دفتر 6 حکایت 38: حضرت ہلال رضی الله عنہ کا بیمار ہونا اور آقا کا ان سے بے خبر رہنا آقا کی نظر میں ہلال کے بے قدر ہونے کی وجہ سے اور مصطفٰے ﷺ کا اطلاع پانا اور ان کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جانا

دفتر ششم: حکایت: 38



رنجُور شُدنِ ہلال رضی اللہ عنہ و بے خبریِ خواجہ ازو بجہتِ حقارتِ اُو در نظرِ وَے و واقف شُدِن مصطفٰے ﷺ و رفتن بعیَادتِ او

حضرت ہلال رضی الله عنہ کا بیمار ہونا اور آقا کا ان سے بے خبر رہنا آقا کی نظر میں ہلال کے بے قدر ہونے کی وجہ سے اور مصطفٰے ﷺ کا اطلاع پانا اور ان کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جانا

1

از قضا رنجور و ناخوش شد ہلالؓ  مصطفى ﷺ را وحی شد غمّازِ حال

ترجمہ: حضرت ہلال رضی اللہ عنہ تقدیر سے بیمار و علیل ہو گئے حضرت مصطفٰی ﷺ کے لیے وحی (ان کے) حال کی مخبر بن گئی (یعنی وحی کے ذریعہ آپ کو ان کے حال کی اطلاع مل گئی)۔

2

بُد ز رنجوریش خواجہ بے خبر کہ بر اُو بُد کساد و بے خطر 

مطلب: آقا ان کی علالت سے بے خبر تھا کیونکہ وہ اس کی نظر میں بے وقعت و ناقابلِ اہمیت تھے۔

3

خفتہ نُہ روز اندر آخر محسنے  ہیچ کس از حالِ او آگاه نے

ترجمہ: ایک نیکوکار (بندہ) نو دن سے اصطبل میں (بیمار) پڑا تھا کوئی اس کے حال سے آگاہ نہ تھا۔


4

آنکہ کس بود و شہنشاہِ کسان عقل چون صد قلزمش ہر جا رسان

ترجمہ: وہ (رسول اکرم ﷺ) جو (صحیح معنی میں) انسان تھے اور انسانوں کے شہنشاہ تھے (اور) ان کی عقل سو سمندروں کی روح کی طرح (وسیع اور) ہر جگہ پہنچنے والی تھی (یعنی آپ کی عقل بعض غیب کی باتوں سے بھی با اعلامِ حق آگاہ ہو جاتی تھی)۔

5

وحیش آمد رحمِ حق غمخوار شد  کہ فلان مشتاقِ تو بیمار شد

ترجمہ: ان پر وحی آئی (اور) حق تعالیٰ کا رحم (محرکِ وحی تھا جو حضرت ہلالِ رضی اللہ عنہ کا) غم خوار ہوا (وحی کا مضمون یہ تھا) کہ تمہارا فلاں مشتاق بیمار ہو گیا۔

6

مصطفٰے ﷺ بہرِ ہلالِؓ باشرف  رفت از بہرِ عیادت آن طرف

ترجمہ: مصطفے ﷺ (یہ اطلاع پاتے ہی) صاحبِ شرف ہلال رضی الله عنہ کی بیمار پرسی کے لیے ادھر تشریف لے گئے۔

7

درپے خورشیدِ وحی آن مہ دوان وان صحابہ در پیش چُون اختران

ترجمہ: وہ ماه (رسالت) آفتابِ وحی کے پیچھے چلا جارہا تھا اور وہ صحابہ رضی الله عنہم آپ کے پیھچے ستاروں کی طرح (تھے)۔

8

ماه مے گوید کہ اَصْحَابِیْ نُجُوْم  لِلسُّرٰی قُدْوَہٌ وَ لِلطَّاغِیْ رُجُوْم

ترجمہ: (یہ رسالت کا) چاند فرماتا ہے کہ میرے اصحاب ستارے ہیں راہرو کے لیے قابلِ پیروی ہیں اور سرکش کو مار بھگانے کے لیے چوٹ ہیں۔

