دفتر 6 حکایت 39: اس بات کے بیان میں کہ مصطفٰے ﷺ نے جب سنا کہ عیسی علیہ السلام پانی کی سطح پر چلتے تھے تو فرمایا اگر ان کا یقین زیادہ ہوتا تو ہوا پر بھی چلتے

دفتر ششم: حکایت: 39



در بیان آنکہ مصطفےٰ ﷺ چُون شنید کہ عیسیٰ علیہِ السّلام بر رُوئے آب رفت فرمُود لَوْ زَادَ يَقِیْنُہٗ لَمَشٰى عَلَى الْهَوَاءِۤ

اس بات کے بیان میں کہ مصطفٰے ﷺ نے جب سنا کہ عیسی علیہ السلام پانی کی سطح پر چلتے تھے تو فرمایا اگر ان کا یقین زیادہ ہوتا تو ہوا پر بھی چلتے

1

ہمچو عیسیٰ بر سرش گیرد فُرات  کا یمنی از غرقہ در آبِ حیات

ترجمہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح اس (شخص) کو (دریائے فرات اپنی سطح پر (اٹھا) لیتا ہے (جس میں ان کا یہ اشاره مضمر ہے) کہ تو (اس) آبِ حیات میں (پڑ کر) غرق ہونے سے بے خطر ہے۔

2

 گوید احمد ﷺ گر یقینش افزون  بُدے  خود ہوایش مرکب و ہامون شدے

ترجمہ: حضرت احمد ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر ان کو زیادہ یقین ہوتا تو ہوا ان کے (سوار ہونے کے لیے) مرکب اور (چلنے کے لیے) میدان بن جاتی۔

3

ہمچو من کہ بر ہوا راکب شُدم  در شبِ معراج مستَصْحِب شدم

ترجمہ: میری طرح کہ میں شبِ معراج میں ہوا پر سوار ہوا (اور ملائکۂ آسمان کے ساتھ) شریکِ صحبت ہوا۔

مطلب: مولانا کے اس بیان کا ماخذ وہ روایت ہے جو احیاء العلوم کی کتاب الصبر والشکر اور نیز کتاب التوکل میں درج ہے کہ ’’قِیْلَ لِلنَّبِیْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اِنَّ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ یُقَالُ اِنَّہٗ مَشٰی عَلَی الْمَاءِ فَقَالَ لَوْ زَادَ یَقِیْناً لَمَشٰی عَلَی الْھَوَاءِ‘‘ یعنی ”نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پانی پر چلتے تھے تو آپ نے فرمایا اگر ان کو اور زیادہ یقین ہوتا تو ہوا پر بھی چل سکتے“ (انتہٰی) احیاء کی شرح میں زبیدی نے عراقی سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے یعنی اس کے راوی غیر ثقہ نے ثقات کے خلاف یہ روایت کی ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ معروف روایت وہ ہے جس کو ابن ابی الدنیا نے کتاب الیقین میں بطور قول بکر بن عبد الله مزنی سے یوں نقل کیا ہے کہ ’’قَالَ فَقَدَ حَوَارِیُّوْنَ نَبِیَّھُمْ فَقِیْلَ لَھُمْ تَوَجَّہَ نَحْوَ الْبَحْرِ فَانْطَلَقُوْا یَطْلُبُوْنَہٗ فَلَمَّا انْتَھَوْا اِلَی الْبَحْرِ اِذَا ھُوَا قَدْ اَقْبَلَ یَمْشِیْ عَلَی الْمَاءِ فَذَکَرَ حَدِیثاً فِیْہِ اَنَّ عِیسٰی قَالَ لَوْ اَنَّ لِابْنِ اٰدَمَ مِنَ الْیَقِیْنِ قَدْرَ شَعِیْرَۃٍ مَّشٰی عَلَی الْمَاءِ‘‘ یعنی ”کہا، ایک مرتبہ حواریوں نے اپنے پیغمبر کو نہ پایا کسی نے کہا وہ دریا کی طرف گئے ہیں۔ یہ لوگ ان کو تلاش کرنے کے لیے دریا کی طرف چلے جب دریا پر پہنچے تو دیکھتے کیا ہیں کہ وہ پانی کے اوپر چلے آتے ہیں پھر باقی واقعہ بیان کیا جس میں یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا! اگر فرزندِ آدم علیہ السلام کے پاس جو کے دانے کے برابر بھی یقین ہو تو وہ پانی پر چلنے لگے“ (انتہٰی)

