دفتر ششم: حکایت: 147
مثلِ وصیت کردنِ آں شخص کہ سہ پسر داشت، کہ میراثِ او بکاہل ترین اولادِ او دہند
مثال اس شخص کے وصیت کرنے کی جو تین فرزند رکھتا تھا کہ میری میراث میرے سب سے زیادہ کاہل فرزند کو دیں
1
آں یکے شخصے بوقتِ مرگِ خویش
گفتہ بُد اندر وصیت بیش بیش
ترجمہ: ایک شخص نے اپنے مرنے کے وقت۔ وصیت کے بارے میں زیادہ مرتبہ کہا تھا۔
2
سہ پسر بودش چو سہ سروِ رواں
وقفِ ایشاں کردہ او جان و رواں
ترجمہ: اس کے تین بیٹے تھے سروِ رواں کی طرح(قد آور۔) جن پر اس نے اپنی روح و جاں وقف کر رکھی تھی۔
3
گفت ہرچہ کالہ و سیم و زرست
آں برد زیں ہر سہ کو کاہل ترست
ترجمہ: اس نے (بطورِ وصیت یہ) کہا کہ جس قدر اسباب اور چاندی اور سونا ہے۔ (اس کو) وہ (بیٹا) ان تینوں میں سے لے جو سب سے زیادہ کاہل ہے۔
4
گفت با قاضی و بس اندرز کرد
بعد ازاں جامِ شرابِ مرگ خورد
ترجمہ: اس نے (اس وصیت کو) قاضی سے عرض کر (کے اس کے محکمہ میں رجسٹری، کرا) دیا اور (اپنے متعلقین کو) بہت نصیحتیں کیں۔ (کہ اس وصیت کے خلاف نہ ہو) اس کے بعد موت کی شراب کا پیالہ نوش کر لیا۔
5
گفت فرزنداں بقاضی اے کریم
نگزریم از حکمِ او ما سہ یتیم
ترجمہ: فرزندوں نے قاضی سے کہا اے بزرگوار! ہم تینوں بے پدر (بھائی) اس کے حکم سے تجاوز نہ کریں گے۔
انتباہ: ”یتیم“ سے یہاں مطلق بے پدر مراد ہیں، اگرچہ بالغ ہی ہوں۔ کیونکہ وارث کے لیے وصیت کرنا، جیسے اس شخص نے کی، اسی صورت میں جائز ہے کہ دوسرے وارث بالغ ہوں، اور سب اس وصیت سے راضی ہوں، اور اگر وارث ناراض ہوں یا کوئی ان وارثوں میں سے نابالغ ہو، تو ایسی وصیت درست نہیں۔ پس قاضی اس کو کیونکر منظور کرسکتا تھا۔ گو بادی النّظر میں، ان تینوں لڑکوں کے باپ کے فیصلہ پر راضی ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان میں ہر ایک اپنے آپ کو زیادہ کاہل سمجھتا ہوگا، اور بجائے ثلث مال کے کُل مال ملنے کی توقع ہو گی، مگر اَقرب الٰی الصّواب یہ ہے کہ ان تینوں میں سے ایک طالبِ دنیا، دوسرا طالبِ عقبٰی، تیسرا طالبِ مولٰی تھا، اور طالبِ دنیا بمعنی حقیقی کاہل، وہی مالِ دنیا کا زیادہ حق دار تھا۔ یہی فیصلہ متوقع تھا اور دوسرے دونوں صالح و متوکل لڑکے بھی، اسی فیصلہ پر رضامند تھے۔ کیونکہ وہ دنیا کے شائق نہ تھے۔
6
سمع و طاعت مے کنیم او راست دست
ہر چہ او فرمود بر ما نافذست
ترجمہ: ہم نے (اپنے والد کا) حکم سنا اور مان لیا، اس کو اختیار ہے۔ اس نے جو کچھ فرمایا ہے وہ ہم پر نافذ ہے۔
7
ما چو اسمٰعیلؑ ز ابراہیمِؑ خود
سر نہ پچپیم از چہ قربان مے کند
ترجمہ: حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام کی طرح (جنہوں نے) اپنے (والد) حضرت ابراہیم علیہ السّلام (کے حکم) سے (سرتابی نہیں کی) ہم (اپنے والد کے حکم سے) سرتابی نہیں کریں گے، اگرچہ وہ (ہم کو بطور) قربانی (ذبح) کر رہا ہے۔ (چونکہ باپ نے وصیت میں یہ نہیں بتایا کہ کاہل تر فرزند کون سا ہے؟ اس لیے اب عطائے ورثہ کے لیے زیادہ کاہل کی تعیین فیصلہ طلب تھی، چنانچہ قاضی پہلے اس فرض کو ادا کرتا ہے:)
8
گفت قاضی ہر یکے با عاقلیش
تا بگوید قصۂ از کاہلیش
ترجمہ: قاضی نے کہا (تم میں سے) ہر ایک اپنی عقل سے۔ (سوچ سمجھ کر) اپنی کاہلی کا قصہ بیان کرے۔
9
تا بہ بینم کاہلیِّ ہر یکے
تا بدانم حالِ ہر یک بے شکے
ترجمہ: تاکہ میں ہر ایک کی کاہلی دیکھوں۔ تاکہ میں ہر ایک کا حال بدوں کسی شک کے جانوں۔(آگے مولانا ایک ارشادی مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)
10
عارفان از دو جہاں کاہل ترند
زانکہ بے شُدیار خرمن مے برند
ترجمہ: عارف لوگ دونوں جہانوں (میں سب) سے زیادہ کاہل ہیں۔ کیونکہ وہ کھیتی کے بغیر خرمن لے جاتے ہیں۔
مطلب: یہاں کاہلی سے مراد ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کے سپرد کر رکھا ہے، اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں، اور اپنے ارادہ کو اس کی رضا میں فنا کر چکے ہیں۔ ان باتوں کو عوام بھی کاہلی سمجھتے ہیں۔ آگے ان کی اس کاہلی کی وجہ بتاتے ہیں:
