری عمر ان خیالات کو نصب العین بنایا جو موت (کی ساعت) میں غائب ہو گئے ﴿وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ﴾ (الانعام: 94) عراقیؒ ؎
بدو گر زنده ای، یابی ز مرگ آسایشے کلیوگر زنده بجانی تو، ضرورت جان کنان میری
6
حسرتِ آن مردگان از مرگ نیستزانست کاندر نقشہا کردیم ایست
ترجمہ: (غرض) ان مرنے والوں کو موت سے حسرت نہیں (بلکہ) اس بات سے (حسرت) ہے کہ ہم (ہستیِ دنیا کے) نقوش پر (بے ثبات عمر بھر) مائل رہے۔
7
ما ندیدیم این کہ این نقش ست و کف کف ز دریا جنبد و یابد علف
ترجمہ: ہم نے یہ دیکھا کہ یہ (دنیا محض) نقش (بر آب) اور کف (دریا) ہے (اور) کف (خود معتد بہ وجود نہیں رکھتا کیونکہ وہ) دریا سے حرکت کرتا ہے اور (اسی سے) غذا پاتا ہے۔
مطلب: جس طرح حباب کو دیکھنے والا دریا کو نہیں دیکھتا جو حباب کا اصل محرک اور اس کا باعثِ حیات ہے۔ اسی طرح ہم نے صرف اجسام کو دیکھا اور روح کو نہ دیکھا جن پر اجسام کی حرکات و افعال اور ان کی زندگی کا مدار ہے، ورنہ اپنی ارواح کی بہبودی کے لیے اعمالِ صالحہ کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ آگے مولانا اس تشبیہ پر تفریع فرماتے ہیں:
8
چونکہ بحر افگند کفہا را ببر رو بگورستان و کفہا را نگر
ترجمہ: جب دریا (ئے روح) نے (ان اجسام کے) بلبلوں کو (اپنے سے علیحدہ کر کے) بیابان میں پھینک دیا تو قبرستان میں جاؤ اور (ان اجسام کے) بلبلوں کو دیکھو۔ صائبؒ ؎
سبُک روان بہ نہانخانۂ عدم رفتندبر آستانہ چو نعلین مانده قالب ہا
9
پس بگو کو جنبش و جولان تان بحر افگند ست در بحران تان
ترجمہ: پھر (ان سے) پوچھو (کہ) تمہاری (وه) حرکت اور جولانی کہاں گئی؟ (کیا) دریا نے تم کو تغیر میں ڈال دیا ہے۔
10
تا بگویندت بلب نے بل بحال کہ ز دریا کن نہ از ما این سوال
ترجمہ: تاکہ وہ (بلبلے) تم کو لب سے نہیں بلکہ (زبانِ) حال سے جواب دیں کہ یہ سوال دریا سے کرو نہ کہ ہم سے۔
مطلب: اجسام زبانِ حال سے یہ جواب دیں گے کہ یہ سوال روح سے کرو۔ اس نے جسم کو اس حال میں کیوں چھوڑا۔ ہم اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں۔ ہمارا تکلم و تخاطب تو بواسطہ روح ہی ہوتا تھا۔ اس بیان سے مولانا کا ذہن ایک اور مضمون کی طرف منتقل ہو گیا یعنی جس طرح جسم میں روح مؤثر ہے، اسی طرح روح میں بلکہ تمام موجودات میں موجودِ حقیقی مؤثر ہے۔ پس اپنی نظر کو ان سب سے اسی طرح منصرف کرنا چاہیے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
11
نقش چون کف کے بجنبد بے ز موج خاک بے بادے کجا آید باَوج
