دفتر 6 حکایت 47: (حضرت خواجہ عطار) رحمۃ الله علیہ نے (ایک قصہ ارشاد) فرمایا ہے (اور اس میں) سلطان محمود غازی کے ذکر کو (موتیوں کا ہار بنا کر) پرو دیا ہے

دفتر ششم: حکایت: 47



قِصّہ سُلطان محمود و غلامِ ہندُو

سلطان محمود اور ایک ہندو غلام کا قصۂ

1

 رَحْمَةُ اللهِ عَلَیْه گفتہ است  ذکرِ شہِ محمود غازی سفتہ است

ترجمہ: (حضرت خواجہ عطار) رحمۃ الله علیہ نے (ایک قصہ ارشاد) فرمایا ہے (اور اس میں) سلطان محمود غازی کے ذکر کو (موتیوں کا ہار بنا کر) پرو دیا ہے۔

2

 کز غزائے ہند پیشِ آن ہمام در غنیمت اوفتادش یک غلام

ترجمہ: کہ ہندوستان کی جنگ سے اس سردار کی پیشی میں ایک غلام بطور غنیمت آیا۔

3

 پس خلیفش کرد و بر تختش نشاند بر سپہ بگزیدش و فرزند خواند

ترجمہ: پس (سلطان نے) اس کو اپنا نائب بنا لیا اور اس کو تخت پر بٹھایا، فوج کا افسر بنا دیا اور فرزند کا لقب بخشا۔

4

 طول و عرض و وصفِ قصہ تو بتو در کلامِ آن بزرگِ دین شنو

ترجمہ: قصہ کا طول و عرض اور حال مفصل تو اس بزرگِ دین کے کلام سے سنو۔

5

 حاصلِ آن کودک بران تختِ نضار  شُستہ پہلوئے قبادِ شہر یار

6

گریہ کردے اشک میراندے بسوز  گفت شہ او راکہ اے فیروز روز

ترجمہ: حاصل (یہ کہ) وہ لڑکا اس زریں تخت پر سلطان فرمانروا کے پہلو میں بیٹھا ہوا سوز (و گداز) کے ساتھ رونے اور آنسو بہانے لگا۔ بادشاہ نے اس سے فرمایا کہ اے نیک بخت!

7

 از چہ گریی دولتت شد نا گوار  فوق افلاکی قرین شہریار

ترجمہ: تو کیوں روتا ہے کیا دولت (و اقبال) تجھ کو نا گوار ہے؟ (ذرا سوچ تو سہی کہ) تو (اس وقت جاہ و عزت کے) آسمانوں پر ہے (اور) بادشاہ کا ہم نشین ہے۔

8

 تو برین تخت و وزیران و سپاه  پیشِ تختت صف زدہ چُون مہر و ماہ

ترجمہ: تو اس تخت پر (جلوس فرما ہے) اور وزرا اور (افسرانِ) فوج تیرے تخت کے آگے مہر و ماہ کی طرح صف بستہ ہیں (پھر یہ رونا کیا معنی رکھتا ہے؟)۔

9

گفت کودک گریہ ام زان ست زار  کہ مرا مادر دران شہر و دیار

10

از تو اَم تہدید کردے ہر زمان  بینمت در دستِ محمود ارسلان

ترجمہ: لڑکے نے کہا میں اس لیے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا ہوں کہ (میری) ماں مجھے اس شہر و دیار (میں جہاں ہم رہتے تھے) ہر وقت حضور سے ڈراتی (اور کہتی تھی کہ) میں تجھے محمود کے ہاتھ دیکھوں جو شیر (کی طرح خونخوار) ہے۔

11

 پس پدر مر مادرم را در جواب  جنگ کردے کاین چہ خشم ست و عتاب

ترجمہ: تو (میرا) باپ (اس کے) جواب میں میری ماں کے ساتھ لڑتا کہ یہ کیا (نا مبارک) غصہ اور عتاب ہے۔

12

می نیابی ہیچ نفرینِ دگر  زین چنین نفرینِ مہلک سہل تر

ترجمہ: کیا تجھ کو کوئی اور بد دعا نہیں ملتی جو ایسی بد دعا سے آسان تر ہو۔

13

 سخت بیرحمی و بس سنگین دلی  کہ بصد شمشیر او را قاتلی

ترجمہ: تو نہایت بے رحم اور بڑی سنگ دل ہے۔ (ایسی بد دعا دے کر گویا) اس کو سینکڑوں تلواروں کے ساتھ قتل کر رہی ہے۔

14

من ز گفتِ ہر دو حیران گشتمے  در دل افتادے مرا بیم و غمے

ترجمہ: میں دونوں کی (ان) باتوں سے حیران ہوتا، میرے دل میں بڑا خوف اور غم پیدا ہوتا۔

15

 تا چہ دوزخ خو ست محمود اے عجب  کہ مثل گشت ست در ویل و کُرَب

ترجمہ: کہ بڑی حیرت ہے محمود کیسا دوزخ کی سی طبیعت والا (جہان سوز) ہے جو درشتی و سختی میں ضرب المثل ہو رہا ہے۔

16

من ہمی لرزیدمے از بیمِ تو  غافل از اکرام و از تعظیمِ تو

ترجمہ: میں آپ کے خوف سے تھرایا کرتا (اور) آپ کی عنایت فرمائی و عزت افزائی سے بے خبر تھا۔

