دفتر 6 حکایت 46: (غرض طبیب نے) اس کی نبض پکڑی اور (اس کے مرض کے) حال سے آگاہ ہو گیا کہ اس کے شفا یاب ہونے کی امید محال تھی

دفتر ششم: حکایت: 46



رجُوع بقصّۂ آن رنجُور

اس بیمار کے قصے کی طرف رجوع

 1

نبضِ او بگرفت و واقف شد ز حال  کہ امیدِ صحتِ او بُد محال

ترجمہ: (غرض طبیب نے) اس کی نبض پکڑی اور (اس کے مرض کے) حال سے آگاہ ہو گیا کہ اس کے شفا یاب ہونے کی امید محال تھی۔


2

 گُفت ہر چت دل بخواہد آن بکُن تا رَوَد از جسمت این رنجِ کہن

ترجمہ: (چونکہ اب دوا و پرہیز بے کار تھے اس لیے طبیب نے) کہا جو کچھ تیرا جی چاہے وہی (استعمال کر لیا) کرو حتیٰ کہ تیرے جسم سے یہ پرانا مرض دور ہو جائے۔

مطلب: طبیب نے اس مرض کو لا علاج پا کر اسے پرہیز و علاج کا پابند رکھنا فضول سمجھا اور ہر مرغوب چیز کھانے پینے کی اجازت دے دی، اور آخر وه حکیم تھا اجازت دیتے وقت یہ مصلحت بھی ملحوظ رکھی کہ بیمار اس اجازت کو مایوسی کا نتیجہ سمجھ کر دل شکستہ نہ ہو جائے۔ اس لیے یہ امید افزا بات بھی کہہ دی کہ حسب خواہش کھاتے پیتے اور سیر و تفریح کرتے تمہارا مرض زائل ہو جائے گا اور مریض کو بھی اس سے امیدِ شفا ہو گئی۔ چنانچہ آگے چھٹے شعر سے اس کی اس امیدواری کی تصدیق ہو گئی، مگر اس زوالِ مرض سے طبیب کی مخفی مراد موت تھی کیونکہ جسم کو جب روح چھوڑ جاتی ہے تو یقیناً مرض بھی اس سے زائل ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رنج سے اس کی مراد مرض نہیں بلکہ پرہیز کی کلفت ہو۔ چنانچہ اگلا شعر اس کا مؤیّد ہے:

3

 ہرچہ خواہد خاطرِ تو وا مگیر تا نگردد صبر و  پرہیزت زحیر

ترجمہ: جو کچھ تیرا جی چاہے اس کو مت روک، تاکہ تیرا صبر و پرہیز مصیبت نہ بن جائے۔

4

صبر و پرہیز این مرض را دان زیان  ہرچہ خواہد دل در آرش در میان

ترجمہ: صبر و پرہیز اس مرض کے لیے مضر سمجھ، جو کچھ جی چاہے اس کو عمل میں لا۔

5

 این چنین رنجور را گفت اے عمو  حق تعالیٰ اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمٗ

ترجمہ: اے بزرگوار! حق تعالیٰ نے اسی قسم کے (مایوس العلاج) بیمار کو فرمایا ہے کہ جو جی چاہے کرو۔

مطلب: سورہ فصلت میں کفار کو خطاب ہے ﴿اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ(فصلت: 40) یعنیجو چاہے کرتے رہو بے شک وہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے“ اور یہ امر اذن و اباحت کے لیے نہیں بلکہ زجر و توبیخ کے لیے ہے۔ جیسے معلم کسی بد شوق لڑکے سے کہتا ہے کہ بیٹھا رہ، کھیلتا رہ، میں خوب دیکھتا ہوں۔ مولانا نے مریضِ روحانی مایوس الصحۃ سے مراد کفار کو لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اس مریض کے لیے اس طبیب کا قول "اِعْمَل مَاشِئْتَ" علامت تھی اس کے مایوس الصحت ہونے کی، اسی طرح خاص کفار کے لیے حق تعالیٰ کا قول ﴿اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ۔۔﴾ (فصلت: 40) علامت ہے ان کے مایوس الاصلاح کی۔ جیسا دوسری آیت میں اس کی تصریح ہے۔ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ اِلٰى قَولِهٖ خَتَمَ اللّٰهُ۔۔۔ الخ﴾ (البقرۃ: 6-7) اور خاص کفار سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا ختم على الكفر علمِ الٰہی میں سابق ہے۔

پس مقصودِ مولانا صرف تشبیہ دینا مریضِ روحانی کو مریض جسمانی کے ساتھ اس امر میں ہے کہ دونوں کا یہ خطاب علامت ہے۔ مایوس الصحت ہونے کی اور یہ مقصود نہیں کہ دونوں جگہ صیغۂ امر کا مدلول ایک ہی ہے کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ اس طبیب کے قول میں یہ امر اباحت کے لیے ہے اور قرآن مجید میں توبیخ کے لیے (کلید و ہکذا فی البحر)۔ بعض شارحین لکھتے ہیں کہ یہاں آیت مذکورہ سے معنی باطنی مراد ہیں اور خطاب عاشقان حق سے ہے جو چاہو کرو تم غير مكلّف اور مرفوع القلم ہو۔ صاحبِ کلید اس شارح کے بارے میں فرماتے ہیں۔ فقد ’’ضَلَّ وَ زَلَّ عَنِ الْمَرَامِ وَ اِنْ کَانَ ھٰذَا الذَّاھِبُ مِنَ الْاَعْلَامِ‘‘ ”یعنی یہ فاش غلطی ہے اگرچہ ایک فاضل سے صادر ہوئی ہے۔“

6

گفت رَو ہین خیر بادت جانِ عم  من تماشائے لبِ جُو مے کنم

ترجمہ: (اس مریض نے) کہا پس جاؤ تمہارا بھلا ہو۔ اے جانِ عم! (اب) میں کنارۂ دریا کی سیر کرتا ہوں (جس کو میرا جی چاہتا ہے)۔