ترجمہ:(یہ مانی ہوئی بات ہے کہ یہ) نقش (عالمِ امکان) جھاگ کی طرح موج (دریا) کے بغیر کب حرکت کر سکتا ہے؟ غبار ہوا کے بغیر کہاں بلندی پر آتا ہے؟
12
چون غبارِ نقش دیدی باد بین کف چو دیدی قُلزَم ایجاد بین
ترجمہ: جب تم نے (اس عالمِ امکان کا) غبارِ نقش دیکھا ہے تو ہوا کو بھی دیکھو، جب جھاگ کو دیکھا ہے تو ایجاد کے سمندر کو بھی دیکھو۔ (اس عالمِ امکان سے جو غبار و کف سے مشابہ ہے اپنی نظر کو پھیر کر موجدِ حقیقی کی طرف جس کو دریا و ہوا کے ساتھ تشبیہ دی ہے، متوجہ ہو جاؤ۔)
13
ہِین ببین کز تو نظر آید بکار باقِیَت شحمے و لحمے پود و تار
ترجمہ: خبردار! (موجدِ حقیقی کو نظر بصیرت سے) دیکھو۔ کیونکہ تمہارے وجود میں سے نظر (ہی) کار آمد چیز ہے (اور) تمہارے باقی (اجزا) تو بس چربی اور گوشت (اور اعصاب و عروق کا) تانا بانا ہی ہے (اور یہ سب نکمی چیزیں ہیں۔ چنانچہ):
14
شحمِ تو در شمعہا نفزُود تاب لحمِ تو مخمور را نامد کباب
ترجمہ: تمہاری چربی نے شمعدانوں میں کوئی روشنی نہیں بڑھائی (اور) تمہارا گوشت شراب خوار (کے نُقل) کے لیے کباب نہیں بنا (یعنی یہ چیزیں نہ ان کاموں کے لیے موضوع ہیں نہ ان سے یہ کام لیا جا سکتا ہے)۔
15
در گداز این جُملہ تن را در بصر در نظر رَو، در نظر رَو، در نظر
ترجمہ: اس تمام بدن کو بصیرت (حاصل کرنے) میں کھپا دو۔ نظر (کی تحصیل) میں چلو، نظر (کی تحصیل) میں چلو، نظر (کی تحصیل) میں ۔ صائبؒ ؎
غذائے نور توانی بہ تیره روزان دادچو شمع ازتنِ خود گر غذا توانی کرد
16
یک نظر دو گز ہمی بیند ز راه یک نظر دو کُون دید و روئے شاه
ترجمہ:ایک (ظاہری نظر ہے جو) دو گز راستہ ہی دیکھتی ہے (اور) ایک نظر (معرفت کی ہے جس نے) دونوں جہانوں کو اور شاہِ حقیقی (کے جمال) کو دیکھ لیا۔
17
در میانِ این دو فرقے بے شمار سُرمہ جُو وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالسَّرَائِرِ
ترجمہ: ان دونوں (نظروں) کے درمیان بے انتہا فرق ہے (دوسری نظر حاصل کرنے کے لیے ریاضات و مجاہدات کا) سرمہ تلاش کرو اور الله تعالیٰ غیب کا حال بہتر جانتا ہے۔ (آگے پھر نیستی و عدم کی تعریف فرماتے ہیں):
18
چون شنیدی شرحِ بحرِ نیستی کوش دائم تا درین بحر ایستی
ترجمہ: جب تم نے بحرِ نیستی کی شرح سن لی تو ہمیشہ کوشش کرو کہ تم اس بحر میں قیام رکھو۔ امیر خسروؒ ؎
عاشق کہ نمیرد زرخِ زرد چہ خیزدعشق ست دروغش کہ مسے را بزر آلود
19
چونکہ اصلِ کارگاه این نیستی ست کہ خلا و بے نشان ست و تہی ست
ترجمہ: چونکہ (اس) کارخانہ (قدرت) کی اصل یہ نیستی ہے جو بالکل خلا اور بے نشان اور خالی ہے (اس شرط کی جزا اگلا تیسرا شعر ہے)۔
20
جُملہ اُستادان پے اظہارِ کار نیستی جویند و جائے انکسار
