دفتر 6 حکایت 35: ایک شخص نے (کسی) امیر سے ایک گھوڑا مانگا اس نے کہا کہ وہ سفید گھوڑا لے لے

دفتر ششم: حکایت: 35



ایضاً در تقریر ہمیں سخن

یہ (حکایت) بھی اسی بات کے ثبوت میں (ہے)


1

آن یکے اسپے طلب کرد از امیر گفت رَو آن اسپ اشہب را بگیر

ترجمہ: ایک شخص نے (کسی) امیر سے ایک گھوڑا مانگا اس نے کہا کہ وہ سفید گھوڑا لے لے۔

2

گفت آن را من نخواہم گفت چون گفت او واپس روست و بس حُرون

ترجمہ: اس نے کہا میں اس کو (لینا) نہیں چاہتا، پوچھا کیوں؟ کہا وہ تو پیچھے کو ہٹتا چلا جاتا ہے اور بڑا سرکش ہے۔

3

سخت پس بس می رود او سوئے بُن گفت دُمّش را بسُوۓ خانہ کُن

ترجمہ: وہ (اپنی) دم کی طرف بہت ہی پیچھے پیچھے کو چلا جاتا ہے (امیر نے) کہا اس کی دم کو گھر کی طرف کر لیا کرو۔

مطلب : امیر نے پس روی کا ایک علاج ظریفانہ طریق سے بتایا ہے۔ یعنی اگر تم کو اس گھوڑے پر سوار ہو کر گھر کی طرف جانا ہو اور وہ الٹا پیچھے کی طرف چل کر گھر سے دور لے جاتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ اس کی دم کو گھر کی طرف کر لیا کرو، تاکہ وہ پیچھے کی طرف ہٹتا ہٹتا تم کو گھر پہنچا دے۔ جیسے ایک لڑکا بارش کی وجہ سے سکول دیر سے پہنچا استاد نے اس تاخیر پر اس کو ٹوکا۔ تو وہ بولا جناب کیا عرض کروں کیچڑ کی یہ کثرت تھی کہ میں سکول کی طرف ایک قدم بڑھاتا تھا تو دو قدم پیچھے ہٹنا پڑ جاتا تھا۔ استاد نے کہا تو پھر تم کو چاہیے تھا کہ سکول کی طرف سے رخ پھیر کر گھر کی طرف چلنا شروع کر دیتے تاکہ دو دو قدم پیچھے ہٹتے ہٹتے اس سے پہلے سکول پہنچ جاتے۔ آگے مولانا اس حکایت سے ایک ارشادی سبق دیتے ہیں۔

4

دُمِّ این استورِ نفست شہوت ست زان سبب پس پس رود آن خود پرست

ترجمہ: (اسی طرح) تیرے اس توسن نفس کی دم شہوت ہے اس سبب سے وہ خود پرست پیچھے ہی پیچھے کو چلا جاتا ہے۔

مطلب: اس شعر میں نفس کی شہوت پرستی کو گھوڑے کی پس روی کی مثال پر چسپاں کیا ہے۔ یعنی اسی طرح نفسِ پلید بھی اعمالِ فاضلہ کی طرف آگے بڑھنے کے بجائے لذاتِ حسیہ کی طرف پیچھے کو ہٹتا چلا جاتا ہے۔ آگے اس نفس کا علاج بتایا ہے جیسے کہ امیر نے اس گھوڑے کا ظریفانہ علاج بتایا تھا۔

5

شہوت او را کہ دم آمد ز بُن اے مبدَّل شہوتِ عقبٰیش کُن

ترکیب: ’’اے‘‘ حرفِ ندا کا منادی مقدر ہے یعنی مخاطب شہوت اور مفعول بہ اول ہے۔ ’’کن‘‘ فعل امر کا اور مبدل مفعول بہ ثانی ’’شہوتِ عقبٰی‘‘ مجرور ہے جس کا جر حرف باء محذوف ہے۔ ’’اش‘‘ کی ضمیر راجع بہ شہوت زائد ہے۔ تقدیرِ کلام یوں ہے اے مخاطب! ’’شہوتِ او راکہ از بُن دم آمده مبدل به شہوت عقبٰی کن‘‘۔

ترجمہ: ارے! اس (نفس) کی شہوت (و رغبت لذات) کو جو اصل (وضع) سے (بمنزلہ) دم کے واقع ہُوئی ہے۔ آخرت کی خواہش سے بدل دے۔