7

بر مرادِ دل ہمی گشت او بر آب  تاکہ صحت را بیابد فتحِ باب

ترجمہ: (چنانچہ) وہ دل کی خواہش کے مطابق پانی (کے کنارے) پر ٹہل رہا تھا تاکہ (طبیب کی بشارت کے مطابق) تندرستی کے دروازے کی کشادگی پائے (پیچھے مصرعہ ’’تا رود از جسمت این رنجِ کہن‘‘ کی دو تاویلیں کی گئی تھیں اس سے پہلی تاویل کی تائید ہوتی ہے)۔

8

بر لبِ جو صوفیے بنشستہ بود  دست و رُو می شست و پاکی میفزود

ترجمہ: دریا کے کنارے پر ایک صوفی بیٹھا تھا (جو وضو کے لیے) ہاتھ اور منہ دھو رہا تھا اور (طہارتِ باطنی پر) طہارت (ظاہری) کا اضافہ کر رہا تھا۔

9

او قفایش دید چون تخیلیئے  کرد او را آرزوئے سیلیے

ترجمہ: اس (مریض) نے اس (صوفی) کی گُدی دیکھی تو اسے سودائی کی طرح (اس پر) چپت لگانے کی آرزو ہوئی (سیلی بکسرِ سین ہاتھ کی ضرب جو گُدی پر اس طرح لگائی جائے کہ ہاتھ کو سیدھا کھول کر نرمہ دست کی طرف سے تلوار کی طرح گردن پر مارا جائے کذا فی الغیاث۔ چاٹنا۔ چپت)۔

10

بر قفائے صوفی آن حیرت پرست  راست می کرد از برائے صفع دست

ترجمہ : وہ دیوانہ صوفی کی گدی پر چپت لگانے کے لیے (اپنا) ہاتھ تان رہا تھا۔

11

 کارزُو را گر نرانم تا رود  آن طبیبم گفت کان عِلّت شود

ترجمہ: (اس کو خیال دامن گیر ہو گیا) کہ اگر میں اپنی آرزو کو عمل میں نہ لاؤں یہاں تک کہ وہ فوت ہو جائے تو اس طبیب نے کہا ہے کہ وہ مرض کی ترقی کا باعث ہو جائے گا۔

12

سیلیَش اندر برم در معرکہ  زانکہ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْ تَھْلُکَه

ترجمہ: (اس لیے) میں چپت کو وقوع میں لاتا ہوں کیوں (حق تعالیٰ کا حکم ہے کہ) اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

مطلب: کلماتِ آیت یوں ہیں ﴿وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ (البقرۃ: 195) مریض نے بے وقوفی سے سمجھا کہ چپت نہ لگانا ترقی مرض کا باعث ہو گا اور مرض کو ترقی دینا حکمِ الٰہی کے خلاف ہے۔ مگر یہ قیاس اس کی جہالت پر مبنی تھا دوسرے شخص کو ایذا دینے میں اپنا فائدہ ہو تو ایسا فائدہ حاصل کرنے کی شریعت ہرگز اجازت نہیں دیتی۔ دوسرے حق تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو ناحق محلِ ہلاک میں نہ ڈالو اگر کسی کو ایذا نہ دینے میں اپنی زیادتیِ مرض کا احتمال ہے۔ تو یہ عدم ایذا کلیۃً اختیارِ ہلاک کا ہم معنی اور ترقیِ مرض کو مستلزم نہیں کیونکہ دفعِ مرض و ہلاک کی دوسری تدابیر ہو سکتی ہیں جس میں کسی پر دست درازی بھی نہ کرنی پڑے۔ غرض احمق مریض کو یہ وہم ہو رہا ہے کہ:

13

تہلکہ ست این صبر و پرہیز اے فلان  خوش بکوش تن مزن چون کاہلان

ترجمہ: اے شخص! یہ صبر و پرہیز ہلاکت (کا باعث) ہے (اس صوفی کی گُدی) پر خوب چپت لگا (اور) سست لوگوں کی طرح چپکا نہ رہ۔

14

 چُون زدش سیلی بر آمد یک طراق  گفت صوفی ہے ہے اے قوّادِ عاق

ترجمہ: جب (بیمار نے) اس (صوفی) کے چپت لگائی تو تڑاق کی آواز آئی صوفی نے (گھبرا کر) کہا ہیں ہیں اے بے غیرت! بزرگوں سے سرکشی کرنے والے (یہ کیا حرکت ہے)۔

15

 خواست صوفی تا دو سہ مشتش زند  سبلت و ریشش یکایک بر کند

ترجمہ: (پھر اس کی چپت کے جواب میں) صوفی نے (بھی) چاہا کہ دو تین گھونسے اس کے رسید کرے اور اس کی مونچھ اور ڈاڑھی یکبارگی نوچ ڈالے۔

16

 لیک او را خستہ و رنجور دید  بس ضعیف و خوار و زار و عُور دید

ترجمہ: مگر اس کو خستہ حال اور بیمار دیکھا، نہایت کمزور اور تباہ حال و تہی دست پایا۔

17

باز اندیشید او ضعفِ ورا گفت اگر مشتش زنم گردد فنا

ترجمہ: پھر اس کی کمزوری کا خیال کیا تو (دل میں) کہا اگر میں اس کے گھونسا ماروں تو فنا ہی ہو جائے گا۔

18

 رنجِ دق از وے بر آورده دمار  دید شخصے مدقوق و نزار

ترجمہ: دق کے مرض نے (خود ہی) اس کا بھرکس نکال رکھا ہے (غرض) اس نے ایسا شخص دیکھا جو سخت مریضِ دق اور لاغر ہے۔ (اس لیے بدلہ لینے سے رک گیا۔ آگے مولانا ایک ارشادی مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح یہ مریض طبیب کے قول سے غلط فہمی میں اس پر صوفی کو ایذا دینے پر آمادہ ہو گیا۔ اسی طرح دنیا میں اکثر ظالم لوگ جو روحانی مریض ہیں شیطان کے بہکانے سے ایذائے خلق پر آماده رہتے ہیں۔)


19

 خلق رنجُورِ دق و بے چاره اند وز خداعِ دیو سیلی بارہ اند

ترجمہ: (اسی طرح اکثر) لوگ (باطنی) دق کے مریض اور لا علاج ہیں اور شیطان کے بہکانے سے بے گناہ لوگوں کو مارنے پیٹنے کے شائق ہیں۔ 