مطلب: اشاره بحدیث حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بروایت ازیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُم اھْتَدَیْتُم‘‘ (مشکوٰۃ) یعنی ”میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی تم پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے“ شعر کے آخری کلمہ میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے ﴿وَلَقَد زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَ جَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ(الملك: 5) ’’اور ہم نے نچلے آسمانوں (کو ستاروں کے) چراغوں سے آراستہ کیا اور ان (ستاروں) کو شیطانوں کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا“ دیگر آیت میں صرف ستاروں کے رجوم ہونے کا ذکر ہے اور مولانا کی روایت میں صحابہ کو رجوم قرار دیا گیا ہے حدیث میں اس کا ذکر نہیں اس کی تاویل یوں ہو سکتی ہے کہ بعض احادیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شیطان کے خائف ہونے کا ذکر آیا ہے۔ کما قال ﷺ ’’إِنَّ الشَّيطَانَ لَيَخَافُ مِنْکَ یَا عُمَرُ‘‘ (ترمذی شریف، حدیث نمبر 3690) پس بعض صحابہ کے لیے اس وصف کا ثبوت خصوصاً جب کہ وہ صحبتِ رسول اللہ ﷺ کی برکت کا نتیجہ ہے ایک طرح سے عام صحابہ کے ساتھ منسوب ہونے کے لیے کافی ہے۔

9

میر را گفتند کان سلطان رسید او ز شادی بیدل وجاں برجہید

ترجمہ: امیر کو لوگوں نے بتایا کہ وہ سلطان (امت ﷺ) تشریف لائے ہیں (یہ سن کر) وہ مارے خوشی کے دل و جان کے بے قابو ہو جانے سے اچھل پڑا۔

10

 بر گمانِ آن ز شادی زد دو دست  کان شہنشاه بہر آن میر آمدست

ترجمہ: اس گمان پر خوشی سے وہ دونوں ہاتھ بجانے لگا کہ وہ شہنشاہ (دارین) اس امیر (کی ملاقات) کے لیے تشریف لائے ہیں۔

11

چون فرود آمد ز غرفہ آن امیر  جان ہمی افشاند پامُزِد بشیر

ترجمہ: جب وہ امیر (استقبال کے لیے) بالا خانے سے نیچے اترا (تو اس تشریف آوری کی) بشارت لانے والے کے صلہ میں جان نثار کرتا تھا۔

12

 پس زمین بوس و سلام آورد او کرد رخ را از طرب چون ورد او

ترجمہ: پھر اس نے زمین بوسی کی اور سلام ادا کیا (اور زیارت کی) خوشی سے (اپنے) چہرہ کو گلاب کے پھول کی طرح (شگفتہ) کر لیا۔

13

 گفت بسم الله مشرف کُن وطن  تا کہ فردوسے شود این انجمن

ترجمہ: (اور) عرض کیا بسم اللہ (میرے) مسکن کو شرف بخشئے تاکہ یہ مجلس (مثلِ) بہشت بن جائے۔

14

تا فزاید قصرِ من بر آسمان  کہ بدیدم قطبِ دورانِ زمان

ترجمہ: (اور) تاکہ میرا محل (رتبہ میں) آسمان پر فائق ہو جائے (اور وہ بزبانِ حال بول اٹھے) کہ میں نے آج زمانے کا قطب دیکھا ہے (جو مجھ میں تشریف فرما ہے)۔ 


15

گفتش از بہرِ عتاب آن محترم  من برائے دیدنِ تو نامدم

ترجمہ: اس (نبی) محترم ﷺ نے (اس کے جواب میں) بطورِ عتاب اس کو فرمایا کہ میں تمہاری ملاقات کے لیے نہیں آیا (عتاب کی وجہ یہ تھی کہ امیر نے ہلال رضی الله عنہ سے بے خبر رہنے کی خطا کی تھی)۔

16

 گفت روحم آنِ تو، خود روح چیست  ہین بفرما کین تجشُّم بہرِ کیست؟

ترجمہ: اس نے عرض کیا میری جان آپ کی مملوک ہے اور جان ہے ہی کیا چیز (جو آپ کی مملوک ہونے کے قابل سمجھی جائے)۔ ہاں تو (یہ) فرمایئے کہ یہ تکلیف فرمائی کس کے لیے ہے؟

