سحُوری زدن شخصے بر درِ سرائے خالی نیم شب و اعترَاضِ مُعترِض و جوابِ او
ایک شخص کا آدھی رات کے وقت ایک خالی مکان کے دروازے پر سحری کے وقت جگانے کے لئے نقارہ بجانا اور ایک معترض کا اعتراض (کرنا) اور اس کا جواب (دینا)
1
آن یکے می زد سحوری بر درےدرگہے بود و رواقِ مہترے
ترجمہ: ایک شخص کسی دروازے پر سحوری بجاتا تھا جو ایک درگاہ تھی اور کسی امیر کا ایوان تھا۔
2
نیم شب می زد سحوری را بجِدگفت او را قائلے کاے مستمد
ترجمہ: وہ آدھی رات کے وقت سرگرمی سے سحوری بجاتا تھا (پاس پڑوس سے) کسی کہنے والے نے (اس کو) کہا اے طالبِ امداد! (معترض اس کو سوالی سمھجتا تھا)۔
3
اولاً وقتِ سحر زن این سحُورنیم شب افغان مکن اے ناصبور
ترجمہ: اول تو یہ سحوری سحر کے وقت بجا۔ اے بے صبر! (جو طلوعِ سحر کا انتظار نہیں کر سکتا) آدھی رات کے وقت یہ شور برپا نہ کر۔
4
دیگر آنکہ فہم کن اے بُو الہوس کاندرین خانہ درُون خود ھست کس
ترجمہ: دوسری یہ بات ہے کہ اے بو الہوس! ذرا اتنا تو سوچ کہ آیا اس مکان کے اندر کوئی رہنے والا بھی ہے (کہ نہیں)۔
5
کس درین جا نیست جز دیو و پری روزگارِ خود چہ یاوہ مے بَری
ترجمہ: (یہ واضح رہے کہ) یہاں سوائے جن و پری کے کوئی نہیں رہتا تو (نا حق نقارہ بجانے میں) اپنا وقت کیوں ضائع کر رہا ہے؟
6
بہرِ گوشے می زنی دف گوش کُو؟ ہوش باید تابداند ہوش کُو؟
ترجمہ: تو کسی (سننے والے کے) کان کے لئے (یہ) دف بجا رہا ہے (مگر یہاں) کان کہاں ہے؟ (تیری اس سحوری پر متوجہ ہونے کی) ہوش چاہیے تا کہ وہ (اس کو) سمجھے (مگر یہاں) ہوش کہاں؟
7
گفت گفتی بشنو از چاکر جواب تا نمانی در تحیُّر و اضطراب
ترجمہ: اس نے کہا (جنابِ من!) تم نے تو (اپنی) کہہ لی (اب) بنده کا جواب (بھی) سن لو تاکہ تم حیرانی و بے قراری میں (مبتلا) نہ رہو۔
8
گرچہ ہست ایندم بر تو نیم شب نزدِ من نزدیک شد صبحِ طرب
ترجمہ: اگرچہ اب تمہارے نزدیک آدھی رات ہے (مگر) میرے نزدیک خوشی کی صبح قریب آ گئی۔
مطلب: تمہارے نزدیک صرف صبح کے وقت سحوری بجانا مفید ہے مگر میرے نزدیک آدھی رات کو بجانا مفيد ہے۔ اس لئے میری نظر میں آدھی رات بھی بمنزلہ صبح ہے۔ شاید اس سحوری زن کا مقصود یہ ہو کہ تہجد خواں لوگ جاگ کر اپنے نوافل میں مشغول ہو جائیں کیونکہ تہجد کا افضل وقت نصف شب سے شروع ہوتا ہے۔ آگے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن سے مدعا یہ ہے کہ تمہارا نقطۂ نظر کچھ اور ہے اور میرا کچھ اور۔ ایک امر کوتمہاری حسِّ ظاہر کسی اور صورت میں دیکھتی ہے اور میری حسِ باطن کسی اور انداز میں محسوس کرتی ہے۔ اسی طرح تم نے اس وقت سحوری کے لئے غیر موزوں پایا اور میں اس کو موزون و مناسب سمجھتا ہوں ۔
9
ہر شکستے پیشِ من فیروز شد جملہ شبہا پیشِ چشمم روز شد
ترجمه: ہر (وہ واقعہ جو تمہاری نظر میں) شکست (ہے) میری نظر میں فتح مندی بن گیا تمام (اوصاف جو تمہاری نگاه میں) راتیں (ہیں) میری آنکھ میں دن بن گئیں۔