20

جملہ در ایذائے بے جرمان حریص  در قفائے ہمدگر جویان نقیص

ترجمہ: سب بے گناہ لوگوں کو دکھ دینے کے شائق ہیں ایک دوسرے کے پیچھے نقائص کی جستجو کرنے والے ہیں۔ سعدیؒ ؎

در برابر چو گوسفندِ سلیم  در قفا ہمچو گرگِ مردم خوار


21

 اے زنندہ بے گناہان را قِفا  در قفائے خود نمی بینی چرا

ترجمہ: اے (ظالم!) جو بیگناہ لوگوں کی گُدّی پر مار رہا ہے اپنے انجام کو کیوں نہیں دیکھتا۔ و نعم ما قیل ؎ 

با مردم فتادہ مکن دشمنی کہ برق بر خرمنے نتاخت کہ خود فنا نشد

22

اے ہوا را طبِّ خود پنداشتہ بر ضعیفان صفع را بگماشتہ

ترجمہ: ارے او (ظالم!) جو خواہشاتِ نفسانی کو (اپنی) شفا سمجھے ہوئے ہے۔ (جس طرح اس بے وقوف مریض نے سمجھا تھا اور) کمزور لوگوں پر مار پیٹ مقرر کئے ہوئے ہے۔

23

 بر تو خندید آنکہ گفتت این دوا ست  اوست کادم را بگندم رہنما ست

ترجمہ: جس (ابلیس) نے تجھ کو بتایا ہے کہ یہ (ایذائے خلق تیرے لیے) دوائے (شافی) ہے وہ تجھ پر (تیرے دھوکا کھانے کی وجہ سے) خندہ زن ہے۔ (یہ) وہ ہے جس نے آدم علیہ السلام کو گیہوں کی طرف رہنمائی کی تھی۔

24

 کہ بخور این دانہ را اَے مستعین  بہر دارو تا تَکُوْنَا خَالِدِيْنَ

ترجمہ: (اس نے آدم علیہ السلام سے کہا تھا) کہ اے طالبِ امداد! (اس بات کے) علاج کے لیے (کہ تم ہمیشہ بہشت میں رہو) اس دانہ کو کھا لو تاکہ تم دونوں (آدم و حوا) اہلِ خلود سے ہو جاؤ۔

مطلب: دوسرے مصرعہ کے عربی کلمات میں اس آیتِ کریمہ سے ماخوذ ہیں ﴿وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ(الاعراف: 20) یعنی ”اور(ابلیس نے) کہا تمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے نہیں روکا مگر اس لیے کہ کہیں تم فرشتے ہو جاؤ یا ہمیشہ رہنے والے ہو جاؤ۔“ اس سے ظاہر ہے کہ مصرعہ میں خالدین صیغہ جمع مجرور ہے جس کا جار کلمہ مِنْ تنگیِ وزن کی وجہ درج نہیں ہو سکتا۔ ورنہ اسم خبر کا تثیہ و جمع میں مطابق ہونا واجب ہوتا ہے۔

25

اوش لغزانيد و زد او را قِفا  آن قفا وا گشت و گشت این را جزا

ترجمہ: اسی (ملعون) نے آدم علیہ السلام کو بہکایا اور (ایسا نقصان پہنچایا گویا) ان کی قفا پر ضرب لگائی (مگر) وہی ضرب واپس لوٹی اور اس (لعین) کی سزا بن گئی۔

مطلب: اس شعر کے پہلے مصرعہ تک یہ مضمون ختم ہوا کہ اکثر لوگ شیطان کے اغوا سے مردم آزار بن جاتے ہیں۔ دوسرے مصرعہ سے ایک اور مضمون شروع ہوتا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض لوگ جو تاویل کر کے معاصی میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے معاصی کو بعض بزرگوں کی زلّات پر یا بعض مباحات بصورت غیر مباحات پر قیاس کرتے ہیں۔ یہ آپ کی سخت غلطی ہے اور باعثِ خسران ہے۔ مصرعۂ ثانیہ کا مطلب یہ ہے کہ آدم علیہ السلام توبہ و استغفار کر کے بدستور پاک ہو گئے اور یہ استغفار بھی اعاده و کمال قبول کے لیے تھی۔ ورنہ نفسِ قبول پہلے بھی زائل نہیں ہوا تھا کیونکہ خطائے اجتہادی عفو ہوتی ہے۔ گو بوجہ غایت اختصاص کے مقربین پر اس میں بھی ملامت ہو جاتی ہے۔ بہر حال یہ تو اصلی رتبۂ قبول پر آ گئے اور شیطان جس نے عمداً شرارت کی اور پھر توبہ بھی نہ کی خسارہ میں پڑا۔ (کلید ملخصًا)

26

 اوش لغزانید سخت اندر زلق  لیک پشت و دستگیرش بود حق

ترجمہ: (غرض) اس (شیطان) نے ان کو لغزش گاه میں سخت پھسلایا لیکن (انجام کار ان کو اس لیے کچھ ضرر نہ پہنچا سکا کہ) ان کا پشت (پناہ) اور دست گیری حق تعالیٰ تھا (اس کی دست گیری سے ان کو توبہ و استغفار کی توفیق ہو گئی)۔

27

کوه بُود آدم اگر پُر مار شد  كانِ تریاق ست و بے اضرار شُد

ترجمہ: آدم علیہ السلام گویا ایک پہاڑ تھے اس لیے اگر وہ سانپوں سے پُر بھی ہو گئے (تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ) وہ (پہاڑ کی طرح) معدنِ تریاق (بھی ہیں) اور (اس وجہ سے) ضرر سے محفوظ ہیں۔

مطلب: جس طرح بعض پہاڑوں میں زہریلے سانپ ہوتے ہیں اور ساتھ ہی وہاں بعض بوٹیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو زہر مار کی دافع ہیں۔ اسی طرح آدم علیہ السلام سے جہاں یہ لغزش ہوئی وہاں ان کو توفیقِ توبہ بھی تھی۔ غرض حضرت آدم علیہ السلام کی تو یہ شان تھی باقی رہے تم تو سو اپنے متعلق بھی سن لو۔

