دفتر ششم: حکایت: 31
خندیدنِ یُہودی و پنداشِتن آنکہ صدیق رضی اللہ عنہ مغبون ست و ندانستِن بہائے بلال
یہودی کا ہنسنا اور یہ گمان کرنا کہ صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سودے میں نقصان اٹھایا اور بلال رضی اللہ عنہ کی قیمت کو نہ سمجھنا
1
منعقد چُون گشت بیع اندر میان یافت ایجاب و قبولِ ہر دو آن
ترجمہ: جب (دونوں کے) درمیان سودا طے ہو گیا (اور) ان دونوں کا ایجاب و قبول (انعقاد) پا گیا۔
2
قہقہہ زد آن جُہودِ سنگ دل از سرِ افسوس و طنز و غشّ و غِل
ترجمہ: (تو) اس تنگ دل کافر نے تمسخر اور طنز اور مکر و فریب کے طریق سے قہقہہ مارا۔
3
گفت صدیقش کہ این خندہ چہ بود در جوابِ پرسشِ او خنده فزُود
ترجمہ: حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا یہ ہنسی کیسی تھی؟ اس استفسار کے جواب میں وہ اور زیادہ ہنسنے لگا (یہ مزید ہنسی اس بات پر تھی کہ یہ میرے ہنسنے کی وجہ نہیں سمجھے)۔
4
گفت اگر جِّدت نبودے و اہتمامدر خریداریِّ این اسود غلام
5
من ز استیزه نمی افروختم خود بَعُشرِ اینش می بفروختم
ترجمہ: (آخر) وہ (خود) بتانے لگا کہ (اے ابوبکر!) اگر اس حبشی غلام کی خریداری میں تمہاری یہ کوشش اور دلچسپی نہ ہوتی تو میں تکرار میں سرگرم نہ ہوتا (بلکہ) اس قیمت کے دسویں حصے پر ہی فروخت کر ڈالتا۔
6
کہ بنزدِ من نیرزد نیم دانگ تو گران کردی بہایش را ببانگ
مطلب: جو میرے نزدیک ادھنی بھر قیمت کے لائق نہیں (مگر) تم نے چلا چلا کر اس کی قیمت بڑھا دی (یعنی حضرت صدیق رضی اللہ عنہ اس کی حمایت میں جو بآوازِ بلند بولے تو اس سے کافر کو خیال ہوا کہ وہ اس کو ہر قیمت پر خرید لیں گے)۔
7
پس جوابش داد صدیقؓ اے غبی گوہرے دادی بجوزے چُون صبی
ترجمہ: تو حضرت صدیق رضی الله عنہ نے اس کو جواب دیا کہ اے کودن! (تو اس وجودِ گرامی کی قیمت کو کیا سمجھے) تو نے (ایک نادان) بچے کی طرح (بڑا قیمتی) موتی ایک اخروٹ کے عوض میں دے ڈالا (گوہرے کی یا تفخیم کے لئے ہے)۔
8
کو بنزدِ من ہمی ارزد دو کَون من بجانش ناظرستم تو بلَون
ترجمہ: جو میرے نزدیک دونوں جہانوں کے برابر قیمت رکھتا ہے کیونکہ میں اس کی (گرانمایہ) روح کو دیکھتا ہوں (اور) تو (اس کے بدنما ) رنگ کو (دیکھتا ہے)۔
9
زرِّ سرخ ست و سیہ تاب آمده از برائے رشکِ این احمق کده
ترجمہ: (حقیقت میں یہ) طلائے سرخ (کی طرح گراں قیمت) اور اس مورکھ نگری کے حسد کی وجہ سے ان کا رنگ کالا ہے۔
