دفتر 6 حکایت 176: اس بادشاہ کی حکایت کی جانب رجوع جو سلطنت چھوڑ کر درمیان راستہ میں، ان تینوں سے آ ملا تھا

دفتر ششم: حکایت: 176



رجوع آوردن بحکایتِ آں بادشاہ کہ در اَثنائے راہ تَرکِ سلطنت کردہ، مُلحق بایں سہ گردیدہ بُود

اس بادشاہ کی حکایت کی جانب رجوع جو سلطنت چھوڑ کر درمیان راستہ میں، ان تینوں سے آ ملا تھا

1

اے ضیاء الحق حُسّام الدیں حَسن

باز گو حالِ شہِ چارم بمن

ترجمہ: اے ضیاء الحق حسام الدین حسن! مجھ سے چوتھے بادشاہ کا حال کہیے۔

2

چونکہ شد او تارکِ آں سلطنت

ماند با شہزادگاں در مسکنت

ترجمہ: جب کہ اس نے سلطنت کو چھوڑ دیا۔ وہ شہزادوں کے ساتھ مسکنت میں رہنے لگا۔

3

ملک را بگذاشت شد شاں را رفیق

ہمرہی میکرد در قطعِ طریق

ترجمہ: اس نے سلطنت کو چھوڑا، ان کا ساتھی بن گیا۔ راستہ طے کرنے میں ان کا ساتھی بن گیا۔

4

خدمتے میکرد سرگرمِ وفاق

با دلِ خالص منزہ از نفاق

ترجمہ: موافقت میں سرگرم رہ کر خدمت کرتا رہا۔ نفاق سے پاک، خالص دل سے۔

5

پَرتوے از عشقِ شاں او را ربود

در سفر با ہر سہ ہمراہی نمود

ترجمہ: ان کے عشق کے پرتو نے اس کو اُچک لیا۔ (اس نے) سفر میں ان تینوں کا ساتھ اختیار کیا۔

6

عشق را زِ نیساں بسے تاثیرہاست

مر دلِ آزاده را زنجیرہاست

ترجمہ: عشق کی اس طرح کی بہت سی تاثیریں ہیں۔ آزاد دل کے لیے بہت سی زنجیریں ہیں۔

7

صحبتِ عاشِق ترا عاشق کند

صُحبتِ فاسِق ترا فاسق کند

ترجمہ: عاشق کی صحبت تجھے عاشق بنا دیتی ہے۔ فاسق کی صحبت تجھے فاسق بنا دیتی ہے۔

8

ہر کسے از دیگرے خوئے برد

خربُزہ از خربُزہ بوئے برد

ترجمہ: ہر شخص دوسرے سے اخلاق حاصل کرتا ہے۔ خربوزہ خربوزے سے خوشبو حاصل کرتا ہے۔

9

منکر از تاثیرِ صحبت جاہل ست

ہر کہ از صحبت رمد بس غافل ست

ترجمہ: صحبت کی تاثیر کا منکر نادان ہے۔ جو صحبت سے بھاگے وہ بہت غافل ہے۔

10

رنگ گیرد خربزہ زانِ دگر

صحبتِ انساں نہ بخشد چوں اَثر

ترجمہ: خربوزہ دوسرے خربوزے سے رنگ پکڑتا ہے۔ انسان کی صحبت اثر کیوں نہ پیدا کرے گی؟

11

ہمرہِ اصحابِ کہف آں کلب شد

تا سگی از وے بکلّی سلب شد

ترجمہ: وہ کتا اصحابِ کہف کا ساتھی بنا۔ حتّٰی کہ اس سے کتا پن بالکل جدا ہو گیا۔

12

باش مردانِ خدا را خاکِ پا

تا رسد از مہرِ او نورے ترا

ترجمہ: مردانِ خدا کے پاؤں کی خاک بن جا۔ تاکہ تجھے اس کے چاند سے نور حاصل ہو۔

13

زیں سبب فرمود احمد مجتبٰیؐ

لَا تُصَاحِبْ اَنْتَ اِلَّا مُؤْمِنَا

ترجمہ: اس لیے احمد مجتبٰی (صل اللہ علیہ وسلّم) نے فرمایا لَا تُصَاحِبْ اِلَّا مُؤْمِنًا“ ((أبوداؤد، كتاب الأدب)ﻣﻮﻣﻦ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺅ)