10
پیشِ تو خون ست آبِ رودِ نیلپیشِ من آب ست نے خون اے نبیل
ترجمہ: تمہارے نزدیک دریائے نیل کا پانی خون ہے (اور) میرے نزدیک اے دانا! پانی ہے خون نہیں (فرعون کی قوم کے لئے دریائے نیل کا پانی خون بن گیا تھا اور بنی اسرائیل کے لئے پانی کا پانی رہا)۔
11
در حقِ تو آہن ست و آن رُخامپیش داؤد نبی موم ست و رام
ترجمہ: تیرے حق میں وہ لوہا اور پتھر ہے (مگر) حضرت داؤد علیہ السلام کے آگے (وہ) موم (کی مانند نرم) اور مطیع (ہے)۔
مطلب: حضرت داؤد علیہ السلام لوہے سے زرہیں اس آسانی کے ساتھ بنا لیتے تھے جس طرح وہ موم ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ﴾ (سبا: 10) ”اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کر دیا“ اور جب وہ زبور پڑھتے تو پہاڑ ان کی آواز کے ساتھ آواز ملاتے چنانچہ ارشاد ہے۔ ﴿اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَ الْاِشْرَاقِ﴾ (ص: 18) اس شعر میں لف نشر مرتب ہے یعنی آہن موم ہے اور پتھر مطیع ہے۔ آگے پھر پہاڑوں اور پتھروں کے اسی فعل کا ذکر ہے۔
12
پیش تو کُہ بس گران ست و جمادمطرب ست او پیشِ داؤد اوستاد
ترجمہ: تمہارے نزدیک پہاڑ بہت بھدا اور ٹھوس ہے (مگر) اوستاد داؤد علیہ السلام کے آگے طرب میں آ جاتا ہے (یعنی ذی حس بن جاتا ہے)۔
13
پیش تو آن سنگریزه ساکت ستپیشِ احمد ﷺ او فصیح و قانت ست
ترجمہ: تمہارے نزدیک وہ کنکریاں (جو ابو جہل کی مٹھی میں تھیں) چپ ہیں مگر حضرت احمد ﷺ کے (حکم فرماتے ہی آپ کے) آگے بولنے والی اور مطیع ہیں۔
14
پیش تو استونِ مسجد مرده ایست پیشِ احمد عاشقِ دل برده ایست
ترجمہ: تمہارے نزدیک مسجد (نبوی) کا ستون بے جان ہے (اور) حضرت محمد ﷺ کے آگے جاندار (بلکہ) عاشق دلدادہ ہے۔
انتباه: رسول اللہ ﷺ کے آگے ستون کے جاندار و عاشق ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ستون کی اس حالت کا احساس صرف آپ کو تھا اور کسی کو نہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس ستون حنانہ کی گریہ و نالہ کی آواز تمام صحابہ حاضرین نے سنی تھی۔ مولانا کا مطلب یہ ہے کہ تم جیسے ظاہر پرست لوگ اس کا صرف ظاہر دیکھتے ہیں مگر رسول الله ﷺ کی نظر اس کے باطن پر ہے حتٰی کہ آپ کے معجزے سے اس کا باطن بھی بمنزلہ ظاہر بن گیا تھا اور اس کا رونا علانیہ سب حاضرین نے سنا۔ مفتاح العلوم کی تیسری جلد میں یہ بحث شرح و بسط کے ساتھ گزر چکی ہے۔ آگے ان مثالوں کے معنیِ مشترک کی تعمیم فرماتے ہیں۔
15
جملہ اجزائے جہان پیشِ عوام مردۂ و پیشِ خدا دانا و رام
ترجمہ: (غرض) جہاں کی تمام چیزیں (جو جمادات و نباتات کی اقسام سے ہیں) عوام کے نزدیک بے جان ہیں اور خداوند تعالیٰ کے نزدیک سمجھ رکھتی ہیں اور (حکم کی) مطیع ہیں (یہاں تک معترض کے پہلے اعتراض کا جواب تھا۔ اب وہ دوسرے اعتراض کا جواب دیتا ہے):
16