ترجمہ: (اور قاعدہ ہے کہ) تمام استاد لوگ (اپنی) کار گذاری دکھانے کے لیے نیستی کو ڈھونڈتے ہیں اورشکستگی کی جگہ کو (ہنر مند اپنی صنعت دکھانے کے لیے ایسی جگہ کام کرے گا جہاں اس صنعت کا کام پہلے نہ کیا گیا ہو۔ یا کیا ہوا خراب ہو چکا ہو)۔
21
لا جَرَم استادِ استادان صمد کارگاہش نیستی ولا بوَد
ترجمہ: اس لیے استادوں کے استاد (خداوند) صمد (تعالیٰ شانہٗ) کا کارخانہ نیستی اور عدم ہے (یہ بیان اسی پیرایہ میں سلطان محمود کے قصے سے چند شعر پہلے گزر چکا ہے)۔
22
ہر کجا این نیستی افزون تر ست کارِ حق و کارگاہش آن سر ست
ترجمہ: یہ نیستی جہاں کہیں زیادہ ہو گی حق تعالیٰ کی عنایت اور اس کا (افاضۂ انوار کا) کارخانہ اسی جانب زیادہ ہو گا۔
23
نیستی چُون ہست بالائین طبق بر ہمہ بُردند درویشان سبق
ترجمہ: (اور) نیستی چونکہ (اس قدر) عالی مرتبہ (چیز) ہے (اسی لیے اس کو حاصل کرنے کی بدولت) درویش سب پر سبقت لے گئے۔ صائبؒ ؎
بچشمِ قبلہ شناسانِ عالم تجرید ز خود تہی شدگان چون امام محرابند
اگر ز خویش برائی بتازیانہ و جدسفر بعالمِ بے منتہا توانی کرد
ز قعرِ گلشنِ ہستی برو باوجِ فناکہ خنده از تہِ دل چون شرر توانی کرد
24
خاصہ درویشے کہ شد بے جسم و مال کار فقرِ جسم دارد نے سوال
ترجمہ: خصوصًا وہ درویش (اس فضیلت کے ساتھ زیادہ موصوف ہے) جو بے جسم اور بے مال ہو گیا (کیونکہ) اعتبار تو فقرِ جسمی رکھتا ہے نہ کہ کوئی سوالی ہونا۔ (یعنی فقر و فقیری تو ترکِ جسمانیات کا نام ہے نہ کہ بھیک مانگنے کا۔ یہ جملہ معترضہ تھا۔ آگے اس فقر کی تفسیر فرماتے ہیں:)
25
سائل آن باشد کہ جسمِ او گداخت قانع آن باشد کہ مالِ خویش باخت
ترجمہ: سائل (معتبر) وہ ہے جس کا جسم (تک رياضات میں) گھل گیا (اور) قانع (معتبر) وہ ہے جس نے اپنا مال (ریاضات و طاعات میں) لگا دیا۔
مطلب: سائل و قانع سے یہاں وہی درویش مراد ہے جس کی مدح مقصود ہے۔ گویا درویش مذکور کی تفسیر یہاں سائلِ قانع کے لفظوں سے کی ہے اور یہ تفسیر اس لحاظ سے پُر لطف ہے کہ قرآن مجید میں صدقات و عطیات کا مستحق ہے۔ بعض جگہ سائل کو اور بعض جگہ قانع کو قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ﴿وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ﴾ (الذاریات: 19) ”اور ان کے مالوں میں حصہ تھا سائل اور محروم کا“ اور فرمایا ﴿وَ اَطْعِمُوْا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ﴾ (الحج: 36) ”اور قناعت پیشہ اور گدائی پیشہ کو کھلاؤ“ آگے نیستی کی مدح پر تفریع فرماتے ہیں:
26
پس ز درد اکنون شکایت بر مدار کوست سوۓ نیست اسپے راہوار