17

 مادرم کو تا بہ بیند این زمان  مر مرا بر تخت اے شاہِ جہان

ترجمہ: اے شاہ جہاں! میری ماں کہاں ہے جو اس وقت مجھے تخت پر (بیٹھا) دیکھے (اور اپنی غلطی کو محسوس کرے)۔

18

 یا پدر کو تا مرا بیند چنین  خوش نشستہ پہلوئے سلطانِ دین

ترجمہ: یا (میرا) باپ کہاں ہے تاکہ مجھ کو اس طرح (عزت و وقار کے ساتھ) فرمانرواۓ اسلام کے پہلو میں خوش و خرم بیٹھا دیکھے۔

مطلب: حاصلِ قصہ یہ کہ جس طرح یہ لڑکا سلطان محمود کی فرضی جباری و خونخواری سے ڈرتا تھا اور اس کے انعام و اکرام سے غافل تھا، اسی طرح دنیا پرست عقبٰی کے نام سے لرزہ بر اندام ہوتا ہے اور اس کو دنیوی لذات کے زوال کا باعث سمجھ کر اس سے سخت متنفر ہے۔ حالانکہ وہ نعیمِ ابدی اور مسرتِ سرمدی کا مقام ہے اس قصہ کا ایراد نیستی کے ایک فرد یعنی موت اور سفرِ آخرت سے لوگوں کے ناحق خائف ہونے کی تمثیل میں ہوا تھا۔ اب مولانا اس قصہ کو نیستی کے ایک اور فرد یعنی فقر و درویشی کے خوف پر چسپاں فرماتے ہیں اور کچھ دور چل کر اس قصے کو موت کے مضمون پر بھی چسپاں کریں گے۔

19

 فقرِ آن محمود تست اے بے سعت  طبع ازو دائم ہمی ترساندت

ترجمہ: اے کم ہمت! فقر (و درویشی) تیرا وہ محمود ہے جس سے تیری طبیعت تجھ کو ہمیشہ ڈراتی ہے (طبع بشری بہت سی مرغوبات مشتہیات کی طالب ہے۔ فقر و محتاجی میں جن کا میسر ہونا مشکل ہے۔ اس لیے طبع فقر سے ڈراتی ہے)۔

20

 گر بدانی رحمِ این محمودِ راد خوش بگوئی عاقبت محمود باد

ترجمہ: اگر تجھے اس محمود سخی کا رحم (و کرم) معلوم ہو تو خوشی کے ساتھ کہے کہ (الٰہی میرے فقر کا نتیجہ اچھا نکلا اسی طرح سب کا) انجام بخیر ہو۔

21

 فقرِ آن محمودِ تست اے نیم دل  کم شنو زین مادرِ طبعِ مُضل

ترجمہ: اے کمزور دل والے! فقر تیرا وہ محمود ہے (جس نے لڑکے کو اکرام و اعزاز سے ممتاز فرمایا تھا۔ لہٰذا) اس طبیعت کی گمراہ کن ماں کی (بات) مت سن (جو تجھے اسی طرح بہکاتی ہے جس طرح لڑکے کی ماں اسے گمراہ کر رہی ہے)۔


22

 چُون شکارِ فقر گردی تو یقین  ہمچو کودک اشک باری یومِ دین

ترجمہ: جب تو فقر کے ہاتھ میں پڑے (اور اس کے نیک نتائج محسوس کرے گا) تو آخرت میں یقیناً اس لڑکے کی طرح اشک باری کرے گا (کہ ہائے میں فقر کو برا کیوں سمجھا)۔

23

گر چہ اندر پرورش تن مادر ست  لیک از صد دشمنت دشمن تر ست

ترجمہ: اگرچہ پرورش کے لحاظ سے یہ بدن (جو مترادف طبع ہے بمنزلہ) ماں (کے) ہے لیکن (حقیقت شناسی کے لحاظ سے) سو دشمن سے بھی زیادہ تیرا دشمن ہے۔ 

مطلب: چونکہ اقتضائے طبع کا مرجع اقتضائے قوائے جسمانیہ ہی کی طرف ہے، اس لیے طبیعت کو یہاں تن سے تعبیر فرمایا اور پرورش کا مضاف الیہ اور مفعول نفس ہے۔ بمعنی مطلق حقیقتِ شخصیہ با اعتبار آمر بالسوء ہونے کے اور چونکہ بعض شہواتِ جسمانیہ کے پورا کرنے سے نفس کو بھی قوت پہنچتی ہے اور تن کے جوع و عطش سے نفس بھی اپنے بعض افعال سے معطل ہو جاتا ہے، اس لیے طبیعت کو مربیِ نفس کا قرار دیا گیا اور جسم کی مدد گار روح اور روح کا مدد گار جسم ہونا مسلم ہے۔ حاصل یہ کہ اگرچہ طبع اور جسم سے روح اور نفس کو قوت ہی پہنچتی ہے۔ لیکن بعض احوال میں اس سے ضرر بھی بہنچتا ہے۔ (کلید) آگے نفس کے حق میں بدن کی دشمنی کا بیان ہے:

24

 تن چو شد بیمار دارو جُوت کرد ور قوی شد مر ترا طاغوت کرد

ترجمہ: بدن اگر بیمار ہو گیا تو تجھ کو طالبِ دوا بنا (کر فکر و غم اور رنج و تعب میں ڈال) دیا اور اگر (تندرست ہو کر) قوی ہو گیا تو تجھ کو (لذاتِ جسمانیہ میں ڈال کر) شیطان بنا دیا۔

