باز گُفتنِ صدیق رضی اللہ عنہ صورتِ حالِ بلال را نزدِ حضرت رسول ﷺ و مشورت کردن در خریدنِ او
حضرت صدیق رضی اللّٰہ عنہ کا بلال کی صورتِ حال کو حضرت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیان کرنا اور انہیں خرید لینے کا مشورہ کرنا
1
از سوئے معراج آمد مصطفٰے بر بلالش حبّذا آن حبّذا
ترجمہ: (ادھر تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بلال کا یہ قصہ لے کر) حضرت مصطفیٰ ﷺ (کی خدمت میں حاضر ہونے والے تھے ادھر حضور ﷺ) عروج (روحانی) سے نزول فرما (کر متوجہ بخلق ہوئے جب کہ احوالِ خلق کے پیش ہونے کا اچھا موقع تھا)۔ (اس حسنِ اتفاق کے لئے) بلال کو مبارک باد (ہاں) وہ مبارک باد (جو بڑی شان دار ہے)۔
مطلب: ’’معراج‘‘ سے معراج بمعنی معروف مراد نہیں کیونکہ اس موقع پر بلال کا معاملہ پیش نہیں ہوا تھا، بلکہ اس سے عروج مصطلح صوفیہ مراد ہے جس میں اہل اللہ خاص حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مخلوق کی طرف بالکل التفات نہیں ہوتی۔ اس کا مقابل نزول ہے جس میں ان کو مخلوق کی طرف توجہ ہوتی ہے لیکن وہ توجہ بھی مخلوق کے دنیوی مصالح کے لئے نہیں ہوتی جیسے کہ عوام کا حال ہے۔ بلکہ خالق کے ساتھ مخلوق کا تعلق خوشگوار بنانے کے لئے ہوتی ہے جیسے کہ انبیا علیہم السلام اور اولیا کرام کی شان ہے۔
2
چونکہ صدیقؓ از بلالِؓ دم درستاین شنید از توبۂ او دست شست
ترجمہ: جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ سے جو صادق القول تھے یہ (اَحَد اَحَد کہنا) سنا تو وہ ان کے عہد (اخفا) سے مایوس ہو گئے۔
3
بعد ازان صدیقؓ نزدِ مصُطفٰےؐگفت حالِ آن بلالِؓ باصفا
ترجمہ: اس کے بعد حضرت صدیق رضی اللہ عنه نے مصُطفٰے ﷺ کے حضور میں ان بلال رضی اللہ عنہ با صفا کا حال عرض کر دیا۔
4
کان فلک پیمائے میمون فالِ چُستاین زمان از عشق اندر دامِ تُست
ترجمہ: کہ وہ (عزم و ہمت کے) آسمان کو طے کرنے والا مبارک فال جو (دین میں) مستعد ہے (یعنی بلال رضی اللہ عنہ) اس وقت آپ کے دام عشق میں (مقید) ہے (از عشق میں حرف از بیانیہ ہے جو دام کے معنی مراد کو بیان کرنے کے لئے آیا ہے یعنی دامِ عشق)۔
5
بازِ سلطان ست زان چغدان برنجدر حدث مدفون شدست آن زفت گنج
ترجمہ: وہ (اوجِ ایمان کا) شاہی باز ہے جو (کافر) الووّں (کی معیت) سے دکھ میں ہے وہ مالا مال (خزانہ گویا) گندگی (کے ڈھیر) میں دبا ہوا ہے۔
6
چغد ہا بر باز اِستم مے کنند پرّ و بالش بیگناہے می کنند
ترجمہ: (یہ) الو (اس) باز پر ظلم کر رہے ہیں۔ اس کے بال و پر کو بے گناہ نوچ رہے ہیں۔
7
جُرمِ او اینست کو باز ست و بسغيرِ خُوبی جرمِ یوسفؑ چیست پس
