دفتر 6 حکایت 26: دنیا کے حریص کی مثال اس چیونٹی کے ساتھ جو گیہوں کے ایک دانہ کے ساتھ کوشش کرتی ہے، جوش میں آتی ہے، کانپتی ہے



تمثيلِ حریصِ دُنیا بمورے کہ با دانۂ گندم می کوشد و می جوشد و می لَرزد

دنیا کے حریص کی مثال اس چیونٹی کے ساتھ جو گیہوں کے ایک دانہ کے ساتھ کوشش کرتی ہے، جوش میں آتی ہے، کانپتی ہے

1

 مور بہ دانہ ازان لرزان شود  کو ز خرمنہاے خوش اعمیٰ بود

ترجمہ: چیونٹی دانہ (کے فوت ہونے) پر اس لئے لرزاں اور خائف ہوتی ہے کہ عمده خرمنوں سے اس کی آنکھ بند ہوتی ہے (اس کے نزدیک جو کچھ ہے یہی دانہ ہے)۔ 

2

 می کشد آن دانہ با حرص و بیم  کو نمی بیند چنین چاشِ عظیم

ترجمہ: (اس لئے) وہ اس دانہ کو حرص اور خوف سے کھینچے لئے جاتی ہے وہ ایسے خرمنِ عظیم کو نہیں دیکھتی (جس میں ایسے بے شمار دانے موجود ہیں)۔ 

3

 صاحب خرمن ہمی گوید کہ ہے  اے ز کوری پیشِ تو معدوم شے

ترجمہ: خرمن کا مالک (بزبانِ حال) کہتا ہے کہ سن ری (چیونٹی!) اری او! کہ کور چشمی کے سبب سے تیرے آگے نا بود بھی ایک شے ہے۔ 

4

 تو ز خرمنہائے ما آن دیدۂ  کہ دران دانہ بجان پيچیدۂ 

ترجمہ: تو نے ہمارے خرمنوں سے یہی (ایک دانہ) دیکھا ہے جو اس دانہ میں (دل و) جان سے چمٹ رہی ہے (اگر پورا خرمن دیکھ لے تو یہ حرص جاتی رہے)۔

مطلب: دنیا دار کو صرف دنیا کا متاعِ حقیر نظر آتا ہے۔ آخرت کی نعمائے عظیمہ و کثیرہ کا اس کو نہ علم ہے نہ یقین۔ جن لوگوں کو ان نعمتوں کا علمِ یقین ہے وہ متاعِ دنیا کی پروا نہیں کرتے۔ صائبؒ ؎

در دل جہان مبند کہ این نونہال را از بہرِ سرزمینِ دگر سبز کردہ اند

ولہٗ ؎

 جہان براہِ شناسانِ دیدہ ور تنگ است  فضائے بادیہ در چشمِ راہبر تنگ است

 ’’دانہ و خرمن‘‘ کی مثال سے دنیا اور نعمائے آخرت مراد ہیں۔ اب صاحبِ خرمن کے تصور سے مالکِ نعماتِ آخرت یعنی منعمِ حقیقی تعالیٰ شانہٗ کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور اس کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی تاکید فرماتے ہیں۔ 

5

 اے بصورت ذرّہ کیوان را ببین  مورِ لنگی رَو سلیمان را ببین 

ترجمہ: اے (مخاطب!) جو صورت (ظاہری) میں ذرہ (اور) حقیر ہے تو (سب سے اونچے ستارے) کیوان (یعنی اپنی حقیقتِ روحیہ) کو دیکھ (جس کا کام معرفتِ حق ہے تو اگرچہ ضعف کی وجہ سے) ایک لنگڑی چیونٹی ہے (مگر اس نادانی کے دائرہ سے آگے) چل (اور اپنی روح کے ذریعہ) سلیمان (یعنی شہنشاہِ حقیقی تعالیٰ شانہ) کو دیکھ۔ 

6

 تو نۂ این جسم بل آن دیدۂ  وارہی از جسم گر جان دیدۂ 

ترجمہ: تو (با اعتبارِ حقیقت کے) یہ جسم نہیں بلکہ تو وہ چشمِ (حق بین) ہے (جس کو روح کہتے ہیں) اگر تو (کبھی) روح (کے آثار کو جن میں سے ایک معرفتِ حق ہے) دیکھ لے تو جسم (کے آثار و احکام پر نظر کرنے سے) چھوٹ جائے (مشاہدۂ حق میں مستغرق ہونے والا جسم و جسمانیت کی پروا نہیں کرتا)۔ 

7

 آدمی دید ست و باقی لحم و پوست  ہر چہ چشمش دیده است آن چیز اوست 

ترکیب: دوسرے مصرعہ کی ترکیب ’’ہرچہ‘‘ اسم موصول ’’دیده است‘‘ فعل ’’چشمش‘‘ اس کا فاعل ’’آن‘‘ بتقدیر را علامتِ مفعولیت اس کا مفعول بہ۔ یہ جملہ فعلیہ ہو کر صلہ ہوا۔ موصول و صلہ مل کر مبتدا ہوا۔ ’’چیز اوست‘‘ جملہ اسمیہ ہو کر اس کی خبر۔ 