28

تو کہ تریاقے نداری ذرّۂ  از خلاصِ خود چرائی غَرّۂ

یہاں ’’غرّہ‘‘ بمعنی ذی غرہ یعنی مغرور و غافل مراد ہے کما قال الحافظؒ ؎

اے کبک خوش خرام کہ خوش میروی بناز غره مشو کہ گربہ زاہد نماز کرد

’’چرائی غره‘‘ کا نسخہ قلمی نسخہ کے مطابق جو نہایت معتبر ہے نولکشوری نسخے میں چرامے غره درج ہے جو ناقلین کا تصرف معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

ترجمہ: تم جو ایک ذرہ برابر تریاق نہیں رکھتے تو کس برتے پر اپنی نجات کے متعلق غافل ہو۔

مطلب: حضرت آدم علیہ السلام میں تو توبہ و انابت کا ملکہ راسخہ موجود تھا جو ان کے فوراً مائل بہ توبہ ہونے کا باعث ہو گیا۔ بخلاف اس کے تم میں وہ ملکہ نہیں بلکہ تم پر شر اور داعیۂ نفس ہی غالب ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی تم سے معصیت سرزد ہو اور توبہ کی توفیق نہ ہو اور تم ہلاک ہو جاؤ۔ اس لیے اپنے آپ کو ان بزرگوں پر قیاس کیا کرنا اور معاصی پر دلیر ہونا سخت خطرناک ہے۔ تم اگر ان بزرگوں کی ریسں کرتے ہو تو کیا ان کے سے اوصاف بھی تم میں ہیں؟

آگے یہی فرماتے ہیں:

29

 آن توکُّل کُو خلیلانہ تُرا  وان کرامت چون کلیمت از کجا

ترجمہ: حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا سا سادہ توکل تم میں کہاں ہے؟ اور حضرت کلیم اللہ علیہ السلام کی سی وہ کرامت تم کو کہاں حاصل ہے؟

30

 تا نبرّد تیغت اسمٰعیلؑ را  تا کُنی شہراه قعرِ نیل را

ترجمہ: تاکہ تمہاری تلوار اسمٰعیل علیہ السلام کوقطع نہ کرے۔ تاکہ تم دریائے نیل کی گہرائی کو شاہراہ بنا لو۔

مطلب: ان دونوں شعروں میں لف و نشر مرتب ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ توکل تھا کہ اپنے پیارے فرزند اسمعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری پھیر دی مگر ان کا بال بیکا نہ ہوا، اور حضرت موسٰی علیہ السلام کی کرامت یہ تھی کہ دریائے نیل نے تمام بنی اسرائیل کے لیے راستہ دے دیا۔ کیا تم میں بھی یہ باتیں ہیں۔ اگر نہیں تو کس حوصلے پر ان کی ریسں کرتے ہو۔

31

 گر سعیدے از مناره اوفتيد  بادش اندر جامہ افتاد و رہید

32

 چون یقینت نیست آن بختِ حسن  تو چرا بر باد دادی خویشتن

ترجمہ: اگر ایک بزرگ نے اپنے آپ کو منارے سے گرا دیا (اور) ہوا ان کے کپڑے میں بھر کر بخیریت ان کے زمین پر اتر آنے کی باعث ہو گئی اور وہ بچ گئے۔ (تو) جب تم کو یقیناً اچھا نصیب حاصل نہیں تو کیوں (ان کی ریسں میں منارہ سے کود کر نا حق) اپنے آپ کو ہلاک کرتے ہو۔

مطلب: یہاں یہ شبہ ممکن ہے کہ کپڑوں میں ہوا کے بھر جانے سے بآسانی زمین پر اتر آنے میں کیا کرامت ہے۔ جواب یہ ہے کہ ہوا کا اس طرح کپڑوں میں بھر کر کسی کو صدمۂ سقوط سے بچا لینا متعاد و متعارف نہیں۔ خصوصًا جب کہ پہلے سے کسی ایسی خاص ساخت کے کپڑے کو مہیا نہ کیا گیا ہو جس میں ایک آدمی کے بوجھ کو تول لینے والی ہوا بھر سکے، اور نہ اس طرح ہوا کے سہارے سے گرنے کی مشق بہم پہنچائی گئی ہو۔ ایسی حالت میں ایک بندۂ حق کے متوكلاً على اللہ منارہ سے کود پڑنا اور ہوا کا اس کو بچا لینا کرامت نہیں تو اور کیا ہے۔ حالانکہ یہی عنصر ہوا دشمنانِ خدا کے لیے موجب ہلاک ہو چکا ہے اور ہوتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

33

زین مناره صد ہزاران ہمچو عاد  در فتادند و سر و تن باد داد

ترجمہ: لاکھوں (آدمی) اس منارہ سے قومِ عاد کی طرح گرے (اور اپنے) سرو بدن کو برباد کر چکے۔

مطلب: حضرت شیخ سعید منارہ پر سے ہوا کی مدد سے بخیریت زمین پر پہنچے اور قومِ عاد کو اسی ہوا نے زمین پر پٹخ کر ہلاک کر دیا۔ پس اس شعر میں ہوا کے اس مہلک فعل کو بطور صنعتِ مشاکلہ منارہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ورنہ فی الحقیقت عاد وغیرہ منارہ سے نہیں گرے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ حُسُوْمًاۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰىۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍۚ (الحاقہ: 6-7)

”اور رہے عاد سو وہ بھی بڑے زناٹے کی سخت آندھی سے ہلاک کر دیئے گئے کہ برابر سات رات اور آٹھ دن وہ (ہوا) خدا نے ان پر چلائے رکھی تو اے مخاطب تو (ان) لوگوں کو اس (آندھی) میں اس طرح ڈھئے پڑے دیکھتا ہے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے ٹُھنڈ‘‘۔ 

34

سرنگون افتادگان زیرِ منار  می نگر تو صد ہزار اندر ہزار

ترجمہ: تم اس منارہ کے نیچے لاکھوں (دشمنانِ خدا کو) سرنگوں گر (کر مر)ے ہوئے دیکھ لو۔

مطلب: یہاں تک یہ بیان تھا کہ اپنے آپ کو انبیاء و اولیاء پر قیاس کرنا باطل ہے۔ آگے بطور ترقی ایک مثال کے ذریعہ فرماتے ہیں کہ خواص کا تو کیا ذكر بعض افعال میں عوام کی تقلید کا قصد اور ان کے ساتھ مساوات کا دعوٰی بھی لغو ثابت ہونا ہے۔