سوال: (1) شارح احیا کے قول سے ثابت ہے کہ پہلی روایت بے اصل ہے تو حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی روایت احیاء العلوم میں کیوں لکھی؟

جواب: امام ممدوح کی شان سے یہ بعید ہے کہ انہوں نے اس کو بے اصل سمجھتے ہوئے نقل کیا ہو بلکہ ممکن ہے کہ راوی پر حسنِ گمان رکھنے کی بنا پر یہ روایت نقل کر دی اور اس میں کوئی اشکال نہیں یا ان کے پاس اس کی کوئی سند صحیح ہو جو دوسروں کو نہ ملی ہو۔ 

سوال: (2) زیادتِ یقین میں اور مشی علی الماء یا مشی على الہوا میں کوئی علاقہ معلوم نہیں ہوتا کہ زیادتِ یقین کے لیے ان خوارق کا وقوع لازم ہو۔ چنانچہ بہت سے کامل الیقین حضرات سے کوئی خوارق وقوع نہیں پاتا۔

جواب: یہاں یقین سے مراد ایمان و تصدیقِ شرعی نہیں جن کا تعلق ذات و صفاتِ حق سے ہے اور جن کے اعتقاد رکھنے کا شرع میں حکم وارد ہے۔ اس کے لیے بے شک خوارق کا ہونا ضروری نہیں بلکہ یہاں یقین سے مراد جزم کرنا ہے ان بعض افعالِ حق کا جن کا تعلق حوادثِ یومیہ کے ساتھ ہے اور یہ توکل کی ایک قسم ہے۔ مثلاً اس بات کا یقین ہو جائے کہ میں فلاں شخص پر غالب آ جاؤں گا یا فلاں بیمار شفا یاب ہو جائے گا یا میں دریا میں کود پڑوں گا اور ہرگز نہیں ڈوبوں گا اور تجربۂ اکثریہ سے ثابت و منقول ہے، کہ اگر کسی فعلِ ممکن کے وقوع کا خواہ وہ فعل عادتاً مستبعدی ہو ایسا جزم ہو جائے کہ اس کی جانب خلاف کا احتمال ہی نہ رہے۔ تو عادة اللہ یوں جاری ہے کہ وہ اکثر واقع ہو جاتا ہے۔ گو احیاناً کسی خاص مانع کے سبب تخلف بھی ہو جاتا ہے اور ایسے فعل کا وقوع اس جزم کی ایک خاصیت ہے جو فی نفسہٖ کوئی کمال نہیں بلکہ غیر مقبول اشخاص سے بھی اس کا وقوع ممکن ہے ہاں اگر اس کے ساتھ ایمان اور مقبولیت شامل ہو تو اس میں برکت آ جاتی ہے۔

سوال: (3) شعر ’’ہمچو من کہ بر ہوا راکب شدم الخ‘‘ میں آنحضرت ﷺ کا معراج میں ہوا پر سوار ہونا مذ کور ہے حالانکہ آپ براق پر سوار تھے۔

جواب: بے شک معراج میں آپ براق پر سوار تھے مگر براق کا زمین سے آسمان تک جا پہنچنا بھی تو آپ ہی کی کرامت پر موقوف تھا۔ پس اس سیر میں آپ براق کے نہیں بلکہ براق آپ کے تابع تھا۔ غرض حقیقۃً آپ بحکمِ خود ہوا میں سفر فرما رہے تھے اگرچہ صورۃً وہ سفر بواسطۂ براق طے ہو رہا تھا۔

سوال: (4) ایسا سفر على الہواء تو حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی میسر ہوا جب کہ ان کا رفع الى السماء بواسطہ ملائکہ واقع ہوا پھر ان کے رکوب على الہوا کو ازدیادِ یقین کے ساتھ مشروط کیوں کیا؟

