دفتر 6 حکایت 171: چند نالہ زار جو غمگین، درد آثار بیقرار نَے سے نکلے، اور وجود کے تمام منازل اور عروج اور ہستی کے مشہود کے مرتبہ پر نزول کا بیان

دفتر ششم: حکایت: 171



چند نالۂ زار کہ از نے بیقرار، درد آثار، غمگسار، سَر زدہ و بیانِ منازلِ کلّیِ وجود و عروج و نزولِ اطوارِ ہستی بر مرتبۂ شہود

چند نالہ زار جو غمگین، درد آثار بیقرار نَے سے نکلے، اور وجود کے تمام منازل اور عروج اور ہستی کے مشہود کے مرتبہ پر نزول کا بیان

1

بشنو از نے چوں حکایت میکند

قصۂ ہجراں روایت میکند

ترجمہ: نَے سے سن کیا حکایت کر رہی ہے؟ جدائی کا قصہ بیان کر رہی ہے۔

2

کز وجودِ مطلقم چوں کَندہ اند

من بگریہ مردماں در خندہ اند

ترجمہ: کہ جب سے مجھے مطلق وجود سے جدا کیا ہے۔ میں رونے میں، (اور) لوگ ہنسنے میں (مصروف) ہیں۔

3

حالِ زارِ من نمیداند کسے

ہستم اندر آتشِ غم چوں خسے

ترجمہ: کوئی میرا حالِ زار نہیں جانتا۔ میں غم کی آگ میں تنکے کی طرح (جل رہا) ہوں۔

4

چونکہ از قوسِ اَحد مُنزَل شدم

خود بخُمِّ واحدیت حَل شدم

ترجمہ: جب میرا قوسِ احد سے تنزّل ہوا۔ میں خود واحدیّت کے مٹکے میں گھل گیا۔

5

منزلِ لاہوت را کردم عبور

کردم از جبروتِ اِسمی ہم مرور

ترجمہ: میں نے ”لاہوت“ کی منزل کو عبور کیا۔ میں ”اسمِ جبروت“ سے بھی گزر گیا۔

6

رفتہ رفتہ عالمِ ملکوت شد

عالمِ روحانیِ مَنعوت شد

ترجمہ: رفتہ رفتہ ”عالمِ ملکوت“ ہو گیا۔ موصوف ”عالمِ روحانی“ بن گیا۔

7

بعدہٗ در عالمِ مُلک و شہود

گشت ظاہر جملہ اَطوارِ وجود

ترجمہ: اس کے بعد ”عالمِ ملک و شہود“ میں وجود کے تمام مراتب ظاہر ہو گئے۔

8

مُنتہایش عالمِ ناسوت گشت

زیں تنزّلہا دلم مَبہوت گشت

ترجمہ: اس کا منتہیٰ ”عالمِ ناسوت“ ہو گیا۔ ان تنزّلات سے میرا دل حیران ہو گیا۔

9

کے بود یا رب کے مِعراجے شود

رُوح سُوئے قوسِ احدیت روَد

ترجمہ: اے خدا کب (وہ وقت) ہوگا کہ ”معراج“ ہوگی؟ روح ”قوسِ احدیّت“ کی جانب جائے گی۔

10

ہر تنزّل را عروجے لازِم ست

قطرہ سُوئے بحرِ اَخضرِ عازِم ست

ترجمہ: ہر تنزّل کے لیے عروج ضروری ہے۔ قطرہ بحرِ اَخضر کے لیے ارادہ کرنے والا ہے۔

11

لیک اَقسامِ عروج اے جاں سہ است

بر کس از فیضِ خدا ایں در نہ بست

ترجمہ: لیکن اے جان! عروج کی تین قسمیں ہیں۔ خدا کے فیض کا یہ دروازہ کسی پر بند نہیں ہوا۔

