دفتر 6 حکایت 43: ایک سائل ایک گھر کی طرف آیا (اور گھر والے سے) ایک سوکھی یا تر روٹی مانگی

دفتر ششم: حکایت: 43



سوالِ سائل از صاحبِ خانہ و جواب او را بر سبیلِ طنز

ایک سائل کا گھر والے سے سوال کرنا اور ا اس کا بطور طنز اس کو جواب دینا

1

سائلے آمد بسوئے خانۂ خشک نانے خواست یا تر نانۂ

ترجمہ: ایک سائل ایک گھر کی طرف آیا (اور گھر والے سے) ایک سوکھی یا تر روٹی مانگی۔

2

 گفت صاحبِ خانہ نان اینجا کجا ست  خیرۂ کے این کے دکانِ نانبا ست

ترجمہ: گھر والے نے کہا یہاں روٹی کہاں ہے؟ تو سودائی ہے؟ یہ کونسی نانبائی کی دکان ہے؟

3

 گفت آخر پارۂ پیہم بیاب گفت این جا نیست دکَّان قصاب

ترجمہ: (سوالی نے) کہا آخر چربی کا ایک ٹکڑا ہی مجھ کو دلا دو (گھر والے نے) کیا یہاں قصائی کی دکان نہیں ہے۔

4

گفت مشتے آرد دِہ اے کد خُدا  گفت پنداری کہ ہست این آسیا

ترجمہ: (سوالی نے) کہا، اے گھر کے مالک! آٹے کی ایک مٹھی ہی دے دو۔ کہا، کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ یہ خراس ہے؟

5

 گفت بارے آب دہ از مِکرعہ  گفت نے نے نیست جویا مشرعہ

ترجمہ: کہا، آخر پانی کے برتن سے پانی ہی (پلا) دو کہا نہیں نہیں (یہاں) نہر یا گھاٹ نہیں ہے۔

6

 ہر چہ او درخواست از نان و سبوس  چربکے می گفت و می کردش فسون

ترجمہ: (غرض) وہ (سوالی) روٹی اور بھوسی سے جو کچھ مانگتا تھا (گھر والا اس پر) پھبتی کستا تھا اور اس سے تمسخر کرتا تھا۔

7

آن گدا در رفت و دامن در کشید  و اندران خانہ بِجَست و خواست رید

ترجمہ: وہ فقیر اندر کو چلا اور دامن (جو سوال کے لیے پھیلا رکھتا تھا) سمیٹ لیا اور اس گھر کے اندر کود گیا اور ہگنا چاہا۔

8

 گفت ہے ہے گفت تن زن اے دژم  تا درین ویرانہ خود فارغ کنم

ترجمہ: (مالکِ خانہ نے) کہ ارے ارے! (سوالی) بولا اے پریشان دماغ چپ رہ تاکہ میں اپنے آپ کو اس جنگل میں (حاجتِ ضروری سے) فارغ کروں۔

9

چون درین جا نیست وجہِ زیستن  در چنین خانہ بباید ریستن

ترجمہ: جب یہاں زندگی بسر کرنے کا (کوئی) سامان نہیں (چنانچہ نہ روٹی، نہ آٹا، نہ پانی) تو ایسے گھر میں ہگنا چاہیے (آگے مولانا فرماتے ہیں):

10

 چوں نہ بازے کہ گیری تو شکار دست آموزِ شکارِ شہریار

ترجمہ: (اے بے جوہر!) جب تو وہ باز نہیں ہے جو شکار پکڑے (اور) جو بادشاہ کے ہاتھ پر شکار مارنا سیکھا ہوا ہو (اس شرط کی جزا آگے چھٹے شعر میں ہے):

11

 نیستی طاؤس با صد نقش و بند  کی بنقشت چشمہا روشن کنند

ترجمہ: (اور جب) تو (وہ) مور نہیں جو سینکڑوں نقش و ترکیب کے ساتھ (موصوف ہو) کہ تیرے نقش کے ساتھ آنکھیں روشن کریں۔

12

 ہم نہ بُلبُل کہ عاشق وار زار  خوش بنالی در چمن با لالہ زار

ترجمہ: (اور جب) تو وہ بلبل بھی نہیں ہے جو عاشق کی طرح چمن میں لالہ زار کے ساتھ خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے۔