مطلب: بدن نفس و روح کا ایسا دشمن ہے کہ اپنی صحت و مرض دونوں حالتوں میں کبھی کبھی ان کو دینی و دنیوی نقصان پہنچتا رہتا ہے۔ اس لیے اوپر یہ نصیحت کی گئی کہ ’’کم شنو زین مادر طبع مفصل‘‘۔ آگے بدن کے غیر نافع بلکہ مضر ہونے کی ایک مثال دیتے ہیں۔

25

 چون زره دان این تنِ پُر حیف را  نے شتا را شاید و نے صیف را

ترجمہ: اس بدن پُر ستم کو زرہ کی مانند سمجھو جو نہ (ایام سرما میں) سردی (رفع کرنے) کے لائق ہے نہ (ایامِ گرما میں) گرمی (دور کرنے) کے قابل۔

مطلب: یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ زرہ تو ایسی غیر مفید نہیں جیسے تم بدن کو سجھتے ہو۔ چنانچہ اس سے محارباتِ اعدا میں بدن محفوظ رہتا ہے۔ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یوں مفید ہونے کو تو بدترین سے بدترین دشمن بھی بعض لحاظ سے مفید ثابت ہوتا ہے۔ بنا بریں اگر زرہ مفید ہے تو بدن کونسا مفید نہیں۔ چنانچہ دشمن کا بھی ایک فائده یہ ہے کہ اس کی ایذاؤں پر صبر کرنے کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ اگلے شعر کا یہی مطلب ہے۔

26

 یارِ بد نیکو ست بہرِ صبر را  کہ کشاید صبر کردن صدر را

ترجمہ: برا ساتھی (جو بمنزلۂ دشمن ہے) صبر (کی عادت پیدا) کرنے کے لیے اچھا ہے کیونکہ صبر کرنے سے سینہ کشادہ ہوتا ہے (یعنی صبر سے شرحِ صدر کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے) صائبؒ ؎

زیرِ بارِ منّت از بد خوئی خلقم کہ موج  واصلِ دریا ز ردِّ ساحل مے شود

ولہٗ ؎ 

آبِ حیوان در عقیقِ صبر پنہان کرده اند  این چنین آب گوارائے ننوشیدن چرا

27

 صبرِ مہ با شب منّور داردش  صبرِ گُل با خار اذفر داردش

ترجمہ: چاند کا (کالی) رات کے ساتھ صبر کرنا اس کو منور رکھتا ہے۔ (اسی طرح) پھول کا کانٹے کے ساتھ صبر کرنا اس کو تیز خوشبو والا کر دیتا ہے۔

28

صبرِ شیر اندر میانِ فرث و خون  کرد او را ناعشِ ابنِ اللَّبون

ترجمہ: دودھ کا گوبر اور خون کے درمیان صبر کرنا اس شیر خوار بچہ کے لیے زندگی بخش بنا دیتا ہے (یہ صبر تکوینی و اضطراری کی قسم ہے)۔

29

 صبرِ جملہ انبیا با منکران  کردشان خاصِ حق و صاحبقران

ترجمہ: تمام انبیا علیہم السلام کے منکروں کے ساتھ صبر کرنے نے ان کو خاصانِ خدا اور با اقبال بنا دیا (یہ وہ صبرِ اختیاری ہے جس سے دینی ثمرات حاصل ہوتے ہیں)۔

30

 ہر کرا بینی یکے جامہ درُست  دان کہ اُو آن را بصبر و کَسب جُست

ترجمہ: جس شخص کے پاس تم ایک اچھا کپڑا دیکھو تو سمجھو کہ اس کو صبر و محنت سے پایا ہے (یہ صبرِ اختیاری کی وہ قسم ہے جس سے دنیوی فوائد تصور ہوتے ہیں۔ بر خلاف اس کے اس قسم کی بے صبری سے دنیوی نقصان متصور ہے۔ چنانچہ:)

31

ہر کرا بینی برہنہ و بے نوا  ہست بر بے صبریِ او آن گوا

ترجمہ: جس شخص کو تم ننگا اور بے سامان دیکھو تو وہ (بے سامانی) اس کی بے صبری پر گواہ ہے (کہ اس سے کمانے کی محنت پر صبر نہ ہوسکا۔ اس لیے تہی دست و بے سامان ہے۔)

32

ہر کہ مستوحِش بود پُر غصہ جان  کرده باشد با دغائی اِقتران

ترجمہ: جو شخص پریشان ہو (اور اس کی) جان غصہ سے پُر (ہو)، اس نے کسی دغا باز کے ساتھ تعلق پیدا کیا ہو گا۔ (یہ بھی بے صبری کا نتیجہ ہے کہ خدا کے تعلق پر صبر نہ کر کے دغا باز مخلوق سے تعلق ڈالا اور اس کی جدائی سے پریشانی اٹھائی۔)

33

صبر اگر کر دے ز اُلفِ آن بے وفا  از فراقِ او نخوردے این قِفا

ترجمہ: اگر وہ بے وفا (اس دغا باز کی) الفت سے صبر کرتا، تو اس جدائی سے یہ چپت نہ کھاتا۔

34

 خوئے با حق ساختے چون انگبین بالبن کہ لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِین

ترجمہ: (بلکہ) وہ خداوند تعالیٰ کے ساتھ موافقت کرتا جیسے شہد دودھ کے ساتھ (گھل مل جاتا ہے، اسی طرح اہلِ حق غیر حق سے یہ کہہ کر قطعِ تعلق کر لیتا ہے) کہ میں غائب (اور فانی) ہونے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