12

شد عروجِ عامہ مرگِ جسمِ خاک

بس تعرّج ہَست در مَوت و ہلاک

ترجمہ: عوام کا عروج، خاکی جسم کی موت ہے۔ موت اور ہلاکت میں عروج ہے۔

13

قدرِ مرگِ خود نمیدانی چرا

میدہد در مرجِ لاہوتی چَرا

ترجمہ: تو اپنی موت کی قدر کیوں نہیں جانتا؟ وہ تجھے ”لاہوتی“ چراگاہ میں خوراک دیتی ہے۔

14

موت قبل الموت اگر دستت نداد

میکند کارت اجل حسب المراد

ترجمہ: موت قبل از موت کا اگر تجھے موقع نہ ملا۔ موت مراد کے مطابق تیرا کام کر دیتی ہے۔

15

موت جسرِ موصِل آمد سوئے یار

مرگ را آمادہ باش اے ہوشیار

ترجمہ: موت یار کی جانب پہنچانے والا پل ہے۔ اے ہوشیار موت کے لیے آمادہ رہ۔

16

وہ چہ خوش باشد کہ سُوئے شہ روم

واصلِ درگاہِ آں بے چوں شوم

ترجمہ: واہ، کیا اچھا ہو گا کہ میں شہشاہ کی طرف جاؤں گا۔ اس بے مثل کے دربار سے متصل ہو جاؤں گا۔

17

وقت آمد کز جہانِ بیکسی

پائے کوباں سُوئے بامِ او رَسی

ترجمہ: وقت آ گیا کہ بیکسی کی دنیا سے۔ تو رقص کرتا ہوا اس کے بالاخانہ کی جانب پہنچ جائے۔

18

زیں سبب فرمود احمدؐ مجتبٰی

تُحْفَۃُ الْمُوْمِن کہ اَلْمَوْت اے فتٰی

ترجمہ: اسی لئے احمدِ مجتبٰی (صلی اللہ علیہ وسلّم) نے فرمایا۔ اے نوجوان! موت مومن کا تحفہ ہے۔ (مجمع الزوائد:425/1)

19

گر نبُودے موت در دنیائے دُوں

سخت مے گشتیم عاجز بَس زبوں

ترجمہ: اگر کمینی دنیا میں موت نہ ہوتی، ہم سب عاجز اور مغلوب بن جاتے۔

20

شکرِ حق کو مخلصی بنہادہ است

غُرفہ سُوئے آں دہاں بکشادہ است

ترجمہ: اللہ (تعالٰی) کا شکر ہے کہ نجات کا موقع رکھ دیا ہے۔ اس جہان کی جانب کھڑکی کھول دی ہے۔

21

ایں سخن پایاں ندارد اے عزیز

از عروج بعدِ مردن گو تو نیز

ترجمہ: اے عزیز! یہ بات انتہاء نہیں رکھتی ہے۔ مرنے کے بعد کے عروج کے متعلق بتا۔

22

زاں عروجے کردہ در برزخ رود

درمیانِ قبر تا محشر بود

ترجمہ: اس کے ذریعہ عروج کر کے برزخ میں جاتا ہے۔ قبر کے اندر، محشر تک رہتا ہے۔

23

پس عروجے ہست در محشر پدید

بعد ازاں در نار یا جنّت کشید

ترجمہ: پھر ایک عروج محشر میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے بعد جہنّم میں یا جنّت میں لے جاتا ہے۔

24

پس بسُوئے واحدیت تا اَحد

سر بر آرد از تعیُّن می رہد

ترجمہ: پھر ”واحدیت“ کی جانب ”احد“ تک سر ابھارتا ہے، تعین سے نجات پا جاتا ہے۔

25

منتہٰی سُوئے خدا شد زیں سبب

ہست رُجعٰی سُوئے او خود بے طلب

ترجمہ: اس لیے منتہٰی اللہ (تعالٰی) کی جانب ہوا۔ خود بغیر مانگے، اس کی جانب واپسی ہے۔