جواب: مدعا یہ ہے کہ جس زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پانی پر چلتے تھے اس وقت ان کو ازدیادِ یقین حاصل ہوتا تو ہوا پر چلنے لگتے۔ چنانچہ جب وہ ازدیادِ یقین کا درجہ حاصل ہو گیا تو آسمان کی طرف مرفوع کر لیے گئے۔ (کلید ملخصاً)

آگے پھر رجوع ہے قصہ کی طرف یعنی حضرت ہلال رضی الله عنہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:

4

 گفت چون باشد سگے کورے پلید  جست او از خواب و خود را شیر دید

ترجمہ: (ہلال نے) عرض کیا اس اندھے (اور) ناپاک کتے کا کیا حال ہوگا کہ وہ نیند سے جاگا اور اپنے آپ کو اس نے شیر دیکھا۔

5

نے چناں شیرے کہ کس تیرش زند  بَل ز بیمش تیغ و پیکان بشکند

ترجمہ: (اور) ایسا شیر نہیں کہ کوئی اس کو تیر مار دے بلکہ (ایسا شیر کہ) اس کے خوف سے وہ اپنی (تلوار) اور تیر توڑ دے (یہ اشارہ ہے اس طرف کہ اللہ کے کامل بندوں پر شیطان کا وار نہیں چلتا)۔

6

کور بر اشکم روندہ ہمچو مار چشمہا بکشاده در باغ و بہار

ترجمہ: (میری تو وہ حالت ہے کہ گویا) اندھے نے جو (معذوری کے سبب سے) سانپ کی طرح پیٹ کے بل رینگتا تھا باغ و بہار میں آنکھیں کھولیں (پس اس کی خوشی کا کیا ٹھکانا آگے اس اجمال کی تفصیل میں خود مولانا فرماتے ہیں):

7

 چون بود آن چون کہ از چُونی رہید  در حياتستانِ بیچونی رسید


ترجمہ: وہ چون کیسا (کچھ خوش حال و صاحبِ کمال) ہو گا جو چونی سے چھوٹ گیا ہو (اور) بیچونی سے حیات گاه میں پہنچ گیا ہو۔

مطلب: یہاں کاملین کا خود متصف بکمال ہونے کا ذکر ہے یعنی یہ کاملین ان کیفیاتِ نفسانیہ اور عوارضِ جسمانیہ سے جن میں اکثر محجوبین مبتلا ہیں، نجات پا گئے اور موصوف بفنا ہو گئے اور چونکہ فنا کے لیے بقا یعنی اتصاف باوصافِ حق لازم ہے، اس لیے اس فنا و بقا کو حیاتستان کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ آگے ان کاملین کے دوسروں کو فیض پہنچانے کا ذکر ہے۔

8

 گشت چونی بخش اندر لامکان  گردِ خوانش جُملہ شیران چون سگان

ترجمہ: وہ (خود بیچونی کے) لامکان میں (رہتا ہوا طالبوں کو وجد و استغراق کی) کیفیت بخشنے والا بن گیا (حتیٰ کہ نیستانِ کمالات کے) تمام شیر اس کے خوان (فیض) کے گرد (اپنے آپ کو) کتوں کی مانند (سمجھتے) ہیں۔

مطلب: یہاں چونی سے وہ کیفیات و عوارضِ جسمانیہ مراد نہیں ہیں جن میں محجوبین مبتلا ہوتے ہیں اور جن سے نجات پانا اپنے اوپر لوازمِ کمال میں شمار کیا ہوتا تھا۔ بلکہ اس سے وہ کیفیاتِ روحانیہ مراد ہیں جو ابتدائے سلوک میں اکثر پیش آتی ہیں جیسے سُکر و محو و غیبت، وجد و استغراق وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کامل خود کمالات کے درجۂ عالیہ پر فائز ہو کر طالبوں کو کمالات کی ابتدائی منازل طے کرانے لگتا ہے۔

9

او ز بیچونی دہدشان استخوان  درجنابت تن زن، این سورہ مخوان

ترجمہ: وہ (کامل) بیچونی (کے لامکان) سے ان (طالبوں) کو (مذکورہ کیفیات کی) ہڈی دیتا ہے (اور اگر کوئی طالب ان کیفیات و حظوظ کے باوجود مقصودِ حقیقی تک پہنچنے کی آرزو کرتا ہے تو وہ کامل کہتا ہے کہ) تو جنابت کی حالت میں خاموش رہ۔ یہ سورة نہ پڑھ۔