35

 تو رسن بازی نمیدانی یقین  شکر پا ہا گو و می رو بر زمین

ترجمہ: تم یقيناً (بازی گروں کی طرح) رسی پر چلنا نہیں جانتے (پس) پیروں (کی نعمت پر خداوند تعالی) کا شکر کرو اور زمین پر چلا کرو (جب بازی گروں کی ریس میں بھی تم عہدہ برا نہیں ہو سکتے تو انبیاء و اولیاء کی ریس چہ معنی دارد)۔

36

 پَر مساز از کاغذ و از کُہ مپر  کاندرین سودا بسے رفت ست سر

ترجمہ: کاغذ کے پَر بنا کر پہاڑ پر سے مت اڑو کیونکہ اس دیوانگی سے بہت سے لوگوں کے سر جاتے رہے ہیں۔

مطلب: کسی کی ناحق ریسں کرنا سراسرحماقت ہے۔ حتیٰ کہ کوئی شخص پرندہ کی بھی ریس نہیں کر سکتا جو انسان اشرف المخلوقات سے کم رتبہ ہے۔ چنانچہ اگر کوئی پرندہ کی ریس میں کاغذ کے پَر بنا کر کسی پہاڑ یا ایوان سے اڑنے کی کوشش کرے گا تو ہلاک ہو گا۔ ممكن ہے کہ اس میں کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہو۔ جیسے راقم نے حضرت الاستاذ المحترم مولانا محمد ذاکر بگوی رحمۃ الله علیہ سے سنا تھا کہ علامہ جوہری نے جب لغتِ عرب کی مشہور کتاب صحاح لکھنی شروع کی جو اکثر موجودہ کتبِ لغت کی ماخذ ہے، اور یہ کتاب ثلث یا نصف کی پہنچی تو مؤلف کو اپنی کمال تحقیق اور جدتِ اسلوب کے متعلق حیرت پر حیرت محسوس ہونے لگی۔ حتٰی کہ اس حیرت نے سودا و جنوں کی صورت اختیار کر لی۔ اب وہ اپنے محل پر چڑھا اور سمجھا کہ جس طرح میرا دماغ آسمانِ معانی پر پرواز کرتا ہے، میں اپنے اسی دماغی کارنامے کی بدولت ہوا میں اڑ سکتا ہوں۔ لغت کے اوراق ہاتھ میں لیے اور اپنے بازوں کو بازو پرواز سمجھ کر ہوا میں کود پڑا اور گر کر مر گیا۔ پھر صحاح کی تکمیل اس کے شاگردوں نے کی۔ آگے ایک شعر میں مریض اور صوفی کے قصے کی طرف عود ہے اور ایک ہی شعر کے بعد پھر ایک ارشادی مضمون کی طرف انتقال ہے۔

37

 گر چہ آن صوفی پُر آتش شد ز خشم  لیک او بر عاقبت انداخت چشم

ترجمہ: اگرچہ وہ صوفی (چپت کھا کر) غصے سے آگ بھبوکا ہو گیا (اور چاہا کہ انتقام لے) مگر اس نے (اس معاملہ کے) انجام پر نظر کی (کہ اگر میں انتقام لوں گا تو وہ مر جائے گا اور میں قصاص میں مارا جاؤں گا۔ آگے مولانا انجام بینی کی مدح فرماتے ہیں:)

38

 اوّلِ صف بر کسے ماند بکام  کو نگیرد دانہ بیند بندِ دام

ترجمہ: صفِ اول پر وہی شخص با مراد رہتا ہے جو دانہ نہ لے (اور) دام کو دیکھ لے (اور پھر اس سے بچ جائے)۔

مطلب : وہ شخص کامیابی کے لحاظ سے اول درجے کے لوگوں میں ہوتا ہے اور وجہ ظاہر ہے کیونکہ جن لوگوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ دانہ یعنی طمعِ عاجل سے سبب بندِ دام یعنی ضرر آجل میں مبتلا ہو گئے۔ ان میں سے بھی مومنین کو نجات ہو ہی جائے گی لیکن وہ متأخر درجہ میں ہوں گے، اور اول درجہ میں مفلحینِ کاملین ہی ہوں گے جو ضررِ آجل کو دیکھ کر نفعِ عاجل سے باز رہے خواہ اول ہی سے یا تدارک کر کے، یعنی توبہ کے ساتھ۔ (کلید)


39

 حبّذا دو چشم پایان بينِ راد  کہ نگہدارند تن را از فساد

ترجمہ: آفرین کے قابل ہیں وہ دو آنکھیں انجام بین بزرگ جو (انجام دیکھ کر) تن کو فساد (و ضررِ معصیت) سے محفوظ رکھیں۔

غافل مشو ز عاقبتِ کارِ خود غنی  دل نہ بخواب مرگ کہ دنیا فسانہ ایست 

(آگے انجام بینوں میں سے ایک فردِ اکمل کا ذکر ہے تاکہ طالبین ان کے اتباع میں انجام بینی سے کام لیں):

40

 آنکہ پایان دید احمد ﷺ بود کو  دید دوزخ را ہم اینجا موبمو

ترجمہ: جس ذاتِ پاک نے کامل طور سے انجام کو دیکھ لیا وہ احمد ﷺ تھے کہ انہوں نے دوزخ کو اسی جگہ دنیا میں ہو بہو دیکھ لیا۔

41

دید عرش و کرسی و جَنات را بر درید او پردۂ غفلات را

ترجمہ: (اسی طرح) عرش اور کرسی اور بہشتوں کو دیکھ لیا (اور) آپ نے غفلتوں کے پردہ کو پھاڑ ڈالا۔