14

مُشک گرداند مُعطّر طبلہ را

پُشک بخشد مُنتنیہا زَبلہ را

ترجمہ: مُشک ڈبیہ کو معطّر کر دیتا ہے۔ مینگنی کوڑی کو بدبوئیں بخشتی ہے۔

15

چونکہ روغن کرد خود را صَرفِ گل

گشت در طیبِ روائح ظَرفِ گُل

ترجمہ: جب تیل نے اپنے آپ کو پھول میں صرف کر دیا۔ وہ خوشبوؤں میں پھول کا ظرف بن گیا۔

16

چلچلہ از صحبتِ خود بیضہ را

می کُند مانندِ خود بے اِمترا

ترجمہ: انجن ہاری اپنی صحبت سے انڈے کو۔ بے شک اپنی طرح (انجن ہاری) بنا لیتی ہے۔

17

بُود آں شَہ ہمرہِ شہزادگاں

تا دو دادر زیں سہ تَن دادند جاں

ترجمہ: وہ بادشاہ شہزادوں کے ساتھ تھا۔ جب ان تینوں میں سے دو بھائیوں نے جان دے دی۔

18

گشتہ با شہزادۂ سوم رفیق

ہر نَفس حاضر بہ پیشش چوں عشیق

ترجمہ: وہ تیسرے شہزادے کا ساتھی بن گیا۔ ہر دم اس کے سامنے عاشق کی طرح حاضر رہتا تھا۔

19

واں سوم چوں گشت صہرِ شاہِ چیں

در خواصش بُود ایں مَردِ گزیں

ترجمہ: وہ تیسرا جب شاہِ چین کا داماد بن گیا۔ یہ برگزیدہ مرد اس کے خواص میں سے تھا۔

20

شاہِ چیں چوں دید خُلّتہاش بیش

اِختصاصِ خاص با محبوبِ خویش

ترجمہ: بادشاہِ چین نے جب اس کی بہت محبتیں دیکھیں۔ (اور) اپنے محبوب کے ساتھ خاص خصوصیت (دیکھی۔)

21

یافت چوں یک جاں دو قالب ہر دو را

مَیل شُد شَہ را بسُویش از وِلا

ترجمہ: اس نے جب دونوں کو ایک جان دو قالب پایا۔ بادشاہ کا دوستی سے اس کی طرف میلان ہو گیا۔

22

گفت با شہزادہ از رُوئے کرم

کیں رفیق تُست پوپِ ہَر خَدم

ترجمہ: اس نے ازروئے کرم شہزادے سے کہا۔ کہ یہ تیرا ساتھی ہر خادم کی کلغی ہے۔

23

غیر خدمت نہ تتربویش نہ لاغ

در خیالت دارد از عالَم فراغ

ترجمہ: خدمت کے علاوہ اس کا مزاح ہے نہ دل لگی۔ تیرے خیال میں جہان سے فارغ ہے۔

24

ایں چنیں کس را نوازش لازِم ست

کو ہوائے نفسِ خود را عادِم ست

ترجمہ: ایسے شخص کو نوازنا ضروری ہے۔ جو اپنے نفس کی خواہش کو معدوم کر دینے والا ہے۔