17

 تا شوم من خاکِ پائے آن کسے  کہ بباغِ لطفِ تستش مغرسے

ترجمہ: تاکہ میں اس شخص کی خاکِ پا بن جاؤں جس (کے درختِ وجود) کو آپ کے باغِ لطف میں جگہ (حاصل) ہے (یعنی آپ کی نظرِ عنایت اس پر ہے)۔

18

چون چنین گفت او و نخوت را برانْد  مصطفٰے ﷺ ترکِ عتابِ او بخواند

ترجمہ: جب اس (امیر) نے اس طرح (خاکسارانہ) باتیں کیں اور کبر (و غرور) کو دور کر دیا تو مصطفی ﷺ نے اس کو عتاب کرنا ترک فرمایا۔

19

 پس بگفتش كان ہلالِ عرش کو  ہمچو مہتاب از تواضح فرش کو

ترجمہ: پھر اس کو فرمایا کہ عرش کا ہلال کہاں ہے؟ (وہ جو) تواضع سے چاندنی کی طرح فرش (بن) رہا (ہے) کہاں ہے؟

مطلب: ’’ہلال‘‘ سے وہی حضرت ہلال رضی اللہ عنہ مراد ہیں مگر یہاں ان کے نام کی تعبیر ہلالِ فلک سے فرمائی اور ان کے علوِ شان کے اظہار کے لیے یوں کہا کہ اس ہلال کا طلوع آسمان پر نہیں بلکہ عرش پر ہوتا ہے۔ چاند کی روشی ایک قابلِ قدر چیز ہے مگر اس کا چادر بن کر زمین پر بچھ جانا تواضع کا مظہر ہے۔ اس لیے حضرت ہلال رضی الله عنہ کو ان کی موجودہ منکسر حالی کے اعتبار سے اس کے ساتھ تشبیہ دی۔

20

 آن شہے در بندگی پنہان شده بہرِ جاسوسی بدنيا آمده

ترجمہ: وہ ایک بادشاہ ہے (جو لباسِ) غلامی میں چھپا ہوا ہے (اور) جاسوسی کے لیے (غلامی کا لباس پہن کر) دنیا میں آیا ہے (جس طرح بعض بادشاہ غریبانہ لباس پہن کر احوالِ رعایا کے تجسس کے لیے عوام کے محلوں اور کوچوں میں پھرا کرتے ہیں)۔ 

22

تو مگو کان بنده و آخُرچیِّ ماست  این بدان کہ گنج در ویرانہ ہا ست

ترجمہ: تم (یوں) نہ کہو کہ وہ (ہلال) ہمارا غلام اور ملازمِ اصطبل ہے (بلکہ) یہ سمجھو کہ خزانہ ویرانوں میں ہوتا ہے (اسی طرح یہ عالی پایہ وجود بھی کسی وجہ سے اس ادنیٰ حالت میں آ گیا ہے)۔

22 

 اے عجب چون ست از سقم آن ہلالؓ  کہ ہزاران بَدر ہستش پایمال

ترجمہ: بڑی حیرت ہے کہ اس ہلال رضی اللہ عنہ کا بیماری سے کیا حال ہوگا جس کے (آگے) ہزاروں بدر پایمال ہیں (ہلال و بدر کا تقابل اور ہلال کے لیے سقم و نحافت کا اثبات پر لطف ہے)۔

23

 گفت از رنجش مرا آگاه نیست  لیک روزے چند بر درگاه نیست

ترجمہ: (امیر نے) کہا اس کے مرض کی مجھے خبر نہیں لیکن (یہ ضرور ہے کہ) چند روز سے وہ درگاہ پر (حاضر) نہیں ہوا (اور میری عدم آگاہی کی وجہ یہ ہے کہ): 

24

صحبتِ او با ستور و اشتر ست  سائس ست منزلش آن آخُر ست

ترجمہ: اس کی بود و باش گھوڑے اور اونٹ کے ساتھ ہے وہ سائس ہے اور اس کی قیام گاہ وہ اصطبل ہے (جہاں یہ جانور ہیں)۔

25

 رفت پیغمبر برغبت بہرِ او اندر آخُر آمد اندر جُستجو

ترجمہ: پیغمبر (ﷺ یہ سن کر) اس کی (بیمار پرسی کی) خواہش سے روانہ ہوئے (اور) اس کی تلاش میں اصطبل کے اندر آئے۔

26

بود آخُر مُظلم و زشت و پلید  و این ہمہ برخاست چُون سیّد رسید

ترجمہ: اصطبل تاریک اور خراب اور ناپاک تھا اور جونہی سرور عالم ﷺ وہاں پہنچے یہ تمام نقائص رفع ہو گئے۔

27

 بوئے پیغمبر ببرد آن شیرِ نر  ہمچنانکہ بُوئے یوسفؑ را پدر

ترجمہ: اس شیرِ نر نے پیغمبر ﷺ کی خوشبو کو محسوس کر لیا جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو کو (ان کے) والد نے (محسوس کر لیا تھا)۔ ﴿اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ (یوسف: 94)

28

موجبِ ایمان نباشد معجزات  بوئے جنسيت کند جذبِ صفات

ترجمہ: (اور جنسیت کی خوشبو وہ چیز ہے کہ اکیلے) معجزات باعثِ ایمان نہیں ہوتے (بلکہ ان کے ساتھ) جنسیت (بھی ہو تو اس) کی خوشبو پیغمبر کی صفات کو ایمان لانے والوں کے دل کی طرف جذب کرتی ہے (یعنی ایمان لانے والوں کو پیغمبر کے ساتھ ایک روحانی مناسبت ہوتی ہے جس کو جنسیت سے تعبیر کیا ہے۔ اسی مناسبت سے پیغمبر کی صفاتِ حسنہ کا ان لوگوں کے دلوں پر اثر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی معجزات اس اثر کو بڑھا دیتے ہیں حتیٰ کہ وہ ایمان لے آتے ہیں)۔

29

 معجزات از بہرِ قہرِ دشمن ست   بوئے جنسیت پے دل بردن ست

ترجمہ: معجزات (دین کے) دشمن کو مغلوب (اور لاجواب) کرنے کے لیے ہیں (اور) بوۓ جنسیت دل کو مسخر کرنے کے لیے ہے۔

مطلب: پس بوئے جنسیت ایمان میں مؤثرِ قریب ہے اور معجزات سببِ بعید ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کوئی معجزات کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے تو وہ اس بوۓ جنسیت ہی کے واسطے سے لاتا ہے۔ یعنی کبھی معجزات کے بعد یہ بوئے جنسیت پیدا ہو جاتی ہے پھر وہ ایمان کی سبب بن جاتی ہے اور اگر بوئے جنسیت نہیں تو صرف معجزات کے دیکھنے سے دل مائل اور با ایمان نہیں ہوتا۔ آگے یہی ارشاد ہے: 

30

قہر گردد دشمن امّا دوست نے  دوست کے گردد بہ بستہ گردنے

ترجمہ: (صرف معجزات کو دیکھ کر) دشمن مغلوب تو ہو جاتا ہے مگر معتقد نہیں ہوتا۔ (اور یہ بات ظاہر بھی ہے کہ) گردن بندها ہوا (آدمی) دوست کب ہوتا ہے؟ (آگے پھر قصہ چلتا ہے): 

31

 اندر آمد او ز خواب از بوئے اُو  گفت سرگین دان درو زین گونہ بُو

ترجمہ: وہ آپ کی خوشبو سے (چونک کر) نیند سے بیداری میں آ گئے (چونکہ ابھی آپ کی زیارت نہیں کی تھی اس لیے حیران ہو کر دل میں) کہنے لگے یہ گوبر (اور لید) کی جگہ اور اس میں اس قسم کی خوشبو؟ (یہ کیا راز ہے؟)

32

 از میانِ پائے استوران بدید  دامنِ پاکِ رسول ﷺ بے ندید

ترجمہ: (اتنے میں انہوں نے لیٹے لیٹے) گھوڑوں کی ٹانگوں کے درمیان سے رسولِ بے مثل ﷺ کا دامنِ پاک دیکھا۔