ترجمہ: (غرض) آدمی (کی حقیت محض آلۂ) دید (و معرفت یعنی روح) ہے اور باقی گوشت اور چمڑا (ہے) جس (ذات پاک) کو اس کی (اس مذکورہ) آنکھ نے دیکھا ہے موجود (حقیقی وہی) ہے۔ 

مطلب: موجود حقیقی وہی ہے کہنے سے مقصود یہ ہے کہ وہ تمام موجودات سے اشرف ہے اور اشرف کی معرفت بھی تمام معارف سے افضل ہو گی اور اس معرفت کو حاصل کرنے والا تمام اہل معارف سے برتر ہوا۔ نتیجہ یہ کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ مصرعۂ ثانیہ میں چیز کا لفظ بمعنی شے جو اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال کیا ہے اس کے جواز پر قرآن مجید شاہد ہے ﴿قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللّٰهُۖ(الانعام: 19) یہاں کی روح کی معرفت سے حق تعالیٰ کی معرفت پر توجہ دلانا مقصود تھا۔ اب اصل مقصود یعنی معرفتِ حق کی ترغیب اور اس کے خواص کا ذکر فرماتے ہیں۔ 

8

 کوه را غرقہ کند یک خُم زنم  چشم خُم چون باز باشد سوۓ یم

ترجمہ: ایک مٹکا پہاڑ کو (اپنی تری سے) غرق کر دیتا ہے جب کہ مٹکے کی آنکھ دریا کی طرف کشادہ ہوتی ہے۔ 

مطلب: اگر مٹکے کا تعلق دریا کے ساتھ اس طرح ہو کہ دریا سے برابر مٹکے میں پانی آتا رہے تو وہ مٹکا اپنے غیر منقطع پانی سے پہاڑ کو غرق کر سکتا ہے۔ اسی طرح بندے کا تعلق جب حق تعالیٰ کے ساتھ استوار ہو تو وہ بڑی سے بڑی ہستی پر غالب آ سکتا ہے کیونکہ جس طرح پہاڑ کو غرق کرنے والا فی الواقع سمندر ہے، اسی طرح یہاں غالب آنے والی در حقیقت ذاتِ حق ہے۔ آگے دوسری مثال ہے: 

9

 چون بدریا راه شد از جانِ خُم  خُم با جیحون بر آرد اُشتلم

ترجمہ: جب مٹکے کی ذات سے سمندر کی ایک راہ ہو جائے تو مٹکا (دریائے) جیحوں کے ساتھ زور آزمائی کرنے لگتا ہے۔ 

مطلب: جب بندے کی صفات صفاتِ حق میں فنا ہو جائیں تو اس کے افعال افعالِ حق بن جاتے ہیں اور وہ تمام مدعیانِ کمال پر غالب آ جاتا ہے۔ آگے اس بات کی دلیل پیش فرماتے ہیں کہ اس بندے کے افعال فی الواقع افعالِ حق ہوتے ہیں:

10

 زان سبب قُل گفتۂ دریا بود  گر چہ نطق احمدِؐ گویا بود 

ترجمہ: اسی سبب سے (کلمہ) قُلْ (جو قرآن مجید میں بار بار آیا ہے اسی) دریائے (احدیت) کا مقولہ ہوگا اگر چہ (بظاہر) احمد ﷺ کا نطق ہے جو (اس کے ساتھ) متکلم ہیں۔ 

مطلب: یہاں بندے کے افعال کو افعالِ حق ثابت کرنا مقصود تھا۔ اس لئے اس کے ثبوت میں قرآن مجید اور خصوصاً اس کے کلمہ قُلْ کو پیش کیا ہے جس کے معنی ہیں کہدے اے محمد! اور یہ کلمہ جا بجا قرآن مجید میں وارد ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ یہ کلمہ ہر چند رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلا ہے مگر ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اپنا قول نہیں بلکہ حق تعالیٰ کا اپنا قول ہے کیونکہ اپنے آپ کو قُلْ کون کہتا ہے یقیناً کوئی دوسرا ہی مخاطب کو کہتا ہے۔ پس آپ کا بولا ہوا کلام اگرچہ منقول عن الحق ہو مگر اس کا صدور تو آپ سے ہوا لیکن میں اس نطق کی حالت میں بھی اس اعتبار سے کہ آپ کے افعال حق تعالیٰ کے افعال میں فنا ہو چکے ہیں۔ یوں کہیں گے کہ گویا حق تعالیٰ نطق فرما رہا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی قرأت کے متعلق فرمایا ہے ﴿فَاِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ(القیٰمۃ: 18)تو جب ہم (جبرائیل فرشتے کے ذریعہ سے) قرآن پڑھ چکا کریں تو (اس کے بعد تم بھی اس فرشتے) کے پڑھنے کی پیروی کیا کرو“ ظاہر ہے کہ قرآن مجید کی قرأت حضرت جبرئیل ہی کرتے تھے مگر اس کو حق تعالیٰ نے اپنا فعل فرمایا ہے۔ 

11

 گفتۂ او جملہ دُرِّ بحر بود  کہ دلش را بود در دریا نفوذ 

ترجمہ: آپ کا (ادا کیا ہوا) کلام تمام تر (اسی) دریائے (احدیت) کے موتی تھے کیونکہ آپ کے قلب کی اس دریا میں انتہا تھی (یا اس دریا میں گزر تھی) 