مطلب : طلائے سرخ سب سے زیادہ نفیس اور قیمتی سونا ہوتا ہے طلا کے ٹکڑوں کو چوروں سے محفوظ رکھنے کے لئے ان پر سیاہ روغن کر دیتے ہیں تاکہ وہ ان کو لوہا وغیرہ سمجھ کر چھوڑ جائیں۔ مولانا، حضرت صدیق رضی الله عنہ کی زبان سے شاعرانہ تخیل میں فرماتے ہیں کہ اس گراں مایہ وجود کو قدرت نے سیاہ فام و بدنما اس لئے بنا دیا کہ حاسد لوگ ان کی خوبی سے آگاہ ہو کر درپے ایذا نہ ہوں۔ صائبؒ ؎
گر چہ سیمائے خزان دارد رخ چون زر مرا در سوادِ دل بہائے ہست چون عنبر مرا
10
دیدۂ این ہفت رنگِ جسمہا در نیابد زین نقاب آن رُوح را
ترجمہ: ان گوناگوں رنگوں کے جسموں کی (نظاره کن) آنکھ اس (سیاه فام) نقاب سے اس روح کا ادراک نہیں کر سکتی۔
صائب
جمعے کہ باین نقش و نگارند نظر باز محروم ز رخسارۂ بے پردۂ یارند
11
گر مَکیسی کردۂ در بیع بیش دادمے من جُملہ مال و ملکِ خویش
مطلب: اگر تو سودے میں (اس سے بھی) زیادہ تنگی کرتا (تو بھی میں ہر قیمت پر اس کو خرید لیتا حتیٰ کہ) میں اپنا تمام مال و املاک دے ڈالتا۔
انتباہ: کلید مثنوی کے متن میں ’’کردۂ‘‘ کے بجائے ’’کردیئے‘‘ بصیغہ ماضی تمنائی درج ہے اور یہ مقام بھی اسی صیغہ کا داعی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ فارسی تصریف میں ماضی تمنائی کا صیغۂ مخاطب نہیں آتا۔ قلمی نسخے میں اور منہج القوی کے متن اور بحرالعلوم کے متن میں کردۂ درج ہے اور منہج القوی میں اس کا ترجمہ بصیغہ ماضی تمنائی مخاطب کیا ہے۔
12
در مُکیس افزودۂ من ز اہتمام دامنے زر کردمے از غیر دام
ترجمہ: اور اگر (اس پر بھی) تو قیمت زیادہ کر دیتا تو میں ہمت سے (کام لے کر) دامن بھر سونا کسی اور سے قرض لیتا (اور تجھ کو دیتا)۔
13
سہل دادی زانکہ ارزان یافتی دُرّ ندیدی حُقّہ را نشگافتی
ترجمہ: تو نے (ان کو) ارزان دے ڈالا کیونکہ تو نے ارزاں پایا (اندر سے) موتی نہیں دیکھا (اس لئے کہ) ڈبیہ کو کھولا نہیں (پھر موتی کیونکر نظر آتا)۔
14
حُقّہ سر بستہ جہلِ تو بداد زُود بینی کہ چہ غبنت اوفتاد
ترجمہ: تیری نادانی نے بند کی بند ڈبیہ دے ڈالی۔ عنقریب تجھے معلوم ہو جائے گا کہ تجھے کس قدر نقصان ہوا۔ (یعنی مرنے کے بعد معلوم ہو گا کہ میں نے ایک مقبول بندے کو نا حق دکھ دیا اور گناہ کمایا۔ پھر اس کو بے قدری کے ساتھ بیچ ڈالا اور سعادت معیت کا موقع ہاتھ سے کھویا)۔
15
حُقّۂ پُر لعل را دادی بباد ہمچُو زنگی در سیَہ روئی تو شاد
ترجمہ: لعل سے بھرے ہوئے ڈبے کو تو نے برباد کر دیا (اور) زنگی کی طرح تو (نامرادی کی) سیَہ روئی میں خوش ہے۔
16
عاقبت واحسرتا گوئی بسے بخت و دولت را فروشد خود کسے
ترجمہ: (مگر) انجام میں بہت حسرت مندی ظاہر کرے گا۔ (بھلا) کوئی بخت و دولت کو بھی بیچتا ہے؟
17
بخت با جامہ غلامانہ رسید چشمِ بدبختت بجز ظاہر ندید