ترجمہ: اس کا قصور (صرف) یہی ہے کہ وہ (اوجِ ایمان کا) باز ہے اور بس، تو پھر حضرت یوسف علیہ السلام کا قصور سوائے حسن (و جمال) کے اور کیا ہے؟ ﴿وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّا اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ۔۔۔﴾ (البروج: 8)۔
8
چغد را ویرانہ باشد زاد و بود ہست شان بر باز ازان خشم و جُحود
9
کہ چرا می یار آری تو ازان لالہ زار و جویبار و گلستان
ترجمہ: الو کا مولد و مسکن تو ویرانہ ہے (وہ ویرانہ کا ذکر و تذکرہ ہی پسند کرتا ہے) تو ان الووّں کو اسی بنا پر باز پر غصہ اور رنج آتا ہے کہ تو کیوں (ایمان و اسلام کے) لالہ زار اور نہر اور باغ کی یاد آوری کرتا رہتا ہے؟
10
یا چرا يادت بود از آن دیار یا ز قصر و ساعد آن شہریار
ترجمہ: یا کس لئے تجھ کو وہ سرزمین یاد آتی ہے؟ یا محل اور بادشاہ کی کلائی (اگلے زمانے میں بادشاہوں کی یہ رسم تھی کہ باز کو اپنی کلائی پر بٹھاتے تھے)۔
11
در دہِ چغدان فضولی میکنیفتنہ و تشویش در مے افگنی
ترجمہ: تو الووّں کی بستی میں فضول حرکتیں کرتا ہے (اور بستی والوں میں) فساد و پریشانی ڈالتا ہے۔
12
مسکنِ ما را کہ شد رشکِ اثیر تو خرابہ دانی و خوانی حقیر
ترجمہ: تو ہماری قیام گاہ کو جو رشکِ فلک ہے، اجاڑ سمجھتا ہے اور نا چیز کہتا ہے۔
13
شِيد آوردی کہ تا چُغدانِ ما مر ترا سازند شاه و پیشوا
ترجمہ: تو اسی لئے فریب سے کام لیتا ہے کہ ہمارے الو تجھ کو اپنا (دنیوی) بادشاہ اور (دینی) پیشوا بنا لیں۔
14
وہم و سودائے در ایشان مے تنینامِ این فردوس ویران می کنی
ترجمہ: تو ان (الووّں) میں وہم اور دیوانگی پیدا کر رہا ہے، (اور ہماری) اس بہشت کا نام ویرانہ ٹھہراتا ہے۔
مطلب: مولانا نے یہاں تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بازِ پاکباز اور کفار کو بومِ شوم قرار دے کر کفار کی عتاب آمیز گفتگو کو استعارہ کے رنگ میں ادا کیا ہے اور انبیاء و صلحا کے ساتھ کفار کا یہی سلوک ہوتا ہے، کہ وہ ان کے بیان کردہ حقائق کو اوہامِ فاسدہ اور ان کے معجزات و کرامات کو سحر و شعبدہ اور ان کی تدابیر حسنہ کو مکر و فریب بتاتے ہیں اور ان پر حبِ جاہ و طلبِ ریاست کا اتہام لگاتے ہیں۔ اب کفار حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دھمکی دیتے ہیں۔
15
بر سرت چندان زنیم اے بد صفات تا بگوئی ترکِ شید و تُرّہات
ترجمہ: اے بد صفات! ہم تیرے سر پر اس وقت تک مار برساتے رہیں گے کہ اس مکر اور بیہودہ دعوؤں کو چھوڑ دے (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیانِ واقعات میں کہتے ہیں کہ)
16
پیشِ مشرق چار میخش مے کنندتن برہنہ شاخِ خارش می زنند
ترجمہ: (یا حضرت) وه (کافر ان کا رخ) طلوع آفتاب کی سمت کو (کر کے) چار میخوں سے انہیں جکڑ دیتے ھیں (اور) ننگے بدن ان کو خار دار شاخ سے مارتے ہیں۔ (طلوعِ آفتاب کی سمت کو رخ کرنے سے آفتاب کی حرارت اور چمک کی اذیت پہنچانا مقصود تھا)۔
