دفتر 6 حکایت 28: حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا قصہ اور ان کا شوق اور آقا کا ان کو دکھ دینا اور حضرت صدیق اکبر رضی الله عنه کا ان کے حال سے آگاہی پانا



قِصّۂ بلال حبشی و شوقِ اُو و رنجانِیْدنِ خواجۂ اُو را و معلوم کردنِ صدّیق حالِ اُو را

حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا قصہ اور ان کا شوق اور آقا کا ان کو دکھ دینا اور حضرت صدیق اکبر رضی الله عنه کا ان کے حال سے آگاہی پانا

1

تن فدائے خار میکرد آن بلالؓ  خواجہ اش می زد برائے گوشمال

ترجمہ: وہ (عاشقِ رسول حضرت) بلال رضی اللہ عنہ کانٹوں (بھری لکڑی کی مار) کے لئے (اپنے) بدن کو فدا کر رہے تھے (اور) ان کا (کافر) آقا (اس بات کی) سزا کے طور پر ان کو مارتا تھا کہ:

2

کہ چرا تو یادِ احمد ﷺ می کنی  بندۂ بد مُنکرِ دینِ منی

ترجمہ: کہ تو کیوں احمد (ﷺ) کو یاد کرتا ہے؟ تو برا غلام ہے (جو) میرے دین کا منکر ہے۔

3

می زد اندر آفتابش او بخار  او اَحَد می گفت بہرِ افتخار

ترجمہ: وہ (آقا) ان کو دھوپ میں (لٹا کر) کانٹوں (بھری لکڑی) سے مارتا تھا (اور) وہ (دینی) سرفرازی (حاصل کرنے) کے لئے احد (احد) کہتے جاتے تھے۔

4

 تا کہ صدّیقؓ آن طرف بگذشت تفت  آن اَحَد گفتن بگوشِ او برفت

ترجمہ: حتٰی کہ (حضرت) صدیق رضی اللہ عنہ (ایک دن اتفاقًا) ادھر سے (ہر چند کہ وہ کسی وجہ سے) جلدی گزرے (جا رہے تھے تاہم) وہ احد کہنے کی آواز (اس قدر بلند تھی کہ) ان کے کان میں پڑ گئی۔

5

چشمِ او پُر آب شد دل پُر عنا  زان اَحَد می یافت بوئے آشنا

ترجمہ: (یہ سنتے ہی) ان کی آنکھیں پُر آب ہو گئیں اور دل بھر آیا (کیونکہ) اس احد (کہنے کی آواز) سے ان کو (اپنے) ہم مشرب (مومن) کی خوشبو آئی تھی۔

6

بعد ازان خلوت بدیدش پند داد کز جہودان خُفیہ می دار اعتقاد

ترجمہ: اس کے بعد (جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کا حال معلوم ہوا تو) تنہائی میں ان سے ملے اور نصحیت کی کہ کافروں سے اپنے اعتقاد کو مخفی رکھا کرو (تاکہ وہ تم سے بد گمان ہو کر یہ ظلم نہ کریں)۔

7

عالِم السِرّ ست پنہان دار کام  گُفت کردم توبہ پیشت اے ہمام

ترجمہ: (حق تعالیٰ) پوشیدہ بات کو جاننے والا ہے (تمہارا مخفی ایمان بھی اس پر ظاہر ہے اور وہ اسے قبول کرے گا اس لئے اپنے) مقصود کو پوشیدہ رکھو۔ انہوں نے کہا کہ اے بزرگوار! میں نے تمہارے سامنے (اظہارِ ایمان سے) باز رہنے کا عہد کیا۔

8

روزِ دیگر از پگہ صدّیقؓ تفت  آن طرف از بہرِ کارے می برفت

ترجمہ: اگلے روز حضرت صدیق رضی اللہ عنہ جلدی (جلدی) اس طرف کسی کام کے لئے جا رہے تھے۔

9

باز اَحَد بشنيد و ضربِ زخم خار  بر فروزید از دلش شور و شرار

ترجمہ: (اب) پھر انہوں نے احد (کی آواز) اور کانٹوں (بھری لکڑی) کے زخم کی مار سنی (تو) ان کے دل سے (اضطراب کا) شور اور (غصہ کی) چنگاریاں اٹھیں۔

10

باز پندش داد، باز او توبہ کرد  عشق آمد توبۂ او را بخورد

ترجمہ: انہوں نے پھر ان کو نصیحت کی (اور) انہوں نے (پھر اس کے) باز رہنے کا عہد کیا (حتٰی کہ پھر) عشق (کا ولولہ) آيا (اور) ان کے عہد کو کھا گیا۔