11
کاہلی را کردہ اند ایشاں سند
کارِ ایشاں را چو یزداں میکند
ترجمہ: انہوں نے (اس) کاہلی کو تکیہ گاہ بنا رکھا ہے۔ جب کہ ان کا کام حق تعالٰی کر دیتا ہے۔
12
کارِ یزداں را نمے بینند عام
مے نیاسایند از کد صبح و شام
ترجمہ: (اور چونکہ) عام لوگ حق تعالٰی کی کارسازی کو نہیں دیکھتے۔ (اس لیے) محنت سے صبح و شام آسودہ نہیں ہوتے۔
13
کارِ دنیا را ز کُل کاہل ترند
در رہِ عقبٰی ز مہ گو مے برند
ترجمہ: (اور وہ عارفین) دنیا کے لیے تو سب سے زیادہ کاہل ہیں۔ (لیکن) عقبٰی کے راستے میں چاند سے بھی (سبقت کی) گیند (جیت) لے جاتے ہیں۔
14
ایں گزیند هر که او باشد رشید
ہیں کہ دنیا رفت و عقبٰی در رسید
ترجمہ: (اور) اس (امر) کو وہی اختیار کرتا ہے جو صاحبِ رشد ہو۔ (اور یوں سمجھے کہ)ہاں دنیا تو رخصت ہوئی اور آخرت (قریب) آن پہنچی۔ (جیسے ایک حدیث میں اس قسم کا مضمون ہے: ”عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ: ارْتَحَلَتِ الدُّنْیَا مُدْبِرَةً وَارْتَحَلَتِ الْآخِرَةُ مُقْبِلَةً، وَ لِکُلِّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُمَا بَنُوْنَ، فَکُوْنُوْا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ، وَلَا تَکُوْنُوْا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْیَا، فَإِنَّ الْیَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَابَ، وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلَ۔“ (أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب فِي الأمل وطُوله: 5 / 2358، وابن أبي شیبۃ في المصنف: 7 / 100، الرقم: 34495) ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دنیا پیٹھ پھیر کر چلی جانے والی اور آخرت پیش آنے والی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں، مگر تم آخرت کے بیٹے بنو اور دنیا کے بیٹے نہ بن جانا کیونکہ آج عمل ہے حساب نہیں، لیکن کل حساب ہوگا اور عمل نہیں۔‘‘(کلید))
15
مہتریں را گفت قاضی باز گو
قصۂ از کاہلی اے مال جو
ترجمہ: سب سے بڑے (فرزند) کو قاضی نے کہا اے مال (میراث) کے طلب گار تو (اپنی) کاہلی کا حال سنا۔
16
ہِیں ز حدِّ کاہلی گوئید باز
تا بدانم حدِّ آں از کشفِ راز
ترجمہ: ہاں (اس طرح) تم (اپنی اپنی) کاہلی کی حد بیان کرتے جاؤ۔ (کہ تم تینوں میں کہاں تک کاہلی ہے) تاکه (تمہارے) راز کو نمایاں کر دینے سے میں اس کی حد معلوم کر لوں۔
17
ہِیں ز حدِّ کاہلی شرح دہید
تا بدانم من بچہ حد کاہلید
ترجمہ: ہاں تم (تینوں اتنی اتنی) حدِّ کاہلی کی تفصیل سناؤ۔ تاکہ میں معلوم کروں کہ تم کس (کس) حد تک کاہل ہو۔
انتباہ: آگے ”بدانمِ من“ کی شرح میں ایک مبسوط تقریر چلتی ہے، جس میں دوسرے کے ما فی الضّمیر کو جاننے کے متعلق، بہت سے رموز مذکور ہوں گے۔ اس کو قاضی کی تقریر قرار دے سکتے ہیں، مگر فی الحقیقت مولانا کا ارشاد ہے، جس پر اس قصہ کو بے اتمام رکھ کر کتاب کو ختم فرما دیں گے۔
18
بیگماں خود ہر زباں پردۂ دل ست
چوں بجُنبد پردہ رویت حاصل ست
ترجمہ: بے شبہ ہر زبان (بلحاظِ نطق) دل کا پردہ ہی ہے۔ (چنانچہ) جب وہ پردہ (نطق و تکلّم کے لیے) حرکت کرتا ہے (تو ما فِی الضّمیر کا خفا اٹھ جاتا ہے) اور اس کا دیکھنا حاصل ہو جاتا ہے۔
19
پردۂ کوچک چو یک شرحہ کباب
مے بپوشد صورتِ صد آفتاب
ترجمہ: (وہ) ایک چھوٹا سا پردہ (ہے) کباب کے ایک ٹکڑے کی مانند۔ جو (آنکھ کے سامنے رکھنے سے) سو سورج کی صورت کو پوشیدہ کر سکتا ہے۔
مطلب: کباب ایک بریاں کیا ہوا گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ زبان کو اس کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اس لیے کہ زبان بھی ایک مضغۂ گوشت ہے۔ اوپر سوال تو ہو سکتا تھا کہ اسرارِ دل تو بے شمار ہیں ایک ذرا سی زبان ان پر کیونکر پردہ ڈال سکتی ہے؟ یہاں اس کا جواب دیا ہے کہ دیکھو سورج کا وجود کس قدر عظیمُ الشّان اور پُر انوار ہے، لیکن اگر ایک آنکھ کو بند کر کے، کھلی آنکھ کے آگے کباب کا ایک ٹکڑا رکھ لو، تو ایسے میں سو سورج بھی نگاہ سے مخفی ہو جائیں گے۔ اب اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات آدمی اپنے ما فی الضّمیر کے خلاف جھوٹ بولتا ہے، تو زبان کی وہ حرکت کاشفِ اسرار کہاں ہوئی؟ آگے اس کا جواب دیتے ہیں:
20
گر بيانِ نطق کاذب نیز ہست
لیک بُوے از صدق و کذبش مخبرست
ترجمہ: اگرچہ (زبان کی) گویائی کا بیان جھوٹ بھی ہو۔ لیکن اس کی بُو اس کی سچائی اور جھوٹ کا پتہ دے دیتی ہے۔
مطلب: یہ دعوٰی نہیں کیا گیا کہ ہر نُطق تمام اسرار کا کاشف ہوتا ہے، بلکہ دعوٰی یہ تھا کہ نُطق فی الجملہ کاشفِ اسرار ہے۔ پس جھوٹ بولنے والا اگرچہ خلافِ واقعہ بات کہہ رہا ہے، اور اس کی بات کا مفہوم و معنی اصل راز کا مظہر نہیں، مگر اس کے لب و لہجہ سے سچ اور جھوٹ کا پتہ لگ جاتاہے، لب و لہجہ سے صدق و کذب کے پتہ لگنے کی آگے مثال دے رہے ہیں:
21
آں نسیمے کہ بیاید از چمن
ہست پیدا از سمُومِ گولخن
ترجمہ: جو پاکیزہ ہوا چمن سے (پھلوں پھولوں کی خوشبو لے کر) آتی ہے۔ وہ بھٹی کی بھاپ سے الگ پہچانی جاتی ہے (جس میں لید گوبر وغیرہ جل رہا ہے۔)
22
بوئے صدق و بوئے کذبِ گول گیر
ہست پیدا در نفس چوں مشک و سیر
ترجمہ: (اسی طرح) سچ کی خوشبو اور (کسی سادہ لوح کو) الو بنانے والے جھوٹ کی بدبو (گفتگو میں ظاہر ہے۔ جیسے مُشک کھانے والے کے) سانس سے مُشک کی خوشبو (اور لہسن کھانے والے کی) سانس سے لہسن کی بدبو ظاہر ہو جاتی ہے۔
23
بوئے اخلاص و نفاقِ بے مزہ
ہست ظاہر ہمچو عُود و انگزہ
ترجمہ: (اسی طرح لب و لہجہ سے) اخلاص کی خوشبو اور نفاقِ بے مزہ کی بدبو بھی ظاہر ہے عود اور ہینگ کی طرح۔ (”اِخلاص“ کو عُود کے ساتھ اس کی خوشبو کی وجہ سے، اور ”نفاق“ کو ہینگ کے ساتھ اس کی بدبو کی وجہ سے تشبیہ دی ہے۔)
24
گر ندانی یار را از دہ دلہ
از مشامِ فاسدِ خود کُن گلہ
ترجمہ: اگر تو یارِ (موافق) کو (یارِ) منافق سے نہ پہچانے۔ (اور اس وجہ سے تجھ کو حکم مذکور میں شک ہو) تو (پھر) تو اپنے دماغِ فاسد سے شکوہ کر۔
25
ور ندانی تو عجوز از شاہدے
بیگماں گشت ست چشمت فاسدے
ترجمہ: اور (اسی طرح) اگر تو بوڑھی عورت اور (جوان) معشوقہ میں فرق نہ کرے۔ تو بے شبہ تیری آنکھ خراب ہو رہی ہے۔
26
ور تو نشناسی شَکر را از صَبِر
بے گماں شد حسِّ ذوقِ تو خدر
ترجمہ: اور تو شَکر کو ایلوے سے شناخت نہ کرے۔ تو بے گمان تیری حسِّ ذوق بے حسّ ہوگئی۔
27
ور یکے شد صوتِ بلبل با غراب
ہست بے شک حسِّ سمعِ تو خراب
ترجمہ: اور اگر تیری سماعت میں بلبل کی آواز کوّے (کی کائیں کائیں) کے ساتھ یکساں ہے۔ تو بے شک تیری حسِّ سماعت خراب ہے۔
28
ور یکے گشتت سمور و خارپشت
حسِّ لمسِ تُو بتُو بنمود پشت
ترجمہ: اور اگر سمور (کی نرم پشت) اور خارپشت (کی خاردار بیٹھ پر، ہاتھ پھیرنے سے) تجھ کو دونوں یکساں معلوم ہوتے ہیں۔ تو تیری چھونے کی طاقت تجھے جواب دی گئی۔
29
بانگِ حیزاں و شجاعانِ دلیر
ہست پیدا چون فنِ روباہ و شیر
ترجمہ: (اسی طرح) نامردوں اور دلیر بہادروں کی آوازیں (الگ الگ ظاہر ہیں۔) جس طرح لومڑ کا داؤ اور شیر کا (بے تحاشا حملہ، جدا جدا شناخت ہو سکتے ہیں۔)
30
چارۂ کارِ حواسِ خویش کن
وانگہے راہِ طلب در پیش کُن
ترجمہ: اپنے حواس کا علاج کر۔ پھر راہِ طلب کو سامنے رکھ
مطلب: پہلے نفع و ضرر، حق و باطل، اور شیخِ کامل و شیخِ ناقص کا فرق معلوم کر، پھر راہِ سلوک میں قدم رکھ، کسی شیخ مزُوّر کی رنگین باتوں میں آ نے سے بچو، اس لیے کہ فریب پیشہ لوگوں کے لب و لہجہ سے ان کے کذب و زُور کا سراغ لگانے کی مہارت تم کو نہیں ہے، تو پھر اس کے ساتھ حسنِ ارادت رکھنے اور سلوک میں قدم رکھنے سے دینی و دنیوی دونوں طرح کے نقصان اٹھاؤ گے۔ اوپر ”زبان“ کی تشبیہ پردہ کے ساتھ دی تھی۔ آگے ایک اور تشبیہ ہے:
31
یا زباں ہمچوں سر دِیگے ست راست
چوں بجنبد تو بدانی چہ اباست
ترجمہ: یا زبان ٹھیک دیگ کے ڈھکنے کی سی ہے۔ جب وہ (ڈھکنا) سرکتا ہے تو تم معلوم کرتے ہو (کہ اس دیگ میں) کیا سالن ہے۔
32
از بخارِ آں بداند تیز ہُش
دیگ شیریں را ز سِکباجِ تُرُش