آنچہ گفتی كاندرین قصر و سرانیست کس، چون میزنی این طبل را
ترجمہ: (وہ) جو تم نے کہا کہ اس محل اور مکان میں کوئی نہیں (رہتا) تو کیوں یہ نقارہ بجا رہا ہے (سو اس کا جواب یہ ہے کہ):
17
بہر حق ایں خلق زرہا می دہندصد اساسِ خير و مسجد می نہند
ترجمہ: یہ لوگ خداوند تعالیٰ کی (رضا) کے لئے (صدہا) روپے دیتے ہیں اور سینکڑوں نیکی (کی عمارتوں مثلاً مدرسوں اور خانقاہوں) اور مسجدوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔
18
مال و تن در راهِ حجّ دور دست خوش ہمی بازند چون عشّاقِ مست
ترجمہ: (اور خدا ہی کی رضا کے لئے) حج کے دور دراز راستے میں (اپنا) مال اور بدن مست عاشقوں کی طرح نثار کرتے ہیں۔
19
ہیچ می گویند کان خانہ تہی ستاین سخن کے گوید آن کِش آگہی ست
ترجمہ: تو کیا کوئی (مدرسہ و خانقاہ اور مسجد اور خانہ کعبہ کے بارہ میں یہ) کہتا ہے کہ وہ گھر (مالک سے) خالی ہے (جس سے تم معاوضہ چاہتے ہو)۔ یہ بات وہ شخص کب کہہ سکتا ہے جس کو (یہ) معلوم ہے (کہ اوقاف کا مالک خدا کے سوا کوئی نہیں، ان کا مالک خدا ہے۔ وہی ان اوقاف کے لئے مال و جان نثار کرنے والوں کو اجر دے گا)۔
20
پُر ہمی بیند سرائے دوست را آنکہ از نورِ الٰہستش ضيا
ترجمہ: جس شخص کو حق تعالیٰ کے نور سے (بصیرت) کی روشنی حاصل ہے وہ محبوب (حقیقی) کے گھر کو (اس کی تجلی سے) پُر دیکھتا ہے (خالی نہیں دیکھتا)۔
21
بس سرائے پُر ز جمع و انبُہی پیشِ چشمِ عاقبت بینان تہی
ترجمہ: (بخلاف اس کے) بہت سے گھر جو جماعت اور ہجوم سے پُر ہیں، عاقب بین لوگوں کی نظر میں خالی (ہیں)۔
مطلب: جن مکانوں کی تعمیر سے مقصود رضائے حق ہے ان میں اہلِ نظر کا جلوہ دکھائی دیتا ہے اور جو عمارتیں کسی اور غرض سے بنائی گئی ہیں وہ ان کی نظر میں اس جلوہ سے خالی ہیں۔ یہ کلیہ اس ایوانِ امیر کے لئے نہیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ وہ بھی رضائے حق کے لئے بنایا گیا ہو بلکہ اب سحوری کے لئے ہے جس کو وہ رضائے حق کے لئے بجا رہا تھا۔ بس اس سحوری میں سحوری زن کی نظر مخلوق پر نہیں بلکہ خالق پر تھی اور اس کا جلوہ اس کو نظر آ رہا تھا پھر اگر کوئی انسان اس ایوان میں نہیں تھا تو نہ سہی۔ آگے مولانا سرائے اور جلوۂ دوست کے ذکر کی مناسبت سے فرماتے ہیں کہ جلوۂ حق دیکھنے کے لئے سب سے اچھا مقام عارف کا قلب ہے۔
22
ہر کرا خواہی تو در کعبہ بجُو تا بروید در زمان پیشِ تو او
ترجمہ: جس (محبوبِ حقیقی) کو تم طلب کر رہے ہو اس کو (قلبِ عارف کے) کعبہ میں تلاش کرو تا کہ وہ فوراً تمہارے سامنے ظاہر ہو جائے۔ (یعنی در کعبہ دل بجو تا پیشِ تو حاضر گردد کہ قلبِ انسان جامع جميع حقائق ست)۔ (بحر العلوم)
23
صورتے کو فاخر و عالی بوداو ز بیت الله کے خالی بود
ترجمہ: (کسی عارفِ کامل کی) صورت جو متبرک اور عالی شان ہوتی ہے وہ (ایسے قلب مشابہ بہ) کعبہ سے کب خالی ہوتی ہے۔
24
او بود حاضر منزّه از رِتاج باقی مردم برائے احتیاج
