دفتر 6 حکایت 148: کلام کا آغاز اس مثنوی معنوی کے اختتام کی تمہید سے، جو سراپائے عزت ہے

دفتر ششم: حکایت: 148



افتتاحِ کلام بہ تمہیدِ اختتام سراپا احتشام مثنوی معنوی

کلام کا آغاز اس مثنوی معنوی کے اختتام کی تمہید سے، جو سراپائے عزت ہے

1

جذبِ ذوق و شوقِ مولانا حسّامؒ

میکشد ما را بسوئے اختتام

ترجمہ: مولانا حسّامُ الدّین رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق و شوق کی کشش ہم کو (مثنوی کا) خاتمہ (لکھنے) پر آمادہ کر رہا ہے۔

2

اِختتامِ مثنویِ معنوی

میکَشد جاں را براہِ مُستوی

ترجمہ: مثنوی معنوی کو خاتمہ تک پہنچانا۔ جان کو سیدھے راستہ پر کھینچ رہا ہے۔

3

می تراود خود بخود از لب سخن

آنچہ خواہی اے ضیاء الدّین بکن

ترجمہ: ہونٹ سے خود بخود کلام ٹپک رہا ہے۔ اے ضیاء الدین آپ جو چاہیں کریں۔

4

چوں زِمام عقلِ من در دستِ تُست

ہر کجا خواہی بکَش جاں مستِ تُست

ترجمہ: چونکہ میری عقل کی باگ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جس جگہ آپ چاہیں کھینچ لیں جان آپ سے مست ہے۔

5

پَرتوِ خور چوں دَر آبے اوفتاد

آب، دادِ آفتابے را بداد

ترجمہ: سورج کا عکس جب کسی پانی پر پڑا پانی نے سورج کی عطا کی داد دی۔

6

روحِ مولانا جلالُ الدّینؒ روم

مہرِ بُرجِ معرفت بحرِ علوم

ترجمہ: مولانا جلال الدین رومی قُدِّسَ سِرّہٗ جو بُرجِ معرفت کے آفتاب ہیں (اور) علوم کے سمندر (ہیں۔)

7

پَرتوے زد چونکہ بر طورِ دلم

گشت نورانی تنِ آب و گِلم

ترجمہ: جب (ان کی روح نے) میرے دل کے (کوہ) طور پر اپنا پَرتو ڈالا تو میرا عنصری بدن منور ہو گیا۔

8

ہر زمانم آں مہِ برجِ بریں

میزند چشمک ببامِ دل کہ ہِیں

ترجمہ: بُرجِ بلند کا وہ چاند ہر وقت بامِ دل پر سے اشارۂ چشم کے ساتھ مجھے کہہ رہا ہے۔

9

اختتامِ مثنوی آغاز کن

نامۂ سر بستہ ام را باز کن

ترجمہ: کہ مثنوی کا خاتمہ (لکھنا) شروع کرو (اور) میری بند شدہ کتاب کو کھولو۔

10

آں حکایت گو کہ ناگفتہ بماند

نظم کن آں دُر کہ ناسُفتہ بماند

ترجمہ: وہ حکایت بیان کر جو (پوری) بیان ہونے سے رہ گئی۔ اس موتی کو پرو دے جو بے بندھا رہ گیا۔

11

زود در سلکِ بیاں درکش وُرا

در رسد فیضانِ روحانی ز ما

ترجمہ: جلدی اس کو بیان کی لڑی میں پرو لے (اسی کام کے لیے) ہماری طرف سے (تجھ کو) روحانی فیض پہنچے گا۔

12

چونکہ حدِّ خود ندیدم تن زدم

بر درش از عذر سر را من زدم

ترجمہ: جب مجھے اپنی قابلیت نظر نہ آئی تو میں خاموش ہو گیا، بطور عذر ان کے دروازہ پر سر ڈال دیا۔

13

چونکہ قولِ آں ایازِ پاک دید

در نگاہِ دیدۂ دل می خلید

ترجمہ: چونکہ اس پاک نظر، ایاز کا قول دل کی آنکھ کی نظر میں چُبھ رہا تھا۔

14

نقصِ امر از كسرِ دُر دُشوار تر

لاجرم بستم بامرِ او کمر

ترجمہ: (مگر حقیقت یہ ہے کہ) حکم کو رد کرنا موتی کو توڑنے سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ اس لیے میں ان کے حکم (کی تعمیل) پر کمر بستہ ہو گیا۔

15

اے خدائے قادرِ بیچون و چند

رازہا کردی درونِ سینہ بند

ترجمہ: اے خداوند! جو قادر ہے اور کیفیت و کمّيت سے پاک ہے۔ تو نے رازوں کو سینے میں بند کیا ہے۔

16

سینہ را صندوق سِرہا کردۂ

و اندراں مخزوں گُہرہا کردۂ

ترجمہ: تو نے سینوں کو رازوں کا صندوق بنایا ہے۔ اور اُس میں موتی خزانہ کر دیے ہیں۔

17

ربط دادی سینہ را با سینۂ

ربطِ ایں آئینہ با آئینۂ

ترجمہ: پھر سینے کو سینے سے وابستہ کیا ہے (جیسے) اس آئینے کا (دوسرے) آئینے سے تعلق ہو۔

18

نقشِ ایں آئینہ در دیگر پدید

کردی از صُنعِ خود اے رَبِّ مَجِیْد

ترجمہ: اے رَبِّ مَجِیْد! تو نے اپنی کاریگری سے اس آئینہ کا نقش دوسرے میں ظاہر کر دیا۔

19

آب از جوئے بجوئے میرود

باز یکسو گشتہ تا دریا دود

ترجمہ: پانی (ایک) نہر سے دوسری میں جاتا ہے پھر اکٹھا ہو کر سمندر میں چلا جاتا ہے۔

20

رفت چوں در بحر آبِ جویہا

جملہ یک ذات و یک آب ست اے فتا

ترجمہ: جب نہروں کا پانی سمندر میں جا پہنچا۔ تو اے جوان سب ایک ذات ہیں اور ایک پانی ہے۔

21

با تو رمزے گفتم اے جاں گوش کن

جملہ تن جاں باش و جاں را ہوش کن

ترجمہ: میں نے تجھ سے ایک رمز کہہ دی اے جان! سن لے، ہمہ تن جان بن جا اور جان کو (سراپا) ہوش بنا لے۔

22

رو بسوئے آں وصیت باز گرد

ز انتظار آں سہ پسر را دل بدرد

ترجمہ: چل اس وصیت کی طرف واپس چل۔ ان تین لڑکوں کا دل انتظار کی تکلیف میں ہے۔