مطلب: جس طرح جنابت کی حالت میں قرآن مجید کی سورة، بلکہ آیت تک کا پڑھنا منع ہے اسی طرح سُکر و بے خودی اور وجد و استغراق وغیرہ کیفیات کا شیفتہ ہونا مقصودِ حقیقی کے حاصل ہونے کا مانع ہے۔ غرض مرشدِ کامل سالک کو کیفیاتِ مذکورہ کی طرف التفات بالذات کرنے سے روکتا ہے۔ اگلا شعر بھی اسی مضمون کا مؤید ہے۔ یعنی مرشد کہتا ہے اے سالک! تو جو کیفیات اور مقصود دونوں کو جمع کرنا چاہتا ہے تو ایسا ہونا محال ہے۔ بلکہ:

10

 تا ز چونی غسل ناری تو تمام  تو برین مُصحف منہ کف اے غلام

ترجمہ: جب تک تو کیفیات (مذکورہ کے شوق و تلذّذ) سے (توبہ کا)غسل نہ کر لے (تب تک) اے لڑکے! (اس مقصودِ حقیقی کے) مصحف کو ہاتھ (بھی) نہ لگا۔

مطلب: جب تک تم کیفیات و مواجیہ کے شائق ہونے اور ان کو مقصود بالذات سمجھنے سے باز نہیں آؤ گے اس وقت تک مقصودِ حقیقی کا قصد کرنا لا حاصل ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ یہ کیفیات مطلقاً ہونی ہی نہیں چاہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کو مقصود بالذات نہ سمجھو، لیکن اگر بلا قصد یہ کیفیات عارضی ہوں جیسے کہ اوائلِ سلوک میں اکثر عارضی ہوتی ہیں اور یہ سالک ان کی طلب میں ایسا مشغول نہ ہو کہ مقصودِ حقیقی سے غافل و بے نیاز ہو جائے تو مضائقہ نہیں اور یہ بات سوال و جواب کے پیرایہ میں فرماتے ہیں۔

11

گر پلیدم ور نظفیم اے شہان!  این نخوانم پس چہ خوانم در جہان 

ترجمہ: (طالب سالک کہتا ہے) اے سلاطین! (ملکِ طریقت) اگر میں پلید ہوں اور اگر پاک ہوں تو (اگر) میں یہ (سورہ قرآن) نہ پڑھوں تو پھر (آخر) دنیا میں کیا پڑھوں؟

مطلب: میں خواہ کیسا ہی ہوں مقصودِ حقیقی کو کیونکر ترک کر سکتا ہوں وہی تو میرا نصب العین ہے اور اسی کے حصول سے کیفیاتِ غير مقصودہ زائل ہوتی ہیں۔ پس یہ جو فرمایا کہ ازالۂ کیفیات کے بدوں مقصودِ حقیقی حاصل نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس کے حصول ہی سے وہ کیفیات زائل ہوسکتی ہیں۔ تو اس کی مثال ایسی ہوئی جیسے:

12

 تو مرا گوئی کہ از بہرِ ثواب  غسل ناکرده مرو در حَوضِ آب

ترجمہ: (جیسے) آپ مجھ سے فرمائیں کہ (اگر تو) ثواب کی غرض سے (عبادت کرنے کے لیے غسل کرنا چاہے تو) غسل کئے بدوں پانی کے حوض میں نہ جا۔

13

 از برونِ حوض غیرِ خاک نیست ہر کہ او در حوض ناید پاک نیست

ترجمہ: (حالانکہ) حوض کے باہر (جہاں سے مجھ کو غسل کر کے آنا چاہیے) سوائے خاک (دھول) کے کچھ بھی نہیں (لہٰذا) جو (شخص) حوض (سے باہر رہے اور اس) میں داخل نہ ہو وہ پاک نہیں (ہو سکتا پس میں کس طرح پاک ہو کر حوض میں جاؤں۔ آگے مرشد اس سوال کا جواب دیتا ہے):