17
از تنش صد جاے خون بر می جہد او اَحَد مے گوید سر می نہد
ترجمہ: (حتیٰ کہ) ان کے بدن سے صدہا جگہ خون کے شرّاٹے بہنے لگتے ہیں (مگر) وہ (برابر) اَحَد (اَحَد) کہتے ہیں اور (ان بد سلوکیوں پر) سر (تسلیم خم) کئے رہتے ہیں۔
18
پندہا دادم کہ پنہان دار دینسِرّ بپوشان از جہودانِ لعین
ترجمہ: میں نے (بہت بار) نصیحتیں کیں کہ (میاں تم اپنا) دین مخفی رکھو (اور) ملعون کافروں سے (اپنے ایمان کا) راز چھپاؤ۔
19
عاشق ست او را قیامت آمد استتا درِ توبہ برو بستہ شده است
ترجمہ: (مگر کیا کریں نہیں مانتے کیونکہ) وہ عاشق ہیں (عشق کی طغیانی) ان پر قیامت (بن کر) آئی حتیٰ کہ ان پر توبہ کا دروازہ بند ہو گیا۔ (یعنی جس طرح قیامت کے قریب توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا اسی طرح ان پر قیامت میں کتمانِ ایمان دشوار ہو گیا۔ آگے مولانا فرماتے ہیں)۔
20
عاشقی و توبہ یا امکانِ صبر این محالے باشد ای جان بس سطبر
ترجمہ: عاشقی اور توبہ یا (دوسرے لفظوں میں) صبرکا امکان، اے جان! یہ (دونوں کا اجتماع) محال عظیم ہے۔
21
توبہ کِرم و عشق ہمچون اژدہاتوبہ وصفِ خلق و آن وصفِ خدا
ترجمہ: توبہ (گویا) کیڑا (ہے) اور عشق اژدہے کی مانند ہے (جو کیڑے کو نگل جائے)، توبہ مخلوق کا وصف ہے (اس لئے ناقص ہے) اور وہ (عشق) خدا کا وصف ہے (اس لئے کامل ہے پس ناقص کا کامل سے کیا مقابلہ)۔
22
عشق ز اوصافِ خدائے بے نیازعاشقی بر غیرِ او باشد مجاز
ترجمہ: عشق خدائے بے نیاز کے اوصاف سے ہے (پس توبہ جو بندہ کا وصف ہے اس کا کیا مقابلہ کر سکتی ہے اور یہ عشق اس لئے بھی توبہ سے قوی ہے کہ وہ عشق حقیقی ہے بخلاف اس کے جو) عاشقی غیرِ خدا سے (ہو وہ) مجازی(اور غیر قوی) ہے۔
23
زانکہ آن مسِںّ زر اندود آمد ستظاہرش نور اندرون دُود آمد ست
ترجمہ: اس لئے کہ وہ (غیرِ خدا جمال و کمال میں گویا) ملمع کیا ہوا تانبا ہے کہ ظاہر اس کا چمکیلا اور باطن (ایسا مکدّر کہ گویا) دھواں ہے۔
24
چُون شود نور و شود پیدا دُخانبفسرد عشقِ مجازی آن زمان
ترجمہ: جب (موت سے وہ حسنِ فافی کا) ملمع جاتا رہتا ہے اور (اس کے نیچے جسم عنصری کی ظلمت کا) دھواں پیدا ہو جاتا ہے تو (اس وقت عاشق کا) عشقِ مجازی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔
25
چون شود پیدا دُخانِ غم فزا بفسرد نے عشق ماند نے ہوا
ترجمہ: (اور) جب وہ غم بڑھانے والا دھواں ظاہر ہوتا ہے تو (عشق) ٹھنڈا پڑ جاتا ہے نہ عشق رہتا ہے نہ ہوس۔
26
وَا روَد آن حُسن سوۓ اصلِ خودجسم ماند گندہ و رسوا و بد