11

توبہ کردن زین نَمَط بسیار شد  عاقبت از توبہ او بیزار شد

ترجمہ: (غرض) اسی طرح بہت بار عہد کرنے کی نوبت آئی ۔ آخر وہ عہد سے بیزار ہو گئے۔

12

فاش کرد اسپرد تن را در بلا  کاے محمد ﷺ اے عدوے توبہ ہا

ترجمہ: (آخر) انہوں نے (ایمان کو اور زیادہ) ظاہر کر دیا اور بدن کو بلا (و عذاب) کے حوالہ کر دیا (اور بزبانِ حال یوں کہتے تھے) کہ اے محمد ﷺ! اے (وہ جن کا عشق ایسے ) عہد و اقرار کے لئے دشمن (ہے جو ضبطِ عشق کے لئے کئے جائیں)۔

13

اے تنِ من وے رگِ من پُر ز تو  توبہ راگُنجہ کجا باشد درو

ترجمہ: اجی! میرا بدن اور ہاں جناب! میری رگ (رگ) تو آپ (کی یاد) سے پُر ہے۔ (پھر ترکِ یاد کے) عہد کی اس میں کہاں گنجایش ہو؟

14

توبہ را زین پس ز دل بیرون کنم   از حیاتِ خلد توبہ چون کنم

ترجمہ: اس کے بعد (ایسے) عہد کو میں دل سے نکال ڈالوں گا۔ (بھلا آپ کی یاد جو) بہشتی زندگی (کی مانند ہے) کو ترک کرنے کا عہد میں کیونکر کر سکتا ہوں؟

15

عشق قہار ست و من مقہورِ عشق  چون شکر شیرین شدم از شورِ عشق

ترجمہ: عشق نہایت زبردست ہے اور میں عشق سے مغلوب (ہوں مگر با وجود اس کے میں اس سے لذت گیر ہوں چنانچہ) میں عشق کے نمک سے شکر کی طرح شیریں (کام) ہو رہا ہوں (یہ عشق کے عجائبات ہیں کہ اس کے تلخ دشوار ذائقے بھی شیریں محسوس ہوتے ہیں)۔ صائبؒ ؎

نیست دلگیری ز کوہِ بے ستون فرہاد را  عشق چون مشاطہ گرد سنگِ خارا ہم خوش ست

16

برگِ کاہم پیش تو اے تند باد  من چہ ندانم تا کجا خواہم فتاد

ترجمہ: (اے عشق کی) تیز آندھی! میں تیرے آگے ایک برگِ کاہ ہوں مجھے یہ خبر نہیں کہ میں (تیرے زور سے اڑ کر) کہاں جا کر گروں گا؟

17

گر ہلالم گر بلالم مے دوم مقتدی بر آفتابت مے شوم

ترجمہ: اگر میں ہلال ہوں (اور) اگر بلال ہوں (بہر حال اے عشق! تیرے ساتھ ساتھ) دوڑ رہا ہوں (اور) تیرے آفتاب کی پیروی کر رہا ہوں۔

18

ماه را با زفتی و زاری چہ کار  در پۓ خورشید پوید سایہ وار

ترجمہ: چاند کو فربہی و لاغری سے کیا کام؟ وہ تو آفتاب کے پیچھے سایہ کی طرح دوڑا کرتا ہے۔

مطلب: چاند کے دوڑنے سے مراد اس کا ازدیادِ قرب ہے۔ آفتاب سے جو بعد بدر ہونے کے واقع ہوتا ہے اور جس سے اس کا نور کم ہوتا جاتا ہے۔ پھر کسی قدر بُعد سے وہ ہلال کی شکل میں نظر آتا ہے اور پھر حسبِ ازدیاد بعد اس کا نور زاید ہوتا جاتا ہے جب بالکل مقابلہ و مواجہہ ہو جاتا ہے اس وقت وہ بدر ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کو قرب شروع ہوتا ہے اور حسب ازدیادِ قرب اس کا نور کم ہوتا جاتا ہے۔ پس اپنے آپ کو تشبیہ قمر کے ساتھ، اس کے بعض احوال کے اعتبار سے دی یعنی جو حال اس کو نصفِ ماه آخر میں عارض ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ با وجودیکہ اس کو بالمعنی المذکور آفتاب کے پیچھے دوڑنے سے نقصانِ نور عارض ہوتا ہے جس کو لاغری کہا ہے۔ اور ’’زفتی و فربہي‘‘ یعنی زیادتِ نور فوت ہو جاتی ہے مگر اس کو اس سے بحث نہیں آفتاب کے پیچھے پیچھے دوڑنے سے کام ہے (ملخص از کلید مثنوی) اگرچہ یہاں ’’مناسبتِ فلکیہ‘‘ سے ہلال فلک کی طرف اشارہ ہے مگر مراد اس سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہیں جو ایک صحابی عاشقِ رسول تھے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے قصے کے بعد ان کا قصہ مذکور ہوگا۔ آگے غلبہ عشق کی تشبیہ قضا کے ساتھ دی ہے۔

