دفتر ششم: حکایت: 41
دُعا کردنِ درویش خواجہ گیلانی را وَ رد کردنِ او
ایک درویش کا کسی گیلانی سردار کو دعا دینا اور اس کا (اس دعا کو) رد کر دینا
1
گفت یک روزے بخواجہ گیلیےنان پرستے نر گدا زنبیلیے
ترجمہ: ایک روز کسی ٹکڑا گدا، ہٹے کٹے، بھکاری جھولی والے نے ایک گیلانی سردار سے کہا
2
نان ہمی باید مرا نان دِہ مرا تا بگویم مر ترا من یک دعا
ترجمہ: مجھے روٹی چاہیے، مجھے روٹی دو تاکہ میں تمہارے حق میں ایک دعا کروں۔
3
چون ستد زو نان بگفت اے مستعان خوش بخان و مان خود بازش رسان
ترجمہ: جب اس (فقیر) نے اس (سردار) سے روٹی لے لی تو کہا اے خداوند! جس سے مدد مانگی جاتی ہے اس کو جلدی اپنے گھر بار میں پہنچا دے۔
4
گفت اگر آن ست خان کہ دیده ام حق ترا آنجا رساند اے دژم
ترجمہ: ایں (سردار) نے کہا اگر گھر (سے) وہی (مراد) ہے جو میں نے دیکھا ہے تو اے پریشان حال (فقیر)! حق تعالیٰ تجھی کو وہاں پہنچائے۔
مطلب: فقیر نے فقیروں کی سی عام دعا دی تھی کہ تم اپنے وطنِ مالوف میں بخیریت پہنچ جاؤ۔ ادھر اتفاق سے سردار اپنے اخوان و اقارب کی ایذا رسانیوں کے باعث وطن سے بیزار ہو چکا تھا۔ فقیر کی دعا سنتے ہی اس کی نگاہوں میں اہلِ برادری کے ظلم و ستم کا نقشہ پھر گیا اس لیے چھٹتے ہی بولا ایسے وطن میں اللہ تجھی کو لے جائے ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اس فقیر نے اپنی دانست میں اچھی دعا دی تھی مگر سردار نے حقیقتِ وطن سے واقف ہونے کے باعث اس کو بد دعا سمجھا۔ اسی طرح خوشامدی لوگ بد کار بڈھے کو درازیِ عمر کی دعا اچھی سمجھ کر دیتے ہیں اگر وہ بڈھا دنیوی عمر اور اُخروی زندگی کی حقیقتوں کو سمجھتا تو اس دعا کو بد دعا سمجھتا۔ آگے مولانا ایک اور مضمون ارشاد فرماتے ہیں یعنی مذکورہ قصے میں تو قائل نے ایک بات اچھی سمجھ کر کہی مگر سامع نے اپنی حقیقتِ حال کے لحاظ سے اس کو برا سمجھا۔ بر خلاف اس کے بعض اوقات قائل کی بات فی الواقع اعلیٰ ہوتی ہے مگر سامع اپنی پست نظری سے اس کو پست معنی پر محمول کر لیتا ہے۔
5
ہر محدّث راخسان بد دل کنند حرفش ار عالی بود نازل کنند
ترجمہ: (بخلاف اس کے بعض اوقات) کمینے لوگ ہر متکلم (بکلامِ عالی) کو اپنی کج فہمی سے شکستہ دل کر دیتے ہیں اس کی بات اگر اعلیٰ ہو تو اس کو پست (کلام بولنے پر مجبور کر دیتے ہیں)۔
مطلب: مولانا بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ اس مضمون کو ماسبق کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے فرماتے ہیں۔ اس فقیر نے سردار کو یہ دعا دی تھی کہ تم عالمِ باطن کے وطنِ مالوف سے واصل ہو جاؤ۔ یعنی روحانی ترقی کر جاؤ اور دنیاوی علائق سے چھوٹ جاؤ مگر سردار نے جو اپنے وطن سے بیزار تھا، اس کو ظاہری معنی پر محمول کر کے برا منایا۔ اسی طرح کم فہم لوگ اعلىٰ كلام کو پست معنی پر محمول کر لیا کرتے ہیں۔ بے شک یہ وجۂ ربط بادی النظر میں خوب ہے مگر غور کرنے سے اس میں دو نقص نظر آتے ہیں ایک یہ کہ اگر وہ فقیر ایسے عارفانہ خیالات رکھتا تو مولانا اس کو ’’نر گدا‘‘۔ ’’نان پرست زنبیلی‘‘ کے مکروہ خطابات سے یاد نہ فرماتے دوسرے یہ توجیہ اس مضمون کو درویش و خواجہ کی کہانی سے مربوط کرتی ہے اور درویش و خواجہ کی کہانی پیر شہوت پرست کی دعائے عمر درازی کو صحیح معنی میں نہ سمجھنے کی تائید میں بیان کی گئی تھی، جس کے لیے لازم ہے کہ یہ مضمون اور ’’پیرِ شہوت پرست‘‘ کا قصہ باہم متضاد نہ ہوں حالانکہ ان دونوں میں تضاد ہے۔ چنانچہ وہاں بڈھے نے دعا گو کی پست دعا کو اعلیٰ سمجھا اور یہاں کمینہ نے محدِّث کے اعلیٰ کلام کو پست سمجھا غرض وہ محدث اعلیٰ کلام پر قادر ہونے کے باوجود لوگوں کی کوتہ فہمی سے کلام بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آگے اس کی وجہ ارشاد ہے:
6
زان کہ قدرِ مستمع آمد نبا بر قدِ خواجہ بُرد درزی قبا
ترجمہ: اس لیے کہ سامع (کے فہم و ادراک) کے مطابق کلام ہوتا ہے، خواجہ کے قد کے موافق درزی قبا قطع کرتا ہے۔
7
چونکہ مجلس بے چنین بیغارہ نیست از حدیث پست و نازل چاره نیست
ترجمہ: چونکہ مجلس ایسے طعنہ (زننده) سے خالی نہیں ہوتی (اس لیے) کلام پست و نازل سے چارہ نہیں۔
8
داستان ہِین این سخن را از گروسوئے افسانہ عجوزه باز رو
ترجمہ: ہاں اس بحث (بكلام بقدر عقول) کو (اپنی) گرفت سے چھوڑ دو۔ بڑھیا کے قصے کی طرف واپس چلو۔