مطلب: آپ جو کچھ فرماتے تھے وہ کلامِ حق تھا ﴿وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى (النجم: 3-4) اس میں ’’فنا فی الافعال‘‘ اور ’’فنا فی الصفات‘‘ کی طرف اشارہ ہے اور "فنا فی الذات" کا مقام اس سے برتر ہے جس میں بعض اہلِ حال کی زبان سے ’سُبْحَانِىْ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ‘‘ اور ’’اَنَا الْحَقُّ‘‘ کے کلمات نکلے ہیں چونکہ اہل ظاہر کی نظر میں یہ مقام مستعد اور یہ کلمات موجبِ کفر ہیں۔ اس لئے مولانا اب اس کے استبعاد کو دفع فرماتے ہیں:

 12

 دادِ دریا چون ز خُمِّ ما بود  چہ عجب گر ماہیے دریا بود 

ترجمہ: جب کہ دریا کی عطا ہمارے مٹکے سے ہوتی ہے تو (اس میں بھی) کیا تعجب ہے کہ اگر کوئی مچھلی (خود) دریا بن جائے۔ 

مطلب: یعنی جب بعض احوال میں ہمارے افعال بوجہ غایت اطاعات افعالِ حق بن جائیں تو پھر فنا فی الذات میں بھی کیا تعجب ہے ۔ صاحب کلید مثنوی ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ماہی‘‘ سے مراد عارف اور ’’دریا‘‘ سے مراد حضرتِ حق ہیں ۔ یہ اشارہ ہے فنا فی الذات کی طرف اور وجۂ تعجب نہ ہونے کی یہ ہے کہ ان ترکیبات سے مدلوارتِ لغویہ تو یقیناً مراد نہیں۔ اصطلاحی مفہومات مراد ہیں۔ سو ان کے اعتبار سے بہ نسبت فنا فی الافعال کے فنا فی الذات اکثر فی الواقع و اسہل فی الحصول و اقرب الی الفہم ہے کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ غیرِ ذاتِ حق کی طرف التفات نہ رہے۔ (انتہٰی)۔ آگے اس فنا فی الذات کو اس دریا و خم کی مثال میں بھی ثابت کرتے ہیں جس کو اوپر فنا فی الافعال کی مثال میں ذکر کیا تھا: 

13

 چشمِ حس افسرده بر نقشِ مُمَرّ  تُش ممرّ مے بینی و او مُستقر 

ترجمہ: ظاہری آنکھ (پانی کی) گزر گاہ (یعنی مٹکے) کی صورت پر جم رہی ہے (یعنی) تو اس کو (اپنی ظاہر بینی سے پانی کی) ایک گزر گاہ دیکھ رہا ہے حالانکہ وہ (پانی کی) قرارگاه (یعنی خود سمندر) ہے۔ 

مطلب: جب سمندر کا بے پایاں پانی ایک مٹکے سے مسلسل و متواتر گزر رہا ہے (جیسے کہ اوپر فنا فی الافعال کے بیان میں مذکور ہوا) تو تم مٹکے کو محض ایک گزر گاہِ آب سمجھتے ہو۔ یہ تمہاری ظاہر بینی ہے حقیقت شناسی سے کام لو تو معلوم ہو گا کہ یہ مٹکا خود سمندر ہے جبھی تو وہ بے پایاں پانی دے رہا ہے۔ غرض تم جو اس مٹکے کو اور سمندر کو ایک دوسرے سے متغائر سمجھ رہے ہو تو:

14

 این دوئی اوصاف دیدۂ احول ست  ورنہ اوّل آخر، آخر اوّل ست 

ترجمہ: یہ تغایر (سمجھنا) بھینگے کی آنکھ کے اوصاف سے ہے ورنہ (یہاں) اول تو آخر ہے (اور) آخر اول۔ (’’اول‘‘ سے مراد سمندر ہے کیونکہ وہ پانی کا مبدء ہے اور ’’آخر‘‘ سے مراد مٹکا۔ مطلب یہ کہ مٹکے کی ذات کی طرف التفات ہی نہ کرو کہ تابعِ محض ہے جو کچھ ہے سمندر ہے اور یہی فنا فی الذات ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں): 

15

 ہین گذر از نقشِ خُم، درخُم نگر  کاندرو بحر ست بے پایان و سر

ترجمہ: ہاں مٹکے کی صورت سے قطع نظر کرو اور مٹکے (کے بے پایاں پانی دینے کے وصف) کو دیکھو (اور خیال کرو) کہ اس کے اندر ایک سمندر کا سمندر سما رہا ہے جس کا نہ ختم ہے نہ شروع۔ 

16

 پاک از آغاز و آخر آن عذاب  مانده محرومان ز قہرش در عذاب

ترجمہ: (وہ دریا کا آبِ) شیریں (جو مٹکے سے آ رہا ہے) آغاز و انجام سے پاک ہے (اور اس) محروم (رہنے والے یعنی کافر لوگ) اس (خداوند تعالیٰ) کے قہر سے عذاب میں ہیں۔ 

