دفتر 6 حکایت 145: احق تعالٰی کا نمرود کو ماں اور دایہ کے واسطہ کے بغیر بچپن میں پرورش کرنے کا قصہ

دفتر ششم: حکایت: 145



قصہ پروردنِ حق تعالٰی نمرود را بے واسطۂ مادر و دایہ در طفلی

حق تعالٰی کا نمرود کو ماں اور دایہ کے واسطہ کے بغیر بچپن میں پرورش کرنے کا قصہ

1

حاصل آں روضہ چو جانِ عارفاں

از سموم و صرصر آمد در اماں

ترجمہ: غرض وہ باغ عارفوں کی روح کی طرح۔ (جو ظلمت و کدورت سے پاک ہوتی ہے) لو اور آندھی سے امن میں تھا۔

2

یک پلنگے بچہ نوزائیدہ بود

گفتم او را شِیر دِہ طاعَت نمود

ترجمہ: ایک (مادہ) تیندوے نے نیا بچہ جنا تھا۔ میں نے اس کو حکم دیا (کہ اس بچے کو) دودھ دے، تو اس نے اطاعت کی (بعض مترجموں نے پلنگ کو چِیتا سمجھا ہے، یہ ایک مروّجہ غلطی ہے۔(غیاث))

3

پس بدادش شِیر و خدمتہاش کرد

تاکہ بالغ گشت و زفت و شیر مرد

ترجمہ: پس اس کو (تیندوے نے) دودھ دیا اور اس کی بہت خدمتیں کیں۔ یہاں تک کہ وہ (بچہ) بالغ اور شیر مرد بن گیا۔

4

چوں فطامش شد بگفتم با پری

تا در آموزید نطق و داوَری

ترجمہ: جب اس کے دودھ چھڑانے کا وقت آیا تو میں نے جنّات کو حکم دیا کہ (اس کو) بولنا اور حکومت کرنا سکھاؤ۔

5

پرورش دادم مر او را زاں چمن

کہ بگفت اندر نگنجد فنِّ من

ترجمہ: میں نے اس کو اس چمن (کی بود و باش) سے (اس طرح پر) تربیت دی کہ میری حکمتِ عملی بیان میں نہیں آسکتی۔

مطلب: یعنی میری حکمت عملی اس کی تربیت کے متعلق ایسی عجیب و غریب تھی حتٰی کہ اگر کوئی اور سمجھانا، اس کو بیان کرنا چاہے، تو یہ ناممکن ہے۔ نطقِ انسانی اس کے اظہار سے قاصر ہے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ میرا فنِ تربیّت جو نمرود کے لیے عمل میں آیا وہ ایک عملی امر ہے، گفتگو سے اس کو تعلق نہیں۔ یعنی کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یوں کرو، اور یوں کرو بلکہ میں عملًا اس فعل کا میلان اس کے اندر ڈال دیتا ہوں، جس سے وہ خود بخود اس فعل کو بجا لاتا ہے، چنانچہ اوپر کہا ہے کہ میں نے پلنگ کو حکم دیا تو یہ حکم قولًا نہیں، بلکہ عملًا تھا۔ یہ مطلب اگلے اشعار کے مضمون کے ساتھ زیادہ مربوط ہے۔

6

دادہ من ایوبؑ را مہرِ پدر

بہرِ مہمانئ کِرماں بے ضرر

ترجمہ: (چنانچہ) میں نے ایوب کو کیڑوں کی مہمانی کے لیے، باپ کی سی شفقت دے رکھی تھی، بجائے (اس کے کہ وہ کیڑوں کو) ضرر پہنچاتے۔

