دفتر 6 حکایت 30: جناب مصطفی ﷺ کا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خریدنے کا کام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سپرد کرنا



توکیل کردنِ مُصطفٰی ﷺ ابُوبکر جہتِ بیعِ بلال

جناب مصطفی ﷺ کا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خریدنے کا کام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سپرد کرنا


1

مصطفٰے زین قصہ چون گُل بر شگفت  رغبت افزُون گشت او را ہم بگفت

ترجمہ: جناب مصطفی ﷺ اس سر گذشت (کے سننے) سے پھول کی طرح شگفتہ ہو گئے (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو عرض کرنے کی رغبت اور زیادہ ہوئی (اگر چہ ایک مومن کا کفار کے ہاتھ سے یوں عذاب پانا ہر سننے والے کے لئے ملال و انقباض کا باعث ہے۔ مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قوتِ ایمان ان کے جوش اور ان کے صبر و استقلال کا پہلو اس قصّے میں اس قدر طمانیت بخش ہے کہ حضور ﷺ کی طبعِ مبارک کو بجائے انقباض کے انشراح حاصل ہوا)۔

2

مستمع چون یافت ہمچون مصطفٰے  ہر سرِ مویش زبانے شُد جدا

ترجمہ: جب انھوں نے مصطفی ﷺ (جیسی عالی پایہ ہستی) کو سامع پایا تو (شوقِ تکلم میں) ہر ہر بال کا سرا ایک مستقل زبان بن گیا۔

3

مصطفٰیؐ فرمود کہ اکنون چارہ چیست  گفت این بنده مر اُو را مشتری ست

ترجمہ: مصطفى ﷺ نے (یہ قصہ سن کر) فرمایا کہ اب کیا تدبیر ہے؟ انہوں نے عرض کیا یہ بندہ ان کا خریدار ہے۔

4

ہر بہا کہ گوید او را می خَرم در زیان و حَيف ظاہر ننگرم

ترجمہ: جو قیمت وہ شخص (جو ان کا آقا ہے) کہے گا میں (وہی ادا کر کے) ان کو خرید لوں گا (اس سودے کے) ظاہری خسارہ اور (بچنے والے کی) بے انصافی کو میں نہیں دیکھوں گا (اس لئے کہ میری نظر اس سودے کے معنوی فائدے پر ہے)۔

5

کو اَسِیْرُ اللّٰهِ فِیْ الْاَرْضِ آمده است  سخرهٔ خشم عدو لله شده است

ترجمہ: (معنوی فائدہ یہ ہے) کہ وہ (غریب اس سر) زمین میں اللہ کی محبت) کے قیدی ہیں (اور) اللہ کے (ایک) دشمن کے غضب میں گرفتار ہیں (تو ان کو رہائی دلانا بہت بڑا باعث اجر ہوگا۔ فی الارض میں شاید یہ اشارہ ہو کہ ایک باشندۂ حبش مکہ میں آ کر عشقِ حق میں گرفتار ہوا ہے)۔

6

مصطفٰےؐ فرمود کاے اقبال جُو  اندرین من می شوم انبازِ تو

ترجمہ: مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ اے طالبِ اقبال (اس خریداری) میں (بھی) تمہارے ساتھ شریک ہوتا ہوں۔

7

 تو وکیلم باش و نیمے بہرِ من  مشتری شَو قبض کُن از من ثمن

ترجمہ: تم میرے وکیل بن جاؤ اور (ان کے رقبہ کا) آدھا حصہ میرے لئے خرید لو (اور) مجھ سے اس کی قیمت لے لو۔

8

گفت صد خدمت کنم رفت آن زمان  سُوۓ خانہ آن جُہودِ بے امان

ترجمہ: انہوں نے عرض کیا میں سو (جان سے اس) خدمت (کو) بجا لاؤں گا (پھر) اسی وقت اس بے پناہ کافر کے گھر کی طرف چلے (یعنی اس کافر سے مسلمانوں کو امن نہ تھا یا اس کو عذاب الٰہی سے امن نہیں ملے گا)۔

