دفتر ششم: حکایت: 146
رجوع بداں قصۂ شہزادہ کہ بہ نقصان آمد بداں طغیان و زخم خورد، از خاطرِ شاہ، و پیش از استکمالِ فضائلِ دیگر از دنیا برفت
شہزادہ کے اس قصہ کی طرف رجوع کہ اس نے اس سرکشی کے سبب نقصان پایا، اور بادشاہ کے قلب سے زخم کھایا، اور مزید فضائل میں کمال حاصل کرنے سے پہلے دنیا سے کوچ کر گیا
1
قصہ کوتہ کن کہ راے نفسِ کور
برد او را بعد سالے سوئے گور
ترجمہ: قصّہ کو مختصر کرو کہ نفسِ بے بَصر کی رائے۔ ایک سال کے بعد اس (شہزادہ) کو قبر کی طرف لے گئی۔
2
شاہ چوں از محو شد سوئے وجود
خشم مرّیخیش آں خوں کردہ بود
ترجمہ: بادشاہ جب محو (و مستی) سے وجود (و صحو) کی طرف آیا۔ (تو دیکھا کہ شہزادہ کا) وہ خون اس کے مریخی غضب نے کیا تھا۔
مطلب: معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کو شہزادہ پر غصہ آنے کے بعد کوئی حالت غالب آ گئی ہوگی، جس میں غصہ کے نتائج کی طرف التفات نہیں ہوا۔ پھر افاقہ کے بعد معلوم ہوا کہ شہزادہ میرے غصہ کے اثر سے مرا ہے۔(کلید) ”مریخ“ ایک ستارہ کا نام ہے۔ جس کے ساتھ غضب و قہر، قتل و غارت اور جنگ و خونریزی منسوب ہے۔ ”خشمِ مریخی“ کنایہ ہے سخت غصہ سے۔
3
چوں بہ ترکش بنگرید آں بے نظیر
دید کم از ترکشش یک چوبہ تیر
ترجمہ: جب اس بے نظیر (بادشاہ) نے ترکش کو دیکھا۔ تو اپنے ترکش سے ایک عدد تیر کم پایا۔
4
گفت کو آں تیر و از حق باز جست
گفت اندر حلقِ او آں تیرِ تُست
ترجمہ: کہنے لگا وہ تیر کہاں ہے اور حق تعالٰی سے (اس کی) جستجو کی۔ ارشاد ہوا کہ اس شہزادہ کے حلق میں وہ تیرا ہی تیر ہے۔
مطلب: صاحب کلیدِ مثنوی فرماتے ہیں کہ میرے ذوق میں اس کی تقریر یہ ہے کہ ہر کیفیت باطنی قبل ظہور کے شدید ہوتی ہے، اور بعد ظہور کے خفیف، اور ظہور کبھی اظہار سے ہوتا ہے اور کبھی بلا اظہار۔ اس کے اثر کے نافذ ہو جانے سے۔ پس یہاں جو شاہ کو غصہ پیدا ہوا تھا اس کے بعد غلبۂ حال ہونے سے تو اس کے بقاء و زوال کی طرف اِلتفات نہیں ہوا۔ جب شہزادہ کے مرنے کے قریب اس حالت سے افاقہ ہوا تو نفس کی طرف التفات کرنے سے غصہ نہ پایا۔ تعجّب ہوا کہ میں نے گو دل میں شہزادہ کی شکایت کی مگر زبان سے ظاہر نہیں کیا، پس اظہار تو ہوا نہیں۔ پھر کیا صورت اس غصے کے نہ رہنے کی ہوئی۔ پھر الہام سے معلوم ہوا کہ اس کا ظہور دوسری طرح سے ہوگیا کہ اس کا اثر نافذ ہوگیا۔ جس سے شہزادہ مرنے کو ہے۔(انتہٰی)
5
عفو کرد آں شاہِ دریا دل وَلے
آمدہ بُد تیرِ او بَر مقتلے
ترجمہ: اس شاہ دریا دل نے (شہزادہ کا قصور) معاف کر دیا۔ لیکن اس کا تیر مقامِ قتل پر پہنچ چکا تھا (جس سے شہزادہ مر گیا۔)