مطلب: جس طرح مٹکا فیوضِ بحریہ کا مظہر ہے اور اس اعتبار سے مٹکے اور بحر میں ایک طرح کی عینیت بمعنی عدمِ تغایر ہے۔ اسی طرح انسانِ کامل فیوضِ الٰہیہ کا مظہر ہے۔ اس اعتبار سے یہاں بھی تغایر منتفی ہے۔ دوسرے مصرعہ میں بطور جملہ معترضہ اس مظہریت پر یہ تفریع فرماتے ہیں کہ جو لوگ ان فيوضِ الٰہیہ سے محروم ہیں اس لئے کہ وہ مرسلانِ حق کے اتباع سے عار کرتے رہے، وہ مستوجبِ عذاب ہیں۔ آگے پھر وہی عینیت کا مضمون چلتا ہے: 

17

 این چنین خُم را تو دریا دان یقین  زنده از وَے آسمان و ہم زمین 

ترجمہ: تم ایسے مٹکے کو یقیناً (عین) دریا سمجھو اس (مٹکے) کی بدولت آسمان قائم ہے اور زمین بھی۔

 مطلب: جیسے حدیث میں آیا ہے کہ اللہ اللہ کہنے سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ (کلید) اور اللہ اللہ کہنے کی یہ تاثیر انہی حضراتِ اہل اللہ کی زبان میں ہوسکتی ہے جو فنا فی اللہ ہوں۔ آگے مولانا اس میں مبالغہ کر کے اتحاد سے وحدت کا حکم کرتے ہیں جس میں دوئی (تفریق) ہے ہی نہیں۔ 

18

 بلکہ وحدت گشت او را در وصال  شد خطابِ او خطابِ ذوالجلال

ترجمہ: (اتحاد کیا) بلکہ اس (انسان کامل) کو (غایت) وصال (و قرب) میں وحدت (حاصل ہو گئی حتیٰ کہ) اس (انسان) کا کلام کلامِ (خداوندِ) ذوالجلال ہو گیا۔ 

مطلب: یہ ظاہر ہے کہ واقع میں دوئی و اثنیت کا مرتفع ہونا محال ہے تو اتحاد کی طرح وحدت بھی اصطلاحی ہے۔ صرف اتنی زیادت ہے کہ اتحاد میں تو تابعیت و متبوعیت کے ساتھ سالک کی من وجہ نظر بھی تھی تابع و متبوع پر، بحیثیت ان کے تابع و متبوع ہونے کے، نہ کہ استقلالاً اور وحدت میں تابع پر بالکل ہی نظر نہیں رہتی۔ محض متبوع پر ہی نظر رہ جاتی ہے تابع نظر سے مرتفع ہو جاتا ہے اور فنا فی الذات کا اطلاق دونوں پر کیا جاتا ہے۔ ایک حالت (یعنی اتحاد) ہے مغلوبین غیر مستغرقین کی اور ایک حالت (یعنی وحدت) حالت ہے مغلوبین مستغرقین کی۔ (کلید مثنوی) 

19

 بعد ازان گوید حقّم منصور وار  تا شود بر دارِ شہرت او سوار 

ترجمہ: اس کے بعد وہ (مقامِ وحدت پر فائز ہونے والا حضرت حسین بن) منصور (حلاج) کی طرح اَنَا الْحَق کہے گا یہاں تک کہ وہ بدنامی کی دار پر چڑھ جائے گا۔ 

مطلب: یہ بزرگ فانی فی اللہ اگر حسین بن منصور کی طرح سزائے موت پانے سے بچ جائے گا تو کم از کم اس کو اہل نظر کی مخالفت کے باعث کافر و زندیق و ملحد کے لقب ضرور ملیں گے اور ایک اہلِ حق کے لئے ایسی بدنامی موت سے کچھ کم نہیں۔ اس میں مولانا کا یہ اشارہ ہے کہ یہ حالت کاملین کی نہیں کیونکہ کاملین پوری طرح متشرع اور متادب بآدابِ دین ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی کوئی حالت اہلِ شرع کی نظر میں قابلِ اعتراض نہیں ہوتی بلکہ یہ سالکینِ مغلوب الحال کی حالت ہے جو کمال کے درجے سے پست تر ہے۔ 

20

 تا چنین سِر در جہان ظاہر شود  مقبِل اندر جستجو ماہر شود

ترجمہ: (اور حکمتِ الٰہیہ اس میں یہ ہے کہ) تا کہ (اس کے قول سے) ایسا راز (جس کا ذکر اوپر سے آرہا ہے) عالم میں ظاہر ہو جائے اور کوئی صاحبِ اقبال (اس سے متاثر ہو کر) طلب (حق) میں کامل ہو جائے۔ 

21

 تا فزاید در جہاد و کوشش او  تا میسّر گرددش دیدارِ ہُو 

ترجمہ: تا کہ وہ (طلب حق کے لئے) مجاهدہ و سعی میں ترقی کرے (اور) تاکہ اس کو مشاہدۂ حق میسر ہو جائے (یعنی تاکہ طلبِ حق کا شوق عام ہو جائے اور لوگ اس کوچہ سے آشنا ہوں)۔ 