مطلب: یہاں دیکھنے سے مراد وہ مشاہدہ نہیں جو حضور ﷺ نے شبِ معراج میں یا دوسرے مواقع پر نگاۂ کشف سے فرمایا، بلکہ اس سے محض فکرِ عقبٰی مراد ہے۔ یعنی دنیا میں آپ اس قدر فکرِ عقبٰی رکھتے تھے کہ گویا احوالِ عقبٰی آپ کی نظر میں متمثل رہتے تھے، اور اس سے مشاہدہ مراد نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آپ کے اتباع میں فکرِ عقبٰی رکھنے کی ترغیب ملحوظ ہے۔ جو مرادِ اختیاری ہے اور مشاہدہ و کشف امرِ اختیاری نہیں تو اس میں تقلید و اتباع کی ترغیب کیونکر کی جاتی۔ دوسرے مصرعہ میں ارشاد ہے کہ اس فکر کی بنا پر آپ نے لوگوں کو جو ہدایت فرمائی تو اس سے اہلِ سعادت کے دلوں سے غفلت کے پردے اٹھ گئے۔ ان دونوں باتوں کی تائید ابوذر رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’وَاللّٰهِ لوْ تَعْلمَوْنَ مَا اَعْلَمُ لضَحِكْتُمْ قَلِيْلًا وَ لبَكَيتُمْ كَثِيْرًا وَ مَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الفُرُشَاتِ وَ لَخَرَجْتُمْ اِلَی الصُّعُدَاتِ تجْأَرُوْنَ اِلَی اللهِ فَقَالَ اَبُوْ ذَرٍّ یَالَیْتَنِی كُنتُ شَجَرَةً تُعْضَدَۃً۔۔۔‘‘ یعنی ”خدا کی قسم جو کچھ مجھے معلوم ہے اگر تم کو معلوم ہو تو تم کو ہنسی کم آئے اور رونا زیادہ آئے اور تم بستروں پر عورتوں سے لذت گیر ہونا چھوڑ دو اور تم جنگلوں کی طرف نکل کر جناب باری میں تضرع کرنے لگو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کاش کہ میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ ڈالا جاتا۔ (مشکوٰة)

42

 گر ہمی خواہی سلامت از ضرر  چشم ز اول بند و پایان را نگر

ترجمہ: اگر تم ضرر سے سلامت رہنا چاہتے ہو تو (اپنی) آنکھ (کو صرف) اول (بینی پر موقوف رکھنے) سے بند کرو اور آخرت کو (بھی) دیکھو۔

مطلب: اول سے مراد دنیا ہے اور دنیا کی رعایت رکھنا مطلقاً مذموم نہیں بلکہ صرف دنیا کے ہو رہنا اور آخرت کا بالکل خیال نہ رکھنا مذموم و مضر ہے۔ ورنہ بعض منافع مباحہ اور اکثر مصالح اخرویہ کے لیے دنیا کو زیرِ نظر رکھنا لا بدی ہے۔ بقول ’’اَلَّدُنْیَا مَزَرَعَةُ الْاٰخِرَةِ‘‘ غنیؒ ؎

باستغنا گذشتن از جہان آسان نمی باشد  بود دشوار قطع راه دور از پشتِ پا کردن


43

تا عدمہا را بہ بینی جملہ ہست ہستہا را بنگری محبوس و پست

ترجمہ: تاکہ تم (آخرت کے) حالاتِ غیب (اپنی چشمِ بصیرت کے آگے موجود) دیکھو اور (دنیا کی) موجودات کو (قيدِ عام میں) مقید اور نا چیز (و فانی) پاؤ۔

مطلب: تاکہ تم آخرت کو جسے اب معدوم سمجھتے ہو، معتد بہ سمجھنے لگو اور عالمِ دنیا کو جسے معتد بہ سمجھتے ہو معدوم و ہیچ پاؤ۔ كقولہ تعالىٰ ﴿مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ ۖ وَ مَا عِندَ اللّٰهِ بَاقٍ(النحل: 96) ”جو (مال و متاع دنیا) تمہارے پاس ہے وہ سب ختم ہو جائے گا اور جو اجر اللہ کے پاس ہے وہ ہمیشہ رہے گا“ ﴿وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ(العنکبوت: 64)اور یہ دنیا کی زندگی تو بس (جی کا) بہلاوا اور کھیل ہے اور دارِ آخرت کی زندگی وہی (اصل) زندگی ہے‘‘ ۔ اس تدبیر سے امید ہے کہ زادِ آخرت جمع کرنے کا شوق اور دنیائے مذموم سے بے رغبتی پیدا ہو جائے گی۔ آگے چند مثالوں سے ان چیزوں کا مطلوب ہونا جو بظاہر معدوم ہیں ان چیزوں کا نا قابلِ التفات ہونا جو بظاہر موجود ہیں، بیان فرماتے ہیں:

44

این ببین بارے کہ ہر کش عقل ہست  روز و شب در جُستجوئے نیست ست

قافیہ: بعض نسخوں میں مصرعۂ ثانیہ کے آخری کلمات ’’نیست ہست‘‘ ہیں اس تقدیر پر شعر بے قافیہ رہ جاتا ہے قلمی نسخے میں ’’نیست ست‘‘ درج ہے۔ اس صورت میں قافیہ صحیح ہے کیونکہ مصرعۂ اولی میں ہست فعل اور مصرعہ ثانیہ میں است رابطہ جملہ ہے۔ صاحبِ کلیدِ مثنوی نے اس کو بھی قياسًا تصرفِ ناقلین کا نتیجہ سمجھ کر ’’در جستجوئے نیست مست‘‘ بنا دیا، اور لکھا کہ ’’نیست است‘‘ میں لفظی رکاکت ہے۔ اللہ جانے لفظی رکاکت ادنیٰ عذر پر کیونکر اس ترمیم و تصرف کو روا رکھا گیا جو نہایت خلافِ احتیاط ہے۔ خصوصاً جب کہ خود مولانا ایک قادر الکلام شاعر ہوتے ہوئے اس قسم کی رکاکتوں کی چنداں پروا نہیں کرتے کیونکہ آپ کا سارا زور بیانِ معانی و مضامین پر صرف ہوتا ہے۔ لفظوں پر پوری التفات نہیں رہتی اور اسی کی ہدایت بار بار ناظرین و سامعین کو بھی فرماتے رہتے ہیں۔

ترجمہ: ذرا یہ تو دیکھو کہ جس شخص میں (کچھ بھی) عقل ہے وہ رات دن معدوم (نما چیزوں) کی طلب میں ہے۔ (آگے ان معدوم نما چیزوں کی مفید مثالیں پیش فرماتے ہیں:)