26

مومن از نورِ جمالے مے رسد

ثمرہا از باغِ رؤیت مے چشد

ترجمہ: مومن نورِ جمال کے ذریعہ سے پہنچتا ہے۔ دیدار کے باغ کے پھل چکھتا ہے۔

27

کافر از نورِ جلالی گو رسید

لیک محجوب ست و خُسرانے کشید

ترجمہ: کافر گویا نورِ جلالی کے ذریعہ پہنچتا ہے۔ لیکن وہ محجوب ہے اور اس نے نقصان اٹھایا ہے۔

28

معنیِ کُلٌّ اِلَیْنَا رَاجِعُوْن

فہم کن وَاللّٰہُ اَعْلَمْ بِالْفُنُون

ترجمہ: ”ہر ایک ہماری طرف لوٹنے والا ہے“ کے معنٰی سمجھ لے۔ اور خدا فنون کو زیادہ جانتا ہے۔

29

ایں عُروجِ اضطراری عام ہست

بہرِ ہر نا پُختہ و ہر خام ہست

ترجمہ: یہ اضطراری عروج عام ہے۔ ہر نہ پکے ہوئے اور ہر کچے کے لیے ہے۔

30

زیں سبب فرمود آں احمدؐ لبیب

موت جسرِ مُوصِل آمد تا حبیب

ترجمہ: ان عقلمند احمد (صلی اللہ علیہ وسلّم) نے اسی لیے فرمایا هے۔ موت دوست تک پہنچانے والا پُل ہے۔

31

واں عروجِ دومی شد ز اخِتیار

اولیاء و انبیاء را ز اعتبار

ترجمہ: وہ دوسرا عروج اختیار سے ہوا۔ اولیاء اور انبیاء کے اعتبار سے۔

32

از رہِ عِلم و عمل عارِج شدند

پس بموتِ معنوی خارج شدند

ترجمہ: وہ علم و عمل کے راستہ سے عروج حاصل کرنے والے بنے۔ وہ معنوی موت کے ذریعہ نکلنے والے بنے۔

33

پیشِ مُردن مُردہ گرد و شو فنا

تا عُروجے حاصل آید مرتُرا

ترجمہ: مرنے سے پہلے مردہ بن اور فنا ہو جا۔ تاکہ تجھے عروج حاصل ہو۔

34

از منازلہا کہ سالِک آمدست

جہد کردہ ہم بدانسُو پا ز دست

ترجمہ: سالک جن مراتب سے آیا ہے۔ کوشش کر کے اسی جانب قدم بڑھایا ہے۔

35

تاکہ وجہ حق برو ظاہر شود

دَر تجلّی واحدی اَحدی رَود

ترجمہ: تاکہ اس پر حق کی وجہ ظاہر ہو جائے۔ ”واحدی، احدی“ تجلّی میں چلا جائے۔

36

خود فنا گردد بقا حاصل کند

قطرہ را تا بحرِ کل واصِل کند

ترجمہ: خود فنا ہو جائے، بقا حاصل کر لے۔ قطرے کو بحرِ کل سے جوڑ دے۔

37

سومیں مِعراج جذبِ ایزدی

کُو کشد در لمحہ سُوئے بے خودی

ترجمہ: تیسری معراج، ایزدی جذب ہے۔ جو ایک لمحہ میں بے خودی کی جانب کھینچ لیتی ہے۔

38

چوں رسولِؐ مجتبٰی در یک نفَس

وَا رہید از قیدِ ایں نازک قفس

ترجمہ: جس طرح رسولِ مجتبٰی (صلی اللہ علیہ وسلّم) ایک سانس میں۔ اس نازک پنجرے کی قید سے چھوٹ گئے۔