14

گر نباشد آبہا را این کرم   کہ پذیرد مر خبث را دمبدم


15

واۓ بر مشتاق و بر اُمّيدِ او حسرتا برحسرتِ جاویدِ اُو

ترجمہ: (اے طالب! تم ہماری بات نہیں سمجھے ہم یہ نہیں کہتے پاک ہوئے بدوں پانی میں نہ جاؤ ورنہ) اگر پانیوں میں یہ فیض رسانی نہ ہو کہ ہر وقت وہ ناپاک کو قبول کر لیتے (اور اس کو پاک کر دیتے) ہیں، تو طالب پر اور اس کی امید پر بڑی خرابی ہو (اور) اس کی دائمی حسرت پر بڑی حسرت ہو۔

16

آب دارد صد کرم صد احتشام  کو پلیدان را پذیرد و السَّلَام

ترجمہ: (سو ایسا نہیں ہے بلکہ) پانی صدہا کرم اور صدہا حیا رکھتا ہے (حتیٰ) کہ وہ (اس کرم و حیات کے تقا ضے سے) پلیدوں کو قبول کر لیتا ہے۔ والسلام (خیر الختام)

مطلب: ہم یہ کب کہتے ہیں کہ ازالۂ کیفیات کے بعد ہی مقصودِ حقیقی سے واصل ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو طالبوں کی ناکامی کا کیا ٹھکانہ بلکہ مذکورہ کیفیات تو ابتدائے سلوک میں اکثر عارض ہوتی ہی ہیں جو چنداں مضر نہیں اور ان کے باوجود طالبوں کو وصولِ مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ ہمارا مطلب تو اتنا تھا کہ ان کیفیات کو مقصود سمجھنا اور ان کی لذت میں مستغرق رہنے کی آرزو رکھنا مضر ہے۔ یہاں تک کیفیات و مواجیہ کو مقصود سمجھنے کی مضرت مذکور تھی جو مانع ہے۔ آگے ایک اور مانع کا ذکر فرماتے ہیں اور وہ حصولِ کمال میں تقاضائے تعجیل ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض سالک قبل از وقت شیخ بن بیٹھتے ہیں۔ اس مضمون کو مولانا ضیاء الحق کے خطاب سے شروع فرماتے ہیں:

17

 اے ضیاء الحق حسام الدّین کہ نُور  پاسبانِ تست از شرُّالطّیور

ترکیب: ’’اے ضیاء الحق‘‘ ندا، ’’چون نوشتی الخ‘‘ شعر پنجم جوابِ ندا۔ ان پانچ شعروں میں بضمن ندا مولانا ضیاء الحق کی مدح مندرج ہے اور مسئلہ مقصوده جوابِ ندا میں آئے گا۔

ترجمہ: اے ضیاء الحق حسام الدین! کہ (تمہارا) نور (كمال) بدترین پرندے (یعنی چمگادڑ کی نگاہ پڑنے) سے تمہارا محافظ ہے (یعنی جو لوگ تنگ نظری و بے بصیرتی میں چمگادڑ کی مانند ہیں وہ تمہارے کمالات کو درک نہیں کر سکتے)۔

18

 پاسبانِ تست نور و اِرتِقاش  اے تو خورشیدِ مُسَتّر از خفاش

ترجمہ: اجی! آپ تو آفتاب کی مانند (ہیں جو) چمگادڑ (کی نظر) سے مخفی (رہتا) ہے (اسی طرح آپ کا) نور (کمال اور اس نور) کی بلندی (بے بصیرت لوگوں کی نگاہ سے) آپ کی محافظ ہے (سورج جوں جوں بلند ہوتا ہے اس کی روشنی زیادہ تیز ہوتی جاتی ہے)۔

19

 چیست پرده پیشِ نور آفتاب  جز فزونی شعشعہ و تیزی و تاب

ترجمہ: آفتاب (جو چمگادڑ کی نظر سے مخفی رہتا ہے تو اس) کے نور کے آگے سوائے کثرتِ درخشانی اور تیزی اور چمک کے کونسی چیز پردہ ہے؟ (جس طرح آفتاب کی درخشانی ہی چمگارڈ کے لیے پردہ ہے۔ اسی طر ح آپ کا نورِ کمال بھی نا قدردان لوگوں کے لیے حجابِ ادراک ہے)۔

