دفتر ششم: حکایت: 37
رجُوع بقصّۂ ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت ہلال رضی اللہ عنہ تعالیٰ کے قصے کی طرف رجوع
1
بُد ہلالؓ استادِ دل جان روشنے سائس و بندۂ امیر مومنے
ترجمہ: (غرض) حضرت ہلال رضی اللہ عنہی (وہ مردِ حق تھے جن) کا دل (طريقِ حق کا) استاد تھا (اور ان کی) روح نورانی تھی (ظاہر میں) وہ ایک مسلمان امیر کے سائس اور غلام تھے۔
2
سائسی کردے در آخر آن غلام لیک سُلطانِ سلاطین، بنده نام
ترجمہ: وہ غلام (ہونے کی حالت میں) اصطبل کے اندر (گھوڑوں کی خدمت کے لیے) سائسی کرتے تھے۔ لیکن (واقع میں دنیا کے) بادشاہوں کے (بھی) بادشاہ تھے (گو ان کا) نام (اور لقب) غلام تھا (احادیث میں چونکہ جو ملک الاملاک بمعنی سلطانِ سلاطین یا شہنشاہ کے لقب کی ممانعت آئی ہے تو وہ اطلاق کی صورت میں ہے کیونکہ اس کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے یہاں دنیا کی قید سے وجہِ ممانعت مرتفع ہو گئی)۔
3
سائسِ اسپان و نفسِ خویش ہم از فراوان کس شُده در پیش ہم
ترجمہ: وہ گھوڑوں کے نگران تھے اور اپنے نفس کے بھی (ساتھ ہی) بہت سے لوگوں سے (مجاہدہ میں) آگے بڑھ گئے تھے۔
4
آن امیر از حالِ بندہ بے خبر کہ نبودش جز بليسانہ نظر
ترجمہ: وہ امیر (اپنے اس عالی پاپہ) غلام کے (باطنی) حال سے بے خبر تھا کیونکہ اس کی نظر ابلیس کی طرح (ظاہر بین) تھی۔
مطلب: یہاں ابلیس کی ظاہر بینی کے ساتھ تشبیہ اتفاقًا واقع ہو گئی ورنہ ایک صحابی کو ابلیس کے ساتھ تحقیرًا تشبیہ دینا مقصود نہیں اور ابلیس کی ظاہر بینی کا یہ حال ہے کہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کے خاکی وجود کو دیکھا۔ ان کے کمالات باطن سے نہ دیکھا۔ اسی بنا پر اس نے کہا تھا ﴿ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا﴾ (الاعراف: 12) ”اس کو سجدہ کروں جس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے“ اور یہی حال اس آقا کا تھا کہ وہ ہلال رضی اللہ عنہ کے صرف ظاہر کو دیکھتا تھا باطن کو نہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
5
آب و گل می دید در وے گنج نَے پنج و شش می دید و اصلِ پنج نے
ترجمہ: وہ (امیر حضرت ہلال رضی اللہ عنہ کے جسمانی) آب و گل کو دیکھتا تھا اس کے اندر، (کمالاتِ باطنیہ کا) خزانہ نہیں (دیکھتا تھا اور ان کے) پانچ (حواس)اور چھ(ضروریات جسمانیہ)کو دیکھتا تھا اور پانچ (اور چھ) کی اصل کو نہیں دیکھتا تھا۔
مطلب: ’’پنج و شش‘‘ سے جسم مادی کے آثارِ ظاہری مراد ہیں اور ’’اصل پنج و شش‘‘ سے روح مراد ہے کیونکہ ان آثار کا ظہور روح کے جسم کے ساتھ متقرن ہونے پر موقوف ہے۔ چھ جسمانی ضروریات یہ ہیں۔ (1) تنفس (2) پانی وغیره پینا (3) غذا کھانا (4) اقتباسِ غذا و اخراجِ فضلہ (5) حرکت و سکون (6) خواب و بیداری۔ ایک شارح نے چھ سے جہات ستہ مراد سمجھے مگر یہ معنی بتکلف چسپاں ہو سکتے ہیں۔ آگے قصے سے ارشاد کی طرف انتقال ہے۔