39

دفعۃً تا قَابَ قَوْسَیْن او پرید

راہِ صد سالہ بیک جُنبش برید

ترجمہ: دفعۃً وہ ”قاب قوسین“ تک گئے۔ سو (100) سالہ راستہ ایک جنبش میں طے کیا۔

40

در دم از ظاہر سُوئے باطن رَود

واں کثافت خود لطافتہا شود

ترجمہ: فورًا ظاہر سے باطن کی جانب چلا جاتا ہے۔ وہ کثافت خود لطافتیں بن جاتی ہے۔

41

ظلمتِ خاکی ز جسمِ تو رود

نورِ یزدانی بہفت اعضاءِ دود

ترجمہ: خاکی ظلمت تیرے جسم سے چلی جاتی ہے۔ خدائی نور سات اعضا میں دوڑ جاتا ہے۔

42

لیکن ایں در اختیارِ عبد نیست

بندہ را فعلے بجز در جہد نیست

ترجمہ: لیکن یہ بندے کے اختیار میں نہیں ہے۔ بندے کا کام کوشش کے سوا (كچھ) نہیں ہے۔

43

ز اِجتبا گشتند محبُوباں مُصیب

واں دگرہا گشتہ یَھْدِیْ مَنْ یُّنِیْب

ترجمہ: محبوب ”اِجتباء“ کی وجہ سے ٹھیک پہنچنے والے ہیں۔ اور وہ دوسرے ”یَھْدِیْ إِلَيْهِ مَنْ یُّنِیْب“ ((شوریٰ:13) ”جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے راہ دکھاتا ہے“) کے مصداق ہیں۔

44

ہر مُرید آخر مُرادے می شود

طالبے مطلوبِ رادے می شود

ترجمہ: ہر مرید آخر میں مُراد بن جاتا ہے۔ طالب جوان کا مطلوب بن جاتا ہے۔

45

نے مثابہ آنکہ کار آخر کُند

ہر مرید ایں اِجتبا را کے سَزد

ترجمہ: نہ وہ مرتبہ جو کام مکمل کر دے۔ ہر مرید اس ”اجتبا“ کے لائق کہاں ہے؟

46

قدرِ حالِ خود مُرید آمد مُراد

زیں سبب فرمود آں رَبُّ العباد

ترجمہ: مرید اپنے حال کے اندازہ سے مراد بنتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے۔

47

مَنْ تَقَرَّبَ شِبْراً بَاعًا کُنْتُ لَہٗ

مَنْ اَتٰی یَمْشِیْ اَتَیْتُ ھَرْوَلَہ

ترجمہ: (اللہ تعالٰی فرماتا ہے) جو ایک بالشت (میرے) قریب ہوا میں (اس کے) چار ہاتھ (قریب) ہوا۔ جو (میری طرف) چل کر آیا، میں (اسکی طرف) بھاگ کر آیا۔

48

جہد کن کز جہدہا عارج شوی

ز آشیانِ آب و گِل خارج شوی

ترجمہ: کوشش کر کیونکہ مجاہدوں سے تو صاحبِ معراج ہوگا۔ آب و گِل کے آشیانہ سے نکل جائے گا۔

49

از چہ نورِ پاک و خوش آمد مَلک

از چہ صاف و روشن آمد ایں فلک

ترجمہ: فرشتہ پاک نور اور بھلا کس وجہ سے ہے؟ یہ آسمان صاف اور روشن کس وجہ سے ہے؟

50

زانکہ از خاکِ مُکدّر برتر اوست

زانکہ از نفْسِ دَنی مُطہَّر اوست

ترجمہ: اس لیے کہ مکدّر خاک سے وہ بالا ہے۔ اس لیے کہ وہ کمینہ نفس سے پاک ہے۔

51

نفسِ خیرہ خاکِ تیرہ شد بہم

بر بَلا آمد بَلا اے خوش قدم

ترجمہ: بے باک نفس اور مکدر مٹی اکٹھے ہوئے۔ اے خوش قدم! مصیبت بالائے مصیبت ہوئی۔

52

جہدِ کُن تا خاک را صافی کُنی

زیں ہمہ آلودگی ہا برکَنی

ترجمہ: کوشش کر تاکہ تو مٹی کو صاف کر لے۔ تو ان سب آلودگیوں سے جدا ہو جائے۔

53

نفسِ خیرہ را بده بس گوشمال

تا دمد از خاکِ جسمت صَد نہال

ترجمہ: بے باک نفس بہت سزا دے۔ تاکہ تیرے جسم کی مٹی سے سینکڑوں پودے اگیں۔

54

جہد کُن اندک زمانہ روز چَند

چند شب گریہ بکُن باقی بخند

ترجمہ: چند دن تھوڑے وقت مجاہدہ کر لے۔ چند راتیں رو لے، باقی ہنس (کر گزارلینا۔)