35

لاجرم تنہا نماندے ہمچنان  کاتشے مانده بِرَه از کاروان

ترجمہ: (اور جب ایسا کرتا تو) لامحالہ (کسی حال میں) تنہا نہ رہتا جس طرح کہ آگ راہ میں قافلہ سے (جدا ہو کر) تنہا رہ گئی۔

مطلب: قافلہ آگ کو منزل پر چھوڑ کر چل دیتا ہے اور تنہا نہ رہنا اس شخص کا ظاہر ہے، کیونکہ اس صورت میں ان کو معیت خاصہ دائمہ حق کی نصیب ہوتی پھر تنہائی کہاں۔ جیسے دغائی کے اقتران کے بعد یہ تنہا رہ گیا۔ (کلید)

36

 چون ز بے صبری قرینِ غیر شد  در فراقش پُر غم و بے خیر شد

ترجمہ: جب یہ شخص بے صبری سے غیر (حق) کا قرین ہو گیا تو اس کے فراق میں پُر غم اور بے خبر ہو گیا۔ (بے صبری سے مراد یہ ہے کہ معیت حق پر صبر نہ کر سکے۔)

37

 صحبتت چون ہست زرِّ ده دہی  پیشِ خائن چون امانت مے نہی

ترجم: تیری صحبت (اور معیت) جب زرِ خالص (کی طرح ایک بے بہا چیز) ہے، تو (اس کو) خائن کے پاس کیوں امانت رکھتا ہے؟ 

مطلب: جس طرح زر خالص ایک پُر نفع چیز ہے اس کے ذریعہ جو چیز چاہے خرید سکتا ہے۔ اسی طرح تعلق باللہ سب تعلقات پر پُر نفع اور کثیر الفوائد ہے اس کے ذریعہ جو فضیلت چاہے حاصل کر سکتا ہے۔ پس اس عظیم الشان تعلق کو مخلوق کی طرف منصرف کرنا ایسا ہی احتمال ضرور رکھتا ہے۔ جیسے کسی خائن کے پاس زرِ خالص کو امانت رکھنا جس میں اس کے خیانت کرنے بلکہ سرے سے مکر جانے کا اندیشہ ہے۔

38

خوئے با او کُن کہ امانتہائے تُو  ایمن آید از افُول و از عتو

ترجمہ: تعلق اس کے ساتھ ڈال کہ (جس کے پاس یہ تعلقات کی امانتیں رکھی جائیں تو) تیری امانتیں مفقود ہونے سے اور تعدی سے محفوظ رہیں۔

39

 خوئے با او کُن کہ خُو را آفرید خُویہائے انبیا را پرورید

 ترجمہ: تعلق اس کے ساتھ ڈال جس نے اخلاق کو پیدا کیا (جو بنائے تعلقات اور) اس نے انبیا علیہم السلام کے اخلاق کی تربیت (و تکمیل) فرمائی۔

مطلب: اخلاق حق تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں جن پر تمام تعلقات اور تعلقات کے حسن و قبح کا مدار ہے، اس لحاظ سے گویا تعلقات بھی اس کے پیدا کردہ ہیں۔ پس یہ کس قدر غداری ہو گی کہ ایک چیز عطیہ تو ہو خدا کا اور اس سے خدمت لی جائے غیرِ خدا کی۔ بلکہ اخلاق کو پورا کرنے کے علاوہ ان کی تربیت و تکمیل بھی وہی کرتا ہے جس کا بہترین نمونہ انبیا کے اخلاق ہیں۔ پس جب وہ خالقِ اخلاق یہی ہے اور مربیِ اخلاق بھی تو ثمرۂ اخلاق یعنی تعلقات کا انصراف اسی کی طرف ہونا چاہیے جو نہ صرف تعلقات کی امانت کو محفوظ رکھتا ہے بلکہ وہ صلہ بھی خوب عطا فرماتا ہے۔

40

برّہ بدہی رمہ بازت دہد پرورندہ ہر صفت خود رب بود

ترجمہ: (اس کی صلہ افزائی کا یہ عالم ہے کہ مثلاً) تم بکری کا ایک بچہ دیتے ہو تو وہ تم کو ایک ریوڑ واپس دیتا ہے۔ ہر صفت کا مربی خود پروردگار ہے۔

مطلب: پس جن صفات کو تم اس کی طرف منصرف کرو گے وہ اپنی شانِ ربوبیت کے مطابق ان کی پرورش کرے گا۔ اس مضمون کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے ’’قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَ سَلَّم مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللّٰهُ إِلَّا الطَّيِّبَ فَاِنَّ اللّٰهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهٖ ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِہَا كَمَا يُرَبِّي اَحَدُكُمْ فَلُوَّهٗ حَتّٰى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ۔۔۔‘‘ (متفق علیہ مشکوٰۃ) یعنی ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ایک خرما کے برابر پاک کمائی سے خیرات دے، اور اللہ تعالیٰ صرف پاک مال کو قبول فرماتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، اور اس کو اس کے مالک کے لیے پرورش فرمانے لگتا ہے۔ جس طرح کوئی تم میں سے اپنے بچھیرے کی پرورش کرے حتیٰ کہ وہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ آگے ان صفات و اخلاق کو مخلوق کی طرف منصرف کرنے سے منصرف کا ذکر فرماتے ہیں۔