9

گفت با خود کز کفِ طفلان گُہر  بس توان آسان خریدن اے پسر

ترجمہ: (اور) اپنے دل میں کہنے لگے اے بیٹا! بچوں کے ہاتھ سے موتی خرید لینا بہت آسان ہے (کیونکہ وہ اس کی قدر و قیمت نہیں جانتے)۔

10

عقل و ایمان را ازین قومِ جُہول  مے خرد با ملکِ دُنیا دیوِ غُول

ترجمہ: (اور ان لوگوں کی نا قدر شناسی کا یہ حال ہے کہ) شیطان ان بے وقوف لوگوں سے عقل و ایمان کو مِلک دنیا کے عوض میں خرید لیتا ہے (یعنی وہ شیطان کے بہکانے سے حصولِ دنیا کے خلاف عقلِ معاد اور خلافِ دین کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے اور ان کو اتنی تمیز نہیں کہ ہم نے کس حقیر چیز کی طمع میں کیسی عالی قدر چیز کو کھویا ہے۔)


11

آن چُنان زینت دہد مُردار را  که خرد زیشان دو صد گلزار را

ترجمہ: وہ مردار (دنيا) کو (ان کی نظر میں) اس طرح مزیّن کر کے (پیش) کرتا ہے کہ وہ اس کے مشتاق ہو جاتے ہیں اور پھر اس کے عوض میں ان سے (عقل و ایمان کے) دو سو باغ خرید لیتا ہے۔

12

آن چنان مہتاب بنماید بسحر  کز خسان صد کیسہ برباید بسحر

ترجمہ: وہ جادو (کے زور) سے کچھ اس طرح چاند کی روشنی دکھاتا ہے کہ (وہ سفید کپڑے کا تھان نظر آتی ہے حتّٰی کہ اس) شعبدہ بازی سے ان لوگوں سے سو تھیلیاں (نقد زر کی) اڑا لے جاتا ہے (مشہور ہے کہ بعض شعبده باز اس قسم کی ٹھگی کرتے ہیں)۔

13

انبیا شان تاجری آموختند  پیشِ ایشاں شمعِ دین افروختند

ترجمہ: انبیا علیہم السلام نے ان (بد نصیب لوگوں) کو (نیکی کی) تجارت سکھائی تھی اور ان کے سامنے دین کی شمع روشن فرمائی تھی (تاکہ اس کی روشنی میں نیکی کی تجارت کا راستہ معلوم کریں)۔ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنجِيْكُم مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ (الصّف: 10)

14

دیو و غول و ساحر از سحر و نبرد  انبیا را در نظر شان زشت کرد

ترجمہ: (مگر) شیطان اور کافر جن اور (گمراہی کا) جادو کرنے والے (انسانوں) نے جادو سے اور مخالفت سے انبیا علیہم السلام کو ان کی نظر میں قبیح بنا دیا۔

مطلب: اس سے ظاہر ہے کہ لوگوں کو صراط مستقیم سے گمراہ کرتے ہیں۔ شیطان کے علاوہ بہت سے شیطان سیرت انسان بھی حصہ لیتے ہیں چنانچہ تقریباً ہر بستی میں جہاں کوئی اللہ کا بندہ لوگوں کو امورِ نیک کی طرف ہدایت کرتا ہو۔ یہی حال پیش آتا ہے کہ شیطان سیرت اشخاص جہاں بھی موقع پاتے ہیں لوگوں میں اس کی برائی کرتے رہتے ہیں اور اس کی شخصیت کو مدِ نظر رکھ کر کافۂ علما کو تنگ نظر، جھگڑالو، فتنہ پسند کے خطاب دیتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اور خصوصاً وہ لوگ جن کو کبھی اس بندۂ خدا کی مجلسِ وعظ میں شامل ہونے کا موقع نہ ملا ہو، دور ہی دور سے اس سے متنفر رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ دینی تحریکات کے نفاذ اور لوگوں کے مائل بہ ہدایت ہونے میں بڑی رکاوٹ پیش آتی ہے۔ اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں جو صورتاً مسلمان اور باطناً امیہ بن خلف اور ابوجہل کی عادت کے وارث ہیں فرمایا ’’اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَوْمِیْ اِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1375) غرض انبیا کو لوگوں کی نظر میں قبیح بنانے پر ہی اکتفا نہیں بلکہ:

15

زشت گرداند بجادُوئی عدو  تا طلاق افتد میانِ جفت و شُو

ترجمہ: (یہ) دشمن (دین) جادوگری سے (میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کی نظر میں) بد صورت بنا دیتا ہے حتیٰ کہ میاں بیوی میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

مطلب: بعض شارحین کے نزدیک یہ شیطان کے انبیا علیہم السلام کو قبیح ظاہر کرنے کی مثال ہے یعنی شیطان کا یہ فعل ایسا ہے جس طرح کوئی دشمن میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دے، مگر راقم کے نزدیک اس سے بھی شیطان ہی کا فعل مراد ہے کیونکہ یہ شیطان کا ایک بزرگ ترین کارنامہ ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ ابلیس جب اپنے ما تحت شیطانوں کے کارناموں کو سنتا ہے تو اکثر کی کار گزاری سن کر کہتا ہے کچھ نہیں، مگر جب ایک شیطان کہتا ہے کہ میں نے فلاں میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیا تو اس کو چھاتی سے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے ہاں تو خوب ہے۔ (مشکوٰۃ بالمعنیٰ)

16

دیدہا شان را بسحرے دوختند  تا چنین گوہر بہ خس افروختند

ترجمہ: (غرض) ان (شیطان جنوں اور جادوگروں) نے ان (کفار) کی آنکھوں کو جادو سے سی دیا یہاں تک کہ انہوں نے ایسا گوہر (ایمان دنیا کے ایک) تنکے کے عوض میں بیچ ڈالا۔

17

این گہر از ہر دو عالم برتر ست  ہِیں بخر زین طفلِ جاہل کو خر ست

ترجمہ: (پس) یہ موتی (یعنی بلال رضی اللہ عنہ) دونوں جہانوں (کے مال و متاع) سے بڑھ کر ہے۔ ہاں (اس کو) اس جاہل لڑکے (یعنی نادان کافر) سے خرید لو جو (نادانی میں ہو بہو) گدھا ہے۔

13

پیشِ خر خرمہرہ و گوہر یکے ست  آن اِشَک را در دُر و دریا شکے ست

ترجمہ: گدھے کے آگے کوڑی اور موتی ایک ہیں اس گدھے کو تو دُرّ اور دریا میں (بھی) شک ہے (کہ موتی بھی کوئی قیمتی چیز ہے اور ایسی قیمتی چیز دریا میں ہوتی ہے)۔

19

منکرِ بحر ست و گوہرہائے او  کے بود حیوان درو پیرایہ جُو

ترجمہ: (اس لئے) وہ دریا اور اس کے موتیوں کا منکر ہے (بھلا) ایک حیوان اس میں کب آرایش (کی چیز) کا طالب ہوتا ہے (بخلاف اس کے انسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿وَ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا۔۔۔ (النحل: 14) اور اس (دریا) سے زیور کی چیزیں موتی وغیرہ نکالو جن کو تم لوگ پہنتے ہو۔ ) 

20

در سرِ حیوان خدا ننہاده است کو بود در بندِ لعل و دُرّ پرست

ترجمہ: خداوند تعالیٰ نے حیوان کے دماغ ہی میں (یہ بات) نہیں رکھی کہ وہ لعل کی فکر میں ہو اور موتی کا شائق ہو۔

21

مر خران را ہیچ دیدی گوشوار  گوش و ہوشِ خر بود در سبزه زار

ترجمہ: کیا تم نے کبھی گدھوں کے (کان میں) گوشوار دیکھا ہے (جو انہوں نے از راہِ شوق پہنا ہو کبھی نہیں) گدھے کا کان اور شعور سبزه زار (میں) ھوتا ھے۔