ترجمہ: پس تم درد (و بلا) سے (خواہ وہ جسم کے متعلق ہو یا مال کے متعلق) شکایت کا اظہار مت کرو کیونکہ وہ نیستی کی طرف اسپِ خوش رفتار ہے (آگے مضمون کو مختصر کر کے فکر و ذکر اور طاعات و عبادات کی تاکید فرماتے ہیں اور ان کے ثمرات یعنی جذب و قرب کی طرف توجہ دلاتے ہیں):
27
این قدر گفتیم و باقی فِکر کُن فکر اگر جامد بود رو ذِکر کُن
ترجمہ: اس قدر تو (فقر و نیستی کے متعلق) ہم کہہ چکے باقی (مضمون میں تم خود) فکر کر لو (اور) اگر فکر ٹھوس (اورافسرده) ہو تو چلو ذکر (الٰہی) میں مشغول ہو جاؤ۔
28
ذکر آرد فکر را در اہتزاز ذکر را خورشیدِ این افسرده ساز
ترجمہ: (کیونکہ) ذکر (الٰہی) فکر کو حرکت میں لاتا ہے (اور اس سے حقائقِ قلب پر وارد و منکشف ہونے لگتے ہیں۔ پس) ذکر کو اس (فکرِ) افسرده کا آفتاب بنا لو(تاکہ فکر اس سے گرما جائے اور پُر نور ہو جائے)۔
29
اصل، خود جذبہ است لیک اے خواجہ تاش کار کن موقوفِ آن جذبہ مباش
ترجمہ: (واقعی واصل باللہ ہونے کے لیے) اصل تو جذبہ (الٰہی) ہی ہے لیکن اے پیر بھائی! تم عمل کئے جاؤ اس جذبہ پر موقوف نہ رہو۔
مطلب: اوپر جو کفر و ذکر کی تاکید کی تھی تو اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ جب تک حق تعالیٰ کی طرف سے جذبہ و کشش نہ ہو تو ہمارے ذکر و فکر سے کیا ہو سکتا ہے؟ اس شعر میں اس کا یہ جواب دیا ہے کہ تاہم عمل کئے جاؤ، جذبہ کے انتظار میں نہ رہو جیسے کہ رسول الله ﷺ نے حضرت ام سلمہ سے فرمایا تھا ’’اِعْمَلِیْ وَ لَا تَتَّکِلِیْ فَاِنَّ شَفَاعَتِیْ لِلْھَالِکِیْنَ مِنْ اُمَّتِیْ‘‘ (جامع صغیر) یعنی ”تم عمل کئے جاؤ اور کسی بھروسے پر نہ رہو کیونکہ میری شفاعت امت کے ان لوگوں کے لیے ہے جو ہلاک ہونے والے ہیں“ آگے ترکِ عمل کا نا مناسب ہونا بیان فرماتے ہیں:
30
زانکہ ترکِ کار چون نازے بود ناز کے در خوردِ جانبازے بود
ترجمہ: کیونکہ ترکِ عمل ناز کرنے کی مانند ہے (اور) کسی (عاشقِ) جانباز کے لیے ناز کرنا کب لائق ہے؟ (وہ تو سراپائے نیاز ہوتا ہے)۔
31
نے قبول اندیش نے رَد اے غلامامر را و نہی را مے بین مُدام
ترجمہ: اے لڑکے! نہ تو (عمل کے) قبول (ہونے) کا خیال کر نہ (اس کے) رد (ہو جانے) کا بلکہ ہمیشہ (حق تعالیٰ کے) امر و نہی کو دیکھ (اور اس پر عمل کئے جا)۔
مطلب: ہماری طاعات و عبادات کو قبول کرنا، نہ کرنا حق تعالیٰ کا کام ہے اس میں ہمارا دخل نہیں۔ ہمارا بندہ ہونے کی حیثیت سے محض یہ فرض ہے اس کے حکم کو بجا لائیں۔ آگے وہ خواہ قبول کرے یا نہ کرے۔ صائبؒ ؎
سرکشی بگذار پیشِ امرِ حق تسلیم کنآتشِ نمرود را گلزار ابراہیم کُن
