دفتر 6 حکایت 36: (یہ وہی بات ہے) جیسے ایک قافلہ (کسی مقام سے) آ رہا تھا (اور) ایک گاؤں میں آیا (اور گاؤں کی فصیل کا) ایک دروازہ کھلا ہوا دیکھا

دفتر ششم: حکایت: 36



در تقریرِ این معنی

اس بات کے ثبوت میں


1

 آنچنانکہ کاروانے می رسید  در دہے آمد درے را باز دید

ترجمہ: (یہ وہی بات ہے) جیسے ایک قافلہ (کسی مقام سے) آ رہا تھا (اور) ایک گاؤں میں آیا (اور گاؤں کی فصیل کا) ایک دروازہ کھلا ہوا دیکھا۔

2

 آن یکے گُفت اندرین بردُ العجوزُ  بار اندازیم این جا چند رُوز

ترجمہ: (قافلہ میں سے) ایک شخص نے کہا کہ اس شدید سردی میں (سفر مشکل ہے) ہم چند روز اسی گاؤں میں بارِ سفر رکھ دیں (اور ٹھہر جائیں)۔

3

 بانگ آمد نے بینداز از بُرون  وانگہانے اندر آ تو اندرُون

ترجمہ: (گاؤں والوں میں سے کسی کی) آواز آئی کہ نہیں (اسباب کو اندر نہ لاؤ) باہر ہی ڈال دو (اور) پھر (گاؤں کے) اندر چلے آؤ۔

مطلب: یہ شاید بدیں خیال کہا ہو گا کہ مبادا ان لوگوں کے پاس چوری کا مال ہو اور اس کے سبب سے ہم مجرم قرار پائیں یا ممکن ہے کہ ان کا مال گم ہو جائے تو وہ ہم اہل دیہہ پر چوری کا الزام لگائیں۔ آگے مولانا اس قول سے تجريد وترکِ علائق کا سبق دیتے ہیں۔

4

ہم برون افگن ہر آنچہ افگندنی ست  درمیا با آنکہ این مجلس سَنی ست

ترجمہ: (اے مخاطب!) تو بھی (اسی طرح) جو (دنیوی تعلقات) پھینک دینے کے لائق ہیں ان کو پھینک دے ان کے سمیت اندر مت آ کیونکہ (مقامِ قرب کی) یہ مجلس (بہت) عالی پایہ ہے (یہاں ما سوٰی کو ساتھ رکھنے کی گنجایش نہیں)۔

مطلب:

موش با جاروب در سوراخ نتوانست رفت  خواجہ با چندین علائق چون بحق واصل شود

حافظؒ ؎

 نہاده ایم بارِ جہان بر دلِ ضعيف  این کار و بار بستہ بیک سو نہاده ایم

جامیؒ ؎

 مستے و این ترانہ بآواز چنگ و دف  یا طالب الوصول تجرّد لكے تصل

صائبؒ ؎ 

ز تنگنائے لحد می جہد برون چون تیر   سبک دوے کہ سبکسار شد ز یار این جا

ولہٗ ؎ 

لب محیط ببانگِ دہل مے گوید   برہنہ شو کہ گہرِ مزد دست عریان ست