45

در گدائی طالبِ جودے کہ نیست  بر دوکانہا طالبِ سُودے کہ نیست

ترجمہ: (مثلاً) کون بھیک مانگنے میں جود کا طالب ہے جو (بالفعل) معدوم ہے اور کون دکانوں پرنفع (تجارت) کا خواہاں ہے جو (بالفعل) معدوم ہے (ظاہر ہے کہ جود اور طلبِ نفع کے وقت یا اس سے پہلے موجود نہیں ہوتے بلکہ طلب کے بعد وجود میں آتے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک معدوم شے کی طلب ہوئی جودے اور سودے میں جو یائے تنکیر ہے اس کا تعلق مضاف یعنی طالب کے ساتھ ہے)۔

46

در مزارع طالبِ دخلے کہ نیست  در مغارس طالبِ نخلے کہ نیست

ترجمہ: (کوئی) کھیتوں میں پیداوار کا طالب ہے جو معدوم ہے۔ کوئی درخت لگانے کے مقامات میں درخت کا طالب ہے جو معدوم ہے۔

47

 در مدارس طالبِ علمے کہ نیست در صوامع طالبِ حلمے کہ نیست

ترجمہ: کوئی مدرسوں میں علم کا طالب ہے جو معدوم ہے۔ کوئی خانقاہوں میں نفس کشی کا طالب ہے جو معدوم ہے۔

انتباه: ان تینوں شعروں کا ترجمہ ایک اور طرح بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی ہر مصرعہ میں کاف بیانیہ کے بجائے جیسے کہ ترجمہ کیا گیا ہے کاف کدامیہ سمجھا جائے۔ پھر ترجمہ یوں ہو گا کہ بھیک مانگنے میں جود کا طالب کوئی نہیں۔ اس ترجمہ کی صورت کے بعد یہ کلمات مقدر ہوں گے ”اور جود معدوم ہے“۔ ’’فَقِسْ عَلَیْہِ الْبَوَاقِیَ وَالْاَوَّلُ اَوْفَقُ مَعنیً وَ الثَّانِیْ اَظْھَرُ لَفْظاً‘‘۔

48

 ہست ہا را سوئے پس افگنده اند نیستہا را طالب اند و بنده اند

ترجمہ: (غرض ان سب نے) امورِ موجودہ کو (اپنی طلبِ معدوم میں) پسِ پشت ڈال رکھا ہے (اور) معدوم چیزوں ہی کے طالب اور غلام بن رہے ہیں۔ (چنانچہ گدا نے اپنی عزت و آبرو کو، دکاندار نے سرمایہ بے نفع کو، کا شتکار نے بیج کو، درخت لگانے والے نے گھٹلیوں کو، طالب نے اپنے آرام و راحت کو اور درویشِ مرتاض نے اپنے نفس کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور ان میں سے ہر شخص اپنی موجودہ چیز کے ساتھ جو جو بے قدری کا سلوک کر رہا ہے۔ محتاجِ اظہار نہیں)۔

49

 زانکہ کان و مخزنِ صنعِ خدا  نیست غیرِ نیستی در انجلا 

ترجمہ: (ان لوگوں کو یہ معدومات) اس لیے (مرغوب ہیں) کہ خداوند تعالیٰ کی صنعت کا معدن اور مخزنِ ظہور میں سوائے نیستی اور کچھ نہیں ہے۔

مطلب: اللہ تعالیٰ کی صنعتِ ایجاد اشیائے معدومہ سے متعلق ہے، نہ کہ اشیائے موجودہ کے ساتھ۔ کیونکہ ایجاد موجود محال ہے اور اشیائے معدومہ کے ساتھ اس کی صنعت کا تعلق اس حیثیت سے ہے کہ ان کو ایجاد کیا جائے نہ کہ اس حیثیت سے کہ ان کو معدوم رکھا جائے۔ پس کائنات کی حاجتِ معدومیت جو خداوند تعالیٰ کے تصرف کا محل بنی تو معدومیت کے اعتبار سے نہیں ورنہ وہ پھر معدوم ہی رہتی۔ بلکہ وہ معدومیت کے اس اعتبار سے محلِ تصرف بنی ہے کہ مبدل بموجودیت ہو جائے۔ پس مقصودِ صنعت ایجاد ہوا۔ غرض جب خالق تعالیٰ کی صنعت کا تعلق معدومات کے ساتھ ہے تو بفحوائے ’’تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ‘‘ مخلوق طالبِ معدومات کیوں نہ ہو۔


50

پیش ازین رمزے بگفتیم ازین  این و آن را تویکے بین دو مبین

ترجمہ: اس سے پہلے ہم اس (مسئلے) میں سے ایک رمز کہہ چکے ہیں۔ تم اِس کو اور اُس کو ایک ہی دیکھو، دو مت سمجھو۔

مطلب: صاحب کلید مثنوی فرماتے ہیں کہ اس میں جن سابقہ مقامات کی طرف اشارہ ہے۔ ان میں سے ایک مقام تو نظر ہی میں ہے اور ایک ذہن میں ہے۔ نظر میں تو دفتر پنجم کے سیاق و سباق میں ہے ”در مثال عالم نیست ہست نماو عالم ہست نیست نما“ جس کے بعض اشعار یہ ہیں۔ ’’پس خزانہ صنعِ حق باشد عدم‘‘ الی قولہ ’’آفرین اے اوستاد سحر باف الخ‘‘ اور ذہن میں جس کا مقام یاد نہیں رہا اس طرح ہے ’’کار گاہِ صنع حق در نیستی ست‘‘ اونحوہٖ (انتہٰی)

51 

گفتہ شد کہ ھر صناعتگر کہ رُست  در صناعت جایگاه نیست جُست

 ترجمہ: (چنانچہ سابقاً) کہا گیا ہے کہ جو صنعت گر بھی کبھی پیدا ہوا ہے اس نے (اپنی) صنعت میں نیستی کا موقع ہی تلاش کیا ہے۔

52

 جُست بنّا موضعے نا ساختہ  گشتہ ویران سقفہا انداختہ

ترجمہ: معمار نے وہی جگہ تلاش کی جو غیر تعمیر شدہ تھی، کھنڈر ہو چکی تھی اور چھتیں گری ہوئی تھیں (تاکہ وہاں اپنی صنعتِ تعمیر عمل میں لائے)۔

