دفتر ششم: حکایت: 32
معاتبه کردن حضرت رسول الله ﷺ با صدیق رضی الله عنه و جوابِ اُو
رسول الله ﷺ کا حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معاتبہ فرمانا اور ان کا معذرت کرنا
1
سیدِ کونین و سلطانِ جہان در عتاب آمد زمانے بعد ازان
ترجمہ: دونوں عالم کے سردار، جہان کے سلطان ﷺ اس سے تھوڑی دیر بعد (محبوبانہ) عتاب میں آئے (یعنی کچھ دیر تک بلال رضی اللہ عنہ پر توجہ رہی پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوئے اور):
2
گفت اے صدیق آخر گفتمت کہ مرا انباز کن در مکرُمَت
ترجمہ: فرمایا اے صدیق! آخر میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھ کو (بھی) اس (نیک عمل کی) افضلیت میں شامل کرنا۔
3
تو چرا تنہا خریدی بہرِ خویش باز گو احوال اے پاکیزه کیش
ترجمہ: تم نے کیوں تنہا اپنے لئے (ان کو) خریدا ہے۔ اے پاکیزه دین! (اس مخصوص خریداری کا) اصل حال بیان کرو۔
4
گفت ما دو بندگانِ کوئے تو کردمش آزاد بر رُوئے تو
ترجمہ: عرض کیا کہ (حضورﷺ!) ہم دونوں جناب کے کوچے کے غلام ہیں۔ میں نے ان کو آپ ﷺ کے روبرو آزاد کر دیا۔
مطلب: یعنی اگر اس کو میری اور حضور کی شراکت کے ساتھ خریدا جاتا ہے تو یہ شراکت باہم مساوات ہوتی۔ حالانکہ میں حقیقتِ باطنیہ کے اعتبار سے حضور کا غلام ہوں تو یہ شرکت اختیار نہ کرنے کا عذر ہے۔ پھر میں نے سمجھا کہ حضور کا مقصد ان کی خریداری سے ان کو آزاد کرنا ہے سو میں نے ان کو آزاد کیا۔
5
تو مرا می دار بنده و یارِ غار ہیچ آزادی نخواہم زینہار
ترجمہ: (مگر) آپ مجھ کو (بدستور اپنا) غلام اور یارِ غار رہنے دیجئے میں ہرگز کبھی آزادی کا خواہاں نہ ہوں گا۔
6
کہ مرا از بندگیت آزادی ست بے تو بر من محنت و بیدادی ست
ترجمہ: کیونکہ مجھے حضور کی غلامی ہی سے حُرِیّت (کا شرف) حاصل ہے آپ (کی غلامانہ خدمت) کے بدوں (میں رہ نہیں سکتا اگر مجھے اس سے باز رکھا جائے تو یہ) مجھ پر مصیبت اور ظلم ہے۔
7
اے جہان را زنده کرده ز اصطفا خاص کردہ عام را خاصہ مرا
ترجمہ: (اے حضرت!) جنہوں نے ایک عالم کو برگزیدگی سے زندہ کر دیا (اور) عام لوگوں کو خاص (بندے) بنا دیا خصوصاً مجھ کو۔
8
خوابہا می دید جانم در شتاب کہ سلامم کرد قُرصِ آفتاب
ترجمہ: میری روح جوانی میں (اس قسم کے) خواب دیکھا کرتی تھی کہ مجھے سورج کی ٹکیہ نے سلام کیا۔
9
از زمینم برکشید او بر سماہمرہِ او گشتہ بودم ز ارتقا
ترجمہ: (اور) اس نے مجھ کو زمین سے آسمان پر کھینچ لیا ہے (اور) میں اس کے ہمراہ بلند چلا جا رہا ہوں۔
10
گفتم این ماخُولیا بود و مُحَالہیچ گردد مستحیلے وصفِ حال
ترجمہ: میں نے (دل میں) کہا یہ (خواب) خللِ دماغ (سے دکھائی دیتے ہیں) اور (ان کا سچا ہونا) محال ہے۔ بھلا کوئی (امرِ) محال (بھی واقع ہو کر) فی الحال (کسی کا) وصف بن سکتا ہے۔
11
چون ترا دیدم بدیدم خویش را آفرین آن آئینۂ خوش کیش را
ترجمہ: (مگر) جب میں نے آپ کو (آسمانِ رسالت کا آفتاب) پایا تو میں نے اپنے آپ کو (بھی) دیکھا، (اور پہچانا کہ خواب کے اندر میں نے اپنے آپ کو جس حیثیت میں دیکھا تھا وہ صحیح تھی) آفرین ہے (آپ کی ذاتِ اطہر کے) اس خوش وصف آئینے کو (جس کی خواب کی تمثیل میں مجھے اپنے مرتبہ کا عکس دکھائی دیا۔)
