دفتر 6 حکایت 25: شاعر کا حلب کے شیعوں کے لئے ایک نکتہ (کی بات) کہنا



نکتہ گفتن شاعرِ جہت شیعۂ حلب

شاعر کا حلب کے شیعوں کے لئے ایک نکتہ (کی بات) کہنا

1

 گفت آرے لیک کو دَورِ یزید  کے بُدست آن غم چہ دیر اینجا رسید

ترجمہ: (شاعر نے) کہا ہاں (یہ واقعہ تو ایسا ہی شدید ہے) لیکن کہاں یز ید کا عہد (جب یہ حادثہ وقوع پذیر ہوا اور کہاں یہ زمانہ جس میں تم ماتم کر رہے ہو۔ ذرا سوچو تو سہی کہ) یہ غم (بھرا واقعہ) کب ہوا (اور) یہاں تمہارے پاس کتنی دیر میں پہنچا۔ 

2

 چشمِ کوران آن خسارت را بدید  گوشِ کرّان این حکایتہا شنید

ترجمہ: (وہ واقعہ تو اس قدر مشہور ہے کہ) اندھوں (تک) کی آنکھوں نے (ظالموں کی) اس (دینی) زیاں کاری کو دیکھا (اور) بہروں (تک) کے کانوں نے ان کہانیوں کو سنا۔ 

3

 خفتہ بودستید تا اکنون شما  کہ کنون جامہ دریدید از عزا

ترجمہ: تو کیا تم اب تک سو رہے تھے؟ (کہ اب خبر ملی) حتٰی کہ اب تم نے ماتم میں اپنے کپڑے چاک کئے۔ 

4

 پس عزا بر خود کنید اے خفتگان!  زانکہ بَد مرگے ست این خوابِ گران

ترجمہ: پس اے (غفلت کی نیند میں) سونے والو! (اس غفلت کا تقاضا تو یہ ہے کہ) تم خود اپنے آپ پر ماتم کرو کیونکہ (غفلت کی) یہ گہری نیند بری (طرح کی) موت ہے۔

نکتہ: شاعر کی ملامت کا مدار صرف اسی بات پر ہے کہ یہ واقعہ صدیوں پیشتر کا اور تم ماتم کر رہے ہو آج۔ لیکن اگر اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ یہ سارا سانحہ خود شیعوں کی نالائقی سے وقوع پذیر ہوا اور اس لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر نہیں بلکہ پہلے خود اپنی اس نالائقی پر سینہ کوبی و جامہ دری کرنی چاہیے تو اس ملامت کی شدت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ توضیح اس کی یہ ہے کہ اہلِ کوفہ شیعہ کہلاتے تھے انہوں نے ہی امام کو متواتر خطوط بھیج کر بلایا تا کہ آپ دعوائے خلافت کے لئے خروج کریں۔ امام عالی مقام نے ان لوگوں کے بار بار بلانے پر اپنے عم زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس بھیجا تا کہ وہ لوگوں سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت لیں۔ ہزاروں کوفی شیعوں نے مسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور امام کا علمِ خلافت بلند کرنے کے لئے شد و مد کی تیاریاں کرنے لگے۔ ادھر یزید نے اس فتنہ کی روک تھام کے لئے ابن زیاد کو کوفہ بھیجا جونہی ابن زیاد کی آمد کا چرچا ہوا تو شیعیانِ کوفہ حواس باختہ ہو گئے۔ سب کے ساتھ وفا داری اور جان نثاری کے تمام دعوے بالائے طاق رکھ کر ابنِ زیاد کے مطیع ہو گئے۔ مسلم اور ان کے فرزند بری طرح شہید کئے گئے۔ ادھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے خویش و اقارب سمیت مدینہ سے روانہ ہو چکے تھے اور ابھی آپ کربلا کے میدان تک پہنچنے پائے تھے کہ ابنِ زیاد کے لشکر نے ان کو گھیر لیا حتٰی کہ امام کے منجھلے فرزند حضرت امام زین العابدین کے سوا سب کے سب تین دن بھوکے پیاسے رہ کر ظالموں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ اہلِ کوفہ نے جو شیعۂ علی کہلانے والے اور اہلِ بیت کی محبت کا دم بھرنے والے تھے یہ تمام واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور دم نہیں مارا۔ اگر وہ اہلِ بیت کے مخلص ہوا خواہ ہوتے تو تلواریں سونت کر ابن زیاد کی فوج پر جا گرتے اور اپنے محبوب امام پر پروانہ وار نثار ہو جاتے۔ اس وقت تو کچھ نہ سوجھی آج فضول سینہ کوبی و جامہ دری سے اظہارِ محبت کرتے ہیں۔ پس ان لوگوں کو چاہیے کہ حسین حسین پکار کر رونے کے بجائے یہ نوحہ کیا کریں ”کہ ہائے ہم نے امام کو کوفہ کیوں بلایا، ہائے ہم ابنِ زیاد سے کیوں خائف ہوئے، ہائے ہم نے امام کے ساتھ جان نثاری کے بجائے غداری کیوں کی، ہائے ہمارے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے جن سے ہم اس وقت تیغِ جہاد نہ پکڑ سکے، ہماری آنکھیں کیوں نہ پھوٹ گئیں جن کے ساتھ ہم نے شہیدانِ کربلا کی مظلومی دیکھی اور ہم سے کچھ نہ بن پڑا‘‘۔ ”پس عزّا خود کنید“ کی یہ توضیح نہایت اہم ہے۔ پیچھے مطلب یہ تھا کہ غافل کا مرتے وقت افسوس و حسرت کرنا فضول اور ایک بے موقع فعل ہے اس نکتہ ور شاعر سے اس کی تائید مقصود تھی۔ آگے مولانا فرماتے ہیں اہل عزّا کا شہدائے کربلا کے لئے ماتم کرنا اس لحاظ سے بھی قبیح ہے کہ نوحہ و ماتم کسی کی مصیبت پر کیا جاتا ہے اور شہدائے کربلا حیاتِ دنیا کی مصیبت سے نکل کر حياتِ آخرت کی نعمت پر فائز ہوئے ہیں۔ پس یہ موقعہ تعزیت کا نہیں بلکہ تہنیت کا ہے۔ 