ترجمہ: (وہ) بخت (بلند) غلامانہ لباس میں (تیرے پاس) پہنچا مگر تیری بد بخت آنکھ نے سوائے ظاہر کے کچھ نہ دیکھا۔
جامیؒ ؎
طعنہ بر من مزن بصورتِ زشت اے تہی از فضیلت و انصاف
تن بود چون غلافِ جان شمشیر کار شمشیرمے کند نہ غلاف
18
او نمودت بندگیِ خویشتن خوئے زِشتت کرد با او مکر و فن
ترجمہ: اس (بخت بلند) نے تجھ کو اپنی (صرف) غلامی دکھائی۔ (اسں کے کمالات تجھ پر مخفی رہے اس لئے) تیری بری خصلت نے اس کے ساتھ مکر و فریب کیا۔
19
این سیہ اسرار، تن اسپید را بُت پرستانہ بگیر اے ژاژ خا
ترجمہ: اے بیہودہ گو! (اب اس بخت بلند کے بجائے) اس سیاه باطن و سفید تن غلام کو بت پرست کی طرح لے (اور بت کی طرح اس کی پوجا کیا کر)۔
20
این ترا و آن مرا بُردیم سُود ہین لَكُمْ دِيْن وَّلِیَ دِیْن اے جہود
ترجمہ: یہ (غلام) تیرا (ہو گیا) اور وہ (بلال) میرا ہو گیا (اور) ہم دونوں نے (اپنے اپنے زعم میں) فائدہ اٹھا لیا۔ ہاں اے کافر! تجھ کو تیرا دین مبارک ہو اور مجھ کو میرا دین۔ آیہ﴿لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنُ﴾ (الکفرون: 6)
21
خود سزائے بت پرستان آن بودجُلّش اطلس اسپِ او چوبین بود
ترجمہ: (اور) بت پرستوں کی سزا یہی ہوتی ہے کہ اس (کے گھوڑے) کی جھول اطلس کی (اور) اس کا گھوڑا لکڑی کا ہوتا ہے (بت پرست جو بت کی ظاہری صورت کا پرستار اور اس کے باطن سے بے پروا ہوتا ہے، اسی قابل ہے کہ اس کو وہی چیز ملے جو ظاہراً آراستہ اور باطناً ناکارہ ہو)۔
22
ہمچو گورِ کافران پُر دود و نار وز برون بربستہ صد نقش و نگار
ترجمہ: جیسے کافروں کی قبر (اندر سے عذاب کے) دھوئیں اور آگ سے لبریز ہے اور باہر سے سینکڑوں نقش و نگار کئے ہوئے ہیں۔
23
ہمچو مالِ ظالمان بیرون جمال وز درونش خونِ مظلوم و وبال
ترجمہ: جیسے ظالموں کا مال باہر سے (پُر) جمال (ہے) اور اس کے اندر سے خونِ مظلوم (رنگ لا رہا ہے) اور وبال نازل ہے۔
مطلب: ہمارے ملک کے سود خوروں پر یہ بات خوب صادق آتی ہے ان کے کاغذات کو دیکھو تو نیرنگِ دولت کے مرقع ہیں، قلم کی ادنٰی حرکت سے سونا چاندی کے سکے ڈھلتے چلے گئے ہیں مگر چشمِ بصیرت دیکھتی ہے کہ اس انبارِ زر کے نیچے بے شمار مظلوموں کی لاشیں تڑپ رہی ہیں۔ بہت سی بے کس بیواؤں کی آہ پُر درد آٹھ رہی ہیں۔ صدہا یتیموں کا نالہ جانسوز عرش تک کو ہلا رہا ہے۔ آخر اس کا انجام جو کچھ ہوتا ہے وہ یہی دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے اگر بزود نہیں تو بدیر سہی۔ بقولے کہ خدا کی عدالت میں دیر ہے اندھیر نہیں۔
بر ضعیفاں ظلم کردن ظلم بر خود کردن است شعلہ ہم بے بال و پر شد تا خس و خاشاک سوخت