22

 اہل دل ہمچون کہ جُو در وَے روان  بے دُوئی یک گشتہ با دریائے جان

ترجمہ: اہل دل (سب کے سب) ایسے ہیں جیسے ان میں ایک ایک نہر جاری ہو (اور) بلا تفریق دریائے جان (یعنی حضرت حق) کے ساتھ ایک ہو گئے ہیں۔ 

مطلب: اوپر وحدت کا بیان تھا۔ اس شعر میں اتحاد اور وحدت دونوں کے متعلق ایک عام حکم بیان فرمایا ہے جو تمام کلام کا ماحصل ہے یعنی تمام اہل باطن کو بطور وحدت حق تعالیٰ کے ساتھ ربط حاصل ہے۔ آگے اس تعلق و ربط کے حصول کا طریقہ بتاتے ہیں: 

23

 ہین ز چہ معلوم گردد این ز بعث  بعث را جُو، کم کن اندر بعث بحث

ترجمہ: ہاں (یہ تو بتاؤ کہ) یہ (مضمون تعلق مع اللہ) کس طریق سے معلوم ہو سکتا ہے (لو سنو) بعث (یعنی فنا بعد الفنا) سے (معلوم ہوسکتا ہے پس) اس بحث کو طلب کرو (اور) بعث کے متعلق (فضول) بحث نہ کرو۔ 

مطلب: تعلق مع اللہ احوال کی قبیل سے ہے اور احوال امور وجدانی ہوتے ہیں اور وجدانیت کا علمِ تام حصول سے ہوتا ہے اور حاصل اس تعلق کا بقا بعد الفنا ہے۔ پس لا محالہ اس کا انکشاف بقا بعد الفناء پر موقوف ہو گا۔ (کلید) 

24

 شرطِ روزِ بعث اول مُردن ست  زانکہ بعث از مرده زنده کردن ست

ترجمہ: (اس) بعث (بمعنی بقا) کے دن کی شرط پہلے فانی ہونا ہے کیونکہ بعث (کے معنی ہی) مردہ کو زندہ کرنا ہے (پس پہلے فنا کو حاصل کرو تا کہ پھر بقا کے مقام پر فائز ہو جاؤ، آگے مقامِ فنا کے حصول کی ترغیب فرماتے ہیں)۔

25

 جملہ عالم زین غلط کردند راه  کز عدم ترسند و آن آمد پناه 

ترجمہ: اکثر لوگوں نے اسی لئے راہ (مقصود) گم کر لیا کہ وہ فنا سے ڈرتے ہیں حالانکہ وہ (ان کی) پناه ہے (جو ہلاکِ) روحانی سے بچاتی ہے۔

مطلب: لوگ فنا سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ اس سے دنیا کے فوائدِ عاجلہ فوت ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ رذائلِ اخلاق کی ان مضراتِ شدیدہ سے بچا دیتی ہے جو اس کو ہلاک روحانی میں مبتلا کرنے والی ہیں۔ بس وہ فنا در حقیقت حیاتِ روحانی ہے جو تعلق مع اللہ کی استواری کا پیش خیمہ ہے۔ اب سوال ہے کہ اس تعلق باللہ کے حصول کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ما سوی اللہ کے تعلقات سے دست بردار ہو جائیں۔ آگے یہی بات چند مثالوں میں ادا فرماتے ہیں: 

26

 از کجا جوئیم علم، از ترکِ علم  از کجا جوئیم سِلْم، از ترکِ سَلْم

ترجمہ: ہم (تعلق مع اللّٰہ کا) علم کہاں سے تلاش کریں؟ (تعلق ما سوی اللہ کے) علم کو ترک کر دینے سے۔ ہم (تعلق) حُبّ (مع اللہ) کہاں سے ڈھونڈیں (ماسوی اللہ کے تعلق) حُب کو چھوڑ دینے سے۔ 

27

 از کجا جوئیم حال، از ترکِ حال  از کجا جوئیم قال، از ترکِ قال

ترجمہ: ہم حال (محمود) کہاں سے پائیں؟ حال (مذموم) کو تیاگ دینے سے۔ ہم کلام (نیک) کہاں سے حاصل کریں؟ کلام (بد) سے دست بردار ہونے میں۔ 

مطلب: ’’حال‘‘ سے اخلاق اور مبادیِ اخلاق اور ان کے آثار مراد ہیں، مثلاً شہوت ایک خلق مذموم ہے اور میلان اس کا مبداء ہے اور شہوت کا رسوخ اس کا اثر ہے، تو ان کی فنا سے ان کی اضداد پیدا ہوں گی۔ قال تابع ہوتا ہے حال کا جیسا حال اور جیسے اخلاق ہوں گے اُن ہی کے مطابق کلام کا صدور ہو گا۔ جب برے حال کے رفع ہو جانے سے تبعاً قال کی برائی زائل ہو گئی تو اچھے حال کے اتباع میں قال بھی اچھا ہو جائے گا۔ 

28

 از کجا جوئیم ہست، از ترکِ ہست  از کجا جوئیم دست، از ترکِ دست

ترجمہ: ہم بقا (بذاتِ حق) کیونکر طلب کریں؟ (اپنی ذات و صفات کی) بقا کو فنا کرکے۔ ہم قدرت کہاں سے طلب کریں؟ ترکِ قدرت سے۔

