دفتر 6 حکایت 167: اس نان بائی کا قصہ جس نے بغیر استعداد کے جلد بازی کے طور پر وصلِ عریاں کے ساتھ دل وابستہ کیا اور جان دے دی

دفتر ششم: حکایت: 167



داستانِ آں مطبخی کہ بدونِ استعداد از راہِ تعجیل دل بوصلِ عُریاں نہاد و جاں بَداد

اس نان بائی کا قصہ جس نے بغیر استعداد کے جلد بازی کے طور پر وصلِ عریاں کے ساتھ دل وابستہ کیا اور جان دے دی

1

عارفے را مطبخی ہمسایہ بود

بَس سخی و عاقل و پُر مایہ بود

ترجمہ: ایک عارف کا ایک نان بائی پڑوسی تھا۔ بہت سخی اور عقلمند اور سرمایہ دار تھا۔

2

اکثر اِستفسار کردے حالِ شیخ

بَستہ بُودے چشم بَر احوالِ شیخ

ترجمہ: اکثر شیخ کا حال معلوم کرتا۔ شیخ کے احوال پر آنکھ لگائے ہوئے تھا۔

3

چونکہ فقر از شانِ فخرِ اولیاست

اِفتقار از سنّتِ خیرُ الورٰی ست

ترجمہ: چونکہ فقر اولیاء کے فخر کی شان ہے۔ حاجت مندی خیر الورٰی کی سنت ہے۔

4

باوجودِ حَزم اِخفائے کمال

گر شُدے احیانًا اُو دانائے حال

ترجمہ: باوجود کمال کے اخفاء کی پختہ کاری کے۔ اگر وہ کبھی حال کا واقف کار بن جاتا۔

5

خدمتے کردے بصَد عجز و نیاز

با کمالِ اِعتقاد و اِمتیاز

ترجمہ: سینکڑوں عاجزیوں اور نیاز مندیوں سے پورے اعتقاد اور امتیاز کے ساتھ خدمت کرتا۔

6

اِتفاقًا چند مہمانِ عزیز

شُد قنق روزے بآں صاحبِ تمیز

ترجمہ: اتفاقًا چند معزز مہمان، ایک روز ان صاحبِ تمیز کے مہمان بن گئے۔

7

چونکہ فقدِ نُزل بود و ہم عَشا

مردِ عارف گشت در رنج و عَنا

ترجمہ: چونکہ مہمانی کے سامان اور کھانے کا بھی فقدان تھا۔ (وہ) عارف مرد اور تکلیف میں (مبتلا) ہو گیا۔

8

چوں لِیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ حکمِ رسولؐ

در دلِ عارف ز نشتر بُد عجول

ترجمہ: چونکہ چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرےرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلّم) کا حکم ہے۔ وہ عارف کے دل میں نشتر سے زیادہ جلدی کرنے والا تھا۔

9

یک دو بار از خانقہ تا خانہ رفت

تا کُند مہمانیِ شاں چُست و زَفت

ترجمہ: ایک دو مرتبہ خانقاہ سے گھر تک گیا۔ تاکہ ان کی مہمانی اچھی اور بھرپور کرے۔

10

لیک در خانہ یَسارِ اُو نبُود

زیں سبب تشویشِ وقتِ اُو فزُود

ترجمہ: لیکن ان کے گھر میں مالداری نہ تھی۔ اس لیے ان کے وقت کی پریشانی بڑھ رہی تھی۔

11

مطبخی آں شیخ را بر رغمِ طبع

دید گہ در خانقہ گاہے برَبع

ترجمہ: نان بائی نے شیخ کو ان کے مزاج کے خلاف۔ کبھی خانقاہ میں (آتے) کبھی گھر میں (جاتے) دیکھا۔