مطلب: جس طرح گدھے کی تمام قواۓ ظاہری و باطنی پیٹ بھرنے پر مبذول ہیں۔ اسی طرح دنیا پرست محض حصول دنیا کو اپنا مقصد سمجھتے ہیں نہ ان کو اہلِ حق کی قدر ہے، جو موتی سے مشابہ ہیں اور نہ ان کے دل میں ذاتِ حق کی قدر ہے جو محیطِ کل ہونے میں دریا کی مانند ہے یہ تو کفار کے گدھوں کے ساتھ مشابہ ہونے کی تقریر تھی۔ آگے اہلِ حق کے موتی کے ساتھ مشابہ ہونے کی توجیہ آتی ہے۔

22

اَحْسَنُ التَّقوِیْم در والتِّیْن بخوان  کہ گرامی گوہرست اے دوست جان

ترجمہ: (انسان کامل کی قدر و قیمت معلوم کرنے کے لئے جو کہ اس کی تشبیہ بگوہر کا مدار ہے) سوره والتین میں ﴿فِىْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍۖ (التین: 4) (’’ہم نے انسان کو بہتر سے بہتر ساخت کا پیدا کیا‘‘) پڑھ لو۔ اے دوست! (اس سے معلوم ہو گا) کہ روح (انسانی) ایک معزز گوہر ہے 

23

اَحْسَنُ التَّقوِیْم از فکرت بُرون  اَحْسَنُ التَّقوِیْم از عرشش فزون

ترجمہ: احسن التقویم کا (مفہوم) تمہارے فکر سے باہر ہے (اور یہ) احسن التقویم (کا درجہ) اس (خداوند تعالیٰ) کے عرش سے فائق ہے۔

مطلب: روح انسانِ کامل کا مرتبہ عند اللہ جو ہے تمہارا خیال وہاں تک نہیں جا سکتا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ(السجدہ: 17) ”تو کوئی شخص بھی نہیں جانتا کہ لوگوں کے (نیک) عملوں کے بدلے میں کیسی کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پردہ غیب میں موجود ہے ۔اور حدیثِ قدسی میں ہے۔ ’’اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْنٌ رَاَتْ وَ لَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَ لَا خَطَرَ عَلٰى قَلْبِ بَشَرٍ‘‘۔ (مشکوٰۃ) یعنی ”میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ انعامات تیار کئے ہیں جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھے نہ کسی کان نے سنے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال گزرا“۔ دوسرے مصرعہ میں یہ فرمایا ہے کہ انسانِ کامل کا درجہ عرش سے برتر ہے کیونکہ عرش غیر صاحبِ اختیار ہونے کی وجہ سے عامل بالا اختیار نہیں اور انسانِ کامل مطیع بالاختیار ہے اور مطیع بالاختيار بمقابلہ غیر ذی اختیار سے بالاجماع افضل ہے۔ انسانِ کامل کے عرش سے افضل ہونے پر حضرت مجدد الف ثانی کی مدلل تقریرات اس شرح کی جلد سیزدھم میں درج ہوئی ہیں۔

24

گر بگویم قیمتِ آن ممتنع  ہم بسوزم ہم بسوزد مُستمع

ترکیب: ’’گر بگویم قیمتِ آن‘‘، انسانِ کامل شرط ممتنع ست اس کی جزا پس ’’آن‘‘ کا مشارٌ الیہ ’’انسانِ کامل‘‘ محذوف ہے۔ ممتنع اس کا مشارٌ الیہ نہیں کما یتبادر۔

ترجمہ: اگر میں اس (انسانِ کامل) کی (قدر و) قیمت بیان کروں (تو یہ) محال (ہے اس لئے) میں بھی (ناکامی کے غم و غصے کی وجہ سے) جل (بھن کر رہ) جاؤں اور سامع بھی۔

25

لب بہ بند این جا و خر آن سُو مران  رفت آن صدیق سوۓ آن خران

ترجمہ: (اے متكلم! مرتبۂ انسانِ کامل کی فضیلت جو بیان ہو چکی سو ہو چکی۔ اب) اس مقام پر لب بند کر لے (کیونکہ اس کا استقصا نا ممکن ہے) اور مرکب آگے نہ چلا (کیونکہ لا حاصل ہے بلکہ قصہ کی طرف رجوع کر کہ وہ) صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان (کافر) گدھوں کی طرف گئے۔