19

 با قضا ہر کو قرارے میدہد  ریشخندِ سبلتِ خود می کُند

ترجمہ: قضا کے مقابلے میں جو شخص کوئی (تجویز) قرار دے تو وہ اپنی مونچھوں کی ہنسی (اڑائے جانے کا سامان) کرتا ہے۔


 20

کاہ برگے پیشِ باد، آنگہ قرار رستخیزے، وانگہانے عزمِ کار 

ترجمہ: (بھلا یہ ممکن ہے) کہ ایک برگِ کاہ ہوا کے سامنے ہو اور پھر (اس کو) قرار (بھی ہو؟ اور کیا یہ ہوسکتا ہے کہ) قیامت قائم ہو اور پھر کوئی کام کرنا سو جھے؟

21

گُربہ در انبانم اندر دستِ عشق  یک دمے بالا و یک دم پستِ عشق

ترجمہ: میں عشق کے ہاتھ میں (ایسا ہوں جیسے) تھیلے میں بلی بند ہو (کر بے قرار ہوتی ہے۔ چنانچہ میری یہ حالت ہے کہ)عشق کے ہاتھوں ایک لمحہ اوپر ہوں اور ایک لمحہ نیچے۔

22

او ہمی گرداندم بر گردِ سر نے بزیر آرام دارم نے زبر

ترجمہ: پس وہ (عشق) مجھے سر کے گرد گھماتا ہے نہ مجھے نیچے آرام ہے نہ اوپر (آگے مولانا فرماتے ہیں):

23

عاشقان در سیلِ تند اُفتاده اند  بر قضائے عشق دل بنہاده اند

ترجمہ: عاشق لوگ ایک تند سیلاب میں پڑے ہوئے ہیں (اور) عشق کے فیصلے پر دل جمائے ہوئے ہیں۔

24

ہمچو سنگِ آسیا اندر مدار روز و شب نالان و گردان بیقرار

ترجمہ: (عاشق لوگ عشق کے تصرفات سے) چکی کے پتھر کی مانند (ہیں جو) گردش میں (رہتا ہے) رات دن روتے، چکر کھاتے اور بے قرار (رہتے) ہیں۔

25

گردشش بر جوئے جویان شاہد ست تا نگوید کس کہ آن جُو راکد ست

ترجمہ: اس (پن چکی) کی حرکت متحرک نہر پر شاہد ہے تا کہ کوئی یوں نہ کہے کہ وہ نہر غیر متحرک ہے۔

مطلب: اسی طرح قضا سے کائنات کا تغیر و تبدل پانا علامت ہے اس کی کہ قضا میں بھی حرکت اور تغیر و تبدل ہے۔ اور کائنات کا تغیر اس کے تابع ہے۔ چنانچہ ظاہر بھی ہے کیونکہ قضا فعل ہے حق تعالیٰ کا اور افعال واجب کے حادث ہیں کیونکہ حقیقت ان کی متعلق کرنا ہے صفتِ تکوین کا مکوّن سے۔ یہ تعلقات حادث ہیں اور حادث میں تغیر ممکن ہے اور مکوّنات کے تغیر و تبدل کے مشاہدہ سے ان تعلقات یعنی افعالِ حق کے تغیر و تبدل کا وقوع ثابت ہے۔ یہی معنی ہیں قضا میں حرکت ہونے کے۔ خلاصہ یہ کہ مقتضی کے تغیر سے قضا کے تغیر پر استدلال کرو اور مقصود مقام یہ تعلیم ہے کہ اپنے عجز و ضعف کا استحضار کرو اور دعوائے استقلال چھوڑو دو تا کہ رضأ و تسلیم حاصل ہو۔ (کلید بلفظہ) یہاں تک مطلق کائنات کے تغیر سے تغیرِ قضا پر استدلال تھا۔ آگے بعض کائناتِ عظام کے تغییر سے بھی استدلال مذکور ہے اور مقصود ان سب سے یہ بیان کرنا ہے کہ یہ سب کائنات قضا کے تابع ہے تم بھی اپنے آپ کو تابع سمجھو اور تا بع رکھو۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