مطلب: ’’قدرت‘‘ سے مراد وہ افعال ہیں جن کے کرنے پر قادر ہوں یعنی فنائے افعال سے بقا بافعال الحق حاصل ہوتی ہے۔ تفسیر ان الفاظ کی یہ ہے کہ اس شخص کو فنائے ذات سے نہ اپنی ذات پر مستقل ہونے کی حیثیت سے نظر رہتی ہے اور نہ اپنی صفات پر اور نہ اپنے افعال پر۔ بلکہ ان سب کو ذوقاً حق تعالیٰ کی ذات اور صفات و افعال کے تابع دیکھتا ہے اور اس کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی امرِ غیر مرضیِ حق کا ارادہ بھی نہ کرے گا۔ کیونکہ اراده کو بھی وہ مستقل نہیں سمجھے گا تو اس سے خلافِ اتباع کام بھی نہ لے گا (کلید)۔ آگے ان امور کا بیان آتا ہے جو اس مقصود سے مانع ہیں یعنی غلط فہمی اور بے طلبی۔ پہلے غلط فہمی کو لیتے ہیں اور اس کا آغاز مناجات کے پیرایہ میں فرماتے ہیں:

29

 ہم تو تانی کرد یَا نِعْمَ الْمُعِيْن  ديدۂ معدوم بین را ہست بین

ترجمہ: اے اچھی اعانت کرنے والے! (خداوند تعالیٰ) تو ہی فانی اشیا دیکھنے والی آنکھ کو (زندۂ) جاوید کی دیکھنے والی آنکھ بنا سکتا ہے۔ (آنکھ کا مطمحِ نظر صرف دنیا ہے تیری عنایت ہو تو وہ ناظر الیٰ الحق ہو جائے)۔ 

30

 دیدۂ کو از عدم آمد پدید  ذاتِ ہستی را ہمہ معدُوم دید

ترجمہ: (اس) آنکھ نے جو عدم سے پیدا ہوئی ہے (اور اس لئے اس کو عدم کے ساتھ خاص مناسبت ہے) ہستیِ ( مطلق تعالیٰ شانہٗ) کو بالکل معدوم (اشیا کی مثل) دیکھا۔ (کہ ادھر التفات ہی نہ کی یہ عقل کی غلط فہمی کا ذکر ہے)۔ (آگے اس غلطی کے زائل ہونے کا اثر بتاتے ہیں) ۔ 

31

 این جہانِ منتظم محشر شود گر دو دیده مُبدَل و انور شود

ترجمہ: یہ عالم (جو) با انتظام (نظر آتا ہے) اگر (ہماری عقل کی) دونوں آنکھیں (اس غلط بینی سے) مبدل اور نورانی ہو جائیں تو وہ (تہ و بالا ہو کر بمنزلہ) محشر کے (محسوس) ہونے لگے۔ 

32

 زان نماید این حقائق نا تمام  کہ برین خامان بود فہمش حرام

ترجمہ: یہ حقائق اس وجہ سے ناقص نظر آتے ہیں کہ ان کچے (قصد والے) لوگوں پر ان کا صحیح سمجھنا حرام ہو گیا۔ 

مطلب: دنيا طلب لوگ جو دنیا کی اشیائے فانیہ سے ایسی دلبستگی رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک گویا موجودِ حقیقی وہی ہیں، اور ان کی نظر میں وہ موجود حقیقی کو اس طرح فراموش کر دیتے ہیں کہ گویا ان کی نظر میں معدوم ہے۔ یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان پر ایک وبال ہے جس نے ان پر حقائق فہمی مممتنع کر دی۔ اس لئے کہ ان لوگوں کا خود اپنا قصد و ارادہ ناقص تھا اور عادۃ اللہ یہ ہے کہ جو شخص راہِ حق سے اعراض کرتا ہے کچھ مدت بعد اس کی استعداد فاسد کر دی جاتی ہے ﴿فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللهُ قُلُوْبَـهُـمْ ۚ وَ اللّٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْفَاسِقِيْنَ (الصف: 5) ”تو جب یہ لوگ ٹیڑھی چال چلے خدا نے ان کی سمجھ بھی ٹیڑھی کر دی اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا“۔ 

33

 نعمتِ جنّاتِ خوش بر دوزخی  شد مُحرّم گرچہ حق آمد سخی 

ترجمہ: (جس طرح) پاکیزه بہشتوں کی نعمتیں دوزخی پر حرام ہو گئیں اگر چہ حق تعالیٰ بڑا کریم ہے۔

مطلب : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿وَ نَادٰٓى اَصْحَابُ النَّارِ اَصْحَابَ الْجَنَّـةِ اَنْ اَفِيْضُوْا عَلَيْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ ۚ قَالُـوٓا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِـرِيْنَ(الاعراف: 50) ”اور دوزخی پکار پکار کر جنتیوں سے کہیں گے کہ ہم پر تھوڑا سا پانی ہی انڈیل دو یا تم کو خدا نے جو روزی دی ہے اس میں سے کچھ ہم کو (بھی) دے ڈالو وہ کہیں گے کہ اللہ نے ان دونوں چیزوں کو کافروں پر حرام کر دیا ہے“۔ ہر چند کہ حق تعالیٰ بڑا کریم ہے چنانچہ دنیا میں وہ کافروں، مشرکوں اور فاسقوں کو بڑا رزق دے رہا ہے۔ سعدیؒ ؎