26

حلقہ بر در زد چون در را واکشود  رفت بیخود در سرائے آن جُہود

ترجمہ: (اور) دروازے پر کنڈی کھٹکھٹائی جب کافر نے دروازہ کھولا تو (حضرت صدیق رضی اللہ عنہ جو غم و غصہ سے) بے خود (ہو رہے تھے) اس کے گھر میں داخل ہوئے۔

27

بیخود و سر مست و پُر آتش نشست  از دہانش بس کلامِ سخت جَست

ترجمہ: وہ بے خود اور سر مست اور (غصے کی) آگ سے بھرے بیٹھ گئے (اس وقت) ان کے منہ سے بڑی سخت باتیں نکلیں۔

28

کین ولی اللہ را چون می زنی  این چہ حِقدست اے عدُوِّ روشنی

ترجمہ: کہ اس اللہ کے پیارے (بلال رضی اللہ عنہ) کو تو کیوں مارتا ہے اے نور (ہدایت) کے دشمن! یہ کیا کینہ ہے۔


29

گر تُرا صدقے ست اندر دینِ خود  ظلم بر صادق دلت چون میدہد

ترجمہ: اگر (تیرے زعم کے مطابق) تجھ کو اپنے دین میں صدق (حاصل) ہے تو (یہ بتا کہ پھر) صادق پر ظلم کرنے کو تیرا دل کیونکر (اجازت) دیتا ہے۔

مطلب: اے کافر! یہ تو تجھ پر مخفی نہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ محض صدقِ نیت کی بنا پر عذاب سہ رہے ہیں۔ پس تجھ کو اگر اپنے مذہب میں صادق ہونے کا زعم ہے اور تو صدق کی قدر کرتا ہے تو تجھ کو لازم تھا کہ ان کے اس صدق پر جوش غضب میں نہ آتا۔ بلکہ ان کو نرمی سے سمجھاتا مگر معلوم ہوتا ہے کہ تو خود صدق و خلوص سے خالی ہے۔ آگے یہی ارشاد ہے:

30

اے تو در صدق جُہودی مادۂ  کاین گمان داری تو بر شہزادۂ

ترجمہ: ارے او (کافر!) تو (خود) کفر کے (آئین) صدق میں زنانہ ہے جو یہ (عدمِ صدق کا) گمان (اس اقلیم صدق کے) ایک شہزادہ پر کرتا ہے (یعنی تجھ میں صدق کی اتنی بو بھی نہیں جو کسی کافر میں ہو سکتی ہے اور الٹا حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے مرد صادق کو غیر صادق سمجھتا ہے)۔

31

در ہمہ ز آئینہ کژ سازِ خُود منگر ائے مردودِ نفرینِ ابد

ترجمہ: اے لعنتِ ابدی کے مردود! سب لوگوں میں اپنے (عدم صدق کے) ٹیڑھی ساخت والے آئینہ سے نظر نہ کر (تو خود غیر صادق ہے اس لئے دوسرے لوگوں کو بھی غیر صادق سمجھتا ہے ’’اَلْمَرْءُ یَقِیْسُ عَلٰی نَفْسِہٖ‘‘)

32

آنْچہ آن دم از لبِ صدیق جَست  گر بگویم گم کُنی تو پا و دست

ترجمہ: (غرض) جو کچھ اس وقت حضرت صدیق رضی الله عنہ کے لب سے صادر ہوا اگر میں بتاؤں تو تم حیران رہ جاؤ (دست و پا گم کردن کنایہ ہے حیران رہ جانے سے)۔

33

آن ينابيع الحِکَم ہمچون فرات  از دہانِ او روان از بے جہات

ترجمہ: وہ حکمتوں کے چشمے (دریائے) فرات کی طرح (خداوند) بے جہات کی طرف سے ان کے منہ سے جاری تھے۔

