دفتر 6 حکایت 44: اس (بڑھیا) کے پڑوس میں کوئی عجیب تقریب تھی اتفاق سے اس کو (بھی وہاں) مدعو کیا گیا تھا

دفتر ششم: حکایت: 44



بہ رُو چسپانیدنِ عجُوز عشر ہائے قرآن را جہت آرایش

بڑھیا کا قرآن مجید کے عشروں کو (اپنی) آرایش کی غرض سے چہرہ پر چپکانا

1

 بُود در ہمسایہ اش سورِ عجب  کرده بودند از قضا او را طلب

ترجمہ: اس (بڑھیا) کے پڑوس میں کوئی عجیب تقریب تھی اتفاق سے اس کو (بھی وہاں) مدعو کیا گیا تھا۔

2

 چون عروسی خواست رفت آن گند بیر  کرد اَبرُو را سیاه او ہمچو قیر

ترجمہ: جب اس سالخورده بڑھیا نے شادی میں جانا چاہا تو ابرو کو روغن سیاہ کی طرح (وسمہ سے) سیاہ کر لیا۔

(’’گند بیر‘‘ بضم گاف فارسی و دال موقوف و بائے موحدہ مکسور بمعنی زال عجوزہ صحیح ہے کَمَا مَرَّ تَحْقِیْقُہٗ ’’گندہ پیر‘‘ بکافِ فارسی مفتوح و ہاۓ بعد دال و بائے فارسی مکسور بمعنی عجوزہ نا پاک صحیح نہیں)۔

3

 چون عروسی خواست رفت آن مُسْتَحِیف  مُوئے ابرو پاک کردہ آن حریف

ترجمہ: جب اس ظلم کا سامان کرنے والی نے شادی میں جانا چاہا تو اس (حسین عورتوں) کی مد مقابل بننے والی نے ابرو (کے زائد) بالوں کو صاف کیا (ظلم کا سامان کرنے والی اس لیے کہا کہ وہ مردوں کی نظر میں محبوبہ و معشوقہ بننے کی کوشش کر رہی تھی حالانکہ وہ اس کی اہل نہ تھی اس لیے اس کا یہ قصد مردوں کے حق میں سراسر ظلم تھا)۔

4

پیشِ رُو آئینہ بگرفت آن عجوز  تا بیاراید رخ و رخسار و پوز

ترجمہ: اس بڑھیا نے (اپنے) منہ کے سامنے آئینہ رکھا تاکہ چہرہ اور رخسار اور ناک کو آراستہ کرے (پوز بہائم کی ناک کو کہتے ہیں عجوز کی ناک کو پوز تحقیرًا کہا)۔

5

چند گلگونہ بمالید از بطر  سُفرۂ رویش نشد پوشیده تر

ترجمہ: اس نے (اپنے حسن پر) اترانے کے لیے بہتیرا گلگونہ ملا (مگر) اس کے چہرہ کی مقعد (نما سطح) کچھ زیادہ نہ چھپ سکی (یعنی چہرہ کی جھریاں جو مقعد کے سلوٹوں سے مشابہ تھیں گلگونہ میں چھپ نہ سکیں)۔

6

 عُشر ہائے مصحف از جا مے بُرید  می بچسپانید بر رُو آن پلید

ترجمہ: وہ پلید (عورت) قرآن مجید کے عشروں کو اپنی جگہ سے کترتی تھی (اور) چہرے پر چپکا لیتی تھی۔

7

تاکہ سُفره روئے او پنہان شود  تا نگینِ حلقۂ خُوبان شود

ترجمہ: تاکہ اس کے چہرے کی مقعد (نما سطح ان اعشار میں) چھپ جائے (اور) تاکہ وہ (اس آرایش کی بدولت) حسینوں کے حلقہ کی نگینہ بن جائے۔