مطلب: وہ ( قلب افادۂ خلق کے لئے ہر وقت) حاضر ہے (اور) دروازہ بند ہونے سے منزّہ ہے باقی (غير عارف) لوگ (اس کے) محتاج (اور اس سے استفادہ کرنے کے لئے) ہیں۔ (غنیمت غفرلہ)
بیا بنگر در شاہے کہ آن جا تجلی ہا ست مشتاقِ تماشا
آگے پھر اسی مضمون کی طرف عود ہے جو شعر ؎ ’’ہیچ می گویند کان خانہ تہی است الخ‘‘ سے مقصود تھا یعنی ان متبرک عمارتوں کے لئے اس قدر روپیہ خرچ کرنا اور ان کی زیارت کو جانا بے معنی تھوڑا ہے کہ کوئی اعتراض کرے جس طرح تم میرے سحوری بجانے پر معترض ہو۔
25
ہیچ می گویند کاین لبّیکہابے ندائے می کُنم آخر چرا
ترجمہ: کیا کبھی (حج میں میرے لبیک پکارنے پر) لوگ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ میں یہ لبیک کے کلمات آخر کسی(کی) ندا کے بغیر کیوں کہتا ہوں۔
26
کُو ندا، تا خود لبّیکے دہیاز ندا لبیک تُو چون شُد تہی
ترجمہ: (کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ کسی کی) ندا کہاں ہے جو تو لبیک (لبیک) پکار رہا ہے؟ (کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ) تیری لبیک ندا سے کیوں خالی ہے؟ (ہرگز نہیں)۔
27
بلکہ توفیقے کہ لبّیک آوردہست ہر لحظہ ندائے از احد
ترجمہ: بلکہ (حق تعالیٰ کی طرف سے) جو توفیق لبیک (کہنے) پر آمادہ کرتی ہے وہی ہر لمحہ (خداوندِ) احد (تعالیٰ شانہ) کی طرف سے (ایک طرح کی) ندا ہے۔ (پس یہ لبیک ندا سے خالی نہ ہوئی)۔
28
من ببو دانم کہ این قصر و سرابزم جان افتاد و خاکش کیمیا
ترجمہ: میں (ایک باطنی) خوشبو سے (یہ) محسوس کر رہا ہوں کہ یہ محل و مکان روحانی محفل ہے اور اس کی مٹی کیمیا ہے۔
مطلب: جس طرح لبیکِ حجاج کو ندا سے خالی سمجھنا ظاہر بینی کا مقتضا ہے اور معنی شناس کے نزدیک توفیقِ ندا ہی بمنزلۂ ندا ہے۔ اسی طرح تمہارا اس محل کو خالی کہنا ظاہر بینی پر مبنی ہے میری حقیقت بین نظر میں یہ ارواحِ طیبہ سے پُر ہے۔ اس جواب سے یہ لازم نہیں آتا کہ مجيب فی الواقع اس مکان کو ارواح کا مسکن و ماوی مانتا ہے اور در حقیقت اس عمارت کی بنیاد کسی ایسے متبرک ہاتھ سے رکھی گئی ہے جس نے اس کی مٹی کو کیمیا بنا دیا۔ بلکہ مطلب یہ ہے میں اپنا کام جس نصب العین کی بنا پر کر رہا ہوں اور میں اس مکان کو جس نظر سے دیکھ رہا ہوں اس کے اعتبار سے مجھے اس میں گونا گوں جلوے دکھائی دیتے ہیں۔ صائبؒ ؎
گرچہ حسن او نگنجد در زمین و آسماندیدۂ ہر ذرہ آئینہ دارِ حسنِ او ست
گل کہ از شبنم گذار و ہر سحر عینک بچشمدر کمینِ مصحفِ خطِ غبارِ حُسنِ او ست
29
مسِّ خود را بر طریق زیر و بمتا ابد بر کیمیایش مے زنم
ترجمہ: میں اپنے (وجود کے) تابنے کو گانے کی نیچی اونچی سروں کی صورت برابر اس (مکان) کی کیمیا پر مل رہا ہوں۔
30
تا بجوشد زین چنین ضربِ سحوردر دُر افشانی بخشایش بُحور
ترجمہ: تاکہ اس طرح کی (مخلصانہ و بے غرضانہ) ضربِ سحوری کی بدولت (حق تعالیٰ کے فضل و کرم کے) دریائے عطا کے سبب سے جوش زن ہو جائیں۔