20

 پردۂ خورشید ہم نورِ ربّ ست بے نصیب از اوے خفاش ست و شب ست

ترجمہ: آفتاب کا حجاب یہی نورِ خدا (داد) ہے اس نور سے بے نصیب چمگادڑ اور رات ہے۔

مطلب: چمگادڑ کو چشمِ بصارت حاصل ہے اور دیدارِ آفتاب کا موقع بھی میسر ہے مگر وہ آفتاب کی طرف نظر نہیں کر سکتی۔ شب کے وقت آفتاب طلوع ہی نہیں ہوتا اس لیے شب کو آفتاب کے دیدار کا موقع ہی میسر نہیں۔ پہلی مثال ان لوگوں کی ہے جو کامل کے کمال کو معلوم کرنے کے باوجود اس کے منکر ہوں۔ ﴿فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ (البقره: 89)

دوسری مثال ان لوگوں کی ہے جن میں اہلِ کمال کی قدر سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ ﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا (الاعراف: 179)

21

ہر دو چون در بُعد و پرده مانده انْد با سِیَہ رویان فُرده مانده انْد

ترجمہ: (غرض چمگادڑ اور رات) دونوں (کے دونوں) جب دوری اور پردہ میں رہ گئے ہیں تو (محرومی و ناکامی میں) سیاہ رو (ہو جانے والے) لوگوں کے ساتھ افسردہ رہ گئے ہیں۔

مطلب: یہ ایک طبعی امر ہے کہ جو شخص اپنی مراد پر کامیاب ہوتا ہے تو خوشی سے اس کا چہرہ چمک اٹھتا ہے اور جو شخص محروم و ناکام رہتا ہے اس کا چہرہ غم و اندوہ سے سیاہ پڑ جاتا ہے اسی بنا پر فرمایا ﴿وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا(النحل: 58) یعنی ”اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ غم سے کالا پڑ جاتا ہے“ (کذا فی الخازن) اس طرح چمگادڑ اور رات ادراکِ نور سے محروم ہو کر سیاہ روئی میں محرومین کے ساتھ شامل ہو گئے۔ گو مقدم الذکر کی سیاہ روئی خلقی اور مؤخر الذکر کی سیاه روئی غم و اندوہ کی وجہ سے عارضی ہے۔ کلیدِ مثنوی میں لکھا ہے کہ ایک حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی میں یہ مصرعہ یوں ہے ”یا سیہ رو یا فسرده مانده اند“ یعنی خفاش اور شب یا تو ’’سیہ رو‘‘ ہیں اور یا افسردہ ہیں اور یہ تردید یا تو ہر واحد کے اعتبار سے بطور مانعۃ الخلو کے ہو اور دونوں کے لیے دونوں حکم ثابت ہوں یا کلمہ یا تقسیم کے لیے ہو۔ یعنی ان میں سے ایک ’’سیہ رو‘‘ ہے یعنی شب جس کا مظلم ہونا ظاہر ہے اور ایک افسردہ ہے یعنی خفاش جو نورِ خورشید کے ادراک سے محروم ہے۔ (انتہی) آگے مقصودِ خطاب مذکور ہے:

22

 چون نوشتی بعضے از قصّۂ ہلالؓ  داستانِ بدر آر اندر مقال

ترجمہ: جب تم ہلال رضی اللہ عنہ کا کسی قدر قصہ لکھ چکے تو (اب) بدر کی داستان بھی (دائرۂ) بیان میں لاؤ۔

مطلب: گو ’’ہلال‘‘ سے یہاں مراد حضرت ہلال رضی اللہ عنہ ہیں جن کا قصہ پیچھے گزرا ہے مگر اس میں طالب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہلال رضی اللہ عنہ بھی فیضِ صحبت کے طالب تھے۔ مطلب یہ ہے کہ مرید طالب کا ذکر تو ہو چکا اب شیخ مربی کا ذکر کرو اور ہلال کی مناسبت سے شیخ کو بدر سے تشبیہ دینا پُر لطف ہے جو اس اعتبار سے اور بھی مناسب ہے کہ جس طرح بدر اپنے کمال کی بدولت ماہِ تمام کہلاتا ہے شیخِ مربی بھی کامل ہوتا ہے۔