مطلب: جب کسی کے جسم کے کسی حصے میں کِرم پیدا ہوجاتے ہیں، تو عام دستور یہ ہے کہ ان کِرموں کو اَدوِیہ قاتلہ جراثیم سے ہلاک کیا جاتا ہے، مگر حضرت ایّوب علیہ السّلام کے دل میں اللہ تعالٰی نے ان کِرموں کے لیے وہ شفقت ڈال دی تھی کہ وہ ان کو اپنے مہمان سمجھتے، اور اپنے اجزائے بدن سے ضیافت کھلاتے تھے۔ چنانچہ راقم کو اس قسم کی روایت یاد پڑتی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے حضرت ایّوب علیہ السّلام کو سلام کیا۔ انہوں نے اس کو جواب نہ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہا وَعَلَیْکَ السَّلَامْ۔ پھر بتایا کہ میں فورًا جواب دینے سے اس لیے قاصر رہا کہ ایک کِرم میرے لب سے اپنی غذا کھانے میں لگا تھا، میں نے سمجھا اگر جواب میں لب ہلاؤں گا تو کِرم کے کام میں رکاوٹ ہوگی۔ اس لیے خاموش رہا، اب جب وہ اپنا کام کر چکا تو میں نے جواب دیا۔ واللہ اعلم۔

7

دادہ کرماں را برو مہرِ ولد

بر پدرِ من اینت قدرت اینت ید

ترجمہ: (ادھر) کیڑوں کو (بھی) ان کے ساتھ اولاد کی سی محبت دی جو اس کو اپنے باپ کے ساتھ (ہوتی ہے۔ میری) عجیب قدرت (اور) عجیب (قدرتِ) تصرّف ہے۔

مطلب: کیڑوں کو حضرت ایّوب علیہ السّلام سے محبت ہونے، اور پھر ان کے بدن سے غذا کھانے میں منافاۃ نہیں ہے۔ کیونکہ اوّل تو انسانی بدن سے غذا پانا ان کیڑوں کے لیے ایک فطری امر ہے۔ اس لیے ان کو اس بات کا احساس ہی نہ تھا کہ ایّوب علیہ السّلام کے بدن کے ساتھ ہمارا یہ سلوک محبت کے خلاف ہے، دوسرے اگر بالفرض احساس بھی ہو تو لاڈلی اولاد ماں باپ کو دیدہ دانستہ تکلیف دیا کرتی ہے۔ اور اس کے باوجود اس کو اپنے باپ کے ساتھ وہ محبت ہوتی ہے کہ ایک لمحہ بھی ان کے بغیر چین نہیں پڑتا۔

8

مادراں را مہر من آموختم

چوں بود شمعے کہ من افروختم

ترجمہ: (اور) ماؤں کو (اولاد کے ساتھ) محبت میں نے سکھائی ہے۔ (اور ذرا سوچو کہ محبت کی) جو شمع میں نے روشن کی ہے وہ کیسی (پُر نور) ہو گی۔ (چنانچہ کسی منہ بولی ماں کی خود ساختہ محبت، حقیقی ماں کی خداداد محبت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔)

9

صد عنایت کردم و صد رابطہ

تا بہ بیند لطفِ من بے واسطہ

ترجمہ: (غرض) میں نے اس (بچے) پر صدہا عنایات اور (پرورش کے) صدہا (غیبی) اسباب (قائم) کیے۔ تاکہ وہ میری مہربانی کو دیکھے (جو ماں باپ کی شفقت وغیرہ ظاہری) واسطہ کے بدوں (اس کے شامل حال ہوئی ہے۔)

10

تا نباشد از سبب در کشمکش

تا بود ہر استعانت از منش

ترجمہ: تاکہ وہ (کسی) سبب (ظاہری کے حاصل ہونے یا نہ ہونے) کے ادھیڑ (بن) میں نہ رہے۔ (اور) تاکہ وہ ہر مدد مجھ سے طلب کرے (کسی اور پر نظر نہ کرے۔)

11

تا خود از ما هیچ عذرے نبودش

شکوۂ نبود ز ہر یارِ بَدش

ترجمہ: تاکہ اس کو ہماری طرف سے کوئی عذر ہی نہ رہے۔ (اور) کسی یارِ بد سے اس کو شکایت نہ رہے۔