ترجمہ: وہ حُسن اپنے اصل کی طرف واپس چلا جاتا ہے اور جسم گنده اور ذلیل اور بد حال رہ جاتا ہے۔
مطلب: جسم کا حُسن روح کی معیت کی بدولت تھا روح نکلی تو حُسن کو بھی اڑا لے گئی۔ یعنی حُسن اعراض کی قبیل سے ہے اور اعراض کا انتقال محال ہے۔
27
نور مَہ راجع شود ہم سُوۓ ماهوا رود عکسش ز دیوارِ سیاه
ترجمہ: (جیسے) چاند کی روشنی (اس کے غروب کے بعد) چاند ہی کی طرف واپس چلی جاتی ہے (اور) اس کا عکس کالی دیوار سے چلا جاتا ہے۔
مطلب: اس مثال سے اوپر کی تقریر کی تائید ہوتی ہے یعنی چاند کی روشنی کا چاند کی طرف واپس جانا جو بیان کیا ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ روشنی چاند کی روشنی سے الگ ہو کر یہاں آئی تھی اور پھر یہاں سے منتقل ہو کر اس کے ساتھ جا ملی کیونکہ یہ محال ہے۔ بلکہ مطلب ہے کہ جب چاند غروب ہوا تو دیوار سے چاندنی بھی زائل ہو گئی۔ اسی بات کو مجازاً یوں کہہ دیا کہ وہ روشنی چاند کے ساتھ چلی گئی۔ جیسے کہا کرتے ہیں فلاں شخص کے مرنے پر گھر کی برکت اس کے ساتھ چلی گئی تو یہاں بھی برکت کا زائل ہونا مراد ہے، نہ کہ گھر سے منتقل ہو کر اس شخص کے ساتھ قبر میں جانا۔ غرض اس جسمِ عنصری کا حال یہ ہے کہ:
28
نے دران نورے بودنے زندگی نے جمالش ماند نے فرخندگی
ترجمہ: (مفارقتِ روح کے بعد) نہ اس (جسم) میں نور رہتا ہے نہ زندگی نہ اس کا جمال رہتا ہے (اور) نہ خوبی۔
29
پس بماند آب و گِل بے آن نگارگردد آن دیوار بے مَہ دیو دار
ترجمہ: پس (وہ جسم) اس محبوب (روح) کے بدوں (محض) آب و گِل رہ جاتا ہے۔ (اسی طرح) وہ دیوار (نور) ماہ کے بدوں دیو (سیاه) کی مانند (بے نور) رہ جاتی ہے۔
30
قلب را کہ زر روئے او بجستباز گشت آن زر بکانِ خود نشست
ترجمہ: (اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے) ملمع (دار تانبے) پر سے سونے کا جھول اتر گیا (اور) وہ سونا (یہاں سے) لوٹ گیا اور اپنی کان میں جا پہنچا۔
31
پس مسںِ رسوا بماند دُود وشرُو سیہ تر زو بماند عاشقش
ترجمہ: پس تانبا دھوئیں کی طرح بدنما رہ جاتا ہے (اور) اس کا دلداده اس (تانبے) سے بھی زیادہ رُو سیاہ رہ جاتا ہے۔
مطلب: سونے کی کان میں چلے جانے کا یہ مطلب نہیں کہ فی الواقع وہ سونا اسی معدن میں واپس چلا گیا جہاں سے آیا تھا۔ بلکہ مدعا یہ ہے کہ سونا اپنی جنس کے زمرے میں جا شامل ہوا اور تانبے کو اکیلا چھوڑ گیا۔ غرض کسی وصف کے موصوف پر عاشق ہونا احمقوں کا کام ہے۔ بخلاف اس کے:
32
عشقِ بینایان بود بر کانِ زر ہر زمانے لاجَرم شد بیشتر
ترجمہ: اہل بصیرت کا عشق کانِ زر پر ہوتا ہے (اس لئے وہ) لامحالہ روز بروز ترقی کرتا ہے۔
33
زانکہ کان را در زری نبود شریکمرحبا اے کان زر لَاشَکَّ فِیْک