55

زیں سبب فرمود قرنیِ اویسؓ

سَاْعَۃٌ دُنْیَا و فِیْھَا الرَّوْحُ لَیْس

ترجمہ: اسی لیے اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ دنیا کچھ وقت ہے اور اس میں آرام نہیں ہے۔

56

کاہلی در کارِ دنیا در سپار

چابکی میکُن پے روزِ شمار

ترجمہ: دنیا کے کام میں کاہلی اختیار کر۔ حساب کے دن کے لیے چستی اختیار کر۔

57

زُہد در دنیا چہ جائے فخرِ تُست

میل سُوئے جیفہ ننگ و خُسرتست

ترجمہ: دنیا میں زہد، تیرے فخر کا کیا موقع ہے؟ مُردار کی طرف میلان، ذلّت اور خسارا ہے۔

58

قدرِ او حقّا چو پَرِّ پشّہ نیست

پیشِ بحرِ آں جہاں جز رشّہ نیست

ترجمہ: یقینًا اس کی قدر مچھر کے پر کی طرح (بھی) نہیں ہے۔ اس جہاں کے سمندر کے سامنے ایک چھینٹے کے سوا نہیں ہے۔

59

کرد احسانے خداوندِ بلند

زُہد ایں ناچیز را از ما پسند

ترجمہ: خدائے برتر نے بڑا احسان فرمایا۔ کہ اس ناچیز سے ہماری بے رغبتی پسند کر لی۔

60

زُہدِ نا مرغوب چیزے بس حقیر

از کرم بنوشت اُو شَیْئاً کَثِیْر

ترجمہ: بہت حقیر نا پسندیدہ چیز سے بے رغبتی کو۔ کرم سے اس نے ”کثیر چیز“ لکھ دیا۔

61

از عِنایتہائے خاصِ ایزدست

کُو شبہ گیرد دہد گوہر بدست

ترجمہ: اللہ (تعالٰی) کی خاص عنایتوں میں سے ہے۔ کہ وہ پوتھ لے لیتا ہے، اور موتی عطا کرتا ہے۔

62

عُمرِ معدودِ قلیلے بے ثبات

طاعتے کردی و رفتی در حیات

ترجمہ: ناپائیدار، تھوڑی، گنی چنی عمر۔ تو نے عبادت کی اور ابدی زندگی میں چلا گیا۔

63

آں حیاتِ باقیِ بے انتہاء

نے عدم گردش بگردد نے فنٰی

ترجمہ: وہ لا محدود باقی رہنے والی زندگی۔ جس کے چاروں طرف، نہ عدم گردش کرتا ہے نہ فنا۔

64

لَا یَحُوْمُ حَوْلَہٗ الْاَعْدَامُ قَطْ

صِرْتَ رُوْحًا بَاقِیًا حَیًّا فَقَطْ

ترجمہ: نیستیاں اس کے گرد کبھی چکر نہیں کاٹتیں۔ تو بس باقی رہنے والی زندگی، روح بن گیا۔

65

عمرِ دنیا پیشِ عقبٰی ساعت ست

ساعتے را ناہے راحت ست

ترجمہ: آخرت کے بالمقابل دنیا کی عمر ایک گھڑی ہے۔ ایک گھڑی کی وجہ سے لامحدود راحت ہے۔

66

ہے کُجائی فہم و عقلِ تو چہ شد

پاسِ اَنفاسِ چو گوهر دارِ خود

ترجمہ: ہائیں تو کہاں ہے؟ تیری سمجھ اور عقل کو کیا ہوا؟ اپنے موتی جیسے سانسوں کا لحاظ رکھ۔