12
چون ترا دیدم مُحالم حال شد جانِ من مُستغرقِ اِجلال شد
ترجمہ: جب میں نے آپ کی زیارت کی (اور آپ کو آفتابِ رسالت پایا تو) میرا (رفیقِ آفتاب ہونے کا وصف جو بظاہر) محال (تھا) فی الحال (ثابت) ہو گیا (اور) میری روح (حضرتِ حق کے) جلال میں غرق ہو گئی۔
13
چون ترا دیدم من اے رُوحُ البلادمہر این خورشید از چشمم فتاد
ترجمہ: اے معمورۂ عالم کی روح! جب میں نے آپ کو دیکھا تو اس (ظاہری) آفتاب کی وقعت میری نظر سے ساقط ہو گئی (رُوح البلاد آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کے لحاظ سے کہا)۔
14
گشت عالی ہمت از تو چشمِ من جُز بخواری ننگرد اندر زمن
ترجمہ: (ایک آفتاب پر موقوف نہیں بلکہ) آپ (کے دیدار) کی بدولت میری آنکھ (اس قدر) بلند نظر ہو گئی کہ میں زمانے (بھر کی بڑی سے بڑی ہستیوں) کو حقارت کے سوا نہیں دیکھتا۔
15
نور جُستم خود بدیدم نُورِ نُور حور جستم خود بدیدم رشکِ حُور
ترجمہ: میں نور کو تلاش کرتا تھا تو میں نے نور کے نور کو ہی دیکھ لیا۔ میں حور کی جستجو میں تھا تو خود رشکِ حور کو دیکھ لیا۔
مطلب: میں آپ کی زیارت سے پہلے اہلِ کتاب کے علما سے ملائکہ و حور کا ذکر سن کر ان کو دیکھنے کا مشتاق ہوتا تھا، مگر آپ اس نورانی مخلوق کے بھی نور ہیں کیونکہ آپ کا نور سب سے پہلے پیدا ہوا ہے اور اسی سے ساری مخلوق بنی ہے۔
16
یوسفے جُستم لطیف و سیمتن یوسفستانے بدیدم در تو من
ترجمہ: میں ایک یوسف (جیسے با جمالِ بے مثال) کو تلاش کیا کرتا تھا (مگر) میں نے آپ کے اندر یوسف ہائے کثیرہ کا ایک عالم (موجود) پایا۔
مطلب: میں اہل ادیان سماویہ سے نجاتِ آخرت کے عقائد و اعمال پر موقوف ہونا سن کر ہادی کی تلاش میں تھا جو باعتبار حسنِ باطنی کے بے مثال مانے گئے ہیں۔ سو میں نے آپ کو تمام ہادیوں پر حق کے اوصافِ کمال و تکمیل کا جامع پایا۔ (کلید)
17
درپے جنت بُدم در جُستجو جنّتے بنمود از ہر جزوِ تو
ترجمہ: میں جنت (کو) تلاش کرنے کے درپے تھا (مگر مجھ کو) آپ کے ہر جزو سے (ایک) جنت دکھائی دی۔
18
ہست این نسبت بمن مدح و ثنا ہست این نسبت بتُو قدح و ہجا
ترجمہ: یہ(سب معروضات) میرے اعتبار سے مدح و ثنا ہے (لیکن) آپ کے اعتبار سے یہ عیب و ہجو ہے۔
19
ہمچو مدحِ مرد چوپانِ سلیم مَر خدا را پیشِ موسیِٰ کلیمؑ
ترجمہ: جیسے اس بکریاں چرانے والے سادہ لوح آدمی کی مدح، حق تعالیٰ کی نسبت موسٰی کلیم الله علیہ السلام کے سامنے تھی (یہ قصہ مثنوی کے دفتر دوم اور مفتاح العلوم کی جلد ہفتم کے آغاز میں گزرا ہے)۔
20
کہ بجویم اشپشت شیرت دہم چارقت دوزم من و پیشت نہم
ترجمہ: (کہ اے اللہ) میں تیری جوئیں ڈھونڈوں گا ( اور) تجھ کو دودھ پلاؤں گا، تیرا جوتا سی دوں گا اور تیرے آگے رکھ دوں گا۔
21
قدحِ او را حق بمدحے بر گرفت گر تو ہم رحمت کنی نبوَد شگفت
ترجمہ: (مگر) حق تعالیٰ نے اس کی منقصت کو مدح سمجھ لیا (پس اسی طرح) اگر آپ بھی رحمت فرمائیں (اور اس ناتمام مدح کو قبول فرمائیں) تو تعجب نہیں۔
22
رحم فرما بر قصورِ فہم ہا اے ورائے عقلہا و وہم ہا