34

ہمچو از سنگے کہ آبے شد روان نے ز پہلو مایہ دارد نز میان

ترجمہ: جس طرح پتھر سے پانی جاری ہو گیا تھا (اور پتھر وہ چیز ہے) جو نہ پہلو سے (پانی کا) سرمایہ رکھتا ہے نہ اندر سے۔

مطلب: یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے۔ ﴿فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا (البقرۃ: آیت 60) تو ہم نے کہا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو۔ (چنانچہ انہوں نے عصا مارا) تو اس (پتھر) سے بارہ چشمے بہ نکلے“۔ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زبان سے حکیمانہ باتوں کا ایسا فوارہ چھوٹا جس کا سلسلہ خداوند تعالیٰ کے غیبی فیضان سے وابستہ تھا، جس طرح اس پتھر سے پانی نکلنے کے اسباب نہ اس کے پہلو میں نظر آتے تھے نہ اس کے اندر بلکہ:

35

سپرِ خود کرده حق آن سنگ را  برکشادہ آبِ مینا رنگ را

ترجمہ: حق تعالیٰ نے اس پتھر (کے محدود وجود) کو اپنی (بے پایاں قدرت کی) آڑ بنا رکھا تھا (اور اس آڑ میں سے) شیشے کے ہمرنگ (صاف) پانی (کی راہ) کو کھول دیا تھا۔ (اسی طرح یہ حکیمانہ اقوال حق تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ محض واسطہ تھے۔)

36

ہمچنان کز چشمۂ چشمِ تو نُور  او روان کرده ست بے بخل و فتور

ترجمہ: جس طرح اس نے تمہاری آنکھ کے چشمے سے روشنی (کے فوارے) کو بدوں بخل اور سستی کے جاری کر دیا ہے۔

37

نے ز پیہ آن مایہ دارد نے ز پوست  روئے پوشے کرده در ایجادِ دوست

ترجمہ: (حالانکہ) وہ (آنکھ) نہ (اپنے اندر کی) چربی سے (نور کا) سرمایہ رکھتی ہے نہ جھلی سے (مگر) محبوب (حقیقی) نے (نورِ بصارت کو) ایجاد (کرنے) میں (ان چیزوں کو) ایک پردہ بنا رکھا ہے (آنکھ کا ڈھیلا تین رطوبتوں سے بنا ہے رطوبتوں کو چربی کے لفظ سے اور طبقوں کو جھلی سے تعبیر کیا ہے)۔

38

در خلاے گوش بادِ جاذبش  مدرکِ صدقِ کلام و كاذبش

ترجمہ: (اسی طرح) کان کے جوف میں اس کی ہوا جو (آواز کو) جذب کرنے والی ہے سچے اور جھوٹے کلام کا ادراک کرتی ہے۔

39

این چہ باد ست اندران خرد استخوان  کہ پذیرد صوت وحرفِ قِصّہ خوان

ترجمہ: اس چھوٹی سی ہڈی میں یہ کس قسم کی ہوا ہے جو بات سنانے والے کی آواز اور لفظ کو اخذ کر لیتی ہے۔ (کان کے اندر ایک عصبی پردہ بچھا ہوا ہے اُس کے ساتھ تین چھوٹی چھوٹی ہڈیاں لگی ہوئی ہیں جن میں سے وہ دو ہتھوڑی اور نہائی کی شکل میں ہیں اور ایک تل کے برابر ہوتی ہے۔ ہوا کی لہریں جب کسی آواز کے ساتھ اس پردے سے ٹکراتی ہیں تو ان تینوں ہڈیوں کی حرکت سے وہ آواز دماغ کو محسوس ہوتی ہے)۔

40

استخوان و باد روپوش ست و بس  ور دو عالم غیرِ یزدان نیست کس

ترجمہ: (سو حقیقت میں وہ) ہڈی اور ہوا محض روپوش ہے اور بس (ورنہ واقعہ میں) دونوں جہانوں میں سوائے خدا کوئی بھی (موجودِ حقیقی) نہیں (جس میں یہ فاعلیت بذاتِ خود ہو)۔