ترجمہ: (دیگ کا ڈھکنا سرکنے سے دیکھ کر معلوم کرنا تو عام آدمی کا کام ہے) اور تیز ادراک والا اس کی بھاپ (کو سونگھنے) سے۔ میٹھی دیگ کو سکباج (ترش) سے (الگ) پہچان لیتا ہے۔
33
دست بر دیگِ نوی چوں زد فتٰی
وقت بخریدن بدیدا شکستہ را
ترجمہ: (یہ تیز ہوش والا) جوان (اس قدر باحسّ ہے کہ) جب (اس نے) نئی ہنڈیا کو خریدتے وقت اس پر ہاتھ پھیرا۔ تو پھوٹی ہوئی ہنڈیا کو معلوم کر لیا۔( آگے اسی تفاوتِ شناخت پر ایک حکایت ہے:)
34
آں یکے پیر سید صاحبِ درد را
گفت در چندے شناسی مرد را
ترجمہ: ایک شخص نے کسی صاحبِ درد سے پوچھا (اور) کہا تو آدمی کو کتنی مدت میں پہچان لیتا ہے؟
مطلب: ”صاحبِ درد“ ہونے کو اس کے پہچاننے میں اس طرح دخل ہو کہ ایسا شخص سخت دل نہیں ہوتا، اور قساوتِ قلب مانع ہوتی ہے دوسروں کی حالت کی تحقیق سے، جیسا ظالموں کی کیفیت دیکھی جاتی ہے کہ خواہ دوسرے کی جان نکل جائے مگر ان کو اس کی بیچارگی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یا ”صاحبِ درد“ سے مراد صاحبِ باطن ہو جس کے دل میں صرف دردِ عشق ہو مگر وہ صاحبِ کشف نہ ہو۔ جیسا دوسرا شخص جس کا ذکر عنقریب آئے گا۔(کلید)
35
گفت دانم مرد را در حیں ز پوز
ور نگوید دانمش اندر سہ روز
ترجمہ: اس نے جواب دیا کہ میں آدمی کو فورًا منہ سے بات نکالتے ہی پہچان لیتا ہوں، اور اگر نہ بولے تو اس کو تین روز میں (چال ڈھال سے) پہچان لیتا ہوں۔
36
واں دگر گفت ار بگوید دانمش
ور نگوید در سخن پیچانمش
ترجمہ: اور دوسروں نے کہا (میں چال ڈھال سے نہیں پہچان سکتا، البتہ) اگر وہ بولے تو اسے پہچان لیتا ہوں۔ اور اگر نہ بولے تو اس کو کسی بہانہ سے باتوں میں الجھا لیتا ہوں۔ (پھر اس کی باتوں سے اس کو شناخت کر لیتا ہوں۔)
37
گفت اگر ایں مکر بشنیدہ بود
لب بہ بندد در خموشی در رود
ترجمہ: تو اس نے (اس دوسرے شخص سے) کہا اگر اس نے یہ تدبیر سنی ہوئی ہو (کہ یوں باتوں میں لگا کر ما فی الضمیر معلوم کر لیا کرتے ہیں) اور وہ لب بند رکھے (اور) چپ چاپ چلا جائے (تو اس کا اندرونی حال کیونکر معلوم کرے گا۔)
38
گفت میرو گوئی تا هفتم رنیں
تا ابد پوشیدہ با دم حال زیں
ترجمہ: اس نے کہا (اگر جاتا ہے تو جائے اپنی ایسی تیسی میں) کہہ دو ساتویں رنیں تک چلا جائے۔ اس شخص کا حال مجھ پر (پوشیدہ رہتا ہے تو) ابد تک پوشیدہ رہے (مجھے اس کی پروا نہیں۔)
39
حالِ یک تن گر ندانم چہ شود
و اندرُو نقصانِ دینم چہ بود
ترجمہ: اگر میں ایک شخص کا حال بھی نہ جانوں گا تو کیا ہو جائے گا؟ اور اس سے میرے دین میں کیا کمی آ جائے گی؟
مطلب: یہ کہ اگر کوئی مجھ سے ہم کلام ہو یا میں اس کو ہم کلام کرسکوں تو اس کے دل کا حال معلوم کر لیتا ہوں، لیکن اگر وہ نہ بولے تو نہ سہی مجھے اس کے حال کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ احتمال نکالنا ہی فضول ہے کہ اگر وہ نہ بولے، بلکہ یہ سوال ہی لغو ہے۔ آگے اس سوال و احتمال کی لغویّت پر ایک مثال پیش کرتا ہے:
40
آنچناں کہ گفت مادر بچہ را
گر خیالے آیدت در شب فرا
ترجمہ: جیسے ایک ماں نے (اپنے بچے) سے (اس کا دل مضبوط رکھنے کے لیے) کہا (بچہ!) اگر رات (کی تاریکی) میں کوئی خیالی (شکل) تیرے سامنے آ جائے۔
41
یا بگورستان و جائے سہمگین
تو خیالِ زشت بینی در کمین
ترجمہ: یا قبرستان میں اور کسی خوفناک جگہ میں۔ تو کوئی بھیانک صورت گھات میں دیکھے۔
42
دل قوی دار و بکن حملہ برو
او بگرداند ز تو در حال رو
ترجمہ: تو دل کو مضبوط رکھ اور اس پر حملہ کر دے۔ وہ فورًا تجھ سے رخ پھیر لے گی۔
43
زانکہ بے ترسے بسُویش ہر کہ رفت
آں خیالِ دیووش بگریخت تفت
ترجمہ: کیونکہ جو شخص اس (صورت) کی طرف بے خوف ہو کر بڑھا تو وہ دیو کی سی صورت جلدی (اس کے مقابلہ سے خائف ہو کر) بھاگ گئی۔
44
گفت کودک با خیالِ دیووش
ایں چنیں گر گفتہ باشد مادرش
ترجمہ: بچہ بولا اگر اس دیو کی سی صورت کو۔ اس کی ماں نے (بھی) یوں ہی کہہ دیا ہو (کہ جب وہ لڑکا سامنے آئے تو اس پر حملہ کر دینا۔)
45
حملہ آرد افتد اندر گردنم
ز امرِ مادر پس من آنگہ چوں کنم