8

 عشرہا بر روئے ہر جا می نہاد  چونکہ بر می بست چادر مے فتاد

ترجمہ: وہ چہرے پر جا بجا عشر رکھتی تھی (مگر) جونہی چادر اوڑھتی تھی تو (اس کی رگڑ سے) وہ گر جاتے تھے۔

9

 باز او آن عشرہا را با خُدُو  می بچسپانید بر اطرافِ رو

ترجمہ: پھر وہ ان عشروں کو تھوک کے ساتھ (تر کر کے) چہرے کی اطراف پر چپکاتی تھی۔

10

 باز چادر راست کردے آن تگین  عشرہا افتادے از رو بر زمین

ترجمہ: پھر وہ آتش (شہوت سے پر ہونے والی) یا (حصولِ مقصد کے لیے) پہلوان (کی طرح زور لگانے والی) چادر کو سیدھی کرتی تو عشر اس کے چہرے سے (جھڑ کر) زمین پر گر پڑتے۔

11

 چون بسے می کرد فن وان می فتاد  گفت صد لعنت بر آن ابلیس باد

ترجمہ: جب وہ (عشروں کو چپکانے کے لیے) بہت سے حیلے کر چکی اور وہ گرتے ہی رہے تو (تنگ آ کر) بولی اس ابلیس پر سو لعنت ہو (جو میرے کام میں رخنہ اندازی کر رہا ہے)۔

12

 شد مصوّر آن زمان ابلیس زُود  گفت اے قحبہ قدید بے وُرُود

ترجمہ: اس وقت فورًا ابلیس مجسم ہو (کر سامنے) آ گیا (اور) بولا اے بدکار عورت! جو (غیر خوشگوار ہونے میں گویا) خشک گوشت ہے جس پر کوئی وارد نہیں ہوتا (یعنی کوئی مرد تیری طرف راغب نہیں ہوتا)۔

13

 من ہمہ عمر این نیندیشیده ام  نے ز جز تو قحبۂ این دیده ام

ترجمہ: (ہر چند کہ میں فتنہ و شرارت میں یکتا ہوں مگر) یہ (شرارت جو تو نے قرآن کے ساتھ کی ہے) مجھے (بھی) ساری عمر میں نہیں سوجھی تھی نہ میں نے اس کو تجھ بدکار کے سوا اور کسی سے دیکھا ہے۔

14

 تخم نادر در فضيحت كاشتی  در جہان تو مصحفے نگذاشتی

ترجمہ: تو نے رسوائی میں عجیب بیج بویا ہے تو نے دنیا میں قرآن مجید (کی سی) عظیم الشان (کتاب) کو (بھی) نہ چھوڑا (اور کسی کی تو تیرے آگے کیا بساط ہے)۔

انتباه: بعض شارحین نے مصحفے کی یاء کو یائے تنکیر مفید اطلاق سمجھا ہے۔ یعنی قرآن کو نہیں چھوڑا حالانکہ یہ صحیح نہیں کیونکہ اس عجوزہ نے قرآن مجید کے صرف ایک نسخہ سے یہ بد سلوکی کی تھی۔ پس مناسب یہ ہے کہ اس کو یائے تفخیم سمجھا جائے۔ کَمَا اخْتَرْنَاہ۔

15

 صد بلیسی تو خمیس اندر خمیس  ترک من گو اے عجوزِ درد بیسں

 ترجمہ: (اری) تو (اکیلی) سو شیاطین (کی قائم مقام) ہے جو فوج در فوج ہوں اے سڑیل (یا اے چوٹی اور داغدار) بڑھیا! مجھے چھوڑ (اور اپنے آپ پر لعنت کر دوسرے نسخہ کی تقدیر پر عجوز کو اعشارِ قرآن کے لحاظ سے دزد اور داغہا سے چہرہ کے لحاظ سے پیس کہا، چنانچہ آگے اس کی تصریح ہے)۔