12

بَر درِ اُو آمد و تفتیش کَرد

ماجرا دریافت و بس تشویش کرد

ترجمہ: وہ ان کے دروازہ پر آیا اور جستجو کی۔ معاملہ سمجھ گیا اور بہت پریشان ہوا۔

13

زود از دوکان تُتماج و ثرید

نان و قَلیہ ماہی بریاں گزید

ترجمہ: فورًا دکان سے دلیہ اور پنیر روٹی اور شوربا، بھنی ہوئی مچھلی لی۔

14

برد نزدِ شیخ کاے مردِ خدا

صَرف کن ایں جملہ اے نورُ الہُدٰی

ترجمہ: شیخ کے پاس لے گیا کہ اے مردِ خدا! اے نورِ ہدایت! اس سب کو خرچ کر لیجئے۔

15

ہر کجا خواہی مر آں را صَرف کن

جملہ کردم ملکِ تو از بیخ و بن

ترجمہ: آپ جہاں چاہیں اس کو خرچ کر لیں۔ میں نے جڑ اور بنیاد سے سب آپ کی مِلک کیا۔

16

شیخ شاداں گشت و مہماناں نواخت

جملہ را زاں خوانِ نعمت سیر ساخت

ترجمہ: شیخ خوش ہو گئے، مہمانوں کو نوازا۔ اس خوانِ نعمت سے سب کا پیٹ بھر دیا۔

17

آنچہ باقی ماند بخشید اہل را

رفت تشویش و دلش آمد بجا

ترجمہ: جو کچھ بچا گھر والوں کو دے دیا۔ ان کی پریشانی رفع ہو گئی اور دل ٹھکانے آ گیا۔

18

مطبخی را گفت چہ خواہی بگُو

ہَر دُرے خواہی ازیں دریا بجُو

ترجمہ: نان بائی سے فرمایا تو کیا چاہتا ہے بتا؟ تجھے جو موتی چاہیے اس دریا میں تلاش کر لے۔

19

بحرِ مَن در جوش آمد ایں زماں

آنچہ می خواہی بگیر و وا ستاں

ترجمہ: اس وقت میرا سمندر جوش میں آ گیا ہے۔ تو جو چاہے حاصل کر لے اور لے لے۔

20

مطبخی گفتا کہ از لُطفِ شما

وُلد و مال و جاہ شُد حاصل مرا

ترجمہ: نان بائی نے کہا آپ کی مہربانی سے۔ اولاد اور مال اور رتبہ مجھے حاصل ہے۔

21

نیست دَر دنیا بچیزے حاجتم

از رہِ شُکر و قناعت ساکتم

ترجمہ: مجھے دنیا میں کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ شکر و قناعت کے طریقہ پر میں خاموش ہوں۔

22

حق چو بیش از حاجتِ من رحم کرد

چوں کُنم دیگر طلب اے نیک مرد

ترجمہ: اے نیک مرد! جب اللہ تعالٰی نے میری ضرورت سے زیادہ (مجھے) عطا فرمایا (ہے) پھر اور کیا طلب کروں؟

23

باز چوں دریائے حق در جوش بُود

عارف اَندر خواہ خواہش میفزود

ترجمہ: پھر چونکہ اللہ تعالٰی کا دریا جوش میں تھا۔ شیخ (اس سے) خواہش کے طلب کرنے میں اضافہ کرتے۔

24

مطبخی گفتا کہ می خواہم شہا

ہمچو خود عارف کُنی بے فَرقہا

ترجمہ: نان بائی بولا اے شاہ! میں چاہتا ہوں بغیر فرق کے اپنی طرح مجھے عارف بنا دیجئے۔

25

غیرِ ازیں دیگر مرا حاجت چو نیست

زیں عطایم گَر نوازی خوش فنیست

ترجمہ: اس کے علاوہ چونکہ میری کوئی حاجت نہیں ہے۔ اگر آپ اس بخشش سے مجھے نواز دیں تو بہتر کام ہے۔

26

عارف اندر فکر رَفت و گفت ہیں

زیں سوالِ خام رو دیگر گزیں

ترجمہ: عارف متفکر ہو گئے اور فرمایا خبردار، اس ناقص سوال سے ہٹ جا دوسرا اختیار کر لے۔

27

گفت نے نے من ہمیں را خواستم

وز سرِ مال و جہاں برخاستم

ترجمہ: اس نے کہا نہیں نہیں، میں یہی چاہتا ہوں۔ مال اور دنیا کے خیال سے میں علیٰحدہ ہوں۔