24
چون منافق از برون صوم و صلوٰة وز درون خاکِ سیاہِ بے ثبات
ترجمہ: جیسے منافق (کہ اس کے اعمال) باہر سے صوم و صلوٰۃ کی (صورت رکھتے ہیں) اور اندر سے (اخلاصِ نیت کے نہ ہونے سے) خاکِ سیاه (اور صحتِ عقیدہ نہ ہونے سے) بے اصل ہیں (عمل کی جڑ عقیدہ ہے اور اس کی بنیاد خلوص پر ہے)۔
25
ہمچو ابر خالی پر قرّ و قر نے درو نفعِ زمین نے قوتِ بر
ترجمہ: جیسے خالی بادل جو گڑگڑ سے پُر ہے۔ نہ اس میں زمین کا فائدہ ہے (اور) نہ پھل کی غذا۔
26
ہمچو وعدۂ مکر و گفتارِ دروغ آخرش رہوا و اوّل با فروغ
ترجمہ: جیسے فریب (دینے والے) کا وعدہ اور جھوٹی بات (کہ) اس کا انجام بد نام اور آغاز پر رونق (ہوتا ہے)۔
27
بعد ازان بگرفت او دستِ بلالؓآن ز زخمِ دست محنت چون خِلال
ترجمہ: اس کے بعد انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور (حالت ان کی یہ تھی کہ) وہ مصیبت کے ہاتھوں زخم (کھانے) سے خِلال کی طرح (باریک و لاغر ہو رہے تھے)۔
28
شد خِلالے در دہانے راه یافتجانبِ شیرین زبانے شتافت
ترجمہ: (مگر یہ بات اللہ نے ان کے لئے مبارک کردی کہ) وہ خلال بن گئے (اور خلال نے) ایک منہ میں راستہ پایا (جو ایک محل شریف ہے) وہ (خلال) ایک شیریں زبان (ہستی) کی طرف چلا جا رہا تھا۔
مطلب: خلال سے دانتوں کو غذا کے ذروں سے صاف کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اس سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حالت کے لئے استعارہ لیا ہے یعنی وہ اپنے اسلام و ایمان کے باعث اذیت سہتے سہتے لاغر ہو گئے، تو اس صبر و تحمل کی بدولت ان کو رسول الله ﷺ کی دولتِ صحبت نصیب ہو گئی۔
29
آوریش تا بننردِ آن رسول ﷺکہ بجانِ او کرده بُد دینش قبول
ترجمہ: (غرض حضرت صدیق رضی الله عنہ) ان کو رسول الله ﷺ کے حضور میں لائے کیونکہ انہوں نے (دل و) جان سے آپ کا دین قبول کیا تھا۔
30
چون بدید آن خستہ، روئے مصطفیٰخَرَّ مَغْشِيًا فتاد او برقِفا
ترجمہ: جب ان خستہ (حال) بلال رضی اللہ عنہ نے مصطفی ﷺ کا چہرہ (مبارک) دیکھا تو وہ غش کھا کر گرے (اور) پشت کے بل جا پڑے۔
31
تا بدیرے بیخود و بیخویش ماندچون بخویش آمد بشادی اشک راند
ترجمہ: وہ دیر تک بے خود اور بے ہوش رہے جب ہوش میں آئے تو (فرطِ) خوشی سے آنسو بہانے لگے۔
32
مصطفی ﷺ اش در کنارِ خود کشید کس چہ داند بخششے کو را رسید
ترجمہ: مصطفی ﷺ نے ان کو اپنی آغوش (مبارک) میں لے ليا اس عنایت کو کوئی کیا جانے جو (اس وقت) ان کو (آپ کے قرب اور توجہ کی بدولت) پہنچی (آگے اس کی چند مثالیں ارشاد ہیں):
33
