دفتر 6 حکایت 24: ایک شاعر کا عاشورا کے روز حلب میں پہنچنا اور (یہ) حال معلوم کرنا کہ یہ غم کیا ہے



رسیدنِ شاعرے بحلب روزِ عاشُورا و حال معلوم نُمودن

ایک شاعر کا عاشورا کے روز حلب میں پہنچنا اور (یہ) حال معلوم کرنا

1

 یکے غریبے شاعرے از ره رسید  روزِ عاشورا و آن افغان شنید

ترجمہ: ایک مسافر شاعر عاشورا کے روز (اپنے) راستے سے (ادھر) پہنچا اور وہ شور سنا (یہ شاعر کسی اور شہر کی طرف جا رہا تھا حلب کے پاس سے اس کا گزر ہوا تو):

2

 شہر را بگذاشت و آنسو رائے کرد  قصد جست و جوئے آن ہیہائے کرد

ترجمہ: (یہ شور و فغان سن کر اس) شہر (کا راستہ چھوڑ) دیا ( جدھر جا رھا تھا) اور ادھر کا قصد کیا (جدھر سے یہ شور سنائی دے رہا تھا اور) اس شور و فغاں کی تحقیق کا ارادہ کیا۔

 3

 پُرس پُرسان می شد اندر افتقاد  چیست این غم بر کہ این ماتم فتاد

 ترجمہ: وہ (اس) تحقیق میں پوچھتا پوچھتا جا رہا تھا (کہ یہ غم کیا ہے اور) یہ ماتم کس پر آپڑا (شاعر کے یہ سوالات بطور تجاہلِ عارفانہ تھے جس کی بنا پر وہ اہلِ ماتم کو اپنی ایک شاعرانہ و حکیمانہ حجت سے لا جواب کرنا چاہتا تھا۔ ورنہ شیعوں کی یہ بیہودہ حرکت کوئی ایسی چھپی ہوئی نہیں کہ دنیا کے کسی حصے میں اس کی شہرت نہ ہو اور کوئی شاعر اس کی اصلیت سے بے خبر رہ سکے)۔

4

 این رئیسے زفت باشُد کو بمُرد  این چُنین مجمع نباشد کارِ خُرد

ترجمہ: یہ کوئی بڑا رئیس ہو گا جو وفات پا گیا (کیونکہ) ایسا مجمع کوئی سرسری بات نہیں۔ 

5

 نام او و القابِ او شرحم دہید  کہ غریبم من شما اہلِ دِہید 

ترجمہ: اس کا نام اور القاب مجھے بتاؤ کیونکہ میں پردیسی (نا واقف) ہوں (اور) تم اہل شہر واقف ہو۔ 

6

 چیست نام و پیشہ و اوصافِ او  تا بگویم مرثيہ ز الطافِ او 

ترجمہ: اس کا نام اور مشعلہ اور (دیگر) اوصاف کیا ہیں (مجھے بتاؤ) تاکہ میں اس کے پاکیزہ حالات کا مرثیہ کہوں۔ 

7

مرثیہ سازم کہ مرد شاعرم  تا ازین جا برگ و لالنگے برم

ترجمہ: میں (اس کا) مرثیہ کہوں گا کیونکہ میں شاعر آدمی ہوں تاکہ (اس کے عوض میں) یہاں سے (بطورِ انعام) کچھ سامان روٹی کا ٹکڑا لے جاؤں۔ 

مطلب: شاعر نے یہ تمام بناوٹی باتیں اس لئے کہیں تاکہ وہ لوگ اس کی نادانی پر کسی قدر برہم ہو جائیں۔ ایسے موقع پر پھر جو الزاماً کوئی معقول و سنجیدہ بات کہی جاتی ہے تو وہ دلوں پر بڑا اثر کرتی ہے۔ بخلاف اس کے اگر کسی کو وہی بات بطورِ نصحیت عام پیرایہ میں کہی جائے تو چنداں کارگر نہیں ہوتی۔ جیسے منقول ہے کہ حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قاضی کا حال سنا کہ وہ اپنی امیرانہ ٹھاٹھ کے لئے بہت اسراف کر رہا ہے۔ حاتم اس کے ہاں جا کر مہمان ہوئے۔ نماز کا وقت آیا تو قاضی کے سامنے وضو کرنے بیٹھ گئے اور کلی کرتے وقت چار مرتبہ چلو بھر بھر کر منہ میں پانی ڈالا۔ قاضی نے ٹوکا یہ تم نے اسراف کیا۔ کلی صرف تین مرتبہ سنت ہے ۔ حاتم نے کہا قاضی صاحب! پانی کے ایک چلو میں میرا اسراف تو آپ کو کھٹک گیا مگر یہ سر بفلک عمارت، یہ زربفت کے پردے، یہ ہزارہا روپے کے قالین، یہ سونے چاندی کے برتن نظر نہیں آتے کہ تم نے ان پر کس قدر اسراف کیا ہے؟ قاضی نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ ظاہر ہے کہ اگر حاتم سیدھے سبھاؤ قاضی کو اس کے اسراف پر توجہ دلاتے تو یہ اثر نہ ہوتا۔ اب دیکھئے شاعر کے اس تجاہل سے وہ لوگ کس طرح برہم ہوئے اور پھر شاعر نے ان کو کیا کلہ توڑ جواب دیا: 

8

 آن یکے گفتش کہ تو دیوانۂ تو نہ شیعہ عُدوِّ خانۂ

ترجمہ: اس (مجمع میں سے) ایک نے اس کو کہا (ارے!) تو دیوانہ ہے۔ (معلوم ہوتا ہے کہ) تو شیعہ نہیں ہے (بلکہ) اہلِ بیت کا دشمن ہے۔ 

9

 روز عاشورا نمی دانی کہ ہست  ماتم جانے کہ از قَرنے بہ است

 ترجمہ: کیا تجھے عاشورا کا دن معلوم نہیں کہ وہ ایک ایسی (بلند و بزرگ) روح کا روز (ماتم) ہے جو ایک صدی بھر (کے لوگوں) سے افضل ہے ۔ 

10

 پیشِ مومن کے بود این قصہ خوار  قدرِ عشقِ گوش عشقِ گوشوار

ترجمہ: (ایک مخلص) مومن کے نزدیک یہ (کربلا کا) قصہ کب بے وقعت ہو سکتا ہے (تو معلوم ہوتا ہے تو کوئی پورا مومن نہیں ہے قاعدہ ہے کہ) کان کی محبت کے مطابق (کان کی) بالی سے محبت ہو گی۔

مطلب: محبوب کا کان جس قدر پیارا ہو گا اسی قدر اس کان کی بالی سے محبت ہو گی لیکن اگر بالی سے محبت نہیں تو سمجھو کان کے ساتھ بھی محبت نہیں۔ اس تمثیل سے مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت شرطِ ایمان ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔ ’’لاَ يُوْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتّٰى اَكُونَ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنْ وَّالِدِهٖ وَ وَلَدِهٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ‘‘۔ پس جس مومن کو آپ سے محبت ہو گی اس کو آپ کے نواسہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی محبت ہو گی۔ جب تجھ کو واقعۂ عاشورا کی خبر ہی نہیں تو ظاہر ہے کہ امام سے تجھ کو محبت نہیں امام سے محبت نہیں تو پیغمبر سے کہاں محبت ہوئی۔ پھر تو کہاں مومن رہا۔ 

11

 پیشِ مومن ماتمِ آن پاک روح  شُہرہ تر باشد ز صد طُوفانِ نُوح

ترجمہ: مومن کے نزدیک تو اس پاک روح کا ماتم صدہا طوفانِ نوح سے بھی زیادہ مشہور ہوا (پس جو شخص اس ماتم سے بے خبر ہے وہ مومن ہی نہیں)۔