مطلب: صاحبِ تصرّف تھا، اسی وجہ سے ثابت ہوا کہ اس کی ناراضگی، شہزادے کی موت کا باعث ہوئی، اور”ولی“ ہونے کی دلیل یہ کہ اپنے کُفرانِ نعمت کرنے والے سے اس قدر صاف ہو گیا کہ اب اس کی موت پر ازراہِ شفقت و راحت رو رہا ہے، یہ کمالِ عفو اور کمالِ رحم، اولیاء کی صفات میں سے ہیں۔ صرف صاحبِ تصرّف ہونا کوئی کمال نہیں۔ اس قسم کے تصرّفات کُفّار کو بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ آگے بھی یہی فرماتے ہیں:
6
ور نہ باشد ہر دو او پس جملہ نیست
ہم کُشندہ خلق و ہم ماتم کنے ست
ترجمہ: اور اگر وہ دونوں طرح کا نہ ہو (بلکہ صرف صاحبِ تصرّف ہی ہو اور ولی و رحیم نہ ہو) تو وہ جامع نہیں۔ (بلکہ ناقص ہے اور چونکہ یہ شاہ، جامع ہیں اس لیے) وہ کشنده خلق بھی ہے اور ماتم کرنے والا بھی ہے۔
مطلب: اس کا یہ مطلب نہیں کہ جامعیّت بمعنی کاملیّت میں، صرف ولایت کافی نہیں، صاحبِ تصرّف ہونا ضروری ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جامعیّت بمعنی کاملیّت میں، صرف صاحبِ تصرّف ہونا کافی نہیں، بلکہ ولی ہونا بھی ضروری ہے۔(کلید)
7
شکر مے کرد آں شہیدِ زرد خَد
کاں بزد بر جسم و بر معنے نزد
ترجمہ: (ادھر) وہ شہید (جو اپنے قصور کی ندامت سے) زرد رخسار ہو رہا تھا شکر کرتا تھا۔ کہ وہ (عتاب) جسم پر پڑا (جس سے موت واقع ہو گئی) باطن پر نہیں پڑا (جس سے سلبِ ایمان کا خطرہ تھا۔)
8
جسمِ ظاہر عاقبت خود رفتنی ست
تا ابد معنے بخواہد شاد زیست
ترجمہ: جسمِ ظاہر تو آخر جانے ہی والا ہے۔ روح ابد تک بمسرّت زندہ رہے گی۔
9
آں عتاب ار رفت ہم بر پوست رفت
دوست بے آزار سوئے دوست رفت
ترجمہ: وہ عتاب اگر جاری ہوا ہے تو جسم پر ہی جاری ہوا ہے۔ (جس سے ایک) محبّ عذابِ (اخروی کا مستوجب ہوئے) بدوں (اپنے) محبوب (حقیقی) کی طرف چلا گیا۔
10
گرچہ اُو فِتراکِ شاہنشہ گرفت
آخر از عین الکمال او رہ گرفت
ترجمہ: اگرچہ اس نے بادشاہ کا آسرا لیا تھا (تاکہ منازلِ سلوک طے کرے۔ لیکن) آخر وہ (اپنی ہی خود بینی کی) نظرِ بد سے، عدم کو کوچ کر گیا۔
11
واں سوم کاہل ترینِ ہر دو بود
صورت و معنے بکُلّی او ربود
ترجمہ: اور وہ تیسرا بھائی پہلے دونوں سے دھیمے مزاج والا تھا۔ (اس لیے) اس نے صورت و معنی کو کلّی طور پر حاصل کر لیا۔