چون بود مِسّے کہ بر اکسیر زد مفلسے برگنجِ پُر توقیر زد
ترجمہ: (تم خود قیاس کر لو کہ) اس تانبے کی کیا کیفیت ہو گی جو اکسیر کے ساتھ چھو گیا (گویا) کوئی مفلس ایک بھر پور خزانے پر جا پہنچا۔
34
ماہی پژمرده در بحر اوفتاد کاروانِ گم شده زد بر رشاد
ترجمہ: (يا) ایک ادھ موئی مچھلی دریا میں جا پڑی (یا) ایک راہ بھول جانے والا قافلہ صحیح راستے پر پہنچ گیا (یہ فیض تو حضور ﷺ کے قرب سے حاصل ہوا آگے ان برکات کا ذکر ہے جو آپ کے کلمات مبارکہ سے حاصل ہوئیں)۔
35
آن خطابات کہ گفت آندم نبی ﷺگر زند بر شب بر آید از شبی
ترجمہ: وہ ارشادات جو اس وقت نبی ﷺ نے (بلال رضی اللہ عنہ سے) فرمائے (نورانیت بخشنے میں اس قدر مؤثر ہیں کہ) اگر شب پر واقع ہوں تو وہ شب کی صفت سے نکل جائے۔
36
روزِ روشن گردد آن شب چون صباح من نتانم باز گفت آن اصطلاح
ترجمہ: (اور) وہ شب صبح کی طرح روزِ روشن ہو جائے میں اس اصطلاح کو بیان نہیں کر سکتا۔
مطلب: ’’شب‘‘ سے مراد یہ متعارف رات نہیں جو دن کے بعد آتی ہے بلکہ وہ قلب مراد ہے جو جہل و گمراہی سے تاریک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اقوالِ طیبہ کو سنے تو بمجرد استماع اس کا دل بشرطیکہ عناد و نفرت سے خالی ہو ان پرعمل کرنے سے پہلے ہی منور ہو جائے، کیونکہ شوقِ عمل اسی نور سے پیدا ہوتا ہے جیسے کہ اکثر اہلِ حق کی مجالس میں اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ اثر ان اقوال میں بطریقِ دلالتِ الفاظ تو ہوتا نہیں۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ الفاظ کی دلالت مدلولاتِ لغویہ و اصلاحیہ پر ہوتی ہے ان آثارِ مذکورہ پر نہیں ہوتی۔ اس لئے میں اس اصطلاح کو جس کے ذریعہ سے ان اقوال پر یہ آثار مرتب ہوتے ہیں، بیان نہیں کر سکتا۔ اگر بیان کیا جائے تو سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ان آثار کے ترتب کا واسطہ صاحبِ اقوال کی قوتِ باطنیہ سے ہے۔ خواہ اس کے استعمال کا وہ خود قصد کرے جس کو تصرف و ہمت کہتے ہیں یا بلا اس کے قصد کے اثر کا ہو اس کو برکت و کرامت سے تعبیر کرنا مناسب ہے اور اس قوتِ باطنیہ کا فعل وجدان سے ادراک ہوتا ہے اور وجدانیات کی تعبير الفاظ سے کافی طور پر نہیں ہوتی۔ (کلید) اس تاثیرِ باطن بلا تکلم کو صاف صاف بیان فرمانے سے عذر کرنے کے بعد اب چند مثالوں میں مجازاً و استعارةً بتاتے ہیں۔
37
خود تو دانی کافتاب اندر حَمَل تا چہ گوید با نبات و با دقَل
ترجمہ: خود تم جانتے ہو کہ آفتاب (برج) میں (جا کر) نباتات اور کھجور سے کیا کچھ کہہ دیتا ہے (یعنی کچھ نہیں بولتا تاہم وہ اس کی توجہ سے ہری بھری ہو جاتی ہیں ایامِ بہار میں آفتاب برجِ حمل میں ہوتا ہے۔ جب کہ نباتات تری و تازگی پاتی ہیں اور پھل پکتے ہیں)۔