31
خلق در صفِّ قتال و کارزارجان ہمی بازند بہرِ کردگار
ترجمہ: (میں اگر اللہ کی رضا کے لئے یہ کام کرتا ہوں تو کونسی سے بڑی بات ہے دیکھو) مخلوق جنگ و جدال کی صفت میں اللہ (کی رضا) کے لئے جان نثار کر دیتی ہے۔
32
آن یکے اندر بلا ایوب واروان دگر در صابری یعقوب وار
ترجمہ: ایک شخص بلا (و مصیبت) میں حضرت ایوب علیہ السلام کی طرح (مبتلا) ہے اور پھر اللہ کی خوشنودی کے لئے صبر کرتا ہے اور دوسرا (فراقِ عزیز کے دکھ سے) حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرح صابر ہونے میں ( ثابت قدم) ہے (اس کو بھی اللہ کی رضا منظور ہے)۔
مطلب: حضرت یعقوب علیہ السلام ہر چند اپنے فرزندِ عزیز یوسف علیہ السلام کی فراق میں روتے روتے آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھے تھے مگر یہ بتقاضائے بشریت تھا اس کو بے صبری نہیں کہہ سکتے۔ بے صبری تو جب تھی کہ وہ کوئی ناشکری کا کلمہ منہ سے نکالتے، یا قسمت کا گلہ یا تقدیر کو برا کہتے، یا برادران یوسف کے ساتھ بطورِ انتقام کوئی برا سلوک کرتے، یا کم از کم ان سے ناراض ہوکر تعلق ہی منقطع کر لیتے۔ حالانکہ ان کا دامن اس قسم کی تمام باتوں سے پاک ہے۔ وہ اس غم میں بھی بات بات میں اللہ کی طرف رجوع اور اس سے استعانت کرتے رہے ﴿وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ﴾ (یوسف: 18) اور اپنے فرزندوں پر اس قصورِ شدید کے باوجود وہی شفقت مبذول رکھی جو ہمیشہ سے معمول تھی حتیٰ کہ جب وہ مصر میں گئے تو ازراہِ شفقت ان کو حکم دیا کہ شہر میں الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں جس سے ان کی غرض یہ تھی کہ اکٹھے ایک دروازے سے داخل ہونے سے کسی کی نظرِ بد نقصان نہ پہنچائے۔ ﴿یٰبُنَىَّ لاَ تَدْخُلُوْا مِنْ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ﴾ (یوسف: 67)
33
آن یکے چون نوح در اندوہ و کرب وان دگر چُون احمد ﷺ اندر صفِّ حرب
ترجمہ: ایک شخص حضرت نوح علیہ السلام کی طرح (مخالفین کی کثرت سے) غم و اضطراب میں (ہے) اور دوسرا حضرت محمد ﷺ کی طرح (دشمنوں کی مدافعت کے لئے) میدان جنگ میں (ہے)۔
34
این ز دنیا چُون ابوذرؓ پُرحذروان دگر در استقامت چُون عمرؓ
ترجمہ: یہ (شخص) حضرت ابوذر کی طرح دنیا سے اندیشناک اور وہ دوسرا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح (صبر و خود داری میں) ثابت قدم ہے (اور یہ سب ان تکالیف کو رضائے حق کے لئے برداشت کرتے ہیں)۔
35
صد ہزاران خلق تشنہ و مستمند بہرِ حق از طمع جہدے می کنند
ترجمہ: (غرض) لاکھوں مخلوق (مجاہدات کی شدت سے) پیاسی اور محتاج (رہ کر) حق تعالیٰ (کی رضا) کے لئے (قبولیت) کی طمع میں کوشش کر رہی ہے۔
36
من ہم ازبہرِ خداوندِ غفورمی زنم بر در بامّیدش سحور
ترجمہ: میں بھی خداوندِ غفور (کی رضا) کے لئے اس کی (عطا و کرم کی) امید میں (اس) دروازے پر سحوری بجا رہا ہوں۔ (آگے مولانا اس کی تائید فرماتے ہیں):