53

 جُست سقا کوزۂ کِش آب نیست  وان دروگر خانۂ کِش باب نیست

ترجمہ: سقا نے وہی گھڑا تلاش کیا جس میں پانی نہیں (تاکہ اپنی آب رسانی کا عمل ظہور میں لائے) اور بڑھئی نے وہ گھر (تاکا) جس کے کواڑ نہیں (تاکہ کواڑ تیار کرے)۔

54

وقتِ صید اندر عدم بین حملہ شان  وز عدم آنگہ گریزان جملہ شان

ترجمہ: (اپنے مقاصد و مطالب کو) شکار کرتے وقت ان سب (معمار و نجار اور سقا) کا حملہ عدم پر دیکھو گے اور (پھر تعجب ہے کہ) اس وقت وہ سب عدم سے بھاگتے ہیں (یعنی بعض اعدام پر راغب ہیں جیسے کہ مذکورہ مثالوں سے ظاہر ہے اور بعض اعدام مثلاً موت سے گریزاں ہیں۔)

55

چُون امیدت لاست زو پرہیز چیست  با انیس طبعِ خُود استیز چیست

ترجمہ: جب (اکثر صورتوں میں) تمہاری امید (گاه) نیستی ہے تو (پھر بعض دوسری صورتوں میں) اس سے پرہیز کیوں ہے؟ (اور) اپنی طبیعت غمخوار (یعنی نیستی) سے مخالف کیسی ہے؟ اکبر آلہ آبادی ؎

موت سے ڈرنا بشر کا ایک خیالِ خام ہے  اصل فطرت میں فقط آرام ہی آرام ہے 

زمقراضِ فنا نور ست شمعِ زندگانی را  بود آبِ دم شمشیر صندل سر گرانی را

 56

چون انیسِ طبعِ تو آن نیستی ست  از فنا و نیست این پرہیز چیست

ترجمہ: جب تمہاری طبیعت کی انیس نیستی ہے، (تو پھر) فنا و نیستی سے یہ پرہیز کیسا ہے؟

57

گر انیس لانہ اے جان بسر در کمینِ لا چرائی منتظر

ترجمہ: اے جان! اگر تم دل سے نیستی سے مالوف نہیں ہو، (تو پھر) تم نیستی کی گھات میں اس کے منتظر کس لیے ہو؟


58

 زانکہ داری جملہ دل برکندۂ  شَستِ دل در بحرِ لا افگندۂ

ترجمه: (چنانچہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ایسی چیزوں سے) جن کو اپنے قبضہ میں رکھتے ہو تم نے دل اٹھا لیا ہے اور اپنے دل کی شَست کو (مرادات کی مچھلیاں پکڑنے کے لیے) دریائے نیستی میں ڈال دیا ہے۔

مطلب: یہ وہی بات ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ دریوزہ گر، دکاندار، طالب علم، درویش وغیرہ موجود اشیا سے معرض اور غیر موجودہ اشیا کے طالب ہوتے ہیں۔ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مچھلی کا شکار کرنے والا اس غرض سے پانی میں کانٹا ڈالتا ہے کہ مچھلی پکڑے گا۔ تم بھی غیر موجود امور کے موجود ہو کر اپنے ہاتھ میں آ جانے کے متمنی ہو۔

59

پس گریز از چیست زین بحرِ مراد کو بشَستت صد ہزاران صید داد

ترجمہ: پس (نیستی کے) اس دریائے مراد سے گریز کیوں ہے جس نے تمہاری (تدابیر کی) شَست (میں مرادات کی مچھلیوں) کے لاکھوں شکار دیے ہیں۔

60

از چہ نامِ برگ را کردی تو مرگ  جادوئی بین کہ نمودت مرگ برگ

ترجمہ: تم نے (مفید سرو) سامان کا نام موت کیوں رکھ لیا؟ (حق تعالیٰ کا) تصرفِ عجیب دیکھو جس نے تم کو (مفید) سامان (صورت) موت دکھا رکھا ہے۔


61

 ہر دو چشمت بست سحرِ صنعتش  تا کہ جان را در چَہ آمد رغبتش

ترجمہ: اس (تعالیٰ شانہ) کی صنعت (کے تصرف) نے تمہاری دونوں آنکھیں بند کر رکھی ہیں، حتیٰ کہ نفس کی رغبت (دنیا کے) کنوئیں سے ہو گئی۔

مطلب: موت جو سرو سامانِ ابدی کا دروازہ تھا اس سے متنفر ہو گئے اور دنیا کو جو اپنے مکروہات و معائب کے لحاظ سے ایک گہرا اور تاریک کنواں ہے، جائے امن سمجھ لیا۔ یہ قدرتِ الٰہیہ کے تصرفات ہیں۔

62

در خیالِ او ز مکرِ کردگار  جُملہ صحرا فوقِ چَہ زہر ست و مار

ترجمہ: (اور) خداوند تعالیٰ کی تدبیر خفی سے اس (نفسِ گمراہ) کے خیال میں تمام (صحرائے عالمِ غیب) جو کنویں کے اوپر ہے زہر اور سانپ (سے پر) ہے۔

مطلب: نفس گمراہ دنیا کے تاریک و تنگ کنویں کو جو معاصی و سیئات کے سانپوں، بچھوؤں کا مامن اور مصائب و نوائب کی بلاؤں کا مسکن ہے، مقامِ امن سمجھتا ہے اور اس کنویں سے باہر جو عالمِ غیب کی فضائے پر بہار ہے اس کو گوناگوں شدائد و آلام سے پر سمجھ کر اس سے متنفر ہے۔

63

لاجرم چَہ را پناہے ساختہ است  تا کہ مرگِ او را بچَہ انداختہ است

ترجمہ: اس لیے اس نے (اس تاریک) کنویں کو اپنا بنا رکھا ہے حتیٰ کہ موت نے (اس پر ثابت کر دیا کہ) اس کو (دنیا میں بھیج کر گویا) کنویں میں ڈال دیا (گیا) ہے۔

64

آنچہ گفتم از غلطہاش اے عزیز!  ہمچنین بشنیدم از عطّار نیز

ترجمہ: اے عزیز! میں نے جو اس (نفسِ گمراہ) کی غلطیاں بیان کی ہیں اسی کے مطابق میں نے ایک قصہ بھی (جو حضرت خواجہ فرید الدین) عطار سے منقول ہے، سنا ہے۔