6
رنگِ طین پیدا و نورِ دین نہان ہر پیمبر این چنین بُد درجہان
ترجمہ: خاک (وجود) کا رنگ تو ظاہر ہے اور دین کا نور چھپا ہوا ہے (اور) ہر پیغمبر جہاں میں ایسے ہی ہوئے ہیں (کہ لوگوں نے ان کے ظاہری احوال کو دیکھ کر انہیں غیر وقیع سمجھا اور ان کے باطنی کمالات سے بے خبر رہے۔ آگے اس ناقص نظر اور اس کے مقابلہ میں صاحب نظر آدمی کی مثال دیتے ہیں)۔
7
آن مناره دید و بروے مرغ نے بر مناره شاہبازِ پُر فَنے
ترجمہ: (ان مختلف نظر والے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک منارہ ہو اور اس پر ایک پرندہ بیٹھا ہو تو) اس (ایک شخص) نے (صرف) منارہ کو دیکھا اور اس پر پرندے کو نہیں دیکھا (حالانکہ) منارے کے اوپر ایک پُر فن شہباز (موجود) ہے۔
8
وان دوم می دید مرغے پر زنے لیک مُو اندر دہانِ مرغ نے
ترجمہ: اور وہ دوسرا اس پرواز کن پرندے کو (بھی) دیکھتا تھا لیکن پرندے کے منہ کے اندر کا بال (اس کو نظر) نہیں (آتا تھا)۔
مطلب : پہلا آدمی ناقص نظر تھا اور دوسرا متوسط النظر ہے جس کو پرندہ تو نظر آتا ہے مگر وہ اس کے باطن سے بے خبر ہے۔ چنانچہ اس کے منہ کے اندر کا بال اس کو نظر نہیں آتا۔ آگے تیسرے شخص کا ذکر ہے۔
9
وانکہ او يَنْظُرُ بِنُوْرِ اللهِ بوَد ہم ز مرغ و ہم ز مو آگہ بوَد
ترجمہ: اور (تیسرا) وہ شخص جو اللہ کے نور کے ساتھ دیکھنے والا ہوتا ہے وہ مرغ سے بھی اور بال سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ (بال سے یہاں کمالِ باطن مراد ہے جو نورِ قلب سے مدرک ہو سکتا ہے جس کو یہاں نور اللہ سے تعبیر کیا ہے)۔
10
گفت آخر چشم سوئے موئے نہ تا نہ بینی مو نہ بکشاید گره
ترجمہ: (تیسرے شخص نے دوسرے سے) کہا (میاں) آخر بال کی طرف (بھی تو) نگاہ رکھو۔ جب تک تم بال کو نہ دیکھو گے مشکل حل نہ ہو گی۔
مطلب: یعنی جب تک کسی کے کمالِ باطن پر نظر نہ کرو گے اس کی حقیقتِ تامہ تم پر منکشف نہ ہو گی۔ تیسرا شخص صاحبِ بصیرتِ کاملہ ہے وہ دوسرے کو اس لیے خطاب کر رہا ہے کہ اس کی بصیرت میں تھوڑا سا ہی نقص ہے جو کسی قدر کوشش سے رفع ہو سکتا ہے اور پہلے شخص سے اس کا خطاب نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قابلِ خطاب نہیں اور نہ اس کا نقصِ بصیرت زوال پذیر ہے۔ آگے اس مثال کو اصل مقصود پر چسپاں کرتے ہیں۔ یعنی اسی طرح اہلِ کمال کو دیکھنے والوں کی نظریں مختلف ہیں۔ چنانچہ:
11
آن یکے گل دید نقشین در وحل وان دگر دل دید پُر علم و عمل