37
مشتری خواہی کہ از وے زر بری بہ ز حق کے باشد اے دل مشتری
ترجمہ: اے دل! اگر تو خریدار چاہتا ہے جس سے نقدی وصول کرے تو حق تعالیٰ سے بہتر کون خریدار ہو سکتا ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ﴾ (التوبہ: 11)
38
می خرد از مالت انبانِ بخِس می دہد نورِ ضمیرِ مقتبس
ترجمہ: (اور وہ ایسا فیاض خریدار ہے کہ) تیرے مال سے گھٹیا جنس کا تھیلا لے لیتا ہے (اور اس کے عوض میں) روشنی حاصل کرنے والے قلب کا نور عطا فرماتا ہے۔
مطلب: وہ اعمالِ ناقصہ بھی قبول کر لیتا ہے جن میں نہ کچھ خلوص ہو، نہ صفایئے نیت ہو، نہ حضورِ قلب ہو حالانکہ ایسے اعمال نہ قابل قبولیت ہوتے ہیں نہ ان سے قلب و روح میں انوار پیدا ہوتے ہیں۔ مگر یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ وہ ان کو بھی احياناً نورانیتِ قلب کا ذریعہ بنا دیتا ہے اور یہ ان کے قبول ہونے کی دلیل بھی ہے ضمیر کو مقتبس بلحاظ مَا یُولُ اِلَیْہ کہا ہے کیونکہ ضمیر اسی نور کا اقتباس کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔
39
می ستاند این نجس جسمِ فنا می دہد مُلکے برون از وہمِ ما
ترجمہ: وہ (ہم سے) یہ ناقص جسمِ فانی لے لیتا ہے اور ایک عظیم الشان ملک (اس کے عوض میں) دے دیتا ہے (جو) ہمارے وہم (و خیال) سے (بھی) باہر ہے ﴿وَ اِذَا رَاَيْتَ ثَـمَّ رَاَيْتَ نَعِيْمًا وَّ مُلْكًا كَبِيْـرًا﴾ (الانسان: 20) ﴿فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ﴾ (السجدہ: 17)
40
می ستاند قطرۂ چندے ز اشکمی دہد کوثر کہ آرد قندِ رشک
ترجمہ: وہ چند قطرے آنسووں کے لے لیتا ہے (جو اس کی محبت یا خوف میں بہائے جائیں اور ان کے عوض میں) کوثر دیتا ہے کہ (اس کی شیرینی پر) قند (بھی) رشک کرتا ہے (کوثر کے متعلق حدیث میں ’’اَحْلٰى مِنَ العَسَلِ‘‘ آیا ہے یعنی شہد سے زیادہ شیریں)۔
41
می ستاند آه پُر سَودا وُدود می دہد ہر آه را صد جاه و سُود
ترجمہ: وہ ایک آہ جو دیوانگی اور دھوئیں سے پُر ہو قبول کرتا ہے (اور) ہر آہ کے عوض میں سینکڑوں عزتیں اور فائدے دیتا ہے۔ صائبؒ ؎
اے کہ کامِ دو جہان را ز خدا می طلبی ہر دو موقوف بیک آہِ سحرگاہ بود
42
باد آہے کابرِ اشکِ چشم راندمرخلیلےؑ را بدان اوّاہ خواند
ترجمہ: جس آہ کی ہوا نے آنکھ کے آنسو کے ابر کو چلایا ہے اسی نے (حضرت) خلیل الله علیہ السلام کو اَوَّاہ کا لقب دلایا۔ ﴿اِنَّ اِبْـرَاهِيْـمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْـمٌ﴾ (التوبہ: 118)
43
ہِین درین بازارِ گرم بے نظیر کہنہ ہا بفروش و ملکِ نو بگیر
ترجمہ: ہاں! (جب خریدار ایسا فیاض و قدر دان ہے تو) اس با رونق اور بے مثال بازار میں پرانی (اور نکمی) چیزیں بیچ ڈال اور نیا ملک حاصل کر لے۔