41

 برّہ پیشِ گرگ امانت مے نہی  گرگ و یوسفؑ را مفرما ہمرہی

ترجمہ: تو بکری کے بچے کو بھیڑیے کے پاس امانت رکھتا ہے (تو یہ اچھی بات نہیں مگر خدا کے لیے) بھیڑیے اور یوسف علیہ السلام کی ہمراہی کا حکم مت دے (کہ یہ اور بھی خطرناک و پر مضرت ہے)۔

مطلب: بھیڑیے کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر اس قصے کی مناسبت کے لیے ہوا ہے کہ برادرانِ یوسف نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس (یہ بہانہ کیا تھا) کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔ یہاں اس سے مراد ہے کہ عام اخلاق و صفات کو مخلوق کی طرف متصرف کرنا تو برا ہے ہی، مگر اخلاقِ فاضلہ کو مخلوق کی طرف منصرف کرنا اور بھی برا ہے۔

42

 گرگ اگر با تو نماید روبہی  ہِین مکن باور کہ ناید زو بہی

ترجمہ: اگر بھیڑیا تیرے ساتھ لومڑی کی طرح (خوشامدانہ) سلوک کرے تو خبردار! (اس کا) یقین مت کرنا (کہ وہ تیرا خیر خواہ ہے) اس لیے اس سے کبھی بہتری (عمل میں) نہ آئے گی۔

43

 جاہل ار با تو نماید ہمدلی  عاقبت زخمت زند از جاہلی

ترجمہ: جاہل اگرچہ (فی الحال) تم سے ہمدردی کا اظہار کرے (مگر) انجامِ کار جہالت کی وجہ سے تم کو صدمہ پہنچائے گا۔

44

 او دو آلت دارد و خنثٰی بود  فعلِ ہر دو بی گُمان پیدا شود

ترجمہ: وہ (جاہل خود غرض گویا) آلۂ تناسل رکھتا ہے (مردانہ بھی زنانہ بھی) اور (یوں سمجھو کہ) وہ خنثٰی ہوتا ہے (اور) دونوں (آلوں) کا فعل بے شبہ (اپنے اپنے وقت پر) ظاہر ہوتا ہے (چنانچہ ذکر کا اثر یہ ہے کہ وہ مرد ہو اور فرج کا اثر یہ کہ وہ عورت ہو۔ اس لیے:)

45

 او ذکَر را از زنان پنہان کند  تا خود را خواہرِ ایشان کند

ترجمہ: وہ ذکر کو عورتوں سے پوشیدہ رکھتا ہے تاکہ اپنے آپ کو ان کی (بہن) ظاہر کرے (اور وہ اس سے مانوس ہو جائیں)۔

46

 شُلّہ از مردان بکف پنہان کند  تاکہ خود را جنسِ آن مردان کند

ترجمہ: فرج کو مردوں (کی نظر) سے ہاتھ رکھ کر چھپاتا ہے تاکہ اپنے آپ کو ان مردوں کا ہم جنس (ظاہر کرے)۔

مطلب: فرج کو چھپانے سے مقصد یہ کہ مرد اس کو مرد سمجھ کر ہم کلام ہوں۔ عورت سمجھ کر اسے کسی اور نیت سے نہ دیکھیں۔ غرض جس طرح خنثٰی مردوں میں مرد اور عورتوں میں عورت بن کر رہنا چاہتا ہے اور اس بات سے بچتا ہے کہ عورتیں اس کی مردانہ علامت سے خائف ہوں اور مرد اس کو زنانہ علامت کو معلوم کر کے خود اس کو خوف زدہ کر دیں۔ اسی طرح جابل اپنے غرضمندانہ و منافقانہ ارادے سے ہر گروہ اور ہر جماعت کے سامنے اپنے آپ کو انہی کا ہم مشرب و ہم خیال ظاہر کرتا ہے ﴿وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّاۚۖ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ (البقرۃ: 14) جاہل سے یہاں وہ شخص مراد ہے جو حق تعالیٰ کے عدل و انصاف اور اعمال کے انجام و نتائج سے بے خبر یا بے پروا ہو۔ ایسا شخص بڑا خطرناک ہوتا ہے اس کی شناخت کرنا اور اس سے بچنا از حد ضروری ہے جس کے لیے اپنے اندر دینی بصیرت پیدا کرنی چاہیے۔ جس کو یہ بصیرت حاصل ہو وہ اس شخص سے بآسانی بچ سکتا ہے۔ آگے مولانا اس کی شناخت کے لیے ایک آیت کا مضمون بطور روایت کے بالمعنیٰ پیش فرماتے ہیں:

47

 گفت یزدان زان کُسِ مکتوم او  شُلَّہ سازیم بر خُرطومِ او

ترجمہ: حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم اس کی اس مخفی فرج سے اس کی ناک پر ایک زنانہ علامت بنا دیں گے۔