16

 چند دُزدی عشر از ام الكتيب  تا شود رویَت ملوّن ہمچو سیب

ترجمہ: تو قرآن مجید کے اعشار کو کہاں تک چرائے گی تاکہ (داغدار) چہرہ سیب کی طرح خوش رنگ ہو جائے (آگے مولانا مقصودِ قصہ کی طرف انتقال فرماتے ہیں):

17

 چند دزدی حرفِ مردانِ خدا  تا فروشی و ستانی مرحبا

ترجمہ: (اے مدعی کمال!) تو کہاں تک مردانِ حق کے ملفوظات چرائے گا تاکہ (لوگوں کو) سنائے اور (ان سے) تحسین و آفرین پائے۔

مطلب: پیچھے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تم ناقص و بے جوہر ہونے کے با وجود ادعائے کمال کیوں کرتے ہوں۔ اس کی تائید میں عجوزہ کا ذکر فرمایا جو غیر حسین ہونے کے باوجود حسینہ و جمیلہ ہونے کی کوشش کرتی تھی۔ اب سابقہ مضمون کی تائید میں قصہ کا ماحصل ارشاد ہے یعنی تم ناقص ہونے کے با وجود بزرگوں کے ملفوظات نقل کر کے بزرگ بننے کی ناحق کوشش کرتے ہو۔

باتوں باتوں میں شعر لاتے ہیں اور دلکش قصص سناتے ہیں

ہر ادا میں کمال کے دعوے  قال کے دم میں حال کے دعوے

18

 رنگ بربستہ ترا گلگُون نکرد  شاخ بربستہ ترا عُرجُون نکرد

ترجمہ: (مگر یاد رکھ اس نقل و سرقہ کے) جمائے ہوئے رنگ نے تجھ کو (حسن کمال کے ساتھ) گلگوں نے نہیں کیا دوسرے درخت سے لا کر بلا قواعد پیوند باندھی شاخ نے تجھ کو (اصلی اور) قدیمی شاخ کی (طرح سرسبز) نہیں کیا۔

مطلب: جب ایک درخت کی شاخ قواعدِ پیوند کے مطابق دوسرے درخت میں جسمانی جاتی ہے تو وہ اس کا جز بن جاتی ہے اور تمثیلِ سابق سر سبز رہتی ہے۔ بخلاف اس کے بے قاعدہ طور پر باندھی ہوئی شاخ جلد خشک و ناکارہ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر اقوالِ بزرگان اور ملفوظاتِ اکابر کو پہلے خود اپنا دستور العمل بنا کر ان کے مطابق اپنا تصفیۂ باطن اور اصلاحِ نفس کی جائے تو ان کے نقل و بیان سے دوسرے لوگوں پر بھی اثر ہوتا ہے۔ پھر گویا وہ اقوال خود اپنے بن جاتے ہیں لیکن جب خود اپنے باطن پر ان کا کچھ اثر نہ ہو تو سامعین پر بھی وہ کچھ اثر نہیں کرتے اور ان کا ناقل شیخِ کامل نہیں کہلا سکتا۔ جامیؒ ؎

خواجہ زند بانگ کہ صنعت ورم  مِس شود از جودت صنعت زرم

لیکن اگر دست بجیش نہی  چون کفِ مفلس بود از زر تہی

کیسہ چو خالی بود از زر وسیم  دعوے اکسیر چہ سود از حکیم

19

 عاقبت چون چادرِ مرگت رسد  از رُخت این عُشر ہا اندر اُفتد

ترجمہ: آخر جب موت کی چادر تجھ پر تن جائے گی تو تیرے چہرے سے یہ (ریاکارانہ اوصاف کے) عشر گر جائیں گے۔