38
خود تو دانی ہم کہ آن آبِ زُلال می چہ گوید با ریاحین و نہال
ترجمہ: تم خود (یہ بھی) جانتے ہو کہ وہ آبِ زلال پھولوں اور بوٹوں سے کیا کہہ دیتا ہے (کچھ بھی نہیں مگر وہ اس کے آتے ہی تازه و شاداب ہو جاتے ہیں)۔
39
صنعِ حق با جملہ اجزاۓ جہان چون دم و حروف ست از افسون گران
ترجمہ: (اسی طرح) حق تعالیٰ کی صنعت تمام اجزائے جہان کے ساتھ (تاثیر میں) پھونک مارنے اور الفاظ پڑھنے کی مانند ہے (جو) ساحروں سے (وقوع) پاتے ہیں (اور یہی تاثیر اس قسم کی ہے جس میں تکلم بالخطاب نہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں):
40
جذبِ یزدان با اثرہا و سببصد سخن گوید نہان بے حرف و لب
ترجمہ: (دیکھو) حضرتِ حق کی کشش آثار و اسباب کے ساتھ حرف و لب کے بدوں صدہا مخفی باتیں کرتی ہے۔
مطلب: ’’حرف و لب‘‘ کنایہ ہے تکلیم سے۔ یعنی حق تعالیٰ کا اسباب کو پیدا کرنا اور ان اسباب پر آثار کو مرتب کرنا کلام فرمانے پر موقوف نہیں اور گو بعض يا كل اشیا کی ایجاد میں یہ کلمہ کن فرمانا عادت اللہ میں داخل ہے اور وہ بھی حرف و صوت سے منزہ ہے لیکن ایجادِ اشیا اس پر بھی موقوف نہیں۔ آگے ایک اعتراض کا جواب ارشاد ہے جو ان دونوں شعروں کے مضمون پر وارد ہوتا ہے۔
41
نے کہ تاثیر از قدر معمولی نیست لیک تاثیرش ازو معقول نیست
ترجمہ: یہ (بات تو) نہیں کہ (اسباب کی) تاثیر (حق تعالیٰ کی) قدرت (و اختیار) سے پیدا نہیں ہوتی (اس سے پیدا تو ہوتی ہے) لیکن (یہ بات ضرور ہے کہ) ان (اسباب) کی تاثیر (کا) اس (قدرت و اختیار) سے (پیدا ہونا عام لوگوں کی) عقل سے باہر ہے (ہاں خواص کے لئے اس کا سمجھنا محال نہیں)۔
مطلب: وہ اعتراض فاعلِ مختار کو ماننے پر ہے اور وہ فلاسفہ کی طرف سے وارد کیا جاتا ہے جو اس کے منکر ہیں۔ اعتراض کی تقریر یہ ہے کہ تم جو حوادث کو فاعل بالارادہ کی طرف منسوب کرتے ہو جیسے کہ ان اشعار کے مضمون سے ظاہر ہے اور اسباب کے آثار میں بالذات موثر ہونے کا انکار کرتے ہو۔ یہ عقلاً محال ہے کیونکہ حادث کے ساتھ ارادہ کا تعلق اگر قائم ہے تو حادث کا قدیم ہونا لازم آتا ہے اور یہ خلافِ مسلمات ہے اور اگر حدیث ہے تو اس حادث کے تعلق میں گفتگو ہو گی۔ پھر اس کے ساتھ بھی ایک تعلقِ ارادہ کی ضرورت ہو گی اور جب وہ بھی حادث ہو گا تو پھر اس کے لئے بھی ایک متعلق الارادہ ضروری ہو گا۔ اسی طرح غیر متناہی سلسلہ چلا جائے گا اور اگر ان تعلقوں میں سے کسی تعلق کو قدیم کہو گے تو اوّلًا اس کے معلول اور پھر اس کے واسطے سے اس کے معلول کا اسی طرح تمام سلسلۂ حوادث کا قدیم ہونا لازم آئے گا۔ یہ بھی خلافِ مسلمات ہے جب فاعل بالاختيار و الارادہ کا عقیدہ ثابت نہ ہوا تو فاعل بالاضطرار ثابت ہوا اور ایسا فاعل آئے گا۔ یہ بھی خلافت مسمات ہے جب فاعل بالاختيار والارادہ کا عقیدہ ثابت نہ ہوا اور ایسا فاعل ہر چیز کی صورتِ نوعیہ ہے۔