مطلب: پہلے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے بلا اسبابِ ظاہری اس کی پرورش کی، اور گوناگوں فوائد بخشے تاکہ وہ یہ عذر نہ کر سکے کہ میں اسباب پر نظر رکھنے کے باعث حق تعالٰی کو نہ پہچان سکا۔ دوسرے مصرعہ کا مفاد یہ ہے کہ ہم نے اَقارب و احباب میں سے کسی شخص کو اس کے پاس نہیں آنے دیا۔ اس کو تنِ تنہا رکھ کر پرورش دی۔ تاکہ وہ آخر میں یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے برے لوگوں کی صحبت نے گمراہ کیا۔

12

ایں حِضانت دید با صد رابطہ

کہ بہ پروردم وُرا بے واسطہ

ترجمہ: (غرض) اس نے یہ پرورش دیکھ لی جو سینکڑوں (غیبی) اسباب کے ساتھ (تھی، یعنی معلوم کر لیا) کہ میں نے (کسی ظاہری) واسطہ کے بدون اس کی پرورش کی ہے۔

13

شکرِ او آں بود اے بندۂ جلیل

کہ شد او نمرود سوزندۂ خلیل

ترجمہ: (مگر) اے عالیجاہ بندہ (عزرائیل) کیا اس کی طرف سے میری اس عنایت بے غایت کا) شکر یہی (سزاوار) تھا۔ کہ وہ نمرود خلیل علیہ السّلام کو آگ میں ڈالنے والا بن گیا۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں:)

14

ہمچناں کیں شہزادہ شکرِ شاہ

کرد ز استکبار و استکثارِ جاہ

ترجمہ: (نمرود کی یہ ناشکری اسی قسم کی تھی۔)جس طرح کہ اس شہزادہ نے تکبر سے اور اپنا مرتبہ زیادہ بلند سمجھنے سے بادشاہ کا یہ (الٹا) شکر کیا کہ:

15

کہ چرا من تابعِ غیرے شوم

چونکہ صاحبِ ملک و اقبالے بوم

ترجمہ: کہ میں کسی اور کا تابع (و مطیع) کیوں ہوں جب کہ میں خود ملک و اقبال کا مالک ہوں۔

16

لطفہائے شہ کہ ذکرِ آں گذشت

از تبختر بر دلش پوشیدہ گشت

ترجمہ: بادشاہ کی عنایات جن کا ذکر (پیچھے) گزر چکا ہے۔ غرور کے سبب سے اس کے دل پر پوشیدہ ہو گئیں۔

17

ہمچناں نمرود آں الطاف را

زیرِ پا بنہاد از جہل و عمٰی

ترجمہ: اسی طرح نمرود نے (اللہ تعالٰی کی) ان مہربانیوں کو (جن میں اس نے پرورش پائی تھی۔ اپنی) جہالت اور کورچشمی سے پاؤں کے نیچے ڈال دیا (یعنی ان کی بے قدری کی۔ آگے پھر اسی قول کا سلسلہ چلتا ہے، جس میں عزرائیل مخاطب ہیں:)

18

ایں زماں کافر شد و رہ میزند

کبر و دعوائے خدائی مے کند

ترجمہ: اب وہ (بادشاہ بن کر) کافر ہو گیا اور (ایمان و دین کی) رهزنی کرنے لگا۔ (ساتھ ہی) تکبّر اور خدائی کا دعوٰی بھی کرتا ہے۔

19

رفت سوئے آسمانِ با جلال

با سہ کرگس تا کند با من قتال

ترجمہ: (اور) تینِ گدھوں کے ساتھ آسمانِ عظیم کی طرف چڑھنے لگا۔ تاکہ مجھ سے جنگ کرے۔