25

در ہوائے تو ہوائے خویش باخت

اینچنیں کَس را بَسے باید نواخت

ترجمہ: اس نے تیری مرضی میں اپنی مرضی کو ہار دیا۔ ایسے شخص کو بہت نوازنا چاہیے۔

26

کرد شہزادہ زمیں بوس و بگفت

آشکارا بر تو ہر چہ از ما نہُفت

ترجمہ: شہزادے نے زمین بوسی کی اور عرض کیا۔ جو ہم سے مخفی ہے آپ پر واضح ہے۔

27

چوں باُمّیدِ تقربہائے شاہ

از وطن آوارہ اُفتادم براہ

ترجمہ: جب شاہ کی قربتوں کی امید پر۔ میں وطن سے آوارہ راہ پر پڑا۔

28

ایں کہ شاہِ کامرانِ ملک بود

در رفاقت ہائے ما چستی نمود

ترجمہ: یہ جو ملک کا کامیاب بادشاہ تھا۔ اس نے ہماری رفاقتوں میں چستی دکھائی۔

29

مُلک و دولت بہرِ ما بگذاشت ست

در وِفاق از دل علَم افراشت ست

ترجمہ: اس نے ملک اور دولت ہماری خاطر چھوڑی ہے۔ موافقت میں دل سے جھنڈا بلند کیا ہے۔

30

تار و یارش بہرِ ما بسیار شُد

مُلکِ خود در باخت ما را یار شُد

ترجمہ: ہماری وجہ سے اس پر بہت نشیب و فراز آئے۔ اپنے ملک کو چھوڑا ہمارا دوست بن گیا۔

31

آنچہ لُطفِ شہ تقاضا مے کُند

جائے لُطف و مرحمت ہست اے سند

ترجمہ: اے معتمد! شاہ کی مہربانی کا جو تقاضا ہے، لطف و رحم کا مقام ہے۔

32

شاہ گفتا ملک وا درارش کنند

در خورِ او روزِ بازارش کنند

ترجمہ: بادشاہ نے کہا اس کو ملک اور عطا کر دیں۔ اس کے مناسب گرمیِ بازار دیں۔

33

لُطف فرمودد ز حد بنواختش

تِلوِ آں ہر دو برادر ساختش

ترجمہ: مہربانی فرمائی اور حد سے زیادہ اس کو نوازا۔ اس کو ان دو بھائیوں کا تابع بنا دیا۔

34

قصرہا و مُلکہا اندازہ بیش

از طفیلِ ایں سوم آورد پیش

ترجمہ: اندازہ سے زیادہ قلعے اور ملک۔ اس تیسرے کے طفیل وہ سامنے لے آیا۔

35

آنچہ لَا عَیْنٌ رَأَتْ اُو را بَداد

وانکہ لَا اُذُنٌ سَمِعْ پیشش نہاد

ترجمہ: جو کچھ آنکھ نے نہ دیکھا وہ اس کو دے دیا۔ اور جو کچھ کان نے نہ سنا اس کے سامنے رکھ دیا۔

36

گشت آں شہ واصلِ مقصود نیز

چوں طفیلی با کہ مہمانِ عزیز

ترجمہ: وہ شاہ بھی مقصود تک پہنچ گیا۔ جیسے کہ طفیلی، کس کے ساتھ؟ معزز مہمان کے ساتھ۔

37

زیں سبَب فرمود آں شاہِ رئیس

کہ ھُمْ قَوْمٌ فَلَا یَشْقٰی جَلِیْس

ترجمہ: اس شاہِ رئیس نے اسی لیے فرمایا ہے: ہُمُ الْقَوْمُ لَا یَشْقٰی لَہُمْ جَلِیْسٌ ( سنن الترمذی)(کہ وہ ایسی قوم ہے جس کا ہمنشین محروم نہیں رہتا۔)

38

پاسِ دلہا کردن و خدمت گری

سازدت مخدوم و بخشد سروری

ترجمہ: دلوں کی پاسداری اور خدمت گزاری۔ تجھے مخدوم بناتی ہے اور سرفرازی بخش دیتی ہے۔

39

خاصۂ خدمتگارئے مردِ خدا

خوش قبولی بخشدت نزدِ خُدا

ترجمہ: خصوصاً مردِ خدا کی خدمتگاری۔ تجھے خدا کے نزدیک بہترین مقبولیت عطا کر دیتی ہے۔

40

ہر کہ شُد مَقبولِ مَقبولِ الٰہ

لُطفِ حق مَبذولِ اُو گردد ز شاہ

ترجمہ: جو شخص خدا کے مقبول کا مقبول بن جاتا ہے۔ اس پر بادشاہ کی جانب سے اللہ تعالٰی کا لطف متوجہ ہوتا ہے۔

41

ہر کہ شُد مقبولِ مقبولانِ حق

گردد اُو لُطفِ خدا را مُستَحق

ترجمہ: جو اللہ (تعالٰی) کے مقبولوں کا مقبول بنا۔ وہ خدا کی مہربانی کا مستحق ہو جاتا ہے۔

42

ہر کہ مَردانِ خدا را دل بجُست

در اَدائے خدمِ شاں گشت چُست

ترجمہ: جس شخص نے مَردانِ خدا کی دلداری کی۔ ان کی خدمت گزاری میں چست بنا۔

43

گشت ملحوظِ عنایتہائے حَق

مَست و محفوظ از حمایتہائے حق

ترجمہ: وہ اللہ (تعالٰی) کی عنایتوں کا منظورِ نظر بنا۔ وہ اللہ (تعالٰی) کی حمایتوں کا مست اور حصہ دار بنا۔

44

ابنِ مسعودؓ از پیمبرؐ نقل کَرد

اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ اے نیک مرد

ترجمہ: اے نیک مرد! (حضرت) ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلّم) سے نقل کیا ہے اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ (صحيح البخاري الرقم:6168) انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔)

45

لمَنْ اَحَبَّ الْقَوْمَ مِنْھُمْ آمدہ

حُبِّ اَہْلِ اللہِ نورِ جاں شُدہ

ترجمہ: جس نے جس قوم سے محبت کی وہ ان میں سے ہوا آیا ہے۔ اہل اللہ کی محبت جان کا نور بنی۔

46

حُبٌّ لِلّٰہِ بُغْضٌ لِلّٰہِ کن شعار

تا بیابی بر درِ دِلدار بار

ترجمہ: (کسی سے) محبت اللہ تعالٰی کے لیے (کر، اور) بغض (بھی) اللہ تعالٰی کے لیے (کرنے کا) شعار بنا لے۔ تاکہ تو دلدار کے در پر باریاب ہو۔

47

چوں نبود ایں شاہِ ملحق را جِہاد

حُبِّ پاکاں شمع بر راہش نہاد

ترجمہ: جب کہ اس ساتھی شاہ کا مجاہدہ نہ تھا۔ پاکوں کی محبت نے اس کے راستہ پر شمع رکھ دی۔

48

کو نبودش جہد و اِستعداد و کسب

صحبتِ مرداں بکار آمد فحسب

ترجمہ: وہ جس کے لیے مجاہدہ اور استعداد اور کسب نہ تھی۔ مردوں کی صحبت کام آئی اور بس۔

49

جہد کُن تا خود ز مقبولاں شوی

یا بمقبولانِ حق شو مُنطوِی

ترجمہ: کوشش کر، تاکہ تو خود مقبولوں میں سے ہو جائے۔ یا اللہ (تعالٰی) کے مقبولوں پر مشتمل ہو جا۔

50

مرد باش و یا کہ خود پے مرد گرد

پُوتک و پُوتہ رسد زاں مردِ فرد

ترجمہ: مرد بن جا، یا خود مرد کے پیچھے گردش کر۔ بڑا اور چھوٹا خزانہ اس یکتا انسان سے ملے گا۔

51

زیں دو کس یک ہم گر اے جاں نیستی

روزِ محشر سخت رسوا اِیستی

ترجمہ: اے جان! اگر تو ان دونوں میں سے ایک نہیں ہے۔ تو محشر کے دن سخت رسوا اٹھے گا۔

52

زیں سبب فرمود در قرآں خُدا

خود طلب مِیکُن وسیلہ در ہُدٰی

ترجمہ: اسی لیے خدا (تعالٰی) نے قرآن میں فرمایا۔ ہدایت میں تو خود وسیلہ طلب کر۔

53

بے مربِّی کس مربّا چوں خورد

مرغ بے پر در ہوا گو چوں پرد

ترجمہ: تربیت دینے والے کے بغیر، مربّا کس نے کھایا ہے۔ بتا، پرند بغیر پر کے کیسے اڑے؟