67

ہر نَفس بہرِ مسیحائیت چست

گر نداری پاسِ او از جہلِ تست

ترجمہ: ہر سانس تیری مسیحائی کے لیے تیار ہے۔ اگر تو لحاظ نہ رکھے تیری نادانی ہے۔

68

قیمتِ یک دم جہانے گر دہی

نیست ممکن کز اَجل یکدم رَہی

ترجمہ: تو اگر ایک سانس کی قیمت ایک دنیا دے۔ ممکن نہیں ہے کہ ایک سانس کے لیے موت سے نجات پائے۔

69

ایں چنیں اَنفاسِ خوش ضائع مکُن

غفلت اندر شہرِ جاں شایع مکُن

ترجمہ: ایسی بہتر سانسیں ضائع نہ کر۔ جان کے شہر میں غفلت کو رائج نہ کر۔

70

بَر سپَرخیِّ سہ روزہ می تنی

چوں ستاع آخر بپاسے بر زنی

ترجمہ: تو تین روز کی خوشی کے گرد گھومتا ہے۔ بالآخر بانجھ عورت کی طرح ایک سانس میں گر جائے گا۔

71

در زَغارہ چوں زَخارہ سانِ ساں

بند بندت گردد آخر اے فلاں

ترجمہ: اے فلاں! نمناک مٹی میں، تیرا جوڑ جوڑ بالآخر سبز شاخ کی طرح، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔

72

سامۂ عہدِ ازل را یاد کن

رخشۂ فطرت چو داری باد کُن

ترجمہ: ازل کے عہد کے وعدہ کو یاد کر۔ جب کہ تو فطرت کا شعلہ رکھتا ہے، ہوا دے۔

73

ہر عبادت را ز حق وقت آمدست

در صلوٰۃ و صوم میقاتے شُدست

ترجمہ: ہر عبادت کا اللہ تعالٰی کی جانب سے وقت مقرر ہے۔ نماز اور روزے کا ایک وقت معین ہے۔

74

ہم زکوٰۃ و حج فرضِ وقتی ست

غفلت اَندر وقتِ آں بدبختی ست

ترجمہ: زکوٰۃ اور حج بھی وقتی فرض ہے۔ اس کے وقت میں غفلت بدبختی ہے۔

75

جُز کہ ذکرِ آں خدائے پاک ذات

نیستش وقتِ معیّن از خدات

ترجمہ: اس خدائے پاک ذات کے ذکر کے سوا۔ خدا کی جانب سے تیرے لیے اس کا وقت معین نہیں ہے۔

76

نَوطِ ذکرِ حق بہ نِسیاں داشتند

ذکر را دائر بہ نِسیاں ساختند

ترجمہ: انہوں نے اللہ تعالٰی کی یاد کا بھول سے تعلق کر دیا۔ ذکر کو بھول میں دائر کر دیا۔

77

گفت اُذْکُرْ رَبَّکْ آں شاہِ جہاں

وقتِ نِسیاں اِذْ نَسِیْتَ را بخواں

ترجمہ: اس شہنشاہ نے فرمایا ”تو اپنے رب کو یاد کر“۔ بھول کے وقت ”جب کہ تو بھولے“ پڑھ لے۔

78

ظرفِ اُذْکُرْ، اِذْ نَسِیْتَ آمدست

پس بہر نِسیاں قریں ذکرے شُدست

ترجمہ: ”تو ذکر کر“ کا وقت ”جب کہ تو بھولے“ آیا ہے۔ تو ہر بھول کا ساتھی ذکر ہے۔

79

ہر گہت نسیاں بتازد ذکر گو

تا نماند غیرِ ذکر و فِکرِ ہو

ترجمہ: جس وقت تجھ پر بھول حملہ کرے ذکر کر۔ تاکہ اللہ (تعالٰی) کے ذکر و فکر کے سوا کچھ نہ رہے۔