41

مستمع او قائِلِ او بے احتجاب زانکہ الْاُذنَانِ مِنْ رَّاْسٍ اے مثاب

ترجمہ: (بلکہ وہ واقع میں) بلا اشتباه سننے والا بھی وہی (اور) بولنے والا بھی وہی ہے کیونکہ اے ثواب پانے والے! کان سر کے تابع ہیں۔

مطلب: پہلے مصرعہ میں وحدة الوجود کی طرف اشارہ ہے جو مفتاح العلوم کی جلد میں شرح و بسط کے لحاظ سے درج ہو چکا ہے۔ دوسرے مصرعہ میں ایک حدیث درج ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کان بعض احکام میں سر کے تابع ہیں، مثلاً کانوں کا مسح سر کے مسح کے ساتھ ایک ہی مرتبہ پانی لے کر کیا جاتا ہے۔ یہاں مقصود اس حدیث کے ایراد سے یہ ہے کہ جس طرح کان سر کے تابع ہیں، اسی طرح آنکھ کان وغیرہ تمام اعضا اپنے پیدا کرنے والے کے تابع ہیں اور کان کے ذکر کے متصل ایسی حدیث کا ایراد جس میں کان کا حکم مذکور ہے شعری صنعت ہے۔ آگے پھر قصہ چلتا ہے: 

42

گفت رحمت گر ہمی آید برو  زر بده بستانش اے اکرام خُو

ترجمہ: (کافر نے) کہا اے بخشش کی خصلت والے! اگر تم کو اس پر رحم آتا ہے تو قیمت دے کر اس کو خرید لو (کافر نے اکرام خو کا لفظ طنزًا کہا ہے یعنی اگر رحم و کرم کا دعوٰی ہے تو ذرا مالی ایثار بھی کر کے دکھاؤ مگر اس کو جناب صدیق کے کرم و ایثار کا ابھی پتا لگ جاتا ہے)۔

43

از منش واخر چو می سوزد دلت بے مؤنت حل نگردد مشکلت

ترجمہ: جب تمہارا دل (اس پر) کڑھتا ہے تو اسے مجھ سے خرید لو۔ خرچ (کئے) بدوں تمہاری مشکل حل نہ ہو گی (یہ کافر جناب صدیق رضی اللہ عنہ کو اس طرح ٹٹول رہا ہے گویا اس کے نزدیک ان کو روپیہ خرچ کرنا مشکل ہو گا۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ آئے ہی اسی قصد سے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں):

44

گفت صد خدمت کنم پانصد سجود  بندۂ دارم نکو لیکن جُہود

ترجمہ: (حضرت ابوبکر صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے) کہا (اگر ایسا ہو جائے تو میں حق تعالیٰ کی) سو طاعت بجا لاؤں (اور) پانسو سجدہ (شکر ادا کروں) میرے پاس ایک خوب صورت غلام ہے لیکن (مذہب میں وہ) یہودی (ہے)۔

45

تن سپید و دل سیاه او را بگیر  در عوض دِہ تن سیاه و دل منیر

ترجمہ: وہ بدن کا گورا اور دل کا کالا (یعنی بے دین ہے) اس کو (مجھ سے) لے لے (اور اس کے) عوض میں (مجھے یہ بلال جو) سياه بدن اور روشن دل (ہیں) دے دے۔

46

کس فرستاد و بیاورد آن ہمام  بود الحق سخت زیبا آن غلام

ترجمہ: (پھر) ان بزرگ (حضرت صدیق رضی اللہ عنہ) نے کسی کو بھیج کر (اس غلام کو) بلوا لیا سچ تو یہ ہے کہ وہ غلام نہایت خوبصورت تھا۔