ترجمہ: آپ ہمارے فہموں کی کوتاہی پر رحم فرمایئے اے (حضرت!) جو عقلوں اور وہموں سے آگے بڑھے ہوئے ہیں (آگے خود مولانا بطور انتقال آنحضرتﷺ کے فیضِ عام کا ذکر کرتے ہیں):
23
اَيُّهَا الْعُشَّاق اقبالِ جدید از جہانِ کہنۂ نو در رسید
ترجمہ: اے عاشقو! (فیضِ محمدی علٰی صاحبہ الصلوة والسلام کا) نیا اقبال (عالمِ ملکوت کے) پرانے جہان سے تازہ بتازه پہنچا ہے۔
24
زان جہان کو چارهٔ بیچاره جُوست صد ہزاران نادره عالم دروست
ترجمہ: (وہ اقبال) ایک ایسے عالم سے (آیا ہے) جو (ہر) ناقابل چاره (گمراہ) کا چارہ جُو ہے۔ وہ عالم ایسا ہے کہ عالمِ (کائنات) کے لاکھوں نادرات (و عجائب) اس میں (موجود) ہیں۔
مطلب: عالم کائنات سے مراد عام ہے جو غیب و شہادت یعنی عالمِ ملکوت و عالمِ ناسوت کو شامل ہے اور ترقی ہے اس عالم کے وصف میں کہ وہ نہ صرف چارہ جو بے چارہ ہے بلکہ اس میں لاکھوں اوصاف عجیبہ ہیں۔ حتیٰ کہ ان کا ایک فیض جو کہ وحی قرآنی ہے اس کے باب میں حدیث ہے ’’لَاتَنْقَضِیْ عَجَائِبُهٗ‘‘ (ترمذی شریف، حدیث 2906) تو مجموعۂ عالم کس قدر عجائب کو شامل ہو گا۔ (کلید)
25
اَبْشِرُوْا يَا قَوْمُ اِذَا جَاءَ الْفَرَج اِفْرَحُوْا يَاقَوْمُ قَدْ زَالَ الْحَرَج
ترجمہ: خوش ہو جاؤ اے (امتِ محمدیہ ﷺکے) لوگو! کیونکہ کشایش (اور آسایش) آ گئی۔ خوش ہو جاؤ اے (امت محمدیہ ﷺ کے) لوگو! تحقیق تنگی زائل ہو گئی (یعنی کشایش کا سبب آ گیا جس سے ذاتِ نبوی ﷺ مراد ہے۔ آگے آپ ﷺ کے خاص افاضہ کا ذکر ہے)۔
26
آفتابے رفت در کازۂ هلالؓدر تقاضا کہ اَرِحْنَا یَا بِلَال
ترجمہ: حضرت ہلال رضی اللہ عنہ (بہ ہائے ہوز) کے جھونپڑے میں ایک آفتاب گیا ہے (وہ آفتاب اس) تقاضے میں (بھی) کہ اے بلال! (ببائے موحدہ) ہم کو راحت دو۔
مطلب: اس میں دو قصوں کی طرف اشارہ ہے ایک قصہ حضرت ہلال رضی اللہ عنہ کا ہے کہ وہ بھی (حضرت ہلال رضی اللہ عنہ) طرح عاشقِ رسول تھے بلکہ بقول مولانا طریقِ عشق میں وہ بلال رضی اللہ عنہ سے بھی سبقت لے گئے تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لئے اصطبل میں تشریف لے گئے تھے جہاں وہ بیمار پڑے تھے۔ یہ قصہ آگے آتا ہے۔ دوسرا قصہ حضرت بلال رضی الله عنہ کا ہے کہ حدیث میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ ’’اَرِحْنَا يَا بِلَال‘‘ یعنی اے بلال! تم اذان دے کر نماز سے فارغ ہو جاؤ تاکہ ہمارے قلب کو اس بات سے راحت ہو کہ حق تعالیٰ کا فریضہ ادا ہو گیا۔ پس پہلے مصرعہ کا مضمون دوسرے کے مضمون سے مقید نہیں جیسے کہ متبادر ہوتا ہے بلکہ دونوں جداگانہ مضمون ہیں۔
27
زیر لب مے گفتی از بیمِ عدوبر مناره رو بگو کوریِّ او
ترجمہ: (اے بلال!) تم (بعض اوقات خدا کا نام) دشمن کے خوف سے زیرِ لب بولا کرتے تھے اب مناره پہ چڑھ کر علانیہ اس کا نام بولو(گو حسد سے) آنکھیں پھوٹیں (تم اس کی پرواہ نہ کرو)۔