مطلب: بڑے شہزادے اور منجھلے شہزادے کا ذکر ختم ہوا۔ اب چھوٹے شہزادے کا حال آتا ہے۔ وہ ان دونوں کی طرح جلد باز نہ تھا بلکہ اس کے مزاج میں آہستگی، متانت اور وقار تھا۔ ”کاہل ترین“ سے یہی معنٰی مراد ہیں، اس کے ایک معنٰے سُست کے ہوتے ہیں وہ مراد نہیں ہیں۔ پہلا شہزادہ تو بہت ہی مُستعْجل و بے صبر اور غیر دور اندیش تھا، اس لیے وہ دخترِ شاہِ چین کے عشق ہی میں رہا اور اسی میں گھل گھل کر مر گیا۔ دوسرا شہزادہ گو اس عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی میں گامزن ہوا، مگر اس کو اپنے کامل ہونے کا جلدی زَعم ہوگیا۔ اس لیے ایک طرح وہ بھی مستعجل تھا۔ چنانچہ وہ بھی کمال کو پہنچنے سے پہلے ہی راہیِ عدم ہوگیا۔ تیسرا شہزادہ جلد باز نہ تھا بلکہ اس کی رفتارِ عمل معتدل تھی، اس لیے اس نے ظاہرًا و باطنًا دونوں طرح کامیابی حاصل کی۔ آگے اسی دوگونہ کامیابی کی تفریع ہے:
12
دختر و ملک و خلافت او گرفت
مے سزد گر زیں بمانی در شگفت
ترجمہ: (یعنی) اس نے (بادشاہ کی) دختر اور بادشاہی اور خلافت حاصل کی۔ اگر تم اس سے تعجب کرو تو بجا ہے۔
مطلب: تعجب کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چھوٹے بھائی نے صبر و تحمّل کے، اس طولانی امتحان میں کامیابی حاصل کی، جس میں دو بڑے بھائی ناکام رہے، حالانکہ وہ تجربہ و ہمت اور عزم و استقامت میں اس سے بڑھ کر ہونے چاہیے تھے۔ آگے مولانا عذر فرماتے ہیں:
13
من ز طولِ قصہ گشستم ملول
من غریقِ بحرِ معنی تو عجول
ترجمہ: میں قصہ کی طوالت سے ملول ہو گیا ہوں۔ (کیونکہ) میں دریائے معنٰے میں غرق ہوں (اور) تو جلدی مچاتا ہے۔
مطلب: یعنی مجھ کو ایرادِ قصہ سے تعلیمِ معارف مقصود ہے۔ اس لیے قصہ کے اثناء میں بار بار مضامینِ ارشادیہ کی طرف انتقال ہوتا رہتا ہے، اور تم جلدی کرتے ہو کہ میں ان مضامین کو چھوڑ کر قصہ سناتا جاؤں۔ اس لیے میں نے ملول ہو کر قصہ ختم کر دیا، مگر ابھی سلسلۂِ قصہ کا ایک شعر باقی ہے جس کو آگے فرماتے ہیں:
14
وانگہے از ذلت و عجز و نیاز
یافت مقصود از کریمِ کارساز
ترجمہ: (اور) اس وقت اس (چھوٹے شہزادہ) نے ذلت اور عجز و نیاز کی بدولت۔ مقصود (حقیقی) کریمِ کارساز سے پایا۔
مطلب: یعنی تین چیزیں تو شرائطِ طریق بجا لا کر، بادشاہ سے حاصل کیں۔ دختر، سلطنت، اور بادشاہ کی خلافت۔ باقی رہی رضائے حق اور قرب و قبول۔ سو وہ اپنی عاجزی و خاکساری کی وجہ سے حق تعالٰی سے حاصل کی۔ اس سے ثابت ہوا کہ دولتِ قرب عطا کرنا، شیخ کے بس کی بات نہیں، وہ صرف ہادی الی الطّریق ہے۔ باقی مُوصِل اِلٰی المقصود حق تعالٰی ہی ہے۔(کلید) اوپر جو کہا تھا تیسرا شہزادہ کامل تر تھا، آگے اس کی مناسبت سے تین کامل بھائیوں کی کہانی ارشاد ہوتی ہے۔ جس میں سے کوئی کاہل محمود تھا، جو دنیا کے کام میں کاہل تھا۔ کوئی مذموم تھا جو عقبٰی کے کام میں کاہل تھا۔