80

جُز خدائے وَحدہٗ چہ بود دِگر

نام او بر جان و دل شِیر و شَکر

ترجمہ: خدائے وحدہٗ کے علاوہ دوسرا کیا ہے؟ اسی کا نام جان اور دل کے لیے شِیر و شکر ہے۔

81

ذکر کُن مذکور تا گردد عیاں

نے ہمیں ذکرِ کہ باشد بر زباں

ترجمہ: ایسا ذکر کر کہ جس کا ذکر ہوا مشاہد ہو جائے۔ نہ کہ وہ ذکر جو (صرف) زبان پر ہو۔

82

ذکرِ لفظی غیر عارض بیش نیست

ذکرِ روحی جز فنِ درویش نیست

ترجمہ: لفظی ذکر ایک عارض سے زیادہ کچھ نہیں۔ روحی ذکر درویش کے ہنر کے سوا نہیں ہے۔

83

چونکہ بر باید ترا سلطانِ ذِکر

آں زماں گشتی سراپا کانِ ذِکر

ترجمہ: جب سلطان الذکر تجھے اڑا لے۔ اس وقت تو مجسم ذکر کا کان بن گیا۔

84

ذاکر و مذکور و ذِکر آید یکے

غیرِ حق باقی نماند بے شکے

ترجمہ: ذاکر اور مذکور اور ذکر ایک ہو جائے گا۔ بے شک اللہ تعالٰی کے سوا باقی نہ رہے گا۔

85

عالَمے دیگر بدل زائد ترا

کیں سَما و ارض شُد آنجا ہَبا

ترجمہ: تیرے دل میں ایک دوسرا ایسا عالم پیدا ہوگا۔ کہ یہ آسمان اور زمین وہاں ذرہ ہیں۔

86

آفتابِ دیگر از مشرق تند

ذرّہ اَت اِشراقِ خورشیدے کند

ترجمہ: مشرق سے دوسرا سورج طلوع کرے گا۔ اس کا ایک ذرہ سورج کو روشن کر دے گا۔

87

مہر چوں آئینہ را گردد محیط

آئینہ خود جلوہ گر شد زاں بسیط

ترجمہ: سورج جب آئینہ کو گھیر لیتا ہے۔ اُس پھیلے ہوئے سے خود آئینہ جلوہ گر ہو جاتا ہے۔

88

بعد ازیں گفتن اِجازت کے بود

نَحْنُ اَقْرَبُ ہر زمانم وَے بود

ترجمہ: اس کے بعد کہنے کی اجازت کہاں ہے! ہر وقت تیرے لیے ”ہم زیادہ نزدیک ہیں“ وہ ہوتا ہے۔

89

در رَگ و در پوست و اندر استخواں

برق زَد چندانکہ رفت از من نشاں

ترجمہ: رگ میں اور کھال میں اور ہڈی میں۔ ایسی بجلی گری کہ میرا نشان مٹ گیا۔

90

شُعلۂ عشق از گریباں سر بَزد

احمداؐ اکنوں مجو غیر از اَحد

ترجمہ: عشق کے شعلہ نے گریبان سے سر ابھارا۔ اے احمد (صلی اللہ علیہ وسلّم) اب اَحد کے غیر کو تلاش نہ کر۔

91

شدُ گریباں صورتِ مِقراضِ لَا

مَن کجا و ہستیِ فانی کُجا

ترجمہ: گریبان ”لا“ کی قینچی کی صورت بن گیا۔ (اب) میں کہاں اور فانی ہستی کہاں؟

92

قارِعہ آمد ز عشقِ ذُوالجلال

ریزہ ریزہ کرد مینائے خیال

ترجمہ: ذو الجلال کے عشق کی قیامت آ گئی۔ جس نے خیال کی صراحی کو ریزہ ریزہ کر دیا۔

93

در قیامت رازِ عشق ست اے فلاں

صد قراعِ چوں کتائب اَلْاَمَاں

ترجمہ: اے فلاں! قیامت میں عشق کا راز ہے۔ لشکروں کو سو (100) مرتبہ کھٹکھٹانے کی طرح۔ الامان۔