13

ہم نہ ہُدہُد کہ پیکی ہا کنی  نے چو لک لک کہ وطن بالا کنی

ترجمہ: (اور جب) تو ہد ہد بھی نہیں جو سفارت کے فرائض ادا کرے نہ لکلک کی مانند ہے کہ (ایک سے ایک) بڑھ کر وطن اختیار کرے (لکلک ایک آبی پرندہ ہے)۔

14

در زمستان سوئے ہندُوستان روی در بہاران سُوئے ترکستان شوی

ترجمہ: (چنانچہ) موسم سرما میں ہندوستان کی طرف جا پہنچے (اور) ایامِ بہار میں ترکستان کی طرف چلا جائے۔

15

 در چہ کاری و بہرِ چت خرند  تو چہ مرغی و ترا با چہ خورند

ترجمہ: (غرض جب تو کچھ بھی نہیں تو بتا) تو کس کام کا ہے اور تجھے کس غرض سے خریدیں؟ تو کیا تو جانور ہے اور تجھے کس چیز کے ساتھ کھائیں (تو کس مرض کی دوا ہے)؟

مطلب: تجھ میں کوئی بھی جوہرِ کمال نہیں پھر کس لیے لوگوں کی نظر میں مقبول ہونے کی نا حق کوشش کرتا ہے۔ آگے ارشاد ہے کہ اس عجوز شہوت پرست کی طرح خود نمائی و خود آرائی کرنے سے باز آؤ اور حق تعالیٰ کی طرف رجوع کرو۔ وہاں قابل و نا قابل سب مقبول ہو جاتے ہیں۔

16

زین دکانِ با مُکِیسان برتر آ  تا دکان فضلِ اَللّٰهُ اشْتَرٰی

ترجمہ: تم ان تنگ معاملہ لوگوں کی دکان سے علیحده (ہو کر) الله اشتریٰ کی دکانِ فضل و (کرم) کی طرف آ جاؤ (اشاره بآیت ﴿اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ۔۔۔﴾ (التوبہ: 111)

17

کالۂ کہ ہیچ خلقش ننگرید  از خلاقت آن کریم آن را خرید

ترجمہ: جس مال کو کہنگی کے سبب سے کسی مخلوق نے (پسندیدگی کی نظر سے) نہیں دیکھا اس کریم نے اس کو خرید لیا ہے۔

18

ہیچ قلبے پیشِ او مردود نیست  زانکہ قصدش از خریدن سود نیست

ترجمہ: کوئی کھوٹا (مال) اس کی درگاہ سے رد نہیں ہوتا کیونکہ (اس خریداری سے) اس کا مقصود نفع (کمانا) نہیں ہے۔ کما قيل عنہ تعالیٰ شانہٗ ؎

باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ گر گبر و جہود و بت پرستی باز آ

این درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست  صد بار اگر توبہ شکستی باز آ

19

سودِ او و بیعِ آن یارِ نکو  کوست نیک خلق و ہم نیکوش خو

ترجمہ: اس محبوبِ جمیل (تعالیٰ شانہٗ) کا نفع اور خریداری (تو یہی ہے) کہ وہ نیک اخلاق ہے اور اس کی عادت اچھی ہے (یعنی وہ اپنے اچھے اخلاق کے تقاضے سے اپنے بندوں کو ہر طرح نفع پہنچانا چاہتا ہے جس کے لیے بندوں کی صرف رجوع شرط ہے۔ پس یہی اس کا نفع ہے)۔

20

بیحدست افضالِ او آیس مشو  سوئے دستانِ عجوزه باز رو

ترجمہ: اس کے فضل و کرم بہت ہیں، نا امید نہ ہو۔ اب بڑھیا کے قصے کی طرف واپس چلو۔

21

 باز می گردم سوئے قصۂ عجوز  زانکہ پایانے ندارد این رُموز

ترجمہ: میں پھر بڑھیا کے قصے کی طرف رجوع کرتا ہوں، کیونکہ یہ نکات تو انتہا نہیں رکھتے۔