مطلب: الله تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿سَنَسِمُهٗ عَلَى الْخُرْطُوْمِ(القلم: 16) ”عنقریب ہم قیامت میں اس کی ناک پر داغ بنا دیں گے‘‘ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے تھا۔ گو اس کی راجح تفسیر یہی ہے کہ یہ داغ لگانے کی وعید قیامت سے تعلق رکھتی ہے جس سے مراد قیامت میں اس کی ذلت و رسوائی ہے۔ مگر مفسرین میں مشہور یہ ہے کہ اس سے دنیا ہی میں داغ لگنا مراد ہے اور یہ خدائی وعید اس طرح پوری ہوئی کہ کسی غزوہ میں اس کی ناک زخمی ہو گئی پھر وہ نشان عمر بھر رہا۔ مولانا نے یہی تفسیر اختیار فرمائی ہے اور جاہل مکار کے حال کو ولید کے حال سے اور اس کے عیوب کی علامات کو ولید کے داغِ بینی سے تشبیہ دی ہے۔ یعنی جس طرح حق تعالیٰ نے اس دشمنِ اسلام کی بد باطنی و کور دلی کی علامت اس کی ناک پر رکھ دی، اس طرح ہر جاہل بد نیت کے باطن کا حال مومن کے لیے اس کے ظاہر پر عیاں کر دیا۔ بفحوائے حدیث ’’اِتَّقُوْا فَرَاسَةَ الْمُوْمِنِْ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ‘‘ یعنی ”مومن کی فراست سے ڈرتے رہو وہ اللہ کے نور کے ساتھ دیکھتا ہے“۔

48

 تاکہ بینایانِ ما زان دو دَلال  در نیایند از فنِ او در جَوال

ترجمہ: تاکہ ہمارے (بندے جو) اہلِ بصیرت (ہیں اس کے) ان دونوں قسم کے ناز (و کرشمہ) کے باعث اس کے فریب سے دھوکے میں نہ پڑ جائیں۔

49

حاصلِ آن کز ہر ذکَر ناید نری  ہین ز جاہِل ترس گر دانشوری

ترجمہ: حاصل (کلام کا یہ) ہے کہ ہر مرد سے مردانگی صادر نہیں ہوتی۔ خبردار! جاہل سے ڈرو اگر تم عقل مند ہو۔

مطلب: مردوں میں سے بعض کی مردمی خنثٰی کی طرح مخلوط بانوثت ہوتی ہے اسی طرح جاہل، بے دین اپنے اخلاق و افعال کو مخلصانہ ظاہر کرتا ہے مگر انہیں مکر و ریا کی آمیزش ہوتی ہے یہاں تک اس جاہل کا ذکر تھا جس کا ظاہر و باطن مختلف ہو اور وہ مکر و فریب سے کام لیتا ہو۔ آگے اس نادان دوست کا ذکر کرتے ہیں جو سچی نیت سے محبّ و مخلص ہو مگر اس کی محبت اور یگانگی جہل و نادانی کے باعث غلط راستے پر لے جا رہی ہو۔

50

دوستیِ جاہلِ شیرین سخن  کم شنو کان ہست چُون سمِّ کہن

ترجمہ: (جو) جاہل (کہ اپنی محبت و اخلاص سے) شیریں سخن ہو اس سے (بھی) دوستی (کی باتیں) نہ سنو کیونکہ وہ پرانے زہر کی مانند (سخت قاتل) ہیں۔

مطلب: زہر  پرانا ہو کر زیادہ قاتل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مشہور ہے کہ سانپ جتنا پرانا ہو زیادہ زہری ہوتا ہے اور طبیب سے سنا ہے کہ سنکھیا پرانی ہونے سے اس کا یُبس بڑھ جاتا ہے اور وہ زیادہ قاتل ہو جاتی ہے (کلید)۔ اس دوست کی دوستی زیادہ سے زیادہ بوجہ اخلاص کے ایسی ہو گی جیسے ماں کی، کہ اس میں واقعی خلوص ہوتا ہے لیکن تاہم اس سے بچنا چاہیے۔

51

 جانِ مادر، چشم روشن گویدت  جُز غم و حسرت ازان نفزویت

ترجمہ: (گو وہ بتقاضائے خلوص ماں کی طرح) ماں کا لاڈلا روشن آنکھ (وغیرہ محبت بھرے) لقب تجھ کو دیتا ہے (لیکن چونکہ وہ غلط راستے پر لے جاتا ہے لہٰذا) اس سے سوائے غم و حسرت سے تیری کوئی چیز نہ بڑھے گی۔ (آگے ماں کی نادانی آمیز خیر خواہی کی ایک مثال ارشاد ہے:)

52

 مر پدر را گوید آن مادر جہار  کہ ز مکتب بچّہ ام شد بس نزار

ترجمہ: وہ (نادان) ماں (مامتا کی ماری بچہ کے) باپ سے علانیہ کہا کرتی ہے کہ مکتب (کی پڑھائی) سے میرا بچہ بالکل لاغر ہو گیا۔

53

 از زنِ دیگر گرش آوردیے  بروَے این جور و جفا کم کر دیے

ترجمہ: اگر وہ (بچہ) تیری دوسری بیوی سے ہوتا، تو اُس پر تُو یہ ظلم و ستم نہ کرتا۔

مطلب: اس نادان ماں کے اپنے بچے کے لیے خیر خواہی جو بظاہر خلوص و محبت پر مبنی ہے پانچ خرابیوں کو مستلزم ہے (1) بچے کو علم سے محروم رکھنے کا تقاضا (2) بچے کے باپ پر لعن طعن روا جو باعثِ نزاع ہو سکتا ہے (۳) بچے کے باپ پر یہ غلط الزام کہ وہ محض بیوی کے ساتھ مخالفت رکھنے کی بنا پر اس کے بچہ پر ظلم کر رہا ہے (4) بچے کے دل میں علم سے نفرت پیدا کرنا جس کو وہ اب ہنر و کمال نہیں بلکہ باپ کی طرف سے ایک سزا و عذاب سمجھے گا۔ آگے باپ معتدل الفاظ میں اس کا جواب دیتا ہے۔

 54

از جز از تو گر بُدے این بچہ ام این فشار آن زن بگفتے نیز ہم

ترجمہ: (باپ کہتا ہے اری نادان!) اگر میرا یہ بچہ تیرے سوا کسی اور (عورت) سے پیدا ہوتا تو وہ عورت بھی (نسوانی جہل سے تعلیم و تدریس کو بمنزلۂ ظلم سمجھتی اور) یہی بکواس کرتی (لہٰذا میں تم عورتوں کی بے ہودہ باتوں سے اس کی تعلیم کے سلسلے کو بند نہیں کروں گا۔ آگے مولانا فرماتے ہیں:)

55

 ہی بجہ زین مادر و تیبایِ او  سیلیے بابا بہ از حلواۓ اُو

ترجمہ: خبردار! تم اس ماں سے اور اس کے افسون سے دور بھاگو (سچ تو یہ ہے کہ) باپ کی چپت اس ماں کے حلوے سے اچھی ہے (کیونکہ اس چپت کا انجام ہدایت ہے اور اس حلوے کا نتیجہ ضلالت اور جس طرح یہ جاہل دوست نادان ماں سے مشابہ ہے اور عارف باپ سے مشابہ، اسی طرح:)

56

ہست مادر نفس و بابا عقلِ راد  اولش تنگی و آخر صد کشاد

ترجمہ: نفس (مشابہ) ماں (کے) ہے اور عقل دانا (مشابہ) باپ (کے) ہے کہ اس (عقل کی تعلیمات و ہدایات) کی ابتدا تنگی (و سختی سے) ہے اور انتہا صد ہا کشایش (و کامیابی ہیں)۔

انتباه: یہاں تک طبع اور نفس کی ضرر رسانی کا ذکر تھا جن سے بچنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ چونکہ انسان ضعیف ہے اور نفس و طبع کے رجحانات قوی ہیں اس لیے دعا کرتے ہیں کہ ان کے شر سے بچنے کی توفیق عطا ہو۔

57

اے دہندہ عقلہا فریاد رس  تا نخواہی تو نخواہد ہیچ کس

ترجمہ: اے عقلیں بخشنے والے! (ہماری) فریاد کو پہنچ جب تک تو کوئی بات نہ چاہے کوئی نہیں چاہ سکتا (ہر شخص جو کچھ چاہتا ہے وہ بمشیتِ حق ہے)۔

58

 ہم طلب از تست ہم آن نیکوئی  ما کئیم اول توئی آخرت توئی

ترجمہ: (الٰہی ہماری نیکی کی) طلب بھی تیری ہی (مشیّت سے) ہے (اور) وہ نیکی بھی (تیری ہی توفیق سے عمل میں آتی ہے) ہم کون ہوتے ہیں۔ اول بھی تو ہے (اور) آخر بھی تو ہے۔

59

 ہم بگو تو ہم بشنو ہم تو باش  ما ہمہ لاشئیم با چندین تراش

ترجمہ: (جب ہم ایسے ضعیف و مضمحل ہیں تو الٰہی) تو ہی کہہ (اور) تو ہی سن، تو ہی رہ، ہم تو سب باوجود اس تراش (و خراش) کے لاشے (محض) ہیں۔

مطلب: مصرعۂ اولیٰ کے تینوں صیغۂ امر میں مجاز ہے۔ یہ افعال میں منسوب عبد کی طرف ہیں لیکن چونکہ ان کا صدور موقوف ہے ایجادِ حق پر اس لیے مبالغۃٌ حق ہی کی طرف ان کو منسوب کر دیا جیسے حدیث میں ہے۔ ’’مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ‘‘ یعنی فرماتا ہے ’’میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہ کی‘‘ اور حدیث میں ہے۔ ’’کُنْتُ سَمْعُہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ‘‘ یعنی ’’میں اس کی شنوائی بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے‘‘ مطلب یہ ہے کہ اچھی بات کہنا یا اچھی حالت پر رہنا ہمارے مستقل اختیار میں نہیں، آپ ہی توفیق دے کر ہم سے صادر کرا دیجئے گویا آپ ہی یہ کام کر لیجئے۔ (کلید)

60

زین حوالت رغبت افزا در سجود  کاہلیِّ جبر مَفر ست و خُمور

ترجمہ: (الٰہی) اس (تمام) حوالہ سے (جو ہم نے تجھ پر کیا ہے ہمارا مقصود یہ ہے کہ تو) سجدہ (اور طاعات) میں (ہماری) رغبت زیادہ کر دے (اور ہم پر) جبر کی کاہلی اور افسردگی مت بھیج۔ (اس دعا سے سامعین کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اپنی کوشش پر اعتماد نہ کرنا چاہیے بلکہ حق تعالیٰ کو مختار سمجھ کر اسی سے توفیق مانگنی لازم ہے۔ تاہم کوشش کرتے رہنا ضروری ہے۔ آگے جبر کی تفصیل فرماتے ہیں تاکہ اوپر کے ذکر سے کوئی جبر کو مطلقاً مذموم نہ سمجھ بیٹھے:)