28

گفت عارف گر چو من عارف شوی

غرق بحرِ لا شوی وز خود رَوی

ترجمہ: شیخ نے فرمایا اگر تو میری طرح عارف بنے گا تو ”لا“ کے سمندر میں غرق ہو جائے گا، اور خود سے جاتا رہے گا۔

29

تار و پود اُسطقسّت بگسلد

طوطیِ تو ایں قفَس در دَم ہَلَد

ترجمہ: تیرے عناصر کا تانا بانا بکھر جائے گا۔ تیری طوطی فورًا پنجرے کو چھوڑ دے گی۔

30

گفت ازیں بہتر چہ باشد اے کریم

واصلِ حق گشتہ برخیزم سَلیم

ترجمہ: عرض کیا اے کریم! اس سے بہتر کیا ہو گا؟ واصل بحق ہو کر میں سالم اٹھوں گا۔

31

گفت عارف اندرونِ حُجرہ آ

ساعتے بنشیں مراقب پیشِ ما

ترجمہ: شیخ نے فرمایا، حجرے کے اندر آ جا۔ تھوڑی دیر مراقبہ کر کے میرے سامنے بیٹھ جا۔

32

خلوتے کردند آں عارِف تمام

صرفِ ہمت کرد در سَقی المُدام

ترجمہ: شیخ نے پوری خلوت کر لی، شرابِ (معرفت) پلانے میں توجہ لگا دی۔

33

بَعدِ یَک ساعت چو بیروں آمدند

صورت و معنٰی ہمہ یَکساں شُدند

ترجمہ: تھوڑی دیر کے بعد وہ جب باہر آ گئے۔ ظاہر اور باطن میں ایک سے ہو گئے۔

34

خلق ہَم از جمعِ مِثلَین خیرہ شُد

عقلِ جُزوی از تمیّز تیرہ شُد

ترجمہ: دو یکساں کے جمع ہونے سے لوگ حیران ہو گئے۔ جزوی عقل امتیاز کرنے سے عاجز ہو گئی۔

35

آخرش بَعد از زمانے مطبخی

در طپش جاں داد چوں مُرغ اے اخی

ترجمہ: انجام کار تھوڑی دیر کے بعد نانبائی نے اے بھائی! مرغ کی طرح تڑپنے میں جان دے دی۔

36

اَلغرض جاں را بجاناں باز داد

ہمچو شہزادہ نخستیں بے مُراد

ترجمہ: الغرض اس نے جاں جاناں کو واپس دے دی۔ پہلے بے مراد شہزادے کی طرح۔

37

نامُرادش گفتنم در صورت است

ورنہ در معنٰی وصالِ حیرت است

ترجمہ: اس کو میرا نامراد کہنا ظاہر میں ہے۔ ورنہ حقیقت میں وصالِ حیرت ہے۔

38

حَبّذا خِرمن کزیں بَرق اُو بسوخت

تیرِ آں دلدار مرغِ جانش دوخت

ترجمہ: وہ کھلیان کیا ہی اچھا ہے جو اس بجلی سے جل گیا۔ اس محبوب کے تیر نے اس کی جان کے پرند کو بیندھ دیا۔

39

صورتِ تکمیل اگرچہ تام نیست

وصل حاصل شُد بمعنی خام نیست

ترجمہ: اگرچہ تکمیل کی صورت پوری نہیں ہے۔ وصل حاصل ہو گیا، حقیقت میں ناقص نہیں ہے۔

40

حَبَّذا جانے کے در راہش دہی

مرحبا آں سر کہ در کویش نہی

ترجمہ: وہ جان کیا ہی اچھی ہے جو تو اس کی راہ میں دے دے۔ قابلِ تحسین ہے وہ سر جس کو تو اس کے کوچہ میں رکھ دے۔

41

بہرِ او مُردن بہ از صد زندگیست

کایں چنیں موت ست بس فرخندگیست

ترجمہ: اس کے لیے مر جانا سو زندگی سے بہتر ہے۔ کیونکہ اس طرح کی موت بہت مبارک ہے۔

42

ایں سخن را اندکے کوتاہ کن

وز حدیثِ آں سوم آگاہ کن

ترجمہ: اس (استعداد و قابلیت کی) بحث کو ذرا کم کرو اور اس تیسرے (شہزادے) کے حال سے آگاہ کرو۔