آگے یہ ارشاد ہے کہ جذبہ بھی عمل پر مرتب ہوتا ہے لہٰذا تم عمل کرو تو جذبِ حق بھی تمہارے شامل حال ہو جائے گا:
32
مرغِ جذبہ ناگہان پرّد ز عُشچون بدیدی صبح شمع آنگہ بکُش
ترجمہ: (جب تم امر و نہی پر عمل کرو گے تو) دفعۃً جذبہ کا پرندہ آشیانہ سے پرواز کرے گا (اور اس سے تمہاری مراد پوری ہو جائے گی) جب تم صبح کو دیکھو گے تو شمع کو گل کر دینا۔
مطلب: یعنی عمل نزولِ جذبہ کے وقت بھی رہے گا لیکن اس حالت میں ایک تغیر ہو گا اس تغیر کے وقوع کو ایک واقعہ جزیہ ہے۔ دوسرے مصرعہ میں بصورتِ انشاء کے بصیغۂ امر بتلاتے ہیں اور مقصود اس جملہ انشائیہ سے یہ جملہ خبر یہ ہے کہ صبح کے طلوع ہونے سے حاجتِ شمع نہ رہے گی، کیونکہ اب نور جو کہ شمع سے مقصود تھا وہ بوجہ اکمل بلا شمع حاصل ہے۔ یہ ہے وہ تغیر جس کی تقریر یہ ہے کہ طریق میں مقصود تو دراصل طاعت ہے۔ جیسے مشبہ بہ میں مقصود نور ہے اور اس کا ذریعہ شوق و ذوق اور تقاضائے طبعی ہو جاتا ہے جس کے خلاف کرنے سے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ جس طرح قبلِ جذب کے عمل میں تکلیف ہوتی تھی جیسے مشبہ بہٖ میں اب نور کے ذریعہ صبح ہو جاتی ہے۔ پس تکالیفِ شرعیہ تو مرتفع نہ ہوئیں البتہ تکالیفِ لغویہ یعنی کلفت و صعوبت رفع ہو گئی (کلید)۔ آگے اس جذبہ کے آثارِ خاصہ جن کا حاصل قرب ہے، بیان فرماتے ہیں:
33
چشمہا چون شد گدازه نورِ او ستمغزہا می بیند او در عین پوست
ترجمہ: جب آنکھیں گداختہ ہو گئیں تو (پھر ان آنکھوں کا نور) حق تعالیٰ کا نور ہے (اور وہ اس نور کے ذریعہ سے) مغزوں کو بالکل پوست کے اندر دیکھنے لگتا ہے۔
مطلب: بندۂ مقرب کی آنکھوں کے نور کا نورِ حق ہونا حدیثِ قرب نوافل کے ان کلمات سے ثابت ہے کہ ’’كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِيْ يَسْمَعُ بِهٖ وَ بَصَرَهُ الَّذِيْ يُبْصِرُ بِهٖ‘‘ یعنی ’’میں اس کی شنوائی بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی بینائی بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘‘۔ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ مظاہر میں ظاہر کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے۔ آگے اسی بصیرت و بینش کو دوسرے پیرایہ میں بیان فرماتے ہیں:
34
بیند اندر ذرہ خورشیدِ بقا بیند اندر قطرہ كل بحر را
ترجمہ: وہ (کائنات عالم کے) ذرّه (ذرّه) کے آفتاب (حقیقی یعنی حق تعالیٰ) کا مشاہدہ کرتا ہے (اور کائنات کے) ایک قطرہ میں (وجودِ حقیقی کے) سارے دریا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ (آگے پھر صوفی کے قصے کی طرف عود فرماتے ہیں:)