مطلب: خدا کا نام خفیہ لینے سے مراد وہ اخفا ہے جو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فہمائش سے کبھی کبھی اختیار کر لیتے تھے مگر پھر جذبۂ عشق سے مجبور ہو کر بآواز بلند اَحَدٌ اَحَدٌ پکارنے لگتے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حضور ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد ان کے کافر آقا کے پنجے سے رستگار ہوتے ہی نہیں فرمایا کہ سیاق سے مفہوم ہوتا ہے۔ بلکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ مکہ کا ہے جہاں اذان شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ اس سے برسوں بعد مدینے میں شروع ہوئی ہے اور وہیں رسول الله ﷺ حضرت بلال رضی الله عنہ کو یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ’’منارہ‘‘ کا لفظ کنایہ ہے کہ اعلانِ عام اور آوازِ بلند سے کیونکہ مناره کا وجود بھی رسول الله ﷺ کے زمانے میں نہ تھا۔ اوپر کے دو شعروں میں حضور ﷺ کے افاضہ کا وہ طریق جو فرداً فرداً اشخاصِ امت کے لئے ہے مذکور ہوا۔ آگے آپ کے عمومِ فیض کا ذکر ہے۔
28
می دمد درگوشِ ہر غمگین بشیر خیز اے مُدبِر رہِ اقبال گیر
ترجمہ: ( آپ کا افاضہ انہی دو کے ساتھ خاص نہیں بلکہ آپ سب کے لئے) بشیر (ہیں کہ) ہر غمگین کے کان میں (یہ بات) پھونکتے ہیں (کہ) اے بد بخت! اٹھ بختاوری کا راستہ اختیار کر (’’بد بخت‘‘ سے مراد گمراہ ہے اور اسی کو غمگین بلحاظِ مآل کہا کہ آخرت میں اس کو غم و الم پیش آئے گا)۔
29
اے درین حبس و در این گنده و شپش ہین کہ تا کس نشنود زشتی خمش
ترجمہ: اے شخص جو (کفر کے) اس قید خانے اور (گناہوں کی) اس نجاست اور (شیاطین کی) جوؤں میں (مبتلا) ہے (راہ ہدایت پر چل وہ مدبر کہتا ہے) ہائیں! (آپ نے کان میں جو فرمایا سو فرما دیا مگر زور سے نہ کہنا)کہ (میری یہ) برائی کوئی (اور) نہ سن لے خاموش رہ۔
مطلب: جس طرح جوئیں انسان کے کپڑوں میں چھپتی پھرتی اور اذیت دیتی ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق حدیث میں ہے کہ ’’اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر 1933) یعنی شیطان انسان کی رگ رگ میں پھرتا ہے غرض بشیرِ حق فیض پہنچاتا اور اپنے ارشاد سے راہِ ہدایت دکھاتا ہے مگر مدبر و شقی اس کو بولنے نہیں دیتا۔ اب مولانا بشیر سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
30
چون کنی خامش کنون اے یارِ من کز بُن ہر مو بر آمد طبل زن
ترجمہ: اے میرے محبوب! آپ (ان مدبروں کے روک دینے سے) اب کیونکر خاموش ہو سکتے ہیں (کیونکہ بالفرض اگر زبان سے خاموش ہوئے تو آپ کے) بال بال کی جڑ سے ڈنکے کی چوٹ (کے ساتھ اعلانِ ہدایت کرنے) والا ظاہر ہو چکا ہے (پس زبان سے خاموش ہو جانا سلسلۂ ہدایت کو بند نہیں کر سکتا)۔
مطلب: آپ کا ہر ’’بُنِ مو‘‘ ہدایت کا اعلان کر رہا ہے قولاً بھی، عملاً و حالاً بھی یعنے حضور کی ہر ادا سے اظہارِ حق ہوتا ہے اور جب تک بفحواۓ ﴿فَاصْدَعْ بِمَاتُؤْمَرُ﴾ (الحجر: 94) اعلانِ قول کا حکم نہیں ہوا تھا تب بھی دلالتِ حال سے اعلان ہو رہا تھا۔ چنانچہ آپ کا خدائے واحد کی عبادت کرنا اور معبودانِ باطلہ سے اظہارِ نفرت کرنا، احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا کافی اعلان تھا مگر کافروں کا حال یہ ہے کہ:
31
آن چنان کَر شد عدوِّ رشک خُو گوید این چندین دہل را بانگ کُو
ترجمہ: حسد کی خصلت والا دشمن (کافر حق بات کو سننے سے) ایسا بہرہ ہو رہا ہے (کہ اعلانِ حق کیا) اس قدر (بانگِ) دہل کو (بھی) پوچھتا ہے کہ (ان کی) آواز کہاں ہے؟