23

 آن ہلال و بدر دارند اِتّحاد  از دوئی دورند و از نقص و فساد

ترجمہ: وہ ہلال اور بدر (فی الواقعہ) اتحاد رکھتے ہیں (اور) اختلاف سے دور ہیں اور نقص اور خرابی سے بھی دور ہیں۔

مطلب: مرید کو ہلال کے ساتھ، اور شیخ کو بدر کے ساتھ تشبیہ دینے سے دو شبہ وارد ہوتے تھے۔ ایک یہ کہ ہلال کو بدر کے تخالفِ صوری سے مرید و شیخ میں تضاد و تخالف ہونا لازم آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہلال میں فی الحال نقص موجود ہے اور بدر موجودہ حالت کے بعد یومًا فیومًا نقص پذیر ہوتا جاتا ہے۔ اس سے مشبہ یعنی مرید و شیخ دونوں میں نقص کا مسلّم ہونا لازم آتا ہے۔ اس شعر میں ان دونوں شبہوں کا جواب دیا ہے کہ نہ مرید و شیخ میں تخالف ہے اور نہ وہ موردِ نقص ہیں۔ پس مرید و شیخ کی تشبیہ ہلال و بدر کے ساتھ من كل الوجوہ مقصود نہیں بلکہ محض مبتدی و منتہی ہونے کے اعتبار سے ہے۔

24

 آن ہلال از نقص در باطن بری ست  آن بظاہر نقص تدریج آوری ست

ترجمہ: (شیخ کے تو کیا کہنے) وہ (مرید بھی جس کو) ہلال (سے تشبیہ دی گئی اپنے) باطن میں نقص سے مبرّا ہے (کیونکہ اس کا) وہ ظاہری نقص (اسے) درجہ بدرجہ (ترقی پر) لانے والا ہے۔

مطلب: طالب کا نقص اس کی تدریجی تربیت کا سبب ہے کیونکہ اس نے اپنا نقص دیکھ کر ہی اپنے آپ کو محتاجِ تکمیل سمجھا اور وہ کسی شیخِ کامل سے طالبِ فیض ہوا۔ بس یہ نقص اس ترقی اور حصولِ کمال کا باعث ہونے کے لحاظ سے ایک مبارک امر ہے۔ آگے اس تدریجِ تربیت کا ذکر فرماتے ہیں:

25

 درس گوید شب بشب تدریج را در تانّی بر دہد تفریج را

ترجمہ: (وہ بدر ہلال کے لیے) شب بہ شب تدریج کا درس کہتا ہے (اور) آہستگی میں غم سے آزاد کرنے کا ثمرہ دیتا ہے (مرشدِ کامل مرید کو ہدایت کرتا ہے ذکر و شغل اور مجاہدہ و ریاضت سے بتدریج ترقی کرو۔ حدیث ’’اَحَبُّ الْاَعْمَالِ اِلَى اللّٰهِ اَدْوَمُهَا وَاِنْ قَلَّ‘‘

 26

 در تانّی گوید اے عَجُّولِ خام  پایہ پایہ بر توان رفتن بَبام

ترجمہ: (یعنی مرشد کامل مرید کو) آہستگی (کی تعلیم) میں فرماتا ہے کہ اے خام کار جلد باز! (یا بچھڑے) ایک ایک پایہ (طے) کر کے کوٹھے پر جا سکتے ہیں۔

27

 دیگ را تدریج و استادانہ جوش  کار ناید قلیۂ دیوانہ جوش


ترجمه: دیگ کو آہستہ آہستہ استادوں کی طرح جوش دو۔ وہ گوشت جس کو کسی بے وقوف نے جوش دیا ہو کام نہیں آتا (جو ممکن ہے کہ جلدی میں کچا ہی اتار لیا ہو یا ضرورت سے زیادہ ابال کر خراب کر لیا ہو)۔

28

 حق نہ قادر بود بر خلقِ فلک  در یکے لحظہ بکُن بے ہیچ شک

ترجمہ: (اگر تعجیل اچھی ہوتی تو) کیا حق تعالیٰ آسمان کو ایک لحظہ میں کلمہ کن کے ساتھ پیدا کرنے پر قادر نہ تھا؟ (ہاں قادر تھا) جس میں کچھ بھی شک نہیں۔

29

 پس چرا شش روز آن را در کشید  كُلُّ يَوْمٍ اَلْفَ عَامٍ اے مستفید!