مطلب: تفسیر خازن میں لکھا ہے ’’فَقَالَ لِاُمَیَّۃَ اَلَا تَتَّقِی اللّٰہَ فِیْ ھٰذَا الْمِسْکِیْنِ قَالَ اَنْتَ اَفْسَدْتَّہٗ فَانْفُذْہُ مِمَّا تَرٰی فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ اَفْعَلُ عِنْدِیْ غُلَامٌ اَسْوَدُ اَجْلَدُ مِنْہُ وَ اَقْوٰی وَ ھُوَ عَلٰی دِیْنِكَ اُعْطِیْكَہٗ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ فَاَعْطَاہُ اَبُوْبَکْرٍ غُلَامَہٗ وَ اَخَذَ بِلَالاً فَاَعْتَقَہٗ‘‘ یعنی ”حضرت ابوبکر صدیق نے امیہ کو کہا کیا تو اس مسکین کے حق میں خدا سے نہیں ڈرتا۔ اس نے کہا تو نے ہی تو اس کو خراب کیا ہے پس اس کو اس حال سے جو تو دیکھ رہا ہے چھڑا لے۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں یہ کرنے کو تیار ہوں میرے پاس ایک حبشی غلام ہے جو اس سے زیادہ مضبوط و طاقتور ہے اور وہ تیرا ہم مذہب بھی ہے میں وہ تجھ کو دیتا ہوں۔ اس نے کہا مجھے منظور ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا غلام اس کو دے دیا اور بلال کو لے کر آزاد کر دیا۔ (انتہیٰ) اس تاریخی بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا غلام حبشی تھا رومی نہ تھا جیسے کہ بعض شارحین نے مولانا کی بیان کردہ خوب صورتی کو توجیہ میں لکھا ہے۔ مولانا کے بیان کی تاویل ہو سکتی ہے کہ شاید ان کو اس غلام کی خوبصورتی کی روایت پہنچی ہو یا اس کو تن سپید و سخت زیبا مجازًا جسمانی طاقت اور موزوں قد و قامت کے اعتبار سے کہہ دیا ہو۔ جیسے مرد صالح کو مجازاً سپید کار کہہ دیتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

47

آنچنانکہ ماند حیران آن جہُود آن دل چون سنگش از جا رفت زُود

ترجمہ: وہ (غلام) ایسا (تھا) کہ (اسے دیکھ کر) وہ کافر حیران رہ گیا اور اس کا وہ پتھر کا سا دل فوراً بے قابو ہو گیا۔

48

حالتِ صورت پرستان این بود سنگِ شان از صُوْرَتے مومین شود

ترجمہ: (اور) ظاہر پرست لوگوں کی حالت یہی ہوتی ہے ان کا پتھر (کا سا دل) کسی صورت (کی ظاہری سج دھج) سے موم بن جاتا ہے۔ سعدیؒ ؎

چو بت پرست بصورت چنان شدی مشغول  کہ دیگرت خبر از لذّتِ معانی ست

49

باز کرد اِستیزه و راضی نشد  کہ برین افزون بدہ بے ہیچ بُد

ترجمہ: اس (کافر) نے پھر جھگڑا شروع کر دیا اور (غلام کے بدلے صرف غلام لینے پر) راضی نہ ہوا (اور کہنے لگا) کہ لا محالہ اس پر کچھ اور اضافہ ضرور کرو (یہ اس دنیا دارانہ گرسنہ چشمی تھی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اشتياقِ خریداری کو دیکھ کر اس کی نیت بدل گئی جیسے کہ خود اقرار کرے گا)۔

50

یک نصابِ نقره ہم بَر وَے فزُود  تاکہ راضی گشت حرصِ آن جُہُود

مطلب: (مگر یہاں کیا دیر تھی چنانچہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے) چاندی (کے سکوں) کی ایک معقول رقم اس غلام پر اضافہ کر دی حتیٰ کہ اس کافر کی حرص مطمئن ہو گئی۔

51

بیع کرد و داد و بستد بے غرض  داد گوہر، سنگ بستند در عوض

ترجمہ: (اور اس نے) سودا کر لیا اور (بلال رضی اللہ عنہ کو) دے دیا اور (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام کو) لے لیا بدوں (اصل) غرض (کو سمجھنے) کے (جو حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو مدِّ نظر تھی غرض) موتی دے دیا (اور اس کے) عوض میں پتھر لے لیا۔

52

بر خیالِ آنکہ سُودے کردہ ام  دادم اسود بیضے آورده ام

ترجمہ: اس زعم میں کہ میں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ کالا آدمی دے کر ایک گورا لے لیا ہے۔