26

 گر نمی بینی تو جُو را در کمین  گردشِ دولابِ گردونی ببین

ترجمہ: اگر تو نہر کو (جو کہ) پوشیدگی میں (ہے) نہیں دیکھتا تو آسمان کے رہٹ کی گردش کو دیکھ لے۔ (جس طرح رہٹ کی گردش سے نہر کی حرکت معلوم ہوتی ہے اسی طرح دولاب چرخ کے تغیرات ظاہرہ سے قضا کے تصرفات پر استدلال کر لو آگے بطور تفریع ایک اور بات ارشاد ہے):

27

چُون قرارے نیست گردون را ازو  اے دل اختر وار آرامے بجُو

ترجمہ: جب آسمان کو اس (قضا کے) تصرف سے قرار نہیں تو اے دل! جو (کہ چھوٹا ہونے میں) ستارے کی مانند ہے تو قرار کا طالب نہ بن (یعنی آسمان جیسی بڑی ہستی کو قضا کے ہاتھوں چین نہیں تو تیری کیا بساط ہے جو ایک صغیر و حقیر ہستی ہو کر اس سے معارضہ کرے اگر ایسا کرے گا تو وہ تصرفات کو باطل کر دے گی)۔ چنانچہ

28

گر زنی در شاخ دستے کَے ہلد ہر کُجا پیوند سازی بگسُلد

ترجمہ: اگر تم کسی شاخ میں ہاتھ مارو گے تو وہ (قضا) کب چھوڑے گی؟ (بلکہ) جس جگہ تم تعلق (قائم) کرو گے اس کو توڑ ڈالے گی (آگے اجرامِ فلک اور عناصرِ زمین کے تغیر سے قضا کے تصرفات پر استدلال کرنے کی تقریر فرماتے ہیں)۔

29

گر نمی بینی تو تدويرِ قدر در عناصر جوشش و گردش نگر

ترجمہ: اگر تو تقدیر کے چکر دینے کو نہیں دیکھتا (تو) عناصر میں جوش اور گردش دیکھ لے۔

30

زانکہ گردشہاۓ آن خاشاک و کف  باشد از غیبان بحرِ باشرف

ترجمہ: کیونکہ اس گھاس پھوس اور جھاگ کی حرکت (جو سطحِ بحر پر ہوتے ہیں) شاندار دریا کے جوش (ہی) سے ہوتی ہیں۔

31

بادِ سرگردان ببین اندر خروش  پیشِ امرش موجِ دریا ببین بجوش

ترجمہ: ہوائے سرگرداں کو شور کرتی دیکھ لو اس کے حکم کے سامنے موجِ دریا کو جوش میں دیکھ لو۔

32

آفتاب و ماہ دو گاوِ خراس گرد می گردند و می دارند پاس

ترجمہ: سورج اور چاند (گویا آسمان کی) چکی کے دو بیل ہیں (دونوں) چکر لگاتے ہیں اور (حکمِ الہٰی کا) پاس رکھتے ہیں۔ ﴿وَالشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرَاتٍ م بِاَمْرِهٖ (الاعراف: 54)

33

اختران ہم خانہ خانہ می دوند  مرکبِ ہر سعد و نحسے می شوند

ترجمہ: (دوسرے) ستارے بھی (بروج فلک کے) گھر گھر میں دوڑتے پھرتے ہیں (اور) ہر قسم کی سعادت و نحوست کے حامل ہوتے ہیں۔

مطلب: یعنی ستارے مختلف بروج میں داخل ہو کر سعادت و نحوست کے ساتھ موصوف ہو جاتے ہیں۔ یہ اہلِ نجوم کے قول کی بنا پر بطور عادتِ شاعرانہ کہہ دیا۔ ورنہ شرعاً یہ بالکل باطل کما مر مرارًا۔

34

اخترانِ چرخ گر دورند، ہَے  وین حواست کاہل اند و سست پے

ترجمہ: آسمان کے ستارے اگر (تم سے) دور ہیں (اور) ہاں! تمہارے یہ حواس کاہل اور سست قدم ہیں ہی (اس لئے ستارے کے تغیرات کا کامل ادراک کرنے سے قاصر ہیں اس شرط کی جزا اگلا شعر ہے):

35

 اخترانِ چشم و گوش و ہوشِ ما  شب کجایند و بہ بیداری کجا

ترجمہ: (تو ان آیات آفاقیہ کے بجائے آیاتِ انفسیہ پر ہی غور کرو اور دیکھو کہ) ہماری آنکھوں اور کانوں اور ہوش کے ستارے رات کو؟ (سوتے وقت) اور (دن کو) بیداری میں کہاں ہوتے ہیں؟ (پس دن رات کو انقلابِ تصرفاتِ قضا کے لئے کافی دلیل ہیں)

36

گاه در سعد و وصال و دل خوشی  گاه در نحس و فراق و بے ہُشی

ترجمہ: (یہ اخترانِ حواس) کبھی سعادت اور وصال اور خوش دلی میں ہیں اور کبھی نحوست اور فراق اور بیہوشی میں ہیں۔