ترجمہ: کیونکہ ان کی نظر میں کان (زر) کا زر ہونے کی صفت میں کوئی (جسمِ ملمع) شریک نہیں ہوتا مرحبا اے کانِ زر! تجھ میں کوئی شک نہیں (اہلِ بصیرت اصل کو نقل سے الگ پہچان لیتے ہیں۔ نقل کا دھوکا ان کے شوق کو سرد نہیں کر سکتا اس لئے ان کا عشق ترقی پذیر رہتا ہے۔)
34
ہر کہ قلبے را کند انبازِ کان وَا روَد زر تا بکان از لامکان
ترجمہ: جو (شخص) ملمع کو کان (کے اصلی سونے) کے برابر سمجھتا ہے (وہ ندامت اٹھاتا ہے جب کہ) وہ (سونا جس کا جھول چڑھا ہوا تھا) بے موقع جگہ سے (الگ ہو کر اپنی جنس کی) کان میں چلا جاتا ہے۔
35
عاشق و معشوق مرده ز اضطراب مانده ماہی، رفتہ زان گرداب آب
ترجمہ: (اور اس وقت) عاشق و معشوق (دونوں) اضطراب سے (ایسے ہو جائیں گے جیسے) مر گئے (اور ان کی ایسی مثال ہو گی جسے) مچھلی تو رہ گئی (اور) اس گرداب سے (جن میں مچھلی تھی) پانی جاتا رہا۔
مطلب: مطلوب تو اس لئے بمنزلہ مردہ ہو گیا کہ اس کا ملمع جاتا رہا اور طالب اس لئے کہ اپنی غلطی پر نادم ہوا۔ یہی حالت ہو گی غیر حق کے طالب کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوبُ﴾ (الحج: 73) غرض اہل بصیرت موصوفِ غیر حقیقی کے شائق نہیں ہوتے بلکہ ان کا عشق و شوق موصوف حقیقی سے متعلق رہتا ہے اور اس کا عشق منتہائے کمال ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
36
عشقِ ربَّانی ست خورشیدِ کمالامرِ نورِ اوست خلقان چون ظلال
ترجمہ: عشق ربانی آفتابِ کمال ہے (عالمِ) امر اس کا نور ہے اور (عالمِ) خلق (اس کے) سامنے سایوں کی طرح ہے۔
مطلب: آفتاب کا نور کامل و دائم ہوتا ہے جو کبھی اس سے زائل نہیں ہوتا۔ اسی طرح عشق ربانی بھی بوجہ اس کے کہ اس کا تعلق جمیل حقیقی کے ساتھ ہے، زائل ہونے والا نہیں۔ پس اس سبب سے اس عشق کے سامنے وہ ضعیف توبہ جو بلال رضی اللہ عنہ نے اخفائے عشق کے لئے کی تھی، قائم نہ رہ سکی۔ دوسرے مصرعہ میں دو مضمونوں کی تطبیق کی ہے جو پیچھے گزرے ہیں اور ان کے باہم متعارض ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ ایک مضمون تو یہ تھا کہ حق تعالیٰ موصوفِ حقیقی اور غیرِ حق موصوفِ مجازی ہے۔
؎ عشق ز اوصافِ خدائے بے نیاز عاشقی بر غیرِ او باشد مجاز
دوسرا مضمون یہ تھا کہ بعض اشعار سے روح کا موصوفِ حقیقی ہونا اور جسم کا موصوفِ مجازی ہونا مفہوم ہوتا ہے جیسے
؎ وَا روَد آن حُسن سُوے اصلِ خود جسم ماند گنده و رسوا و بد
اور اس کے بعد کے اشعار کی شرح سے ظاہر ہے تطبیق کی توجیہ یہ ہے کہ عالمِ امر جس میں سے روح ہے وہ حق تعالیٰ کا نور یعنی مظہر ہے اور عالمِ خلق جو عالمِ اجسام ہے اس کے سامنے مثل ظل کے ہے۔ پس گزشتہ مضمون میں مظہر یعنی روح کے احکام سے ظاہر یعنی حق تعالیٰ کے احکام سے استدلال کر کے مدعا ثابت کیا ہے۔ (کلید مثنوی بتبدیلِ عبارت)