دفتر ششم: حکایت: 33
قِصّۂ ہلال کہ بندۂ مخلِص بُود خدائے را پنہان شُده در بندگیِ مخلوق چنانکہ لقمان و یوسف علیہُما السّلام و این ہلال بندۂ سائِس بُود مر امیرے را و آن امیرِ مسلمان بود اما چشم کور بُود
حضرت ہلال رضی اللہ عنہ کا قصہ جو خداوند تعالیٰ کے بااخلاص بندہ تھے، مخلوق کی غلامی میں چھپے ہوئے جیسے کہ لقمان اور یوسف علیہما السلام تھے اور یہ ہلال ایک امیر کے غلام سائیس تھے اور وہ امیر مسلمان تھا مگر آنکھوں سے اندھا تھا۔
مطلب: استیعاب میں اس نام کے نو صحابی لکھے ہیں عجب نہیں کہ یہ ہلال وہ ہوں جن کی نسبت لکھا ہے۔ ’’هِلَالُ بْنُ الحَارِثِ وَيُقَالُ لَہٗ هِلَالُ بْنُ ظُفَرَ اَبُوْالحَمْرَاءِ مَوْلَی النَّبِیِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَتْ عَلَيْهِ کُنْيَةٌ ۔۔۔‘‘ اور گو ان کو مولی النبی ﷺ لکھا ہے اور مثنوی میں کسی امیر کا مملوک لکھا ہے۔ مگر ممکن ہے کہ حضور ﷺ نے کسی وقت ان کو خرید کر آزاد فرما دیا ہو۔ اس احتمال سے زیادہ مجھ کو اور کوئی امر محقق نہیں (کلید) لقمان علیہ السلام حکیم حضرت داؤد علیہ السلام کے ہم عصر تھے پہلے وہ کسی امیر کے غلام تھے پھر آزاد ہو گئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارہ میں فرمایا ہے۔ ﴿وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ﴾۔ (لقمان: 12) ”ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی“۔ اس لئے ان کو حکیم کہا جاتا ہے۔ بعض علما کے نزدیک حکمت سے مراد نبوت ہے اس بنا پر وہ ان کو نبی سمجھتے ہیں۔ شاید مولانا کا بھی یہی مسلک ہے۔ اسی بنا پر ان کو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ شریک سلام کیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت لقمان دونوں اپنے اپنے دنیوی آقاؤں کی غلامی کے پردے میں خاص حق تعالیٰ کے با اخلاص و اطاعت گذار بندے تھے۔ یہی حال ہلال کا تھا وہ بظاہر ایک امیر کے غلام تھے مگر درحقیقت وہ حق تعالیٰ کی غلامی میں مستغرق تھے۔ امیر مسلمان کے چشم کور ہونے سے مقصد یہ ہے کہ اس میں ایسی بصیرتِ باطن نہ تھی کہ وہ حضرت ہلال کے اس درجۂ عالیہ کو معلوم کر لیتا اور یہ بات بطورِ تحقیر نہیں کی۔ بلکہ ایک صورتِ حال بیان کی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانۂ مبارک کا ہر مسلمان جو آپ کی زیارت سے مشرف ہوا ہو صحابی ہے اور صحابی کی تحقیر جائز نہیں اور صورتِ واقعہ بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی صحابی میں بصیرتِ باطن کا نہ ہونا بھی محلِ تعجب نہیں کیونکہ صحابہ کی استعدادیں مختلف تھیں اگر اس بے بصیرتی کو ایسے تغافل پر محمول کیا جائے جو عمداً عمل میں آیا ہو تو بھی بعید نہیں کیونکہ صحابہ خطا سے معصوم نہ تھے۔
1
چون شنیدی بعض اوصافِ بلالؓ بشنو اکنون قصۂ ضعفِ ہلالؓ
ترجمہ: جب تم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کچھ اوصاف سن لئے تو اب حضرت ہلال رضی اللہ عنہ کے ضعف کا حال سن لو (جو ان کو کثرتِ مجاہدات سے عارض ہوا تھا)۔
2
از بلال اوبیش بود اندر رَوِش خُوئے بد را بیش کرده بُد، کَنِش
ترجمہ: (بعض وجوہ سے) سلوک و طریق میں بلال رضی اللہ عنہ سے (بھی) بڑھ کر تھے انہوں نے اخلاقِ ذمیمہ کی زیادہ مخالفت کی تھی (آگے ان کی اس پیش دستی اور سبقت کے لحاظ سے مولانا مخاطب و سامع کو متنبہ فرماتے ہیں):
3
نے چو تو پس رَو کہ ہر دم پَستری سُویِ سنگی می روی از گوہری
ترجمہ: (اے مخاطب! حضرت ہلال رضی اللہ عنہ) تیری طرح پیچھے رہ جانے والے نہیں تھے جو ہر لمحہ پیچھے ہی ہٹتا چلا جاتا ہے (گویا اصلاحِ اعمال کے) موتی پن سے (ہٹ کر فساد و اعمال کے) پتھر پن کی طرف جا رہا ہے (آگے اس کے پیچھے کی ایک مثال ارشاد ہے):