مطلب: معطوفاتِ مذکور باہم متلازم ہیں۔ متغایر نہیں ہیں یعنی مرغوبات سے واصل ہونا بمنزلۂ سعادت یعنی خوش نصیبی ہے اور اس سے دل کو خوشی حاصل ہوتی ہے اور ان مرغوبات کا فوت ہو جانا بد نصیبی ہے۔ اسی کو نحوست سے تعبیر کیا ہے جو باعثِ غم ہے اور شدتِ غم کی حالت میں بد حواسی و مدہوشی سی پیدا ہو جاتی ہے۔

37

ماهِ گردون چون درین گردیدن ست  گاه تاریک و زمانے روشن ست

ترجمہ: (ذرا سوچو تو سہی کہ) جب آسمان کا چاند (اتنی بڑی ہستی ہونے کے باوجود) اس گردش میں ہے کبھی تاریک اور کبھی روشن ہے۔

38

گہ بہار و صیف ہمچون شہد و شیر گہ سیاستہائے برف و زمہریر

ترجمہ: (اور جب کائناتِ جوّ میں بھی گوناگوں انقلابات رونما ہیں چنانچہ) کبھی بہار اور گرمی کے آغاز کا موسم شہد اور دودھ کی مانند (خوشگوار) ہے (اور) کبھی برف اور جاڑے کی دارو گیر ہے۔

39

چونکہ کلیات پیش او چو گو ست  سخره و سجده کن چوگانِ او ست

40

تو کہ یک جزوی دلا زین صد ہزار  چُون نباشی پیش حکمش بیقرار

ترجمہ: جب بڑی بڑی چیزیں اس (قضا) کے سامنے گیند کی (طرح مغلوب) ہیں اور اس کے چوگان کی مسخر و منقاد ہیں تو اے دل! تو جو اس لاکھ (کائنات کے مجموعہ) میں سے ایک (چھوٹا سا) جز ہے اس کے حکم کے آگے بے قرار (و مضطر) کیوں نہ ہو گا۔

مطلب: جب بڑی بڑی ہستیاں اس کی مسخر ہیں تو ایک چھوٹی ہستی کا دعوائے استقلال فضول ہے۔ کلیات کے مسخرِ قضا ہونے پر الله تعالیٰ کا یہ فرمان ناطق ہے۔ ﴿اَلَمْ تَـرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَـهٗ مَنْ فِى السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِى الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِيْـرٌ مِّنَ النَّاسِ (الحج: 18) (اے مخاطب!) کیا تو نے (اس بات پر) نظر نہیں کی کہ جو (مخلوق) آسمانوں میں ہے اور جو (مخلوق) زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چار پائے (سب ہی تو) خدا کے آگے سرنگوں ہیں اور بہت سے آدمی بھی“ یہ سجدے کی آیت ہے جس کے پڑھنے والے پر سجدہ کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ غرض یہ تو حق تعالیٰ کی قضا یعنی اس کے حکم تکوینی کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کی تعلیم تھی۔ آگے اس کے حکمِ تشریعی کے لئے منقاد ہونے کی ہدایت فرماتے ہیں:

41

چون ستورے باش در حکمِ امیر  گہ در آخُر جبس و گاھے در مَسِیر

ترجمہ: تم (اپنے) امیر کے حکم پر گھوڑے کی طرح (مطیع) رہو (چنانچہ) اس کے حکم سے کبھی طویلہ میں (بند رہو) اور کبھی مسافت طے کرنے میں۔ (مشغول)

42

چونکہ بر میخت بہ بندد بستہ باش  چونکہ بکشاید برو برجستہ باش

ترجمہ: جب وہ تم کو کھونٹے سے باندھ دے تو بندھے رہو جب کھول دے تو چل پڑو اور چالاک ہو جاؤ (غرض احکام تشریعیہ سے نہ اعراض کرو نہ ان پر اعتراض کرو بلکہ پوری طرح تابع رہو۔ آگے اعراض و اعتراض کی مذمت کرتے ہیں):

43

آفتاب ار بر فلک کژ می جہد در سیہ روئی کسُوفش می دہد

ترجمہ: (دیکھو) آفتاب اگر آسمان پر ٹیڑھا چلنے لگتا ہے تو (حکمِ قضا) اس کو سیاه روی (کی سزا) میں گھن لگا دیتا ہے۔ ( آفتاب سے قصداً مخالفت حکم ممکن نہیں تاہم جب اس سے کسی ایسے فعل کا صدور جو صورةً مخالفتِ حکم سے مشابہ ہو باعث عتاب ہے تو خیال کرو کہ قصداً مخالفت کرنے والا کس قدر مستوجب عتاب و عذاب ہو گا)۔