20

صد ہزاراں طفل بے تلویم را

کُشت وے تا باید ابراہیمؑ را

ترجمہ: اس نے لاکھوں بچے (بے گناہ و) ناقابلِ ملامت مار ڈالے۔ تاکہ ابراہیم علیہ السّلام کو پکڑ لے۔

21

کہ منجم گفت اندر حکمِ سال

زاد خواہد دشمنے بہرِ قتال

ترجمہ: کیونکہ نجومی نے (اس کو ایک خاص) سال کی پیشگوئی میں بتایا تھا۔ کہ (تیرا) ایک دشمن (تیرے) مقابلہ کے لیے پیدا ہوگا۔

22

ہیں بکن در دفعِ آں خصم احتیاط

ہر کہ مے زائید مے کُشت از خباط

ترجمہ: (نجومی نے اس کو یہ بھی مشورہ دیا کہ) وہ اس دشمن کے دفع میں احتیاط کرے۔ (چنانچہ) وہ ہر اس (بچہ) کو جو پیدا ہوتا تھا (اسی لیے احتیاطی تدابیر کی) دیوانگی سے مار ڈالا تھا۔

23

کوری او رَست طفلِ وحی کش

ماند خونہائے دگر در گردنش

ترجمہ: (مگر) پیغمبر بننے والا بچہ اس کی آنکھوں میں خاک جھونک کر بچ گیا۔ (اور) دوسرے (بے گناہ) بچوں کا خون اس کی گردن پر رہا۔

مطلب: جس طرح فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کے متعلق نجوميوں نے اطلاع دی تھی، اور وہ موسیٰ علیہ السّلام کے خوف سے بنی اسرائیل کے بچوں کو ان کے پیدا ہوتے ہی مروا ڈالتا تھا۔ بالکل یہ فعل اس سے ہزاروں سال پہلے نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پیدائش کے خوف سے کیا تھا، (جس کا مفصّل حال شرح ہٰذا کی جلد ہشتم میں درج ہو چکا۔)

24

از پدر یابید آں ملک اے عجب

تا غرورش داد ظلماتِ نسب

ترجمہ: ارے تعجب ہے کہ کیا اس نے وہ بادشاہی باپ سے (ورثہ میں) پائی تھی کہ اس کو (فخرِ) نسب کے اندھیرے نے مغرور کر دیا۔

25

دیگراں را گر اُم و اَب شد حجیب

او ز ما یابید گوہرہا عجیب

ترجمہ: اگر دوسرے لوگوں کے لیے (جنہوں نے باپ ماں سے دولت ورثہ میں پائی) ماں باپ (غرور کا) حجاب بن گئے۔ تو اس (کم بخت) نے تو (ماں باپ کی تربیت کے بدون خاص) ہم سے (فوائد کے) موتی (حاصل کر کے) جیب میں ڈالے ہیں۔ (آگے مولانا نمرود کی اس سرکشی و شقاوت سے ایک عبرت ناک سبق دیتے ہیں:)

26

گرگ درّندہ ست نفسِ بَد یقین

چہ بہانہ مے نہی بر ہر قرین

ترجمہ: (یہ) نفس بد یقین (جس نے نمرود کو بھی تباہ کیا) ایک پھاڑ کھانے والا بھیڑیا ہے۔ تو ہر رفیق پر کیا بہانہ رکھتا ہے (کہ مجھ کو انہوں نے گمراہ کر دیا، درحقیقت تیرے نفس نے تجھ کو گمراہ کیا ہے۔)

27

در ضلالت ہست صد کَل را کُلہ

نفس زشتِ کفرناکِ پُر سَفَہ

ترجمہ: (یہ) سرشتِ نفس جو کفر سے آلودہ (اور) اوچھے پن سے بھرا ہوا ہے، گمراہی میں سینکڑوں گنجوں کی ٹوپی ہے (یعنی جو لوگ جمالِ دیں اور زیورِ تقوٰی سے عاری ہیں۔ نفس ان کا سرتاج ہے، ان کی تمام شرور، نفس سے پیدا ہوتی ہے۔)

