دفتر 6 حکایت 155: درویش کی داستان کی طرف رجوع اور اس حقیقت اندیش مرد سے دنیا کا رخصت ہو جانا

دفتر ششم: حکایت: 155



رجوع بداستانِ درویش و وداع شدنِ دنیا ازاں مردِ حقیقت اندیش

درویش کی داستان کی طرف رجوع اور اس حقیقت اندیش مرد سے دنیا کا رخصت ہو جانا

1

مُدّتِ دہ سال ہم زينساں گذشت

ہیچ صوفی از طریقِ خود نگشت

ترجمہ: دس سال اسی طریقہ سے گزرے، صوفی بالکل اپنے راستہ سے نہ ہٹا۔

2

بود رسمِ شہ چو او گشتے سوار

بہرِ نظمِ ملک یا سوئے شکار

ترجمہ: بادشاہ کی عادت تھی کہ جب وہ سلطنت کے انتظام کے لیے یا شکار کی جانب (جانے کے لیے) سوار ہوتا۔

3

وقتِ رجعت سوئے درویش آمدے

وقفہ کردے زائرِ آں مہ شدے

ترجمہ: وہ واپسی کے وقت درویش کی جانب آتا۔ ٹھہرتا، اُس چاند کی زیارت کرنے والا بنتا۔

4

ہم بریں مِنوال بودش کاروبار

بود بر مہرِ فقیر او جاں نثار

ترجمہ: اس کا کاروبار اسی طریقہ پر تھا، وہ فقیر کی محبت پر جان چھڑکنے والا تھا۔

5

وندریں اثنا شہِ آں کار و زار

داشت با پروردگارِ خود نیاز

ترجمہ: اور اس اثناء میں وہ کار و زار کا شاہ اپنے پروردگار کے ساتھ نیازمندی رکھتا۔

6

ناگہاں آں زن کہ اوّل آمدش

بارِ دیگر گشت پیدا از درش

ترجمہ: اچانک وہ عورت جو اُس کے پاس پہلے آئی تھی، اُس کے دروازے سے دوسری بار نمودار ہوئی۔

7

گفت صوفی ہے چہ آوردی بگو

چیست باز ایں سُو چرا کر دی تو رُو

ترجمہ: صوفی نے کہا، کیا لائی ہے بتا؟ کیا ہے؟ تو نے پھر اس طرف رُخ کیوں کیا؟

8

گفت بہرِ رخصتِ تو آمدم

اَلْوَداع اے جاں کہ من رخصت شدم

ترجمہ: اُس نے کہا کہ آپ سے رخصت ہونے کے لیے آئی ہوں۔ اے جان! الوداع کہ میں رخصت ہوتی ہوں۔

9

گفت دور اے بیوفا مکّار زال

صد ہزاراں دام داری زیرِ چال

ترجمہ: اُس نے کہا اے بے وفا مکّار بوڑھی! دُور ہو جا، تو کنویں کے نیچے ہزاروں جال رکھتی ہے۔

10

تو فسونِ خود بہر کس میدمی

گشت چوں رامِ تو آخر می رمی

ترجمہ: تو ہر شخص پر اپنا منتر پھونکتی ہے، وہ جب تیرا فرمانبردار ہوجاتا ہے (تو) آخرکار تو بھاگ جاتی ہے۔

11

ہاں برو کایں دلقِ من ویں پوستیں

ہر دو موجودست پیشِ من ببیں

ترجمہ: ہاں چلی جا، کیونکہ یہ میری گڈری اور یہ پوستین دیکھ لے، دونوں میرے سامنے موجود ہیں۔

12

من فریب از غدرِ تو کے خوردہ ام

پے بضُعفِ عہدت اوّل بُردہ ام

ترجمہ: تیری غدّاری سے میں نے فریب کب کھایا ہے؟ میں نے تیرے عہد کی کمزوری کا پہلے ہی پتا لگا لیا ہے۔

13

زود باش اے بے حیا زیں جا برو

تا بکے داری با فسونم گرو

ترجمہ: اے بے حیا! جلدی کر، اِس جگہ سے چلی جا۔ مجھے منتر میں کب تک پھنسائے گی؟

14

از نظر غائب شُد آں فتّانہ زن

در تفکر رفت صُوفی از فِتن

ترجمہ: وہ فتنہ میں مبتلا کرنے والی عورت، نظر سے غائب ہو گئی۔ صوفی سوچ میں پڑ گیا (کہ اس کے) فتنوں سے (کیسے بچا جائے۔)

15

چوں رود ایں شورشِ بلغاکِ من

چوں گشنها کم شود زیں انجمن

ترجمہ: یہ میرے غوغا کی شورش کیسے جائے گی؟ اس محفل سے جمگھٹے کیسے جائیں گے؟

16

شیرج و کُسبہ چَساں گردد جدا

یرغ بر روئے جواں افتد چرا

ترجمہ: تیل اور کھل کیسے جدا ہوں گے؟ جوان کے چہرے پر شکن کیوں پڑے گی؟

17

کز چہ زاید تا ہمہ دولت رود

آفتابِ عزِّ من کاسِف شود

ترجمہ: کس طرح ہوگا کہ تمام دولت چلی جائے گی؟ میری عزت کا سورج گرہن میں چلا جائے گا۔

18

خواند لَاحَوْلَ و بحق مشغول گشت

کان اَمْرُ اللہ چوں مفعول گشت

ترجمہ: اُس نے لَاحَوْلَپڑھی اور اللہ (تعالٰی) سے مشغول ہو گیا، خدائی حکم تھا جو کہ واقع ہوا۔

19

چوں قضا آید برعکس کار

جملہ تدبیرات باطل گشت و زار

ترجمہ: جب قضا آتی ہے، کام اُلٹا ہو جاتا ہے۔ تمام تدبیریں باطل اور کمزور ہو جاتی ہیں۔

20

حق چو میخواہد کہ کارے را کند

سِلسلہ اسباب را جُنبش دہد

ترجمہ: جب خدا چاہتا ہے کہ کوئی کام کرے، اسباب کے سلسلہ کو حرکت دیتا ہے۔

21

از قضا در صبحِ آں روزِ سعید

شاہ سُوئ کوہ شد بہرِ مَصید

ترجمہ: تقدیر سے اس اچھے دن صبح کو، بادشاہ شکار کے لیے پہاڑ کی جانب گیا۔

22

محنتے بسیار کرد و رنج بُرد

ہیچ با صیدے درآنجا وا نخورد

ترجمہ: بڑی محنت کی اور تکلیف برداشت کی، کوئی شکار اُس جگہ نہ ملا۔

23

تعبِ بیحدے چشید و رنج سخت

شد ز تابِ مہر جانش لَخت لَخت

ترجمہ: بیحد تھکن اور سخت تکلیف چکھی، سورج کی گرمی سے اُس کی جان ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔

24

در ایاب آں شاہ بر رسمِ قدیم

قاصدِ درویش شد او زاں رقیم

ترجمہ: وہ شاہ قدیم عادت کے مطابق واپسی میں، اس پہاڑ سے درویش کا قصد کرنے والا بن گیا۔

25

آمدہ بَر پائے صوفی اُوفتاد

بُوسہا زد بر دو پایش ز اعتقاد

ترجمہ: آیا صوفی کے پاؤں پر گِر گیا۔ اعتقاد سے اُس کے دونوں پاؤں چُومے۔

26

وقتِ گرما بود و تاباں آفتاب

اند کے آسود شہ زاں حرّ و تاب

ترجمہ: گرمی کا وقت تھا اور سورج چمک رہا تھا۔ اُس کی گرمی اور تپش کی وجہ سے شاہ نے تھوڑا سا آرام کیا۔

27

تکیہ بر دیوار زد خوابش بَبرد

سُوئے سایہ ہر کسے رہ می سُپرد

ترجمہ: دیوار کا سہارا لیا، اُس کو نیند آ گئی۔ سایہ کی جانب ہر شخص راستہ اختیار کرتا ہے۔

28

شاہ تنہا ماند و آں صوفیِ صاف

از میانِ شاہ خنجر خوش غلاف

ترجمہ: شاہ اور صوفی صافی تنہا رہ گئے۔ شاہ کی کمر سے عمدہ غلاف کا خنجر۔

29

در تَقَلُّبہَا فتادش بر شکم

مردِ درویش از رہِ لطف و کرم

ترجمہ: کروٹیں لینے میں اُس کے پیٹ پر گر گیا۔ درویش مرد نے لطف و کرم کے طور پر۔

30

خواست کاں را از شکم یکسُو کُند

جائے دیگر دُور تر از وَے نہد

ترجمہ: چاہا کہ اس کو اس کے پیٹ سے علیحدہ کر دے، دوسری جگہ اس سے دُور رکھ دے۔

31

چشمِ شہ یکبارگی بیدار شُد

دید چوں خنجر برہنہ زار شُد

ترجمہ: شاہ کی آنکھ اچانک کُھل گئی۔ جب کھلا ہوا خنجر دیکھا عاجز رہ گیا۔

32

زُود بَرجست و بقصرِ خویش رفت

لیک جانش از غضب سوزاں و تفت

ترجمہ: فورًا اٹھا اور اپنے قلعہ میں چلا گیا، لیکن غصّہ سے اس کی جان جَل بھن گئی۔

33

گفت زُود آرید آں دستُور را

تا براندازد سَرِ ایں بے نُور را

ترجمہ: حکم دیا کہ فورًا وزیر کو لاؤ تاکہ وہ اس بے نور کا سر اڑا دے۔

34

من چہ خوبیہا بجایش کردہ ام

بارہا سَر را بپایش کردہ ام

ترجمہ: میں نے اُس کے ساتھ کس قدر بھلائیاں کی ہیں۔ بارہا اُس کے قدم پر سَر رکھا ہے۔

35

پَس سَزائے نیکوئی زينساں بُوَد

کز برائے کشتنم خنجر کَشد

ترجمہ: تو بھلائی کا بدلہ ایسا ہوتا ہے؟ کہ میرے قتل کرنے کو خنجر سُونتے۔

36

شُد وزیر آگاہ و استغفار کرد

در شفاعت پیشِ شہ اصرار کرد

ترجمہ: وزیر آگاہ ہوا اور معافی چاہی، شاہ کے سامنے سفارش میں اصرار کیا۔

37

گفت بخشیدم بتُو جانش خموش

کن بَدر وے را بیک بینی دو گوش

ترجمہ: اُس نے کہا کہ میں نے تیری وجہ سے اُس کی جان بخشی کی۔ خاموش ہو جا، اُس کو بیک بینی دو گوش نکال دے۔

38

ایں بُوَد صدق و وفائے پُر دَول

کز پَے وہمے بُعد واں شُد بَدل

ترجمہ: دولتمندوں کی سچائی اور وفاداری یہ ہوتی ہے کہ ایک وہم کی وجہ سے عداوت میں بدل گیا۔

39

دل مَنہ بر لُطفِ میران و وزیر

در دَمے خُلد اند و در دیگر سَعیر

ترجمہ: سرداروں اور وزیر کی مہربانی سے دل نہ لگا گھڑی میں جنت ہیں، اور گھڑی میں دوزخ ہیں۔

40

از یَکے وہم آں تلطّف کینہ شُد

ہمچو کانوں در تلہُّب سینہ شُد

ترجمہ: ایک وہم سے وہ مہربانی کینہ بن گئی۔ لپٹیں مارنے میں سینہ بھٹی بن گیا۔

41

می نہ بندی دل بآں سُلطاں چرا

کُو ہزاراں جُرم بخشد از عَطا

ترجمہ: تو اُس شاہ کے ساتھ دل کیوں نہیں وابستہ کرتا؟ جو بخشش سے ہزاروں خطائیں معاف کر دیتا ہے۔

42

جُرمہا دیدہ وظیفہ می دہد

از چنیں جود و عَطا کس چوں جہد

ترجمہ: خطائیں دیکھتے ہوئے روزی دیتا ہے۔ ایسی سخاوت اور عطا سے کوئی کیوں گریز کرے؟

43

ہر خطا کردی و با زار آمدی

از خواصِ خاصِ دربارش شُدی

ترجمہ: تو نے جو خطا کی اور عاجزی سے آیا۔ اُس کے دربار کا خاص الخاص بن گیا۔

44

مالِ دنیا را وفا خود ایں بود

دل درو بستن ز نقصِ دیں بود

ترجمہ: دنیا کے مال کی یہی وفاداری ہوتی ہے۔ اس سے دل وابستہ کرنا دین کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

45

جاں ببُرد از مکرِ دنیا مردِ خوش

چوں نہ بست اُو دلبراں مغرور کُش

ترجمہ: بھلا آدمی دنیا کے مکر سے جان بچا لے گیا۔ چونکہ اس نے اس فریب خوردہ، قتل کرنے والی سے دل وابستہ نہ کیا۔

46

گر فتادے اندر و گشتے ہلاک

ہمچو بَلعم می شدے مَسجونِ خاک

ترجمہ: اگر اس میں مبتلا ہو جاتا، تو ہلاک ہو جاتا۔ بلعم کی طرح مٹی کا قیدی بن جاتا۔

47

زیرِ تیغ بے دریغِ شاہِ دُوں

میشدے درویش بس زار و زبوں

ترجمہ: کمینے بادشاہ کی بے دریغ تلوار کے نیچے۔ درویش بہت عاجز اور مغلوب ہو جاتا۔

48

چونکہ حزم و احتیاطے کردہ بود

مَیل سُوئ مالہا ناوردہ بود

ترجمہ: چونکہ اس نے حزم اور احتیاط کی تھی۔ مال کی جانب میلان نہ کیا تھا۔

49

جاں سلامت بُرد ازیں خدّاعہ اُو

دل بزَہرِ اُو مبند اے یار تو

ترجمہ: اس نے اس دھوکے باز سے جان سلامت رکھی۔ اے یار! تو بھی اس کی رونق سے دل وابستہ نہ کر۔

50

باز سُوئے داستانِ خود رَوم

وہ چرا از نصحِ تو غافل شوم

ترجمہ: میں پھر اپنی داستان کی جانب لوٹتا ہوں۔ ہائے میں تیری نصیحت سے کیوں غافل بنوں!

51

باز سُویِ داستان من آمدم

وہ دریں دریا چہ دست و پا زدم

ترجمہ: میں پھر داستان کی جانب آ گیا۔ ہائے اس دریا میں مَیں نے کیسے ہاتھ پاؤں مارے۔

52

واں دوم کاهل شد از تطویلِ من

کاہلاں را کرد کاهل پیلِ من

ترجمہ: اور وہ دوسرا میرے طول دینے سے کاہل بن گیا۔ کاہلوں کو میرے ہاتھی نے کاہل بنا دیا۔