44

کَز ذَنَب پرہیز کن ہیں ہوشدار  تا نگردی تو سیہ رُو دیگ وار

ترجمہ: (اور آفتاب کو بزبانِ حال تنبیہ کرتا ہے) کہ خبردار! ہوش میں رہ (اور) ذنب سے بچ (کر چل) تاکہ تو (پھر اسی طرح کالی) دیگ کی مانند سیاه رو نہ ہو جائے۔

مطلب: ’’ذنب‘‘ بفتتحتین سے ’’ذنب‘‘ بسکون نون بمعنی گناہ کی طرف اشارہ ہے یعنی تم گناہ کے ارتکاب سے بچو جس کا نتیجہ ظلمتِ قلبِ اور ظلماتِ آخرت ہے۔ کلید مثنوی میں اس شاعرانہ مضمون کو فلسفۂ فلکیات کے ساتھ تطبیق دینے میں ایک لمبی تقریر لکھی ہے جس کو بخوفِ طوالت نقل نہیں کیا گیا۔

45

ابر را ہم تازیانہ آتشین  میزنندش کان چنان رَو نے چنین

ترجمہ: (اسی طرح جب) ابر (غلافِ حکم چلنے لگتا ہے تو اس) کو بھی (مؤکلانِ سحاب بجلی کے) آتشی تازیانہ سے مارتے ہیں (اور تنبیہ کرتے ہیں) کہ یوں چل نہ کہ یوں۔

46

بر فلان وادی ببار این سو مبار   گوشمالش می دہد کہ گوش دار

ترجمه: فلاں وادی پر برس۔ ادھر نہ برس (غرض حکم قضا) اس کو گوشمالی دیتا ہے کہ (اس حکم پر) متوجہ رہا کر۔

مطلب: یہ اشارہ ہے مضمون حدیث کی طرف جس میں رعد کی حقیقت فرشتہ موکل بالسحاب کی آواز اور برق کی حقیقت اس فرشتے کی لمعانِ سوط وارد ہے اور اس پر حکما کے قول سے شبہ نہ کیا جائے۔ کیونکہ حکما نے صورتِ رعد و برق کی ماہیت بیان کی ہے اور حدیث میں ان کی روح و حقیقت بیان کی گئی ہے فلا تعارض (کلید)۔ آفتاب کی طرح اس میں بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ابر کی کجروی اختیاری نہیں اضطراری ہے اور اضطرار کے باوجود اس کا معتوب ہونا بالاختيار نافرمانی کرنے والوں کے لئے باعث عبرت ہے۔ آگے ان واقعات سے بطورِ نتیجہ حکمِ حق کے لئے اطاعت بجا لانے کی تعلیم فرماتے ہیں:

47

 عقلِ تو آفتابے بیش نیست  اندرین فکرے کہ نہی آمد مایست

ترجمہ: تیری عقل آفتاب سے تو زیادہ (روشن) نہیں ہے (جب اس کو کجروی پر سزا مل گئی تو تجھ کو احکام حق سے اعراض کرنے پر سزا کیوں نہ ملے گی پس) جس (بات کا) خیال (کرنے اور اس کو عمل میں لانے) سے نہی وارد ہوئی ہے، اس میں قیام نہ کر۔ 

48

کژ منہ اے عقل تو ہم گامِ خویش  تا نیاید آن کسُوفت زو بہ پیش

ترجمہ: اے عقل! تو (خود) بھی (محتاط رہا کر اور) اپنا قدم ٹیڑھا نہ رکھ تاکہ اس سے وہ کسوف (یعنی ظلمتِ باطنِ) تجھ کو پیش نہ آئے (یہاں تک کسوفِ آفتاب کا سبب اس کی کجروی بیان کی تھی۔ آگے اس کا سبب بندوں کی معصیت کو ٹھہراتے ہیں جو مضمون حدیث کے مطابق ہے):

49

چون گنہ کمتر بود نیمِ آفتاب  منکسِف بینی و نیمے نور و تاب

ترجمہ: جب بندوں کا گناہ کم ہوتا ہے تو تم آدھے سورج کو گہنایا ہوا دیکھتے ہو اور آدھا روشنی اور چمک (رکھتا ہے)۔

50

کہ بقدرِ جُرم مے گیرم ترا  این بود تقدیر در داد و جزا

ترجمہ: (جس میں حق تعالیٰ کی طرف سے یہ اشارہ مضمر ہے) کہ میں تجھ کو جرم کی مقدار کے مطابق پکڑتا ہوں (اور) جزا و سزا میں یہی اندازہ ہے۔