28

زیں سبب محا گویم اے بندہ فقیر

سلسلہ از گردنِ سگ بر مگیر

ترجمہ: اسی سبب سے اے بندۂ درویش! میں (تجھ سے) کہتا ہوں۔ کہ اس کتّے (نفس) کی گردن سے (مجاہدہ کی) زنجیر نہ اتارو (اور یہ نہ سمجھ کہ میں نے اس کو مہذّب کر لیا۔ اب اس میں شَر، كا احتمال نہیں بلکہ اس کو قیدِ مُجاہدہ میں رکھ۔)

29

گر معلَّم گشت ایں سگ ہم سگ ست

باش ذَلَّتْ نَفْسُہٗ کو بد رَگ ست

ترجمہ: اگر یہ کتّا تعلیم یافتہ بھی ہو گیا تو (پھر بھی) کتا (ہی) ہے۔ (جس سے بے فکر رہنا غلطی ہے۔) اپنے نفس کو ذلیل رکھو کہ یہ بد خصلت ہے۔ (یہ مجاہدہ کی تعلیم تھی۔ آگے صحبتِ شیخ کی ترغیب ہے:)

30

فرض مے آری بجا گر طائفی

بر سُہیلے جوں ادیمِ طائفی

ترجمہ: اگر تو طائف کے چمڑے کی طرح، کسی سہیل کے پاس آمد و رفت رکھتا ہے، تو (سلوک کا) فرض ادا کر رہا ہے۔

مطلب: یعنی اگر تجھ کو کسی مرشد کے ساتھ تعلق حاصل ہے تو تہذیبِ اخلاق اور تزکیۂ نفس کے متعلق تو طریقت کا حق ادا کر رہا ہے۔ کیونکہ صحبتِ شیخ کے بدون محض مجاہدہ سے تزکیۂ نفس مشکل ہے۔

31

تا سُہَلیت وا خرد از ننگِ پوست

تا شوی چُوں موزۂ ہمپائے دوست

ترجمہ: تاکہ (ستارہ) سُہیل تجھ کو (کچے) چمڑے کے (جلدی متعفّن ہو جانے کے) عیب سے چھڑا لے۔ حتٰی کہ تو (پاکیزہ چمڑہ بن کر) دوست کے پاؤں سے مل جانے والے موزہ کی مانند ہو جائے۔

مطلب: مرشد تم کو مفاسدِ نفس سے پاک کر دے گا حتٰی کہ تم دوست کے قرب سے بہرہ مند ہو جاؤ گے۔ آگے پھر خبثِ نفس کا مضمون ہے۔ جس کی اصلاح کا طریق اوپر مجاہدہ اور صحبتِ شیخ سے بتایا گیا ہے۔

32

جملہ قرآن شرحِ خُبثِ نفسہاست

بنگر اندر مصحف آں چشمت کجا ست

ترجمہ: تمام قرآن نفسوں کے خُبث کی تفصیل (پر مشتمل) ہے۔ قرآن مجید میں دیکھ لے تیری وہ آنکھ کہاں ہے (جس سے مطالبِ قرآنیہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔)

33

ذکرِ نفسِ عادیاں کالت بیافت

در قتالِ انبیا مُومے شگافت

ترجمہ: (قرآن مجید میں) قومِ عاد کے نفس کا ذکر (پڑھ که) جس نے (سرکشی کے) سر و سامان کر لیے تھے۔ (اور) وہ انبیاء کے مقابلہ میں (تدابیر کی) موشگافی کرتا تھا۔

34

قرن قرن از نفسِ شومِ بے ادب

ناگہاں اندر جہاں می زد لہب

ترجمہ: (اسی طرح) ہر قرن میں خبیث و بے ادب نفس (کی شرارت) سے ناگہاں دنیا کے اندر (فساد کا) شُعلہ بھڑکتا رہا۔