مطلب: جس طرح دم باقی تمام اعضا سے ظاہراً مؤخر ہے اسی طرح ’’شہوت‘‘ تمام اخلاق سے معنی پستر ہے۔ پر اگر وہ شہوت قسمِ حرام ہے تو اس کا پستر ہونا ظاہری ہے اور اگر مباح ہے تو بھی امورِ نفسانیہ امورِ روحانیہ سے ادنٰی و اخس ہیں اور شہوتِ دنیا کو مبدل بشہوتِ عقبٰی کرنے کا مطلب یہ ہے نفس کی خواہشات کا ازالہ کرنے کے بجائے ان کا امالہ کرنا کافی بلکہ احسن ہے۔ یعنی نفس کی دنیاوی خواہشِ لذات کو باقی رکھ کر لذاتِ آخرت مثل حور و قصور و نعمائے جنت کی طرف متوجہ کر دینا چاہیے۔ پس جس طرح امیر نے کہا تھا کہ گھوڑے کی دم گھر کی طرف کر دیا کرو۔ اسی طرح یہاں فرمایا ہے کہ نفس کے نفسانی میلان کو آخرت کی طرف جو اصلی گھر ہے منعطف کر دو۔ آگے اس کی توضیح ہے۔

6

چون بہ بندی شہوتش را از رغيف سرکند آن شہوت از عقلِ شریف

ترجمہ: جب تم اس (نفس) کی خواہش کو روٹی (یعنی لذاتِ جسمانیہ کی طرف) سے باز رکھو گے تو وہ خواہش عقلِ عالی کی راہ سے ظہور کرے گی (مطلب یہ کہ اس شہوت کا تعلق عقلِ معاد کے مقتضیات یعنی امورِ آخرت کے ساتھ ہو جائے گا۔ آگے اس کی ایک مثال ارشاد ہے)۔

7

ہمچو شاخے کہ کش ببرّی از درخت سرکند قوت ز شاخ اے نیکبخت

ترجمہ: جیسے تم درخت کی کوئی شاخ کاٹ ڈالو تو اے نیک بخت! (درخت کی) قوت (نامیہ دوسرے تازہ) شاخ سے ظہور کرتی ہے (ایک شاخ کو کلہاڑی کے ساتھ کاٹ ڈالنے سے دوسری شاخ اچھی نکل آتی ہے دنیا کی شہوت کو روک دینے سے آخرت کی رغبت پیدا ہو جاتی ہے)۔

8

چونکہ کردی دُمِ اُو را آن طرف گر رود پس پس رود تا مکتنِف

ترجمہ: (غرض) جب تم نے اس (نفس) کی دم (شہوت) کو ادھر (آخرت کی طرف) کر دیا (تو پھر) اگر وہ (اتباعِ شہوات میں) پیچھے کو (ہٹتا) جائے گا (تو بھی) جائے پناہ (یعنی آخرت) کی طرف جائے گا۔

9

حبَّذا اسپانِ رام پیش رَو نے سپس رونے حرونی را گِرَو

ترجمہ: خوب ہیں ان نفوس صالحین کے مطیع گھوڑے جو (مقصود کی طرف) آگے بڑھنے والے ہیں۔ نہ تو پیچھے ہٹنے والے ہیں (اور) نہ سر کشی کے مقید ہیں۔

10

گرم رَو چُون جسمِ موسیِٰ کلیم تا بہ بحَرَینش چو پہنائے گلیم

ترجمہ: وہ (منزل مقصود کی طرف) حضرت موسیٰ (کلیم اللہ علیہ السلام) کے جسم کی طرح تیز رو ہیں جن کے آگے مجمع البحرین تک (کا فاصلہ) کمبل کی چوڑائی کی طرح (بے حقیقت تھا)۔

مطلب: کمبل کے عرض کی خصوصیت اس لیے کی کہ وہ طول کے بجائے کم ہوتا ہے اور یہاں بغرض مبالغہ ممثل لہٗ کی تفصیل مقصود ہے اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس قول کی طرف اشارہ ہے جو قرآن مجید میں منقول ہے۔ ﴿لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا(الکہف: 60) ”جب تک میں دونوں دریاؤں کے ملنے کے مقام پر نہ پہنچ لوں (اپنے ارادے سے) باز نہیں آؤں گا (اسی طرح) سالہا سال چلتا رہوں گا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سفر حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے اشتیاق میں کیا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

11

ہست ہفصد سالہ راہِ آن حُقُب کہ بکرد او عزم در سیرانِ حب

ترجمہ: اس حقب کا راستہ سات سو برس کا ہے جس (کو طے کرنے) کا انہوں نے عزم کیا تھا (حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے) سفرِ عشق میں۔

12

ہمتِ سیرِ تنش چون این بود سیرِ جانش تا بہ عِلِیّین بود

ترجمہ : جب ان کے جسم کی سیر کا یہ بل بوتہ ہے تو ان کی روح کی سیر تو عالمِ بالا تک ہوگی۔

13

شہسواران در سباقت تاختند خر بطان در پایگاه انداختند

ترجمہ: شہسوار تو (ایک دوسرے سے) سبقت (لے جانے) میں دوڑنے لگے احمق لوگوں نے (جو عقلِ معاد سے عاری ہیں تنزل کے) ادنیٰ درجہ میں ڈیرا ڈال لیا (آگے ایک مثال میں آگے بڑھنے والوں اور اسفل مقام میں ڈیرا ڈالنے والوں کا ذکر فرماتے ہیں)۔