61

جبر باشد پرّ و بالِ کاملان  جبر ہم زندان و بندِ کاہلان

ترجمہ: (ایک) جبر تو کاملین کے لیے (ذریعۂ ترقی ہونے میں بمنزلہ) پرّ وبال ہوتا ہے (اور ایک) جبر سست لوگوں کے لیے (طاعات سے مانع ہونے میں بمنزلہ) قید خانہ و زنجیر (بھی ہے)۔

62

ہمچو آبِ نیل دان این جبر را  آب مومن را و خُون مَر گبر را

ترجمہ: اس جبر (مطلق) کو دریائے نیل کی مانند سمجھو (کہ) وہ مومن (سبطی) کے لیے پانی اور کافر (قبطی) کے لیے خون ہے (دریائے نیل کا پانی قبطیوں کے لیے خون بن گیا تھا کَمَا مَرَّ بَیَانُہٗ۔ اسی طرح جبر کاہل لوگوں کے لیے مضر ہوتا ہے۔)

63

 بال، بازان را سُوئے سلطان برد بال، زاغان را بگورستان برد

ترجمہ: (ایک) بازو (ئے پرواز) بازوں کو بادشاہ کی طرف لے جاتا ہے (اور ایک) بازو کوؤں کو قبرستان کی طرف لے جاتا ہے۔

مطلب: دونوں جگہ بازو کام کر رہا ہے مگر ہر بازو والے کی صلاحیت کے مطابق اس کا کام ایک جگہ قابلِ فخر اور دوسری جگہ باعثِ عار ہے۔ اسی طرح جبر کامل کے لیے قابلِ فخر اور کاہل کے لیے موجبِ عار ثابت ہوتا ہے۔ جبرِ محمود و مذموم کی تفصیل دفترِ اول میں شیر و خرگوش کے قصے کے ضمن میں گزر چکی ہے جو شرح ہذا کے حصہ دوم میں واقع ہوئی ہے۔ آگے عدم و معدوم کے ذکر کی طرف عود فرماتے ہیں جس کا مطلوب ہونا سلطان محمود کے قصے سے ذرا پہلے بیان ہوا تھا:

64

 باز گرد اکنون تو در شرحِ عدم  کو چو پازہر ست، پنداری تو سم

ترجمہ: اب تم پھر عدم کی شرح کی طرف واپس چلو جو تریاق کی مانند ہے اور تم اس کو زہر سمجھتے ہو۔

65

 ہمچو ہندو بچہ، ہین اے خواجہ تاش  رو ز محمودِ عدم ترسان مباش

ترجمہ: ہاں اے پیر بھائی! (عدم و نیستی کی طرف بڑھے) چلو۔ ہندو بچے کی طرح محمودِ عدم سے مت ڈرو (جس طرح ہندو بچہ سلطان محمود سے نا حق ڈرتا تھا آخر اس کے اکرام و انعام کا معترف ہو گیا۔ اسی طرح تم عدم سے نا حق ڈرتے ہو۔ آخر اس کی فضیلت کا اعتراف کرو گے)۔

66

 از وجودے ترس کاکنون در وَیی  آں خیالت لاشے و تو لا شَیئی

ترجمہ: (بلکہ) تم اس وجود سے ڈرو جس میں تم (اب) ہو (کیونکہ وہ وجود واقع میں معتد بہ نہیں بلکہ ایک خیال ہے اور) وہ تمہارا خیال (بھی) لاشے ہے اور تم (بھی) لاشے ہو۔

67

 لاشیئے بر لاشیئے عاشق شده است  ہیچ نے مر ہیچ نے را رَه زده است

ترجمہ: (پھر جو تم اس خیالی وجود پر عاشق ہو رہے ہو تو گویا) ایک لاشے دوسرے لاشے پر عاشق ہو رہا ہے (اور ایک) نا چیز نے دوسری نا چیز پر رہزنی کر رکھی ہے (یعنی خیالِ وجود نے تم کو لوٹ لیا)۔

68

 چون برون شد این خیالات از میان  گشت نامعقولِ تُو بر تُو عیان

ترجمہ: جب یہ خیالات (جن میں تم لاشے کو لاشے سمجھ رہے ہو) اٹھ گئے تو اس وقت تمہاری عقل میں نہ آنے والی بات تم پر ظاہر ہو جائے گی۔

مطلب: موجودہ حالت میں نیستی کو ہستی تسلیم کر لینا عقل سے بعید نظر آتا ہے۔ لیکن جب بصیرتِ باطن اور معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر یہ حقیقت بخوبی منکشف ہو جاتی ہے۔ یا جب موت آ جاتی ہے تو پھر معلوم ہو جاتا ہے کہ جس چند روزہ زندگی کو تم ہستی سمجھتے تھے وہ بمنزلہ نیستی تھی اور حیاتِ اُخرویہ جس کا کوئی خاتمہ و انتہا نہیں اور جس کو نیستی سے تعبیر کرتے تھے حقیقی ہستی وہی ہے۔ اس لیے مرنے والے صالح بندے کو اپنے مرنے پر افسوس نہ ہو گا بلکہ موت کا خیال نہ رکھنے اور بجا آوریِ اعمال کا موقع غنیمت نہ سمجھنے کا افسوس ہو گا۔ آگے اس بات کی تائید میں ایک حدیث بطورِ عنوان درج فرماتے ہیں جس کے متعلق صاحبِ کلیدِ مثنوی فرماتے ہیں کہ اس کے حدیث ہونے کی تحقیق نہیں۔ ہاں اس کے مضمون کی صحت ظاہر ہے۔ انتہٰی۔ وہ حدیث یہ ہے۔