مطلب: بندوں سے جس قدر کم و بیش گناہ سرزد ہوتے ہیں اسی قدر آفتاب کو گہن لگتا ہے۔ جس میں یہ اشارہ ہے کہ بندوں کو جو سزا دنیا میں ملتی ہے یا آخرت میں ملے گی وہ ان کے عمل کے مطابق ہو گی۔ اس طرح نیک اعمال کا اثر بھی اعمال کے برابر ہو گا اور قرآن مجید میں یہ بات کثرت سے وارد ہوئی ہے۔ ﴿ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ (البقره: 281) ﴿وَ قُضِیَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لا يُظْلَمُونَ (یونس: 47) اسی مضمون کی آیات سورة الزمر، سورة النحل، سورة الانعام، سورة آل عمران، سورة الاعراف، سورة توبہ، سورة عنکبوت، سورة الروم، سورة الاحقاف، سورة بنی اسرائیل، سورة مريم وغیرہ میں آئی ہیں۔

51

خواه نیک و خواه بد فاش و ستير بر ہمہ اشیا سمیعیم و بصیر 

ترجمہ: (خواہ عمل) نیک (ہو) اور خواه برا (اور خواه) علانیہ (ہو) اور (یا) مخفی (ہو) ہم تمام اشیاء پر سمیع و بصیر ہیں (اس کے ہر عمل پر مناسب جزا و سزا دیتے ہیں۔ آگے رجوع ہے قصہ بلال کی طرف):

52

زین گذر کن اے پدر نوروز شد  خلق از اخلاقِ خوش فیروز شد

ترجمہ: اے بزرگوار! اس (بحث) سے آگے چلو (کیونکہ عشاق کے غلبۂ عشق کی پھر) عید آ گئی (چنانچہ) مخلوق (محبوب کے) اچھے اخلاق سے کامیاب ہو گئی۔

53

باز آمد آبِ جان در جوئے ما باز آمد شاہِ ما در کوئے ما

ترجمہ: روح کا آب (حیات) پھر ہماری نہر (ہستی) میں آ گیا (اور) ہمارا بادشاه (محبوب) پھر ہمارے محلے میں آ گیا (روح کے آبِ حیات سے مراد عشق ہے) ؎

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق

54

می خرامد بخت و دامن میکشد  نوبتِ توبہ شکستن می رسد

ترجمہ: (ہمارا) نصیب (اس تجلیِ عشق کے حصول پر) ناز کرتا ہے اور دامن کھینچتا (ہوا چلتا) ہے (غلبۂ عشق سے اب) توبہ شکنی کا موقع آ رہا ہے۔

55

توبہ را بارِ دگر سیلاب برد  فرصت آمد پاسبان را خواب برد

ترجمہ: (حضرت بلال کی) توبہ (یعنی ترکِ اظہار کے عہد) کو (غلبۂ عشق کا) سیلاب بہا لے گیا (اور سیلابِ عشق کو یہ) موقع مل گیا (کیونکہ اس عہد کے) محافظ کو (مستیِ عشق کی) نیند آ گئی۔

56

ہر خماری مست گشت و بادہ خورد  رخت را امشب گرو خواہیم کرد

ترجمہ: ہر ایک (میخور) جو خمار (اور زوالِ نشہ) میں تھا (اس غلبۂ عشق سے پھر) مست ہو گیا اور اس نے جو (جوشِ عشق کی) شراب (پھر) پی لی ہم (عاشق لوگ اس شراب کی طلب میں) آج کی رات (اپنی ہستی کے) متاع کو گروی رکھ دیں گے۔ (ہستی کو گرو رکھنے کے لفظ میں یہ ایک رعایت ہے کہ جس طرح گرو میں مِلک زائل نہیں ہوتی بلکہ معطل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مستی میں ہستی نابود نہیں ہوتی بلکہ کچھ دیر کے لئے مفقود ہوتی ہے۔)