مطلب: جس طرح عجوزہ کے چہرے پر عشروں کے پرزے تھوڑی دیر تک ٹھیرتے تھے اور چادر کی رگڑ کھاتے ہی گر پڑتے تھے، اسی طرح شیوخ مزوّرین کے مکر و فریب کا کھیل صرف دنیا کی حیاتِ بے بقا تک قائم ہے موت کی ساعت آئی اور یہ کھیل بگڑا۔ ﴿فَكَـيْفَ اِذَا تَوَفَّتْـهُـمُ الْمَلَآئِكَـةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُـمْ وَ اَدْبَارَهُمْ (محمد: 27)

20

 چونکہ آید خیز خیزِ آن رحیل  گم شود زاں پس فسونِ قال و قیل

ترجمہ: (یعنی) جب اس کوچ کا چل چلاؤ آ پہنچے گا تو اس کے بعد (نقلی) قال و قیل کا (یہ سب) افسون گُم ہو جائے گا۔

21

 عالمِ خاموشی آید پیش بیست  وائے آن کو در درون انسیش نیست

ترجمہ: (پھر قبر کا) عالمِ خاموشی پیش آئے گا (اور منکر و نکیر کہیں گے) اٹھ کھڑا ہو (اس وقت) اس شخص کی بڑی خرابی ہے جس کے اندر اُنس (مع الحق) نہیں ہے۔

مطلب: جو شخص دنیا میں طاعات حق بجا لاتا رہا اور اس نے اپنے تعلق باللہ کو استوار رکھا وہ نکیرین کے سوال کا صحیح جواب دے گا اور برزخی راحت و فرحت سے مستمع ہو گا، اور جس شخص نے اپنا تعلق دنیا کے ساتھ اس قدر گہرا رکھا کہ خداوند تعالیٰ کی یاد اور اس کی انس و محبت کی اس میں بالکل گنجایش نہ رہی وہ ملائکہ کے سوالات کے جواب دینے سے عاجز آ جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ ملائکہ بڑی سختی سے پیش آئیں گے اور اس پر لوہے کی گرزوں سے مار برستی رہے گی۔

22

صیقلی کُن یک دو روزے سینہ را  دفترِ خود ساز آن آئینہ را

ترجمہ: (اس خرابی کے تدارک کی صورت یہ ہے کہ زندگی کے باقی) ایک دو دنوں میں اپنے سینہ کو (طاعت و عبادات سے) صیقل کر لو (تاکہ اس میں انوارِ الٰہیہ منعکس ہونے لگیں اور) اس آئینہ (سینہ) کو (جس میں علوم و معارف کے نورانی نقوش منعکس ہوں) اپنا دفتر بنا لو (اور اس کے مطالعہ میں لگے رہو)۔

22

 کہ ز سایۂ یوسفِؑ صاحبقران شد زلیخاۓ عجوز از سر جوان

مطلب: (اس لیے) کہ حضرت یوسف علیہ السلام صاحبِ قرآن کے سایہ (برکت) سے بڑھیا زلیخا از سرِ نو جوان ہو گئی تھی (اسی طرح تم بھی جو عجوزہ سالخوردہ کی طرح ناکارہ ہو انوارِ الٰہیہ کی برکت سے خوش حال ہو جاؤ گی۔ آگے اس قسم کے مبارک انقلاب کی دو نظیریں ارشاد ہیں)۔

24

 می شود مُبدَّل بخورشیدِ تموز  آن مزاجِ باردِ بردَ العجوز

ترجمہ: (جس طرح) موسم گرما کے آفتاب سے شدت کی سردی کا ٹھنڈا مزاج بدل (کر کچھ کا کچھ ہو) جاتا ہے۔

25

می شود مُبدَّل بہ سوزِ مریمی  شاخِ لب خشکے بہ نخلِ خُرّمی

ترجمہ: (اور جس طرح) حضرت مریم علیھا السلام کے سوز (و گذار) کی بدولت (جو ان سے در دِزہ کے وقت توجہ الی اللہ کی وجہ سے سرزد ہوا) ایک لب خشک شاخ نخلِ مسرت بن جاتی ہے۔