5

 روحِ سلطانے ز زندانے بِجَست  جامہ چہ درّیم وچہ خائیم دست

ترجمہ: (کسی مقرب حق کی موت کی حقیقت تو یہ ہے کہ گویا) ایک بادشاہ کی روح ایک قید خانہ (یعنی دنیا) سے چھوٹ گئی (تو پھر) ہم کپڑے کیوں پھاڑیں اور ہاتھ کیوں چبائیں۔ (حديث ’’اَلدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ‘‘)

6

 چونکہ ایشان خسروِ دین بوده اند  وقتِ شادی شد چو بشکستند بند

ترجمہ: (بلکہ) چونکہ یہ حضرات دین کے سلاطین ہوئے ہیں تو جب انہوں نے (شہید ہو کر دنیا کے تعلقات کی) قید توڑ ڈالی (تو یہ) خوشی کا وقت ہوا (نہ کہ ماتم کا) صائبؒ ؎

 خوشا کسیکہ ازین کارگاہِ مینائی  چو عکسِ آینہ پنہان شُد و کمر نکشاد

ولہٗ نفس آن زمان بر آرم بفراغت ز تہِ دل  کہ غبارِ ہستیِ من بہ ہوا رسیده باشد

7

 سوۓ شادُروانِ دولت تاختند  کُنده و زنجیر را انداختند 

ترجمہ: وہ (اقبال و) دولت کے شامیانہ کی طرف دوڑ گئے (اور) انہوں نے کاٹھ اور زنجیر کو الگ پھینک دیا۔ 

8

 روزِ ملک ست و گہِ شاہنشہی  گر تو یک ذرّه ازیشان آگہی 

ترجمہ: (ان کے لئے تو وقت) سلطنت کا دن اور شہنشاہی کا موقع ہے اگر تو ذرہ بھر بھی ان کے (پُر لطف) حال سے آگاہ ہو۔

9

 ورنۂ آگہ برو بر خود گری  زانکہ در انکارِ نقل و محشری

ترجمہ: اور اگر تو (ان کے پُر لطف حال سے) آگاہ نہیں ہے (اور اسی لئے ان پر روتا ہے) تو جا (ان پر رونے کے بجائے) اپنے (اس حال) پر رویا کر (کہ تو ان کے حال سے آگاہ نہیں) کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ تو انتقال اور محشر کا منکر ہے (جو کفر ہے اور سب سے زیاده موجب گریہ ہے)۔ 

10

 بر دل و دینِ خرابت نَوحہ کُن  کہ نمی بیند جُز این خاکِ کہن

ترجمہ: (اس صورت میں) اپنے قلب اور دینِ فاسد پر رویا کر کہ وہ (قلبِ دنیا کی) اسی پرانی مٹی کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔ 

مطلب: جو لوگ مرنے اور شہید ہونے پر نوحہ کرتے ہیں ان کی نظر میں صرف دنیا ہی دنیا ہے کہ مرنے والے دنیا کی زندگی سے محروم ہو گئے۔ انہوں نے دنیا میں مرض یا قتل کی تکلیف سہی دوسرے لوگ ان کی امداد و اعانت سے محروم ہو گئے۔ آخرت کا خیال تک ان کو نہیں آتا کہ وہاں ان کو کیا کیا اعلٰى مراتب حاصل ہوں گے اور وہ دین کی کس بر ترین فضیلت سے بہرہ مند ہوئے ہیں۔ تقریباً تمام اہل دنیا کا یہی حال ہے کہ جب ان کا کوئی عزیز مرتا ہے تو وہ اسی بات پر رویا کرتے ہیں کہ خاندان کا ایک فرد کم ہو گیا، بچوں کو یتیم چھوڑ گیا، بھائیوں کا ایک بازو ٹوٹ گیا، اس کے کنبے کا بار ہم پر آ پڑا۔ اس بات کا کسی کو خیال نہیں آتا کہ اس پر سکراتِ موت کی ساعت کیسی گزری، قبر میں اس کا کیا حال ہو گا، نکیرین کے ساتھ اس کا معاملہ کس طرح ہوا ہو گا۔ صائبؒ ؎

 گریۂ شمع از برائے ماتم پروانہ نیست  صبح نزدیک ست در فکرِ شب تارِ خودست 

یہاں کوئی حریف کہہ سکتا ہے کہ ہم آخرت اور آخرت کے احوال پر پورا یقین رکھتے ہیں اور آخرت میں ان شہیدوں کے اعلیٰ مراتب پانے پر ہم کو کمال خوشی بھی ہے، مگر جب ہم ان کی مظلومی و مصائب کو یاد کرتے ہیں تو ہم کو طبعاً حزن و غم محسوس ہوتا ہے۔ جو گریہ و نوحہ پر مجبور کر دیتا ہے اور یہ بات آخرت پر ایمان اور مدارجِ آخرت کا یقین رکھنے کے منافی نہیں آگے اس کا جواب ارشاد ہے: 

11

 ور ہمی بیند چرا نبود دلیر پشت دارو جان سپار و چشم سیر

ترجمہ: اور اگر وہ شخص (دنیا کی خاکِ کہن کے سوا آخرت کے اسبابِ تنعم کو بھی) دیکھتا ہے تو (خود اس عالم میں جانے کے لئے دلیر اور ان اسبابِ تنعم کے حصول کے لئے) مستعد اور جان لڑا دینے والا اور (دنیا سے) سیر چشم کیوں نہیں۔ 

12

 در رُخت کو از مے دین فرّخی  گر بدیدی بحر کو کفِّ سخی 

ترجمہ: ( اگر تو دین کے نشے میں ایسا ہی مست ہے تو) تیرے چہرے پر شراب دین کی رونق (و سرور) کہاں ہے اگر تو نے سمندر (کے خزائن) کو دیکھ لیا ہے (اور تو ان کے تصرف پر قادر ہونے کا مدعی بھی ہے) تو (تیرا) دستِ سخاوت کہاں ہے؟ 

13

 آنکہ جُو دید آب را نکند دريغ  خاصہ آن کو دید آن دریا و میغ

ترجمہ: جس شخص نے ندی دیکھ لی وہ پانی سے(دست بردار ہونے میں) دریغ نہیں کرتا خصوصاً وہ شخص جس نے وہ (عطائے رحمانی کا) دریا اور ابر دیکھ لیا (وہ دنیا کی حرص کو کیوں نہ چھوڑ دے گا)۔