اس اعتراض کا جواب متکلمین و محققین کے اصول پر یہ ہے کہ ارادہ کا تعلق حادث ہے قدیم نہیں مگر خود اس تعلق کو مستقل ایجاد کی ضرورت نہیں کہ اس کو پیدا کر کے پھر کسی حادث کے ساتھ وابستہ کیا جائے۔ بلکہ تعلق ایک امرِ اضافی ہے جس میں کسی حادث کے عدمِ سابق پر وجودِ لاحق کو باختیارِ خود ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی کا نام تعلق کا احداث ہے حقیقت میں تو احداث اس حادث کا ہوتا ہے نہ کہ تعلق کا۔ اسی حادث کے احداث کو تعلق بالارادہ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ یہ کوئی جدا چیز نہیں ہے۔ پس حادث کا احداث اس تعلق کا بھی احداث ہے یعنی ارادہ سے صرف حادث کو بنایا ہے۔ حادث کو ارادہ سے بنانا اسی کو حادث کے ساتھ ارادہ کا تعلق کہہ دیتے ہیں۔ پس اس میں تسلسل لازم نہیں آتا۔ مولانا نے اسی قسم کا تفصیلی جواب دینا غیر ضروری سمجھ کر ایک مختصر جواب دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حکما کا اس کو محال کہنا تو غلط ہے البتہ عامہ عقول کو اس تاثیرِ اختیار کی کیفیت کا ادراک نہیں ہوتا۔ پس جب تمہاری عقل عامی ہے تو اس کی کیفیت کو تحقیق کے ساتھ ادراک کرنے کے درپے نہ ہو بلکہ محققین کی تقلید کر لو اور یہ سمجھ لو کہ:
42
چون مقلّد بود عقل اندر اُصُول دان مقلِّد در فروعش اے فضول
ترجمہ: جب (تمہاری) عقل (خود) اصول (یعنی ذات و صفاتِ حق) میں مقلد ہے تو اے فضول! (بحث کرنے والے) تم اس (عقل) کو فروع (یعنی افعالِ حق) میں (بھی) مقلد سمجھو (ذات و صفاتِ حق، افعالِ حق کے اصول ہیں عوام کو حق کی ذات و صفات پر دلیل قائم کرنے کی مطلق قدرت نہیں وہ اس پر محض تقلیدِ انبیا علیھم السلام سے یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح افعالِ حق پر بھی تقلیداً یقین رکھنا چاہیے)۔
43
گر بپُرسد عقل چون باشد مرامگو چنانکہ تو ندانی وَالسَّلام
ترجمہ: (پس) اگر تمہاری عقل (بتقاضاۓ وسوسہ) پوچھے کہ یہ (اسباب و آثار ہیں بالاختیار تاثیر کرنے کا) مسئلہ کس طرح ہے تو کہو وہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کو تو نہیں جانتی۔ والسلام - حافظؒ ؎
در کارخانہ ای کہ رہِ علم و عقل نیست وہمِ ضعیف رائے فضولے چرا کند