ترجمہ: (اور) وہ (اپنی) ماں کے حکم سے (مجھ پر) حملہ آور ہو (اور) میری گردن سے لپٹ جائے، تو اس وقت میں کیا کروں؟
46
تو ہمے آموزیم کہ چست ایست
آں خیالِ زشت را ہم مادریست
ترجمہ: تو مجھے سکھاتی ہے کہ جم کر کھڑا رہ۔ (آخر) اس بھیانک صورت کی بھی تو کوئی ماں ہے۔ (کیا اس کی ماں نے بھی اس کو جم کر مقابلہ کرنے کی تعلیم نہ دی ہو گی؟)
مطلب: خیال کرو کہ کہاں خیالی صورت اور کہاں اس کا کسی ماں کا فرزندِ دل بند ہونا۔ یہ بچے کی محض طفلانہ بات تھی جس سے سننے والے کو بے ساختہ ہنسی آتی ہے۔ یہاں ایسا ہی تمہارا سوال بھی طفلانہ بات تھی۔ جس سے سننے والے کو بے ساختہ ہنسی آتی ہے۔ آگے مولانا بطورِ انتقال فرماتے ہیں کہ مسلمانو! کہیں اس نادان بچے کی طرح تم بھی یہ نہ کہنے لگنا کہ اگر ہم کو خدا کی طرف سے یہ تعلیم ملی ہے کہ مومنوں پر شیطان غالب نہیں آ سکتا۔ جیسے کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے:﴿اِنَّہٗ لَیۡسَ لَہٗ سُلۡطٰنٌ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا﴾(النحل: 99) ”اس کا بس ایسے لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں“ تو ممکن ہے شیطان کو بھی یہ تعلیم دے رکھی ہو کہ تو مومنوں پر غالب رہے گا، پس اگر تم ایسا خیال کرو گے تو یہ تمہاری غلطی ہوگی۔ کیونکہ:
47
دیو مردم را مُلقِّن آں یکے ست
غالب از وے گردد از خصم اندکے ست
ترجمہ: آدمیوں کے شیطان کو (مومنوں پر غالب آنے کی غرض سے فریب کرنے کا) موقع دینے والا تو وہی ایک (خداوند تعالٰی شانہٗ) ہے۔ (اور کوئی نہیں جس کی شان یہ ہے کہ) اگر (شیطان کا) حریفِ مقابل (یعنی مومن طاقت میں) کم بھی ہو تو اس (کی مدد) سے غالب آ جاتا ہے۔
48
تا کدامیں سوے باشد آں یراش
اللہ اللہ رَو تو ہم آں سوے باش
ترجمہ: حتٰی کہ اس (مومنِ ضعیف) کی چڑھائی خواہ کسی طرف ہو (وہ خدا کی مدد سے ضرور فتح پاتا ہے۔) اللہ اللہ! تم بھی جاؤ (اور) اس (واحد کی) طرف (کے ہو کر) رہو۔(تاکہ شیطان پر غالب آ جاؤ)
مطلب: یعنی جس طرح بچے کے خیالِ باطل میں، اس کی ماں کے مقابلے میں خیالی صورت کی ماں بھی تھی۔ یہاں مومنوں کو نصرت کی بشارت دینے والے، یعنی حق تعالٰی کے مقابلہ میں شیطان کو غلبہ کی خوشخبری دینے والا کوئی نہیں، شیطان کو خود ہی مومنوں پر غالب آنے کا زَعم ہے۔ چنانچہ اس نے کہا تھا: ﴿لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِيْنَ﴾(ص: 82) ”میں ان سب کو گمراہ کروں گا“ اللہ تعالٰی نے اس کو یہ موقع بخش دیا کہ وہ جتنا چاہے اپنا زور لگا لے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ﴾(ص: 80) ”تجھ کو مہلت دی گئی“ اور یہ موقع بخشنے والا بھی وہی حق تعالٰی ہے اور کوئی نہیں، جس کی شان یہ ہے کہ جب وہ اپنے مومن بندوں کی مدد کرتا ہے تو خواہ شیطان یا تابعینِ شیطان کے مقابلہ میں وہ کم ہی ہوں ضرور فتح یاب ہوتے ہیں۔ ﴿کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللّٰہِ﴾(البقرۃ: 249) ”اکثر ایسا ہوا ہے کہ اللہ تعالٰی کے حکم سے تھوڑی جماعت بڑی جماعت پر غالب آ گئی“ ”ملقِّن“ کے لفظ کی تاویل اس لیے لازم ہوئی کہ حق تعالٰی شیطان کو بمعنٰی حقیقی شر کی تلقین کرنے والا نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس کو شر و فساد کرنے کا صرف موقع بخشتا ہے، تاکہ سعید و شقی لوگوں کا امتیاز ہو جائے۔ آگے پھر عود ہے اس قصہ کی طرف کہ سائل نے جوابًا کہا تھا، اگر نہ بولے تو نہ سہی مجھے کیا پروا ہے۔ اس روکھے جواب سے سائل کو شبہ ہوا کہ شاید اس نے مجھ کو بلانے کے لیے یہ جواب دیا ہے، کیونکہ اس کو تکیہ کلام پسند نہیں، یا میرے طرزِ خطاب سے ناخوش ہوگا، ورنہ وہ صاحبِ کشف ہے ضرور دوسرے کا ما فی الضّمیر بلا تکلّم سمجھ جاتا ہے۔ اس لیے وہ دوبارہ وہی سوال کرتا ہے:
49
گفت اگر از مکر ناید در کلام
حیلہ را دانستہ باشد آں ہمام
ترجمہ: (سائل نے پھر) کہا اگر وہ (کسی) حیلہ سے بولنے میں نہ آئے۔ (اس لیے کہ) وہ باہمت حیلہ کو جانتا ہو۔
50
سرِّ او را چوں شناسی راست گو
گفت من خامُش نشینم پیشِ او