ترجمہ: اس ایک( دیکھنے والے) نے تو کیچڑ میں (سے پیدا ہونے والی) مٹی (کی) منقش (مورت) ہی دیکھی اور اس دوسرے نے (اس خاکی وجود کے اندر) دل (بھی) دیکھا جو علم و عمل سے بہرہ مند تھا (آگے مثال کی تطبیق ممثل لہٗ کے ساتھ کرتے ہیں):
12
تن منارہ، علم و طاعت ہمچُو مرغ خواہ سی صد مرغ گیرد یا دو مُرغ
ترجمہ: بدن تو مناره (سے مشابہ) ہے (اور قلب جو) علم و عمل (سے بہرہ مند ہے) مرغ (سے مشابہ) ہے (تو اس علم و عمل کا کوئی درجہ لے لو یعنی) خواہ تین سو مرغ لے لو یا دو مرغ۔
مطلب: علم و عمل کی بہت سی انواع و اقسام ہیں۔ ان تمام انواع و اقسام کے لحاظ سے یہ مرغ بہ تعدادِ کثیر ہیں اور اگر مجملاً صرف علم و عمل کا اعتبار کیا جائے تو صرف دو مرغ ہیں۔ (بحر)
13
مردِ اوسط مرغ بین است او و بس غير مُرغے می نہ بیند پیش و پس
ترجمہ: متوسط (درجے کی نظر والا) آدمی (صرف) مرغ کو دیکھنے والا ہے اور بس۔ مرغ کے سوا (اور کچھ) آگے پیچھے (کی کیفیت) نہیں دیکھتا (نہ اسے مرغ کا موئے منقار نظر آتا ہے)۔
14
موئے آن نورے ست پنہان آنِ مرغ کہ بدان پاینده باشد جانِ مرغ
ترجمہ: (اور) موئے (منقار) وہ نورِ باطن ہے جو (اس) مرغ کا (خاص وصف) ہے (اور) جس کے ساتھ مرغ کی جان قائم ہے۔
مطلب: سالک کی روحانی زندگی اس کے نورِ باطن کے ساتھ قائم ہے۔ اگر نورِ باطن اس میں نہ ہو تو اس کی روحانی زندگی نہیں۔ جس طرح مرغ کے موئے منقار پر مرغ کی زندگی کا مدار ہے۔ صاحب کلید مثنوی فرماتے ہیں کہ اکثر پرندوں کی باچھوں میں باریک بال ہوتے ہیں اور ایک تجربہ کار نے بیان کیا کہ اس بال کے اکھاڑنے کا پرندہ میں تو تجربہ نہیں ہوا لیکن ایسے ہی بال اسی موقع پر سانپ کے بھی ہوتے ہیں اور ان کو زہر کی پوٹلی کے ساتھ اکھاڑنے کا اتفاق ہوا ہے جس سے بعض سانپ مر گئے اور بعض اندھے ہو گئے۔ عجب نہیں کہ پرندوں میں بھی ان کو اکھاڑنے سے یہی اثر مرتب ہوتا ہو اور آنکھوں کا جاتے رہنا بھی ایک طرح سے گویا جان ہی کا جاتے رہنا ہے۔ (انتہٰی) آگے اس صاحبِ نور باطن کی تعریف فرماتے ہیں:
15
مرغ کان موئیست در منقارِ او ہیچ عاریّت نباشد کارِ اُو
ترجمہ: جس مرغ (سالک) کی منقار میں وہ (نورِ باطن کا) بال ہے اس کا عمل ہرگز مستعار (و چند روزه) نہیں (بلکہ اس کے وجود کے ساتھ لازم اور دائمی ہے)۔
16
علمِ او از جانِ او جو شد مدام پیشِ اونے مستعار آمد نہ وام
ترجمہ: (اسی طرح) اس کا علم (بھی) ہمیشہ اس کے باطن سے جوش زن ہے (اور) وہ علم اس کے پاس نہ مستعار آیا ہے نہ قرض ہے (کہ پھر اس سے زائل ہو سکے بلکہ وہ اس سے بھی منفک ہونے والا نہیں۔ غرض حضرت ھلال رضی الله عنہ کو ایسا ہی نورِ باطن حاصل تھا مگر ان کے آقا کو اس کی خبر نہ تھی۔ اس لیے انہیں بے قدری کے ساتھ اصطبل پر مامور کر رکھا تھا)۔