مطلب: حسد کے سبب اس کے کانوں تک آوازِ حق نہیں پہنچتی جیسے کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے ﴿اُولٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَأَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰى اَبْصَارَهُمْ﴾۔ (محمد: 23) ”یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی اور ان کو (حق بات سننے سے) اور راہِ راست کے دیکھنے سے ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا۔“ آیت سے ظاہر ہے کہ کفار کی شقاوت نے ان کو بہرے کے ساتھ اندھا بھی کر دیا۔ چنانچہ مولانا فرماتے ہیں:
32
می زند بر روشِ ریحان کہ طرِی ست او ز کوری گوید این آسیب چیست
ترجمہ: (اس بصیرت کے اندھے کو ہدایت کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے) اس کے منہ پر (کوئی) پھول مارتا ہے جو (بالکل) تازہ ہے اور وہ اندھے ہونے کے سبب سے کہتا ہے کہ یہ تکلیف (کی چیز) کیا ہے؟
33
می شکنجد حور و دستش می کشد کُور حیران کز چہ دردم می کند
ترجمہ: (اور جیسے) حور (اس کو اپنی طرف ملتفت کرنے کے لئے) چٹکی لیتی ہے اور اس کا ہاتھ کھینچتی ہے (مگر بد نصیب) اندها (الٹا) حیران ہے کہ مجھے کیوں تکلیف دیتی ہے۔
34
این کشاکش چیست بر دست و تنم خفتہ ام بگذار تا خوابی کنم
ترجمہ: (اور کہتا ہے کہ) میرے ہاتھ اور بدن پر یہ کیا کھینچا تانی ہو رہی ہے؟ میں تو سو رہا ہوں۔ مجھے چھوڑ تاکہ میں نیند لے لوں۔
35
آنکہ در خوابش ہمی جوئی ویست چشم بکشا کان مہِ نیکو پے ست
ترجمہ: (ارے اندھے!) جس (حور کا تو شائق ہے اور اس کے دیدار) کو تو خواب میں ڈھونڈتا ہے ذرا آنکھ کو تو کھول کہ وہی مبارک قدم چاند ہے۔ ( ان تمام مثالوں میں امتِ دعوت بلا اجابت کی حالت مذکور تھی۔ آگے امتِ اجابت کا ذکر بطور تفریع فرماتے ہیں:)
36
زان بلاہا بر عزيزان بیش بودکان تجّمش یار با خُوبان نمود
ترجمہ: اسی لئے (اللہ کے) پیاروں پر زیادہ بلائیں (آتی) ہیں کہ محبوب نے یہ چھیڑ چھاڑ اہل حسن کے ساتھ کی ہے۔
مطلب: جب معلوم ہوا کہ بندہ کا احکامِ شرع پر مکلّف کیا جانا گو نفس کو ناگوار ہو۔ مگر باعتبار نتائج و ثمرات کے ایسا پرلطف ہے جیسے کسی کو خود حور ہاتھ پکڑ کر کھینچے اور وہ ناگواری نفس کی ایسی ہے جیسے حور کا کھینچنا کسی اندھے کو ناگوار گزرے اور جس بنا پر احکامِ شرعیہ کی تکلیف پُر لطف ہے اسی بنا پر مصائبِ مقدر کا نزول بھی پُر مزہ ہے۔ تو صاف ظاہر ہے کہ اللہ کے نیک بندوں پر بلاؤں اور مصیبتوں کا نازل ہونا ان کی مقبولیت و محبوبیت کی علامت ہے۔ اس لئے انبیاء و اولیا پر سب سے زیادہ بلائیں آتی ہیں۔ حدیث میں ہے ’’اَشَدُّ النَّاسِ بَلَآءً الْاَنْبِیَاءُ ثُمَّ الْاَمثَلُ فَالْامْثَلُ‘‘ یعنی ”انبیا پر سب سے زیادہ بلائیں آتی ہیں اور پھر درجہ بدرجہ‘‘۔ تمیيز الطيب حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ نے انبیاء و اولیا کے سب سے زیادہ ہدفِ مصائب ہونے کی توجیہ خوب مدلل تحریر فرمائی ہے جو اس شرح کی جلد سیزدھم میں درج ہو چکی ہے۔ اسی مکتوب میں فرماتے ہیں:
’’بليات و محسن ہر چند نزدِ عوام از اسبابِ تالم ست اما نزد این بزرگواران ہر چہ از جمیلِ مطلق جل شانہٗ برسد از اسباب التلذذ شان ست از بلا ہا ہمہ لذت بگیرند کہ از نعماء بلکہ از بلاہا بیشتر محفوظ اند کہ خالص مرادِ محبوب ست و در نعما این خلوص نیست کہ نفس نیز خواہان نعما ست و گریزان از بلاہا۔ پس بلا بنزدِ این اکابر بہتر از نعمت بوده و التلذذِ ز ایشان از بلا بیش از نعمت باشد۔ حظے کہ ایشان را در دنياست از بلیات و مصائب ست اگر دنیا ایں نمناک نمیداشت نزد ایشان بجوے نمی ارزید و اگر این حلاوت در وے نمی بود، درنظر ِایشان عبث می نمود ‘‘
؎ غرض از عشقِ تو ام چاشنی درد و غم ستورنہ زیرِ فلک اسبابِ تیغم چہ کم ست
ترجمہ: بلائیں اور تکلیفیں ہر چند عوام کے نزدیک الم کے باعث ہیں مگر ان بزرگواروں کے نزدیک جو کچھ جمیلِ مطلق جل شانہٗ سے پہنچے وہ ان کی لذت کے اسباب سے ہے۔ وہ بلاؤں سے وہی مزے لیتے ہیں جو نعمتوں میں لے سکتے ہیں بلکہ وہ بلاؤں سے زیادہ لذت گیر ہیں کیونکہ وہ خالص مرادِ محبوب ہے اور نعمتوں میں یہ خلوص نہیں کیونکہ نفس بھی نعمتوں کا خواہاں اور بلا سے گریزاں ہے۔ پس بلا ان اکابر کے نزدیک نعمت سے بہتر ہوئی اور بلا سے ان کی لذت گیری نعمت سے بڑھ کر ہو گی جو حظ ان کو دنیا میں ہے، بلیات و مصائب سے ہے اگر دنیا میں یہ نمکینی نہ ہوتی تو ان کے نزدیک ایک جو کے برابر اس کی قدر نہ ہوتی اور اگر یہ شیرینی اس میں نہ ہوتی تو وہ ان کی نظر میں فضول تھی۔ ترجمہ شعر -
تیرے عشق سے میری غرض درد و غم کی چاشنی ہے ورنہ آسمان کے نیچے خوشحالی کے اسباب کچھ کم نہیں
(دفتر دوم مکتوب ۹۹)
37
لاغ با خوبان کند در ہر رہے نیز کوران را بشوراند گہے
ترجمہ: (اور) وہ (محبوب) اہل حسن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ تو ہر راہ (سلوک) میں کیا کرتا ہے (ہاں) کبھی (کبھی) وہ (محبوب بصیرت کے) اندھوں (منکروں) کو بھی (اس قسم کے سلوک) سے پریشان کر دیتا ہے۔
38
خویش یک دم بدین کوران دہد تا غریو از کوے کوران بر جہد
ترجمہ: (اس طرح کہ) اپنے آپ کو کسی (کسی) وقت ان اندھوں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے (جیسے کسی کی گردن ناپ لی، کسی کو لات مار دی، کسی کا ہاتھ کھینچ لیا) تاکہ اندھوں کے محلے سے شور بلند ہو جائے (کہ ارے یہ کون ہے کیوں دق کرتا ہے؟)
مطلب: خاصانِ خدا پر بکثرت بلائیں نازل ہونے کے ذکر پر یہ ایک شبہ پیدا ہوتا تھا کہ اگر نزولِ بلیات محبوبیت کی علامت ہے تو پھر محض کفار پر کیوں مصائب نازل ہوئی ہیں۔ ان دو شعروں میں اس کا جواب دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اکثر تو اللہ کے مقبول و محبوب بندوں پر ہی تکالیف و مصائب آتی ہیں اور کفار و فجار اکثر راحت و نعمت میں زندگی بسر کرتے ھیں۔ جس کو احادیث میں استدراج سے تعبیر کیا گیا ہے مگر کبھی کبھی کفار بھی نشانۂ بلیات ہو جاتے ہیں جس پر وہ صبر اور تسلیم و رضا کے فضائل سے عاری ہونے کے سبب سے ہائے وائے پکارنے اور کفریہ کلمات بکنے لگ جاتے ہیں اور حکمت اس میں یہ معلوم ہوتی ہے، کہ اگر کفر و فسق کے ساتھ ہمیشہ راحت و نعمت بمنزلۂ لازم ہوتی تو کوتاہ نظر عوام محض دنیوی راحت حاصل کرنے کے لئے اسلام کو چھوڑ کر کفر و فسق کی طرف مائل ہو جاتے اور سمجھتے کہ خداوند تعالیٰ اسی ملک پر خوش ہے۔ چنانچہ اب بھی کفار کی موجودہ خوشحالی کو دیکھ کر حالانکہ وہ کلی اور لازمی نہیں، بعض اچھے اچھے خوانده و فہمیدہ لوگ یہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ شاید اللہ میاں ہندوؤں سے بہت خوش ہے جو اس نے ان لوگوں کو مسلمانوں سے زیادہ خوشحالی اور زندگی کے ہر شعبے میں پوری کامیابی بخشی ہے۔ افسوس ان کو یہ معلوم نہیں کہ دنیا کی چند روزه خوشحالی کوئی حقیقی خوشحالی نہیں ’’لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَّا سَقٰی كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ‘‘ (ترمذی شریف، حدیث 2320) اگر وہ مشکوۃ شریف کی کتاب الرقاق یا مکتوبات مجددیہ کے وہ مقامات پڑھ لیتے جہاں اس قسم کے شبہات میں مبتلا ہو کر بعض اسلامی شاعروں نے شاعرانہ ناز و ادا سے خداوند تعالیٰ کے جناب میں کفار و مسلمین کے اس عدم توازن کا شکوہ بھی کیا ہے، مگر انہوں نے نہ حق تعالیٰ کی حکمتوں پر نظر کی، نہ دنیا کی حقیقت و منزلت کو سمجھا، نہ موجودہ مسلمانوں کے اعمال و احوال کو ملحوظ رکھا۔ اصل بات یہ ہے کہ دنیوی مصائب کے متعلق لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ تعلیماتِ شریعہ بآواز بلند ان کو سمجھا رہی ہے کہ تکالیف و مصائب ہمیشہ قہرِ الٰہی کا نتیجہ نہیں ہوتیں بلکہ جب احکامِ شرع کے اتباع اور اعمالِ صالحہ کی بجا آوری کے ساتھ ہوں تو رحمتِ الٰہی کی علامت ہے کہ خداوند تعالیٰ کو نازل کرنے سے بندے کا کفارۂ ذنوب اور ترقیِ درجات منظور ہے۔ جس کا بہت بڑا ثبوت اللہ کے محبوب ترین بندوں یعنی انبيا و مرسلین کے احوال سے ملتا ہے کہ ان پر کیا کیا مصیبتیں آئیں مگر جاہل لوگ جب طاعات و عبادات کے ساتھ مصائب کو جمع دیکھتے ہیں تو وہ انہی طاعات کو موجبِ قہر و عذاب سمجھنے لگتے ہیں اور طاعات سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ بلکہ بعض جاہلوں کو یہ صاف کہتے سنا ہے کہ نماز پڑھنا تو دکھ درد اور تنگی و فاقہ مول لینا ہے۔ جیسے ایک جاہل کا قصہ ہے کہ وہ پڑوسیوں کے کہنے سننے پر نماز پڑھنے لگا تو اتفاق سے اس کی ایک بکری مر گئی اس نے سمجھا کہ یہ نماز ہی کا اثر ہے اور نماز چھوڑ دی۔ لوگوں نے فہمائش کر کے پھر سے نماز پر آمادہ کیا تو اب بدقسمتی سے اس کا کوٹھا گر گیا اب پھر اس نے نماز ترک کر دی۔ لوگوں نے پھر سمجھایا کہ عبادت الٰہی نہ چھوڑنی چاہیے مجبور ہو کر اس نے پھر نماز شروع کی، تو چند روز کے بعد تقدیر سے اس کا بچہ انتقال کر گیا۔ اب اس کو یقین ہو گیا کہ یہ ساری مصیبتیں نماز کی وجہ سے نازل ہوئی ہیں اور اس نے آیندہ کے لئے مصمم ارادہ کر لیا کہ کبھی نماز نہ پڑھوں گا بلکہ جب کبھی گھر والوں سے کسی بات پر تکرار ہو جاتی تو ان کو یہ دھمکی دیتا کہ میں ابھی وضو کے لئے لوٹا لاتا ہوں، ابھی نماز پڑھتا ہوں اور تمہارا بندوبست کرتا ہوں۔ خیر یہ تو ایک جعلی قصہ ہو گا۔ ہمارے یہاں کا ایک سچا واقعہ ہے کہ تین بھائی محرم میں تعزیہ نکالا کرتے تھے ان کو اس شرک و بدعت سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی تو انہوں نے نصیحت قبول کی اور اچھے نیک مسلمان تارکِ بدعت و پابند صوم و صلوة بن گئے۔ تقدیر الٰہی سے ایک سال وبائے طاعون کا زور ہوا تو بڑا بھائی اس مرض میں انتقال کر گیا۔ چند سال بعد اسی وبا میں باقی دونوں بھائی بھی یکے بعد دیگرے جان بحق تسلیم ہو گئے۔ ان کی بیوہ عورتیں اور یتیم بچے نہایت افلاس و خستہ حالی کو پہنچ گئے۔ عورتوں کو یہ وسوسہ گزرا کہ یہ ساری مصیبت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ناراضگی سے نازل ہوئی ہے جن کا تعزیہ نکالنا ہم نے بند کر دیا تھا۔ آخر ان لوگوں نے پھر یہ بند شده بدعت جاری کر دی ان لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ تعزیہ داری حرام بلکہ قریب بکفر ہے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ جب ان تین بھائیوں نے اس کفریہ کام سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ ضرور ان سے خوش ہوا مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کا کچھ تکالیف کے ساتھ امتحان لیا کرتا ہے تاکہ ثابت اور ظاہر ہو جائے کہ وہ بندے اپنی نیکی، اپنی توبہ، اپنے ایمان اور اپنی پرہیز گاری پر ثابت قدم ہیں یا نہیں۔ بس تمہاری یہ مصیبت امام حسین کی ناراضگی کا نتیجہ ہرگز نہیں ان کی ناراضگی کا نتیجہ تو جب ہوتی کہ امام ممدوح نے اپنا تعزیہ نکالنے کا حکم فرمایا ہوتا اور پھر تعزیہ نکالنا ان کی حکم عدولی قرار پاتی۔ حالانکہ یہ تمام افعال حضرت امام کے مسلک کے خلاف ہیں اور یہ بدعات ان سے کئی صدی بعد رائج ہوئی ہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر امتحان تھا۔ سو تینوں بھائی اس امتحان میں کامیاب رہے۔ انہوں نے اپنی توبہ پر قدم مضبوطی سے جمائے رکھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کی موت بخشی اور انشاء الله تعالیٰ اب وہ الله تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے زیر سایہ بہشتی لطف اٹھا رہے ہیں اور تم لوگ اس امتحان میں فیل ہو گئے اور اس بدعت کی زائل شده گندگی میں پھر آلودہ ہو گئے۔ مصیبت ایک آگ تھی جس کی تپش نے کھرے اور کھوٹے سونے کو الگ الگ دکھا دیا۔ غرض اس قسم کی نصیحتیں کی جاتی ہیں مگر چونکہ وہ لوگ اغوائے شیطان کی سخت گرفت میں ہیں اس لئے ان پر ان نصیحتوں کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔
یہاں تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا قصہ تھا آگے حضرت ہلال رضی اللہ عنہ کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ وجہِ مناسبت دونوں قصوں کی ایک ہی ہے یعنی قصہ بلال سے اوپر فرمایا تھا ’’تاجرانِ انبیا راکن سند‘‘ الخ اور ان ’’تاجران‘‘ سے طالبانِ حق مراد تھے جن کو انبیا علیہم السلام نے تجارتِ اعمال حسنہ کا طریقہ سکھایا تھا۔ ان تاجروں میں سے ایک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے ان ہی میں سے ایک ہلال رضی اللہ عنہ ہیں کہ وہ بھی اپنے آقا کی خدمت میں مشغول ہونے کے با وجود طاعتِ حق بجا لانے میں سرگرم رہتے تھے۔