خدائے راست مسلّم بزرگواری و حلم  کہ جرم بیند و نان برقرار مے دارد

 مگر بہشتی نعمتیں کافروں پر حرام ہیں ان سے کافروں کو مستفید کرنا سنت اللہ کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ کافروں کے اعمالِ سیئہ نے ان کو نعمائے جنت کے قابل نہ رہنے دیا۔ اسی طرح ان خام قصد لوگوں کو ان کی کج نظری نے فہمِ حقائق کے قابل نہ رکھا۔ آگے وہی دوزخیوں کا ذکر ہے۔ 

34

 در دہانش تلخ آمد شہِد خلد  چُون نبود از وافيان عہِد خلد

ترجمہ: اس (دوزخی) کے منہ میں جنت کا شہد (بھی) تلخ (یعنی حرام) ہے جب کہ وہ جنت کے (مستحق بنانے والے) عہد کو پورا کرنے والوں میں سے نہ تھا۔ 

مطلب: اسی طرح ان ناقص الارادت لوگوں کا سبب ہو گیا یعنی انہوں نے حقائق کو حاصل کرنے کا قصد ہی نہیں کیا۔ اس لئے وہ ان پر مخفی رہ گئے۔ آگے اس کو ایک مثال سوئے اکتساب خفائے حقائق سے واضح فرماتے ہیں اور اس سے دوسرے مانع بے طلبی و عدم ارادت کا ذکر شروع ہو گیا جو اوپر مصرعۂ ثانیہ میں ضمناً مذکور ہوا تھا۔ اب آگے مستقل طور پر اس کو بیان فرماتے ہیں: 

35

 مر شما را نیز در سوداگری  دست کے جُنبد چو نبود مُشتری

ترجمہ: (دیکھو) تمہارا ہاتھ بھی تو تجارت میں کب (مستعدی کے ساتھ) حرکت کرتا ہے جب کہ وه (قصداً) خریدار نہ ہو؟ 

36

 کے نظاره اہل بخریدن بود  آن نظاره گول گردیدن بود 

ترجمہ: اور تماشائی لوگ (جن کو خریداری منظور نہیں) کب خریداری کے اہل ہوتے ہیں (بلکہ ان کی) وہ دیکھ بھال محض آوارہ گردی ہے۔ 

37

پُرس پُرسان کاین بچند و آن بچند  از پے تغییر وقت و ریشخند

ترجمہ: (ان کا یوں) پوچھ گچھ (کرتے پھرنا) کہ یہ چیز کتنے میں (آتی ہے) اور وہ کتنے میں؟ محض وقت کاٹنے اور ٹھٹھے بازی کے لئے ہے۔ 

38

 از ملولی کالہ مے خواہد ز تو  نیست آن کس مشتری و کالہ جو

ترجمہ: (میاں دکاندار! تم سچ سمجھو وہ تو) تکان (رفع کرنے اور دل بہلانے کی غرض) سے تم سے مال طلب کرتا ہے (ورنہ حقیقت میں) وہ شخص خریدار اور طالبِ مال نہیں۔

39

 کالہ را صد بار دید و باز داد  جامہ کے پَیمود و پَیمود باد 

ترجمہ: (چنانچہ) اس نے مال کو سو بار دیکھا اور (پھر) واپس دے دیا تو اس نے (اس دیکھ بھال میں) کپڑے کو نہیں بلکہ ہوا کو ناپا ہے (یعنی ایک بیہودہ کام کیا ہے باد پیمون کنایہ ہے بیہودگی سے)۔ 

40

 کو قُدوم و کرّ و فرّ مشتری  کو مزاح و گنگلی و سرسری

ترجمہ:کہاں خریدار کا (قصدًا) آنا اور (خریداری کے لئے) مستعدی و سرگرمی (سے کام لینا اور) کہاں خوشی طبعی اور مسخرہ پن اور بیہودگی۔ 

41

 چونکہ در مِلکش نباشد حبّۂ جُزپے گنگل چہ جوید جُبّۂ

ترجمہ: چونکہ اس کی ملک میں ایک دمڑی نہیں ہوتی تو وہ جبہ کیا خریدے گا سوائے (اس کے کہ) تمسخر کے لئے (دکاندار کو) پریشان کرے گا۔

42

 در تجارت نیستش سرمایۂ  پس چہ شخصِ زشت او چہ سایۂ

ترجمہ: تجارت میں اس کے پاس کوئی سرمایہ نہیں۔ پس کیا اس کا منحوس وجود اور کیا سایہ (بے کار ہونے میں دونوں برابر ہیں)۔ 

مطلب: پس جس طرح یہ شخص طالبِ متاع نہ ہونے کے سبب سے حصولِ متاع سے محروم ہے، اسی طرح جو شخص طالبِ حق نہ ہو وہ واصل بحق ہونے سے بہرہ رہتا ہے اور جس طرح جو شخص مفلس ہونے کے سبب سے طالبِ متاع نہیں، اسی طرح وہ دوسرا شخص محبتِ حق نہ ہونے کے باعث طالبِ حق نہیں۔ آگے یہی بات ارشاد ہے: 