54

دشت پُر خون ست و پُر دام و ددست

ہر طرف راہِ کژی پیدا شدست

ترجمہ: جنگل خون سے بھرا اور جال اور درندہ سے بھرا ہے۔ ہر جانب کجی کا راستہ کھلا ہے۔

55

دشت پُر مار و بہر سو سبزہ زار

بے فسوں گر پا منہ گردی تو زار

ترجمہ: جنگل سانپوں سے بھرا ہے اور ہر جانب سبزہ زار ہے۔ بغیر منتر پڑھنے والے کے قدم نہ رکھ، تو عاجز آ جائے گا۔

56

ہست دنیا سبزہ زار و نفس مار

دشتِ پُر خوں راہِ دیں را می شمار

ترجمہ: دنیا سبزہ زار اور نفس سانپ ہے۔ دین کے راستہ کو پُر خون جنگل سمجھ۔

57

گر گزد مارت شوی خستہ ملول

بے فسوں گر ایمنی ہستی تو گول

ترجمہ: اگر تجھے سانپ ڈس لے گا تو خستہ اور ملول ہو جائے گا۔ تو بغیر منتر پڑھنے والے کے مطمئن ہے، تو احمق ہے۔

58

گر خلد خارے بپائے دل ترا

تارہ گر نبود بر آرئے چوں درا

ترجمہ: اگر تیرے دل کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے۔ اگر سوئی کی نوک نہ ہو تو اس کو تو کیسے نکالے گا؟

59

فکرِ تارہ کن فسوں را یاد گیر

رہبرے جو تا بری راہِ عسیر

ترجمہ: سوئی کی نوک کی فکر کر، منتر یاد کر لے۔ کوئی رہبر تلاش کر لے تاکہ تو دشوار راستہ طے کر لے۔

60

دشتِ پُر خار و بہر سُو راہہاست

بر سَرِ ہر ہر قدم بیں چاہہاست

ترجمہ: جنگل کانٹوں بھرا ہے اور ہر جانب راستہ ہے۔ دیکھ ہر ہر قدم پر کنویں ہیں۔

61

دشت بَس خونخوار و رَہزن مختفی

رَہبرے جُو باش وے را مُقتفی

ترجمہ: جنگل بہت خوفناک ہے اور ڈاکو چھپا ہوا ہے۔ کوئی رہبر تلاش کر لے اور اس کا متَّبِع بن۔

62

راہ بَس دشوار غولے ہر طَرف

بَر سَرِ رَہ میزند صد چنگ و دَف

ترجمہ: راستہ بہت دشوار ہے، ہر جانب چھلاوا ہے۔ جو راستہ پر سینکڑوں چنگ اور دف بجا رہا ہے۔

63

راہ بس سخت و شبِ تاراست پیش

گر نگیری دستِ کَس رَفتی ز خویش

ترجمہ: راستہ بہت دشوار ہے اور سامنے تاریک رات ہے۔ اگر تو نے کسی کا ہاتھ نہ پکڑا، اپنے سے گیا۔

64

ایں سخن پایاں ندارد اے عزیز

مثنوی را ختم باید کرد نیز

ترجمہ: اے پیارے! اس بات کا خاتمہ نہیں ہے۔ مثنوی کو بھی ختم کرنا چاہیے۔

65

کارِ حق را نیست پایاں اے غلام

مَثنوی را کردہ باید اختتام

ترجمہ: اے لڑکے! اللہ (تعالٰی) کے کام کا خاتمہ نہیں ہے۔ مثنوی کو ختم کرنا چاہیے۔

66

اختتام مَثنویِ معنوی

شُد ز فیضِ مولویِ اَولوِی

ترجمہ: مثنوی مَعنوی کا خاتمہ، مولوِی اَولوی کے فیض سے ہو گیا۔