57

 زان شرابِ لعل و لعلِ جان فزا  لعل اندر لعل اندر لعلِ ما

58

 باز خرّم گشت و مجلس دل فروز  خیز دفعِ چشمِ بد اسپند سوز

ترکیب: (1) ’’لعل اندر لعلِ ما‘‘ مرکبِ اضافی اسم ہے ’’گشت‘‘ فعل ناقص کا اور ’’خرّم‘‘ اس کی خبر اس صورت میں پہلا شعر اور دوسرے شعر کا مصرعہ اولیٰ قطعہ بند ہیں جس میں ’’مجلس دلفروز‘‘ جملہ اسمیہ بتقدیر کلمہ ’’گشت‘‘ جملہ ’’خرّم گشت‘‘ پر معطوف ہے۔ (2) ’’لعل اندر لعل اندر لعل‘‘ خبر مقدم اور ما ضمیر متکلم مبتدا مؤخر۔ دوسرے شعر کا مصرعہ اولیٰ اس ترکیب میں الگ رہے گا جس کی تقدیر یوں ہو گی ’’و باز مجلس ما خرم و دلفروز گشت‘‘ مگر اس میں تعقیدِ لفظی ضرور ہے۔ (3) ’’مجلس دلفروز‘‘ میں دو صورتیں اور ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ موصوف وصفت بفکِ کسرہ توصیفی ’’لعلِ ما‘‘ پر معطوف ہو۔ (4) دوسری صورت یہ ہے کہ ’’دل فروز‘‘ الگ جملہ فعلیہ ہو جس میں فروز فعل امر اور دل اس کا مفعول بہ۔

ترجمہ: (1) اس (عشق کی) سرخ شراب اور (لبِ محبوب کے) لعلِ جانفزا سے ہماری ہستی کا لعل در لعل در لعل پھر سرور میں آ گیا اور (ہماری) مجلس دلفروز (ہو گئی اے حریفِ بزم!) اٹھ اور نظر بد کو دفع کے لئے سپند کو جلا۔

(2) اس (عشق کی) سرخ شراب اور (لبِ محبوب کی تجلی) لعلِ جانفزا سے ہم لعل در لعل در لعل ہیں اور ہماری مجلس پھر پُر لطف اور دلفروز ہو گئی۔ الخ  

(3) ہماری ہستی کا لعل در لعل در لعل اور مجلس دلفروز (دونوں) پُر لطف ہو گئے۔

(4) ہماری ہستی کا لعل درلعل درلعل اور ہماری مجلس پھر پُر لطف ہو گئے (اے حریفِ بزم!) اٹھ اپنے دل کو روشن کر اور نظرِ بد کے دفع کے لیے سپند کو جلا۔

مطلب: ’’لعل در لعل‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عاشق کا وجود فنا فی المحبوب ہونے کی وجہ سے ایک تو خود لعل بن گیا۔ پھر اس کا تعلق اور دو لعلوں کے ساتھ ایک لعلِ شرابِ عشق دوسرا لعلِ تجلیِ لبِ محبوب پس اس طرح عاشق تین لعلوں کا مجموعہ ہو گیا۔ سپند جلانے کا رواج عوام میں اس غرض سے ہے کہ نظرِ بد اثر نہ کرے۔ یہاں یہ مطلب ہے کہ گو ہماری یہ مستانہ حالت مشقت خیز ہے مگر ہم اس کے دوام پر خوش ہیں۔ چنانچہ آگے کہتے ہیں:

59

 نعرۂ مستانہ خوش مے آیدم  تا ابد جانان چنین مے بایدم

ترجمہ: مجھ کو مستانہ نعرہ اچھا لگتا ہے۔ اے محبوب! مجھ کو ہمیشہ ایسا ہی (حال) مطلوب ہے۔ 

60 

نک ہلالے با بلالے یار شد  زخمِ خار او را گل و گلزار شد

ترجمہ: دیکھو! اب (حضرت) بلال (رضی الله عنہ) کے ساتھ (حضرت) ہلال (رضی الله عنہ) بھی شریک (عشق) ہو گئے (خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ اب تو) ہلال کے لئے زخمِ خار گل و گلزار ہو گیا (کیونکہ شریکِ حال کو دیکھ کر دل کو قوت حاصل ہوتی ہے۔)

61

گر ز زخم خار، تن غِربال شد  جان و جسمم گلشنِ اقبال شد

ترجمہ: (چنانچہ وہ بزبانِ حال کہتے ہیں کہ) اگر زخمِ خار سے بدن چھلنی بھی ہو گیا (تو کیا ہوا) میری روح اور جسم (دونوں باطناً) تو اقبال کا باغ بن گئے۔

62

تن بہ پیشِ زخمِ خارِ آن جہُود  جانِ من مست و خرابِ آن وُدُود

ترجمہ: میرا بدن تو اس کافر کے زخمِ خار کے آگے ہے (اور) میری جان اس محبوب (حقیقی) کی شیفتہ و عاشق زار ہے۔ حافظؒ ؎

یا رب این کعبۂ مقصود تماشا گہِ کیست  کہ مغیلانِ طریقش گل و نسرینِ من است

63

بُوئے جانے سُوئے جانم می رسد  بوئے یارِ مہربانم می رسد

ترجمہ: ایک روح (حقیقی) کی خوشبو میری جان کی طرف آرہی ہے (یعنی) یارِ مہربان کی خوشبو مجھے پہنچ رہی ہے۔