ترجمہ: پھر کس لیے اس کو چھ روز تک کھینچا؟ (اور) اے طالب! (اس طولِ مدت کا خیال تو کرو کہ ان چھ دنوں سے) ہر ایک دن ایک ہزار سال کا تھا۔ ﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ (الحدید: 4) ﴿وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (الحج: 47)

30

خِلقتِ طفل از چہ اندر نُہ مَہ است  زانکہ تدریج از شعارِ آن شہ است

ترجمہ: بچے کی پیدائش کس لیے نو ماہ میں ہے (اور فوراً نہیں) اس لیے کہ تدریج اسی شاه (حقیقی) کی عادت ہے۔

31

خِلقتِ آدم چرا چِل صبح بود  اندران گِل اندک اندک می فزود

ترجمہ: آدم علیہ السلام کی پیدائش کیوں چالیس روز میں ہوئی (اور ان ایام میں) اس مٹی کے اندر تھوڑی تھوڑی ترقی (استعداد) ہوتی رہی (فوراً کیوں نہ ہوئی) چنانچہ ’’خَمَّرْتُ طِیْنَۃَ آدَمَ بِيَدِي‌ْ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً‘‘ (حدیث قدسی ہے)

32

 زین سحر تا آن سحر سالے ہزار  تا بآخر یافت آن صورت قرار

ترجمہ: (اور پھر ان چالیس ایام کی طوالت کا یہ عالم تھا کہ) ایک دن سے دوسرے دن تک ہزار سال (کا فاصلہ تھا) کہ بالآخر (آدم علیہ السلام کا) وہ مجسمہ بنا (مذکورہ بالا تین نظیروں کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ تدریج سنۃ اللہ ہے آگے تعجیل کی مذمت فرماتے ہیں)۔

33

 نے چو تو اے خام کاکنون تاختی  طِفلی و خود را تو شیخے ساختی

ترجمہ: نہ کہ تیری طرح اے خام (کار)! کہ (تدریج پر صبر نہ کر کے) ابھی سے دوڑ پڑا (ابھی) تو بچہ ہے (اور) اپنے آپ کو تو نے شیخ بنا لیا۔

34

 بر دویدی چُون کدُو فوقِ ہمہ کو تُرا پائے جہاد و مُلحمہ

ترجمہ: تو کدو (کی بیل) کی طرح (جو آنًا فانًا بڑے اور پرانے درختوں پر چڑھ جاتی ہے) سب سے فائق ہو کر دوڑ پڑا (بھلا یہ تو بتا کہ) مجاہدہ اور جنگ (نفس) کا (دم) قدم تجھ میں کہاں ہے؟

35

 تکیہ کردی بر درختان و جدار  برشدی اے اقرعک ہم قرع وار

ترجمہ: اے نا چیز گنجے! تو نے بھی کدو کی طرح درختوں اور دیواروں پر ٹیک لگائی (اور) اوپر چڑھ گیا (تو دوسروں کے سہارے پر بلندی کا دعوٰی کرنے لگا اور بزرگ بن بیٹھا)۔

36

 اول ارشُد مرکبت سروِ سِہی  لیک آخر خشک و بے مغز و تہی

ترجمہ: پہل پہلے اگرچہ سیدها سرو تیرا مرکب بن گیا (جس پر تیری بیل چڑھ گئی) لیکن آخر (چند روز میں تو) خشک اور بے مغز اور خالی (ہو کر رہ گیا)۔

37

 رنگِ سبزت زرد شد اے قرع زُود  زانکہ از گُلگونہ بود اصلی نبُود

ترجمہ : اے کدو! (پھر) جلدی تیرا سبز رنگ زرد ہو گیا کیونکہ مصنوعی تھا، اصلی نہ تھا (اسی طرح ناقص پہلے پہلے اپنے لباس درویشی اور ملفوظاتِ منقولہ سے اپنی بزرگی کا رنگ جما لیتا ہے مگر آخر ڈھول کا پول ظاہر ہو جاتا ہے۔ آگے اس کی تائید میں ایک حکایت ارشاد ہے)۔