43

 مایہ در بازارِ دنیا این زر ست  مایہ آن جا عشق و دو چشمِ تر ست

ترجمہ: بازارِ دنیا میں (تجارت کرنے کا) سرمایہ نقدی ہے (اور) وہاں (تعلق باللّٰہ کے مقام میں) سرمایۂ عشق اور درد ناک آنکھیں ہیں۔ صائبؒ ؎

زان جوہرِ گرامی ہرگز خبر نیابی  از گریہ تا نسازی پُر دُر کنارِ خود را

44

 ہر کہ اوبے مایہ در بازار رفت عمر رفت و بازگشت او خام و تفت

ترجمہ: (ورنہ) جو شخص سرمایہ سے خالی بازار میں گیا (اس کی) عمر (برباد) گئی اور (وہ) ایسی حالت میں ناکام اور برہم ہو کر واپس آیا کہ۔ سعدیؒ ؎

اے تہی دست رفتہ در بازار  ترسم کہ نیاوری دستار 

45

ہے کُجا بُودی برادر؟ ہیچ جا  ہے چو پختی بہرِ خوردن؟ ہیچ با

ترجمہ: (اگر کوئی اس سے پوچھے) ارے بھائی ! تو کہاں تھا (تو جواب میں مارے ندامت کے یہی کہے گا) کہیں بھی نہیں (اور اگر پوچھے) ارے! تو نے کھانے کے لئے کیا پکایا ہے؟ (تو کہے گا) کوئی سالن نہیں پکایا۔ (آخر بازار سے کچھ لایا ہوتا تو پکاتا، آگے طالب ہونے کی ترغیب دیتے ہیں:)

 46 

مشتری شو تا بجنبد دستِ من  لعل زايد معدنِ آبستِ من

ترجمہ: (اے مخاطب!) تو طالب بن جا تاکہ میرا ہاتھ (عطائے فیض کے لئے) حرکت کرے (اور تاکہ) میرا (قلب کا بھر پور( معدنِ (فیض کے) لعل ( و جواہر ) اُگلے۔ (آگے اہلِ ارشاد کو مشورہ دیتے ہیں کہ لوگوں کو بلا طلب بھی فیض سے متمتع کرنا چاہیے کیونکہ طلبِ واردات کی آج کل سرد بازاری ہے اگر افاضۂ برکات طلب پر موقوف رہا، تو بس دنیا فیض سے تہی درست رہ جائے گی)۔ 

46 

مشتری گرچہ کہ سُست و بارد ست  دعوتِ دین کن کہ دعوت وارد ست 

ترجمہ: (حضرت) اگرچہ طالب سست اور افسردہ ہے مگر (آپ سستی اور افسردگی سے کام نہ لیں اور) دین کی دعوت (برابر) کرتے رہیں کیونکہ دعوت (کرنے کا حکم اس صورت میں بھی) وارد ہے۔ 

مطلب: چنانچہ حکم ہے۔ ﴿اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَ جَادِلْـهُـمْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ(النحل: 125) ”یعنی (اے پغیمبر! لوگوں) کو عقل کی باتوں اور اچھی اچھی نصیحتوں سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ اور ان کے ساتھ بحث (بھی) کرو تو ایسے طور سے کہ وہ لوگوں کے نزدیک بہت ہی پسنديده ہو“ ۔ ظاہر ہے کہ راہِ خدا کی طرف بلانے کے لئے اچھی اچھی نصیحتوں کی ضرورت جبھی پیش آ سکتی ہے کہ سامعین میں طلب نہ ہو بلکہ جب ان سے بحث کرنے کی ضرورت بھی مسلم ہے تو ان کے طلب سے خالی ہونے کے علاوہ منکر ہونے کا بھی احتمال ہے۔ اسی قسم کا حکم سورة الشورٰی، سورۃ الحج اور سورة القصص میں بھی وارد ہے۔ 

48

 باز پرّان کن حمّامِ روح گیر  در رہِ دعوت طریقِ نوح گیر 

ترجمہ: (پس دعوت کے) باز کو مائل بہ پرواز کرو (طالبین کی) روح کے کبوتر کو مسخر کرو (اور) دعوت کی راہ میں حضرت نوح علیہ السلام کا طریقہ اختیار کرو (جنہوں نے ناکامی کے آثار کو غالب پا کر بھی دعوت نہیں چھوڑی)۔ 

49

 خدمتے می کن برائے کردگار  با قبول و ردِّ خلقانت چہ کار 

ترجمہ: تم (خالصاً) لوجہ اللہ (اپنا) فرض ادا کرتے رہو لوگوں کے ماننے اور نہ ماننے سے تم کو کیا کام؟۔ اقبال سلمہ ؎

صد نواداری چو خون در تن روان  خیزد مضرابے تارِ او رسان 

زانکہ در تکبیر راز بودِ تو ست  حفظ و نشر لا الہ مقصودِ تو ست

تا نخیزد بانگِ حق از عالمے گر مسلمانی نیاسائی دمے

آگے اس مضمون کی تائید میں ایک حکایت ارشاد ہے کہ تم اللہ کی رضا کے لئے لوگوں کو ہدایت کرتے رہو خواہ کوئی سنے یا نہ سنے۔