مطلب: جب حق تعالیٰ کے فضل و کرم کا دریا اس جوش میں ہے کہ وہ ہر قسم کے ناقص اعمال کو بھی قبول فرما لیتا ہے۔ تو جس طرح بن پڑے، اعمال کئے جاؤ اور ان کے عوض میں آخرت کے نعیمِ مقیم حاصل کرو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ ’’مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلٍ تَمْرَۃً مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّ لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ اِلَّا الطَّیِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِھَا کَمَا یُرَبِّیْ اَحَدُکُمْ فَلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ‘‘ متفق علیہ۔ یعنی صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ حلال کمائی کو ہی قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے۔پھر صدقہ کرنے والے کیلئے اس کی پرورش ایسے کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ(صدقہ ) ایک پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے۔‘‘۔ (مشکوٰۃ)
چونکہ یہ سودا نقد کے عوض ادھار کی شکل رکھتا ہے یعنی دنیا میں عمل کریں تو آخرت میں ان کے اجر کی توقع رکھیں اس لئے گونا گوں وساوس عارض ہونے کا احتمال ہے۔ آگے ان وساوس کو دفع کرنے کی تدبیر ارشاد فرماتے ہیں:
44
ور ترا شکّے و ریبے رہ زندتاجرانِ انبيا راکُن سند
ترجمہ: اور اگر (اس معاملہ میں) کوئی شک و شبہ تمہارا (عمل کرنے سے) مانع ہو تو انبیا کے (زیر ہدایت اعمال کی) تجارت کرنے والوں کو (اس بات کی) دلیل ٹھہرا لو ( کہ بجا آوریِ اعمال ضروری اچھی ہے)۔
مطلب: دیکھو دنیا میں ایک طرف بڑے بڑے عقلائے دہر اور علمائے عصر پیغمبر ﷺ کے حلقہ بگوش ہوئے اور آپ کی ہدایت کے مطابق اعمالِ خیر بجا لانے میں سرگرم رہے۔ تو دوسری طرف سلاطینِ با جبروت مثل سلطان محمود، ملک شاہ، سلطان سنجر، شاہجہان، عالمگیر نے آپ کی تعلیمات کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا اور ان کے ایک ہاتھ میں اگر تیغِ فتوحات بے نیام تھی تو دوسرے ہاتھ میں تسبیحِ ذکر بھی چلتی رہی۔ پس ان نمونوں کو پیش نظر رکھ کر تم بجا آوریِ اعمال میں لگ جاؤ اور سوچو کہ ان گرامی تر ہستیوں کے مقابلے میں تمہاری کیا بساط ہے جو اعمالِ بد کے بجا لانے میں اگر مگر کرتے ہو۔
45
بس کہ افزود آن شہنشہ بختِ شانمی نتاند کُہ کشیدن رختِ شان
ترجمہ: (چنانچہ دیکھو) اس شہنشاہِ (حقیقی) نے (اس تجارت میں) ان کا نصیب جو بہت ہی بلند کر دیا تو (ان کو اس میں اس قدر نفع ہوا کہ) پہاڑ بھی ان کے مال کو اٹھا نہ سکا۔
انتباہ: اوپر فرمایا تھا کہ تاجران انبیا را کن سند۔ آگے ان تاجران انبیا کا ایک نمونہ دکھانے کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال کا قصہ ارشاد ہے یعنی حضرت ابوبکر آنحضرت ﷺ کے زیرِ ہدایت اعمال بِرّ کی تجارت کرنے والے ہیں۔ انہوں نے اسی تجارت کے سلسلے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خریدا تو اس سودے سے کس قدر نفع اٹھایا۔