مطلب: قرآن مجید میں یہ قصہ یوں مذکور ہے کہ جب حضرت مریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بارور ہوئیں اور ایام حمل پورے ہو گئے۔ ﴿فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنتُ نَسْيًا مَّنْسِيًّا(مریم: 23) ”پھر در دزہ ان کو ایک کھجور کے درخت کی جڑ میں لے پہنچا (اور جب وضعِ حمل کی تکلیف ہوئی تو) وہ بولی اٹھیں اے کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور بھولی بسری ہو گئی ہوتی“ ﴿فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِیًّا (مریم: 24) ”پھر جبریل علیہ السلام نے (اس چشمے سے جو) مریم کے تلے (خدا کی قدرت) سے (بہ نکلا تھا) آواز دی کہ آزردہ خاطر نہ ہو (یہ دیکھو) یہ تمہارے پروردگار نے تمہارے تلے ایک چشمہ بہا دیا“ ﴿وَ هُزِّىٓ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَـةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا(مریم: 25)اور کھجور کی جڑ کو (پکڑ کر) اپنی طرف کو ہلاؤ تم پر پکی پکی کھجوریں جھڑ پڑیں گی“ واضح ہو کہ ایسے موقع میں تدارک اور تلافیِ مافات کرنے والے کبھی اپنے ایامِ ماضی کی یاد سے جو معاصی کے ارتکاب میں گزرے ہیں، دل شکستہ ہو کر بہبودیِ مُستقبل سے مایوس اور بجا آوریِ اعمالِ صالحہ سے معطل ہو بیٹھتے ہیں۔ آگے مولانا اس غلطی سے بچنے کی ہدایت فرماتے ہیں:

26

اے عجوزہ چند کوشی با قضا  نقد جو اکنون رہا کُن مامضٰى

ترجمہ: اے (وہ جو بد حالی میں مثل) عجوزه! (بدکار ہے) تو کب تک قضا (و قدر) کے مقابلے میں کوشش کرے گی۔ تو اب نقد کو غنیمت سمجھ اور حالاتِ گزشتہ کو چھوڑ۔

مطلب: جو کچھ پہلے ہوا اور جس طرح ہوا وہ قضاۓ الٰہی اور نوشتۂ تقدیر تھا، اس کے متعلق سوچ میں پڑنا کہ اب اس کا کیا انتظام کیا جائے اور کیونکر کیا جائے اور جو نتائج سیئہ اس پر مرتب ہوں گے ان کی روک تھام کیونکر ہو۔ یہ قضاء و قدر کا مقابلہ ہے جو محض فضول و بے ثمر بلکہ مضر ہے لہٰذا گزشتہ را صلوٰت و آئنده را احتیاط، پر عمل کر سکے اصلاحِ حال اور احتیاطِ مستقبل کو اپنا شیوہ بناؤ۔ ہاں معاصی سابقہ سے توبہ کرنے کے لیے ان کو یاد کرنا مفید اور عبرت بخش ہے بس اس سے زیادہ خلجان میں نہ پڑنا چاہیے۔ آگے یہ ارشاد ہے کہ جو ہونا ہے وہ ٹل نہیں سکتا۔

27

 چون رُخت را نیست در خوبی اُميد  خواه گُلگُونہ نہ و خواہی مدید

ترجمہ: جب تیرے چہرے کے لیے حسن (حاصل ہونے کی کوئی) امید نہیں (تو پھر سب تدبیریں بے سود ہیں) خواه (اس چہره پر) گلگونہ مل یا سیاہی۔

مطلب: یعنی جو کچھ تجھ سے بن آئے کر دیکھ ماضی کا مٹانا تو محال ہے۔ مضمون سابق کی تائید میں یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اے مزوّر! تو اپنے عیوب کو چھپانے کی کتنی ہی کوشش کر وہ چھپ نہیں سکتے۔ اس مایوسانہ حالت کی تائید میں ایک بیمار کا قصہ ارشاد ہے: