دفتر ششم: حکایت: 45
حکایتِ رنجُورے کہ طبیب در وے اُمّید نداشت گفت ہر چہ خواہی کُن
ایک بیمار کی کہانی جس کی (شفایابی کی) طبیب کو امید نہ تھی، کہا جو چاہے کر
1
آن یکے رنجور شد سوئے طبیب گفت نبضم را فرو بین اے لبیب
ترجمہ: ایک بیمار طبیب کے پاس گیا (اور) کہا اے دانا! ذرا میری نبض تو دیکھو۔
2
تا ز نبض آگہ شوی بر حالِ دل کہ رگِ دست ست با دل متصل
ترجمہ: تاکہ آپ نبض کے ذریعہ (میرے) دل کے حال پر واقف ہو سکو کیونکہ ہاتھ کی رگ دل سے ملی ہوئی ہے۔
مطلب: نبض دیکھنے کے لیے وہ رگیں مقرر ہیں جن کو شرائین کہتے ہیں اور ان سب کا منبع قلب ہے۔ ہاتھ کی شریان نبض دیکھنے کے لیے اس لیے مخصوص ہے کہ اس کا محسوس کرنا سب شرائین سے آسان تر ہے۔ بدیں لحاظ کہ وہ سب سے زیادہ نمایاں ہے اور جسم کے نمایاں ترین حصے میں واقع ہے۔ آگے مولانا مصرعۂ ثانیہ کے مضمون کی تائید میں فرماتے ہیں:
3
چونکہ دل غیب ست خواہی زو مثال زان بجو کہ با دلستش اِتِصال
ترجمہ: (واقعی) قلب چونکہ (نظر سے) مخفی ہے تو (اگر) اس کی مثال مطلوب ہو تو اسی (ہاتھ کی رگ) سے طلب کرو کیونکہ وہ دل سے متصل ہے۔ (آگے اس کے چند نظائر ارشاد ہیں):
4
باد پنہان ست از چشم اے امین در غبار و جنبشِ برگش ببین
ترجمہ: اے امین! ہوا نظر سے مخفی ہے تو اس کو (گردو) غبار اور پتے کی حرکت میں محسوس کر سکتے ہو۔
5
کز یمیین ست آن و زان یا از شمال جنبشِ برگت بگوید وصف حال
ترجمہ: کہ وہ دائیں طرف سے چل رہی ہے، بائیں طرف سے، پتے کی حرکت تم کو حقیقت حال بتائے گی۔
6
مستیِ دل را نمیدانی کہ کُو وصفِ او از نرگسِ مخمور جُو
ترجمہ: (اسی طرح) اگر تم کسی کی مستیِ دل (یعنی عشق) کو نہیں جانتے کہ کہاں (اور کس شخص میں) ہے تو اس کا حال پُر خمار آنکھ سے دیکھ لو (جس کی آنکھ میں یہ کیفیت ہو گی اس میں مستیِ عشق موجود ہے کیونکہ دل کی یہ حالت آنکھ میں مؤثر ہوتی ہے)۔
7
چون ز ذاتِ حق بعيدی وصفِ ذات باز دانی از رسول و معجزات
ترجمہ: (اسی طرح) جب تم ذاتِ حق سے (باعتبارِ معرفت) بعید ہو تو (اس کا) وصفِ ذات، رسول اللہ ﷺ سے (جو واسطہ قریبہ ہیں) اور (ان کے) معجزات سے (جو واسطۂ بعیدہ ہیں) معلوم ہو گا۔ (کیونکہ معجزات سے معرفتِ رسول اور معرفتِ رسول سے معرفتِ حق حاصل ہوتی ہے۔)
8
معجزاتے و کراماتے خفی برزند بر دل ز پیرانِ صفی
ترجمہ: معجزات اور کرامات (جن کا سبب عوام کی نظر سے) مخفی (ہوتا ہے) برگزیدہ بزرگوں (یعنی انبیاء و اولیا) سے (صدور پا کر) لوگوں کے دل پر اثر کرتے ہیں۔
مطلب: تمام معجزاتِ انبیا اور کراماتِ اولیا قلوب پر یہ اثر کرتی ہیں کہ ان سے معرفتِ حق سبحانہ پیدا ہوتی ہے اور گو بظاہر خود ان معجزات و کرامات ہی کا بطورِ خوارق واقع ہونا مؤثر ہے۔ لیکن درحقیقت ان بزرگوں کے تصرفاتِ باطنیہ مؤثر ہیں اور ان کی یہی باطنی قوت معجزات و خوارق کو بھی مؤثر بنا دیتی ہے۔ کیونکہ:
9
کہ درونِ شان صد قیامت نقد ہست کمترین آنکہ شود ہمسایہ مست
ترجمہ: کیونکہ ان (بزرگوں) کے باطن (گویا) سینکڑوں سر پر آ جانے والی قیامتیں ہیں کم سے کم (اثر ان کا) یہ ہے کہ (ان کی صحبت میں) ہمسایہ (و ہمنشین) مست ہو جاتا ہے۔
مطلب: قیامت کا اثر یہ ہوگا کہ مردے زندہ ہو جائیں گے۔ اسی لحاظ سے ان بزرگوں کے باطن احیائے قلوب میں قیامت کا اثر رکھتے ہیں بلکہ ان میں قیامت سے بھی سو گنا اثر ہے۔ ان کے باطن کا کم از کم یہ اثر مشاہد ہے کہ ان کی صحبت سے قلب میں نورانیت اور محبتِ حق پیدا ہونے لگتی ہے۔ صائبؒ ؎
شد ز وصل غنچہ گلبو دامن بادِ سحر درنیامیزی درین گلشن با اہل دل چرا
10
پس جلیس اللہ گشت آن نیک بخت کو بہ پہلوئے سعیدے بُرد رخت
ترجمہ: پس وہ خوش نصیب (آدمی) الله تعالیٰ کا ہمنشین ہو گیا جو کسی صاحبِ سعادت (بزرگ) کے پہلو میں ڈیرا لے گیا۔ (آگے ایک شبہ کا ازالہ فرماتے ہیں)۔
11
معجزه کان بر جمادے زد اثریا عصا یا بحر یا شق القمر
12
گر اثر بر جان کند بے واسطہمتَّصل گردد بہ پنہاں رابطہ
ترجمه: جو معجزہ بے جان چیز پر اثر کر سکتا ہے (اور وہ بے جان چیز) یا عصا ہو یا دریا یا قمر کا شق ہونا (اور) اگر بلا واسطہ جان پر اثر کرے (تو پھر اس میں کیا تعجب ہے بلکہ اس سے مقصودِ معجزہ بخوبی حاصل ہو گا کہ طالب و مطلوب ہیں) مخفی طور پر رابطہ (اور بھی) پیوستہ ہو جائے گا۔
مطلب: اوپر ”معجزاتے و کراماتے خفی الخ“ میں فرمایا تھا کہ معجزات و کرامات سے جو اثر ہوتا ہے تو ان خوارق کے موادِ خاصہ میں ظہور کرنے سے نہیں ہوتا، بلکہ وہ اثر ان بزرگوں کے تصرفاتِ باطن سے ہوتا ہے۔ اس میں بظاہر استبعاد نظر آتا تھا۔ اس استبعاد کو رفع کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ جب جمادات ان بزرگوں کے تصرفاتِ باطن سے اثر پذیر ہو جاتے ہیں تو قلبِ انسان کیوں نہ متاثر ہو جو جمادات سے زیاده حسّاس و مدرک ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تصرف سے عصا اژدہا بن گیا اور دریا پھٹ گیا اور رسول الله ﷺ کے تصرفِ باطن سے قمر شق ہو گیا بلکہ اس صورت میں کہ قلب پر بلا واسطہ اثر ہو۔ مقصودِ معجزه بطریقِ احسن حاصل ہوتا ہے یعنی ہدایت اور تعلق باللہ۔ آگے اسی مضمون کی مزید توضیح ہے:
13
بر جمادات آن اثرہا عاریہ است آن پَئے روح خوش متواریہ است
ترجمہ: (بلکہ) جمادات پر تو(معجزات کی) وہ تاثیرات عاریت (اور غیر مقصود) ہیں۔ وہ (تاثیرات) روح (انسانی) منزه و مخفی کے لیے ہیں۔ (یعنی جمادات پر معجزات کا ظہور پانا روح کو متاثر کرنے کی غرض سے ہے۔)
14
تا ازان جامد اثر گیرد ضمیر حبّذا ناں بے ہیُولائے خمیر
ترجم: تاکہ قلب اس جماد (متاثر) سے اثر پذیر ہو (پس اگر روح پر وہ اثر بلا واسطہ جماد کے ہو جائے تو اس کی مثال ایسی ہو گی جیسے روٹی بدوں واسطہ خمیر کے ہو)۔ سو نہایت خوب ہے روٹی بدوں مادہ خمیر کے۔
15
حبّذا خوانِ مسیحی بے کمیحبّذا بے باغِ میوه مریمی
ترجمہ: خوب ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خوان بغیر کمی کے۔ خوب ہے حضرت مریم علیہ السلام کا میوہ (نخل) بدوں باغ کے (کہ انعامات بدوں وسائطِ مادیہ ظاہریہ کے ملے تھے)۔
16
بر زند از جانِ کامل معجزاتبرضمیرِ جانِ طالب چون حیات
ترجمہ: (مگر اس کے لیے صدق طلب شرط ہے چنانچہ) معجزات کاملین کے باطن کی بدولت طالب کے باطن (روح) پر زندگی کی طرح مؤثر ہوتے ہیں (یعنی جان ڈال دیتے ہیں)۔
17
معجزه بحرست و ناقص مرغِ خاک مرغِ آبی در وَے ایمن از ہلاک
ترجمہ: (بخلاف اس کے ناقص یعنی غیر طالب اس سے مستفید نہیں ہوتا چنانچہ) معجزه دریا ہے اور ناقص (گویا) خشکی کا پرندہ (جو دریا میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور) آبی پرندہ (یعنی طالب) اس (دریا) میں ہلاک سے بے خطر ہے۔ (غیر طالب معجزہ دیکھ کر اور بھی ضد و انکار پر آمادہ اور روحانی ہلاک میں مبتلا ہو جاتا ہے اور طالب کے لیے معجزه ازدیادِ یقین کا باعث ہے جس طرح آبی پرندہ کے لیے دریا ممدِ حیات ہے۔)
18
عجز بخشِ جانِ ہر نامحرمے لیک قدرت بخشِ جانِ ہمدمے
ترجمہ: (معجزه) ہر نا محرم (غیر طالب) کی روح کو عجز بخشنے (اور لا جواب کر دینے) والا ہے۔ لیکن ہمدم (طالب) کی روح کو قدرت (اور قوتِ عمل) بخشنے والا ہے۔
انتباہ: یہاں تک برکاتِ قلوب کے توسط سے آثارِ معجزات ظاہر ہونے کی بحث ختم ہوئی۔ اب کچھ دور اوپر کے شعر ”چون ز ذات حق بعیدی الخ“ کی طرف عود فرماتے ہیں۔ اشعارِ قریبہ میں معجزات کے متعلق دو فرقوں کا ذکر تھا ایک وہ جن پر معجزات کا اثر ذوقاً غالب ہو جائے جن کو طالبِ صادق اور مرغِ آبی اور ہمدم کہا تھا۔ دوسرے وہ جن پر بالکل یہ اثر نہ ہو ان کو ناقص اور مرغِ خاکی اور نا محرم کہا تھا۔ اب یہاں ایک تیسرے فرقہ کا ذکر فرماتے ہیں جو نہ پہلے فرقہ کی طرح صحیح الادراک ہے نہ دوسرے فرقہ کی طرح منکر و معاند ہے، بلکہ طالبِ حق ہے مگر ضعفِ ادراک کے باعث بدیہی و ظاہری دلائل کا محتاج ہے۔ پس مولانا اس فرقہ والوں سے فرماتے ہیں کہ تم امورِ ظاہر سے استدلال کرو۔ مگر انکار و عنادِ حق سے بچو۔ چنانچہ ارشاد ہے:
19
چون نیابی این سعادت در ضمیر پس ز ظاہر ہر دم استدلال گیر
ترجمہ: جب تم اپنے باطن میں یہ سعادت نہ پاؤ (کہ ذاتِ حق کی معرفت بلا استدلال حاصل کر سکو) تو ہر وقت امورِ ظاہر ہی سے استدلال کرو۔
20
کہ اثرہا بر مشاعر ظاہر ستوین اثرہا مؤثر مُخبر ست
ترجمہ: کیونکہ (خداوند صانع کے بہت سے) آثار حواس پر ظاہر ہیں (جن کے ساتھ ایک غبی سے غبی بھی استدلال کرسکتا ہے) اور یہ آثار مؤثر (حقیقی تعالیٰ شانہ کے وجود) کی خبر دیتے ہیں۔ (اس کی مثال ایسی ہے):
21
ہست پنہان معنیِ ہر داروئے ہمچون سحر و صنعتِ ہر جادُوئے
ترجمہ: (جیسے) ہر دوا کی (خاص) صفت پوشیدہ (ہوتی) ہے، سحر اور ہر قسم کے جادو کی مانند۔
22
چون نظر در فعل و آثارش کنی گر چہ پنہان ست اظہارش کنی
ترجم: (لیکن) جب اس (دوا) کی (ظاہری) افعال و آثار میں نظر کرو تو اگرچہ وہ (پہلے سے) مخفی ہے (مگر) اس کا اظہار کرو گے۔
23
قوّتے کان اندرونش مضمر ستچُون بفعل آید عیانِ مظہر ست
ترجمہ: (یعنی) جو قوت اس (دوا) میں مضمر ہے وہ تجربہ سے فعل میں آتی ہے تو ایسی عیاں ہو جاتی ہے کہ ظاہر کر دی جاتی ہے۔
مطلب: مثلاً جلابہ یا تربد میں اخراجِ فضول کا خاصہ مضمر ہے وہ خاصہ ان دونوں چیزوں کی ظاہری صورت سے نمایاں نہیں ہوتا۔ لیکن جب ان کو بطریقِ متعارف استعمال کیا جائے تو فوراً بذریعہ اسہال خروجِ فضول شروع ہو جاتا ہے اور ان دواؤں کا وہ خاصۂ مضمره عیاں ہو جاتا ہے۔ اسی طرح حق تعالیٰ کی ذات و صفات کی امر مبطن ہے جب اس کے بعض افعال مثلاً احیاء و امانت کے آثار حیاتِ زید دعوت عمرو ظاہر ہوئی تو اس سے اس مبطن پر استدلال صحیح ہو گیا۔ آگے اسی کی تطبیق ہے۔
24
چون بآثار این ہمہ پیدا شدت چُون نشد ظاہر بآثارِ ایزدت
ترجمہ: جب یہ سب (مخفيات یعنی خواصِ ادویہ اور تصرفات) آثار سے تم پر ظاہر ہو گئے تو پھر تم پر ایزد تعالیٰ آثار سے کیوں (ظاہر) نہ ہو۔
25
نے سببہا و اثر ہا مغز ، پوست چُون بجوئی جملگی آثارِ اوست
ترجمہ: کیا یہ (بات) نہیں ہے کہ (تمام) اسباب اور آثار (یعنی) مغز و پوست جب تم غور کرو تو سب اسی (ایزد تعالیٰ) کے آثار ہیں۔ (یہاں تک آثار سے صانع پر استدلال کرنے کی ہدایت تھی۔ آگے آثار سے صانع کی محبت پیدا کرنے کا ارشاد ہے۔ وہ فائدہ علمی تھا یہ عملی ہے۔)
26
دوست گیری چیز ہا را از اثر پس چرا ز آثار بخشی بے خبر
ترجمہ: تم (بہت سی) چیزوں کو (ان کے) اثر (کے لحاظ) سے پسند کرنے لگتے ہو۔ پس (ان) آثار کے بخشنے والے سے بے خبر کیوں ہو۔
مطلب : مثلاً جب کسی خاص کھانے یا پھل کی لذت کو محسوس کرتے ہیں جو اس کا اثر ہے تو ہمیشہ کے لیے وہ تم کو مرغوب ہو جاتا ہے۔ پس اس لذت بخشنے والے کی محبت تو بطریقِ اولیٰ ہونی چاہیے۔
27
از خیالے دوست گیری خلق را چُون نگیری شاہِ غرب و شرق را
ترجمہ: (بلکہ بعض اوقات) تم محض خیال (ہی) سے (کسی) مخلوق کو محبوب بنا لیتے ہو (جس میں وہ کمال و اثر فی الواقع نہیں ہوتا تو پھر مشرق و مغرب کے بادشاہ (حقیقی) کو (جو فی الواقع مجمعِ کمالات ہے) کیوں محبوب نہیں بناتے۔
28
این سخن پایان ندارد اے قبادحرصِ ما را اندرین پایان مباد
ترجمہ: اے (میرے) سلطان! (یعنی حسام الدین) یہ بات ختم ہونے والی نہیں (اور) اس (محبتِ حق) میں ہماری حرص ختم نہ ہو۔
29
باز گرد و قصۂ رنجُور گو با طبيبِ آگہ و ستّار خُو
ترجمہ: پس چلو اور بیمار کا قصہ بیان کرو (جو) باخبر اور پردہ پوش خصلت والے طبیب کے ساتھ (واقع ہوا)۔