ترجمہ: تو (پھر) اس کے ما فی الضّمیر کو کیونکر پہچانیں گے؟ (براہِ مہربانی اس مرتبہ سچ) سچ بتا دیجیے (پہلی بار کی طرح ٹالنا نہیں) اس نے جواب دیا کہ میں آگے خاموش بیٹھ جاؤں گا۔
51
صبر را سُلَّم کنم سوے درج
تا برایم بر سرِ بامِ فرَج
ترجمہ: اور صبر (یعنی وقوفِ قلبی) کو (میں اس کے ما فی الضّمیر کے) مدارج کی طرف (چڑھنے کے لیے) زِینہ بنا لیتا ہوں۔ تاکہ میں بامِ کامیابی پر پہنچ جاؤں۔
مطلب: جب وہ زبان سے کچھ نہ بولے جس سے اس کے خیالات و خواطر کا پتا لگ سکے، تو میں اپنے قلب کو خواطر سے خالی کر کے اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہوں، اس طریق سے اس کے خیالات و خواطر میرے دل پر منعکس ہو جاتے ہیں۔ فی الحقیقت کشفِ ضمائر اور دائرۂ خواطر کا یہی طریقہ ہے، جو ایک مشق طلب کام ہے۔ اہلِ کمال کو یہ ملکہ عمومًا بلا مشق حاصل ہوتا ہے، اور عوام اس کو مشق سے پیدا کر سکتے ہیں اور ان کے لیے یہ کوئی دلیلِ کمال نہیں۔
52
ہست مر ہر صبر را آخر ظفر
ہست روزی بعد ہر تلخی شکر
ترجمہ: (اور صبر ایسی چیز ہے کہ) ہر صبر کا انجام مراد رسی ہے۔ (اور) ہر تلخی کے بعد شکر حاصل ہوتی ہے۔
53
چوں بجوشد در حضُورش از دلم
منطقے بیروں ازیں شادی و غم
ترجمہ: (تو) جب اس کی حاضری میں میرے دل سے کوئی کلام (نفسی یا عقلی) جو اس (دنیاوی) غم و شادی سے خارج ہو جوش کرتا ہے تو:
54
من بدانم کو فرستاد آں بمن
از ضمیرِ چوں سُہیل اندر یمن
ترجمہ: تو میں جان لیتا ہوں کہ یہ اس نے میرے پاس ایسے ضمیر سے بھیجا ہے۔ جو یمن کے (ستارہ) سہیل سے مشابہ ہے۔
55
من بزرگیِ ورا گردن نہم
مِنَّتے ہم بر دل و بر تن نہم
ترجمہ: (پس) میں اس کی بزرگی کے آگے گردن جھکا دیتا ہوں۔ اور تن من سے (اس کا بارِ) احسان اٹھاتا ہوں۔
56
در دلِ من ایں سخن زاں میمنہ است
زانکہ از دل جانبِ دل روزنہ است
ترجمہ: (اور سمجھتا ہوں کہ) یہ بات میرے دل میں اسی با برکت جانب سے آئی ہے۔ اس لیے کہ (ایک دل سے) (دوسرے) دل کی طرف (باطنی) دریچہ ہے۔
مطلب: خلاصۂ جواب یہ ہے کہ جب میں اس کے سامنے متوجّہ بقلب ہو کر خاموش بیٹھ جاتا ہوں، اور اس وقت کوئی نیک خیال میرے دل میں گزرتا ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ بس یہ خیال اسی کے دل سے پیدا ہوا ہے جو میرے دل پر منعکس ہو گیا، اور مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی پاک ضمیر و نیک خیال آدمی ہے۔ یہاں ایک خاص نکتہ قابلِ لحاظ ہے، وہ یہ کہ ہر شخص کے دل میں اچھے برے ہر طرح کے خیالات گزرتے ہیں اور ایک صاحبِ کشف پر وہ سب ظاہر ہو سکتے ہیں، مگر اس جواب دینے والے نے صرف نیک خیالات کے انکشاف کا ذکر کیا ہے، برے لوگوں کے قلوب سے جو برے خیالات منکشف ہوتے ہوں گے ان کا ذکر نہیں کیا۔ اس میں راز یہ ہے کہ کشفِ ضمائر کا طریقہ ہمیشہ اور قطعی طور پر مفیدِ یقین نہیں ہوتا۔ کَمَا ھُوَ مُسلَّمٌ عِنْدَ الْقَوْمِ، یہ ممکن ہے کہ کسی کے دل میں کچھ خیال ہو اور صاحبِ کشف کے دل پر اس کے خلاف کچھ اور منکشف ہو جائے۔ پس کسی بُرے خیال کے انکشاف کو وہ اپنی غلطیِ کشف پر محمول کر لیتا ہوگا، تاکہ کسی بندے پر ناحق بدگمانی رکھنے کا گناہ لازم نہ آئے۔ اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا اور نیک خیال کا انکشاف کیا، اگرچہ غلط ہی ہو۔ اس کا یقین کر لینا حسنِ ظن کا باعث ہے اور اس کا فکر بھی داخلِ خیر ہے، اس لیے ذکر کیا۔ آگے مولانا کتاب کو ختم کرتے ہیں اور ختمِ کتاب کو مضمونِ بالا کے ساتھ ربط دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
57
چوں فتاد از روزنِ دل آفتاب
ختم شد وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب
ترجمہ: جب روزنِ قلب (کی مماذات) سے فیضانِ غیب کا آفتاب (اُفق کے نیچے) جاگرا۔ تو یہ کتاب ختم ہو گئی اور اللہ ہی کو خوب معلوم ہے (کہ) صواب (اور حکمت کس وقت اور کس چیز میں کیا ہے۔)