33

پس ز کنجِ آخُر آمد غژ غژان  روئے بر پایش نہاد آن  پہلواں

ترجمہ: پس وہ (آپ کو دیکھ کر) اصطبل کے گوشے سے گھسٹتے آئے (اور) اس پہلوان نے آپ کے پائے مبارک پر (بوسہ دینے کے لیے اپنا) منہ رکھ دیا۔

34

 پس پیغمبر ﷺ روئے برد رویش نہاد  بر سر و چشم و رُویش بوسہ داد

ترجمہ: پس پیغمبر ﷺ نے (اپنے قدم مبارک پر سے ان کا سر اٹھا کر) ان کے چہرے پر اپنا چہرہ مبارک رکھ دیا (یعنی) ان کے سر اور آنکھ  اور چہرہ پر بوسہ دیا۔ 

35

 گفت یارا تا چہ پنہان گوہری  اے غریبِ عرش چُونی، خوشتری

ترجمہ: (اور) فرمایا اے یار! ہاں تو کیسا چھپا ہوا گوہر ہے؟ اے عرش کے مسافر! تو کیسا ہے؟ اچھا بھی ہے؟

مطلب: آپ نے ہلال رضی اللہ عنہ کو گوہرِ پنہاں اس لیے کہا کہ ان کے کمالات عوام کی نظر سے مخفی تھے۔ غریبِ عرش بدیں اعتبار فرمایا کہ ان کا وطن عالمِ بالا ہے دنیا میں بطور مسافر آئے ہیں۔ گو مبدء سب کا عالم بالا ہے مگر ہر شخص کو دنیا میں آنے کے بعد اس عالم کے ساتھ مناسبت نہیں رہتی۔ ہلال کو عالمِ بالا کے ساتھ تازہ مناسبت رکھنے کے لحاظ سے یہ خطاب بخشا۔

36

 گفت چون باشد خود آن شوریدہ خواب  کہ درآید در دہانش آفتاب

ترجمہ: انہوں نے عرض کیا (کہ ظاہر ہے) کہ اس پریشان خواب کا حال کیا ہی (اچھا) ہو گا جس کے منہ میں آفتاب طلوع کرے۔

مطلب: جس شخص کی نیند کسی مرض کی تکلیف سے پریشان ہو رہی ہو اور وہ چاہتا ہو کہ جلدی دن چڑھے اتنے میں وہ دیکھتا کیا ہے کہ دھوپ اس کے اس قدر قریب آ گئی، گویا اس کے منہ میں داخل ہونا چاہتی ہے تو ان کی خوشی کے کیا کہنے۔ اسی طرح حضور ﷺ کی زیارت میری عین مراد تھی جس کے حصول پر میری خوشی کی انتہا نہیں۔

37

 چون بود آن تشنۂ کو گِل خورد  آب بر سر بنہدش خوش می رود

ترجمہ: اس پیاسے کا کیا حال ہو گا جو (پیاس کی شدت سے) کیچڑ کھا رہا ہو (اتنے میں کیا دیکھتا ہے کہ) پانی اس کو اپنی سطح پر رکھے ہوئے خوش خوش لے جا رہا ہے (تو اس کی مسرت کا کیا ٹھکانا)۔

مطلب: جب پیاسا پیاس کی شدت سے کیچڑ کھانے پر مجبور ہو جائے تو اس کو ایک دم پانی کا مل جانا اعلیٰ کامیابی ہے اور اگر پانی بھی اس مثال کے ساتھ ملے کہ گویا وہ اس پیاسے کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ چنانچہ پانی اس کو اپنی سطح پر اٹھا لے تو یہ اس کامیابی کے لیے سونے پر سہاگا ہے۔ آگے مولانا فرماتے ہیں کہ اس شخص میں جس قدر زیادہ صدق و صفا ہو گا اسی قدر کامیابی کے مراتب میں ترقی ممکن ہے اور یہ بات ایک روایت کے پیرایہ میں ظاہر فرماتے ہیں۔