مطلب: مجیب کے جواب سے معلوم ہو گیا کہ دل میں روزن ہے جو واردات کے آنے کا منفذ ہے۔ پس اسی طرح اب تک آفتابِ القاء میرے قلب کے مقابل تھا اور اس واردات کی شعاعیں روزنِ قلب سے پہنچ رہی تھیں، مگر اب بحکمتِ خداوندی وہ آفتاب افقِ استتار میں غروب ہو گیا۔ یعنی اب بجائے تجلّی کے استتار ہو گیا یہ جیسے کہ عارفین کو دونوں حالتوں میں پیش آتی ہیں۔ اور بعض مصالح استتار میں تجلّی سے بھی زیادہ ہوا کرتی ہیں۔ لہٰذا اب کتاب بھی ختم ہو گئی۔(کلید) کتاب کے مضامین کا ورود انہی تجلّیات کے پَرتو سے تھا۔ منہج القوٰی کا خاتمہ اس شعر کے بجائے ان دو شعروں پر ہوتا ہے؎
ہست باقی شرح ایں لیکن دروں
بستہ شد دیگر نمی آید بروں
چوں بفضلِ حق رسید اینجا کتاب
ختم کن وَ اللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب
تتمّہ مثنوی از حضرت مولانا الٰہی بخش کاندھلوی
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی کے چھٹے دفتر میں جو تین شہزادوں کا قصہ نہایت دھوم دھام کے ساتھ شروع کیا تھا اور اس دفتر کا قریبًا ثلث حصہ اس پر مشتمل ہے، اس کو نا تمام رکھ کر دفتر کو بلکہ کتاب کو ختم کر دیا۔ تیسرا چھوٹا شہزادہ جس کو اس قصہ کا ہیرو سمجھنا چاہیے اور جس کی سرگزشت اس قصے کی روح ہے، اس کا حال صرف ایک شعر میں شروع ہو کر اسی پر ختم ہو گیا۔ آخر کتاب میں جو تین کاہل بھائیوں کی کہانی شروع ہوئی اور قاضی ان سے پوچھ رہا ہے کہ بتاؤ تم میں سے زیادہ کاہل کون ہے؟ ابھی وہ اپنے اپنے بیان دینے نہیں پائے اور قاضی کے فیصلہ دینے کی نوبت نہیں آئی کہ قصہ ختم، اور قاضی کی عدالت کا نقشہ نظر سے اوجھل ہو گیا۔ بعض مشہور کتابیں مصنف کے ناگہاں رحلت کر جانے سے تو نا تمام رہی ہیں، مگر جس کتاب کو مصنف نے اپنی حینِ حیات میں نا تمام رکھ کر اس کی تکمیل سے جواب دے دیا ہو۔ اس کی نظیر ہم کو مثنوی کے سوا کوئی معلوم نہیں۔ مولانا کے فرزند بہاؤ الدّین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
مدتے زیں مثنوی چوں والدم
شُد خمش گفتم ورا کائے زندہ دم
از چه رو دیگر نمے گوئی سخن
بہر چہ بستی درِ علمِ لدُن
قصۂ شہزادگاں نامد بسر
ماند نا سفتہ در سومی پسر
گفت نطقم چوں شتر زیں پس بخفت
نیستش با ہیچ کس تا حشر گفت
ہست باقی شرحِ ایں لیکن دروں
بستہ شد دیگر نمے آید بروں
ہمچو اشترا ناطقہ اینجا بخفت
اور بگوید من بہ بستم لب ز گفت
وقتِ رحلت آمد و جستن ز جُو
کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ
باقی ایں گفتہ آید بے زباں
در دل آنکس کہ دارد زندہ جاں
یعنی ”میرے والد نے جب مثنوی کا سلسلہ مدّت تک بند رکھا، تو میں نے اس کی وجہ پوچھی، فرمایا بس اب قوتِ ناطقہ جواب دے گئی۔ اس کے بعد قیامت تک ہمارے شعر و سخن کا سلسلہ بند رہے گا، کیونکہ اب رحلت کا وقت قریب ہے اور قصّہ کا حصہ کسی ایسے شخص کے دل پر القاء ہوگا جس کو باطنی نور حاصل ہے“۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کے ہاتھ سے اس کام کا ادھورا رہنا کسی غیبی طاقت کا مقتضا تھا۔ ورنہ یہ نا ممکن ہے کہ جب مصنّف نے کمال غلبۂ ذوق سے اور اعلٰی خوش بیانی سے چھبیس 26 ہزار شعر کہہ ڈالے تو خاتمۂ کتاب پر آ کر اس کام سے دل بستگی نہ رہے، اور وہ اس کو ناقص رکھنا گوارا کرے۔ معمار نے جس بے نظیر ہنر مندی اور نادرہ کاری سے ایک عمارت کی بنیاد ڈالی، اس کے در و دیوار کو فردوسِ بریں کے نمونے پر اٹھایا، اور دنیا اس عدیمُ النّظیر عمارت کے نظارہ کے لیے امنڈی چلی آئی، تو وہ اس کی منڈیر تک پہنچ کر یک دم اس کام سے دل برداشتہ اور اس کی تکمیل سے دست بردار ہو جائے یہ ممکن نہیں۔
آئیے! اب اس حکمت کو سمجھنے کے لیے کچھ غور و فکر سے کام لیں۔ خاتمۂ کتاب سے ایک شعر اوپر مولانا ایک قائل کا قول نقل فرما چکے ہیں۔ ”زانکہ از دل جانبِ دل روزن است“ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک دل سے دوسرے دل کی طرف ایک کھڑکی کھلی ہوئی ہے، جس کے ذریعہ پہلے دل سے دوسرے دل میں علوم و معارف القاء ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ہی مولانا نے فرمایا:
چوں فتاد از روزنِ دل آفتاب
ختم شد واللہ اعلم بالصواب
یعنی چونکہ ہمارے دل کے روزن سے آفتاب نیچے اتر گیا۔ جس سے علوم و معارف کی شعاعیں نکلتی تھیں۔ اس لیے ہم خاموش ہوتے ہیں اور کتاب کو بند کرتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ آفتاب پھر طلوع کرے گا یا نہیں؟ اور جو قصہ نا تمام رہ گیا وہ پورا ہو گا یا نہیں؟ اس کا جواب خود مولانا نے اپنے فرزند کو دیا کہ ؎
باقی ایں گفتہ آید بے زباں
در دل آنکس کہ دارد زندہ جاں
یعنی وہ آفتاب کسی اور اہلِ کمال کے قلب پر طلوع کرے گا اور اسی سے باقی ماندہ کام تکمیل پائے گا، آخر کچھ اوپر پانچ سو سال کے بعد مولانا کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی، یعنی وہ آفتاب جس کے پھر کسی کے قلب پر طلوع ہونے کی بشارت مولانا نے دی تھی، ایک عارفِ حق کے قلب سے طلوع ہوا، جس کے یہ معنٰی ہیں کہ مولانا کی روحانیت نے باقی ماندہ مضامین کا پَرتو اس قلب پر ڈالا حتٰی کہ وہ مضامین قلب سے قلم نے لے کر کتاب کی تکمیل کر دی۔ پس کتاب کا بلا تکمیل ختم ہونا اس غیبی حکمت کا مقتضا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا سے اس کی تکمیل کی استدعا کی جائے اور وہ کسی آئندہ وقت پر اس کے تکمیل پانے کی موثّق پیشگوئی فرمائیں پھر وہ پیشگوئی بے کم و کاست پوری ہو، تو مثنوی کے منجانبِ اللہ اور الہامِ حق ہونے پر مہرِ تصدیق لگ جائے اور یہ قول مبنی بر مبالغہ نہ رہے کہ ع ہست قرآن در زبانِ پہلوی
وَرنہ یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی انسانی کام اور بشری کلام کی تکمیل کے لیے یوں غیب سے با وثوق بشارت ملی ہو، اور پھر اس بشارت کے من و عن پورا ہونے کے لیے یوں غیب سے سامان ہوئے ہوں۔
جس عارفِ حق کو مثنوی کے باقی ماندہ کام کو پورا کرنے کا فخر حاصل ہوا۔ وہ مولانا مفتی محمد الٰہی بخش کاندھلویؒ ہیں، جو حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی قدّس سرہٗ کے ارشد تلامذہ سے ہیں اور ہندوستان کے عالی پایہ علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ اختتامِ مثنوی کا ایک عنوان نگار لکھتا ہے:
”جناب مولوی محمد الٰہی بخش صاحب کہ عارفے کامل و عالمے عامل پارسائے تصوف پرست و درویشے توحید مست بود۔ شبے در رویتِ صادقہ مشاہد نمود کہ حضرت مولانا ارشادِ نظم و ختم آن داستان بہ رائی می فرماید و ایں نکتہ دانِ دبستان تادّب سر بگریباں تعذّرے مے کشید۔ حضرت مولانا بوعدۂ اعانتِ روحانی و امدادِ وجدانی دلالت را باستمالت انضمام دادہ امرِ اقدس را باصرار واجب التقدیم میگرداند“
مولانا رومی کے کلام میں جو ولولۂ عشق اور جوشِ مستی ہے وہ مولانا ہی کے ساتھ خاص ہے۔ اس وصفِ خاص میں ان کے ساتھ کسی دوسرے کلام کا پورا پیوند بیٹھنا ناممکن ہے۔ تاہم مولانا کاندھلویؒ نے تنوّعِ انتقالات و تفنّنِ تمثیلات، اور غوامض و افاقہ معارف میں مولانا رومی کے نقشِ قدم پر چلنے کی پوری کوشش کی ہے، مگر دونوں کلاموں کو مقابل رکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کاندھلویؒ بحالتِ صحو اپنی رفتارِ سخن میں حزم و احتیاط کی قیود کے ساتھ چل رہے ہیں کہ کوئی قدم مولانا کے انداز سے باہر نکلنے نہ پائے، پہلے مولانا اپنی سخن گستری میں آزاد ہیں۔ کہیں کلامِ رنگین کہیں نیم رنگ، کہیں سلیس، کہیں دقیق و عمیق بولتے چلے جاتے ہیں، اور کہیں کہیں اشارات و کنایات سے کام لے کر ایک بڑے مضمون کو اس اختصار کے ساتھ ایک آدھ شعر میں کہہ جاتے ہیں کہ شعر ایک معمّہ بن جاتا ہے، مگر دوسرے مولانا کا مقصد یہ ہے کہ مثنوی کے باقی ماندہ مضمون کی تکمیل کریں۔ قصہ کے جس حصے کے لیے سامعین منتظر ہیں وہ پورا کر کے ان کے لیے فہمِ داستان کی آسانی پیدا کریں، اس لیے ان کا طرزِ ادا بالکل صاف سلیس اور عام فہم ہے۔
زیادہ مناسب تو یہی تھا کہ مفتاحُ العُلوم میں اس تتمّہ کی شرح بھی اسی استقصا کے ساتھ کی جاتی جس کا اصل مثنوی میں التزام ہوا ہے، مگر چونکہ شرح کا حجم بہت بڑھ گیا اور شارح کی عمر کا ایک معتد بہ حصہ اس کام میں صرف ہو گیا، اگر اس زندگیِ مستعار میں موقعہ ملا تو اس شرح سے فراغت پا کر کچھ اور کام کرنے کا بھی قصد ہے۔