دفتر 6 حکایت 144: شیخ شیبان راعی قَدَّسَ اللّٰہُ سِرَّہٗ کی کرامات

دفتر ششم: حکایت: 144



کراماتِ شیخ شیبان راعی قَدَّسَ اللّٰہُ سِرَّہٗ

شیخ شیبان راعی قَدَّسَ اللّٰہُ سِرَّہٗ کی کرامات

1

همچو آں شیبان کہ از گرگِ عنید

وقتِ جمعہ پر رعا خط مے کشید

ترجمہ: جیسے وہ شیبان جو سرکش بھیڑئیے (کے خطرہ) کی وجہ سے۔ جمعہ کے وقت (جب کہ ان کو نماز کے لیے شہر میں جانا ہوتا تھا) بکریوں کے گلے کے گرد خط کھینچ دیتے۔

2

تا بروں ناید ازاں خط گوسپند

نے در آید گرگ و دزدِ با گزند

ترجمہ: تاکہ اس خط سے کوئی بکری باہر نہ نکلے۔ نہ کوئی بھیڑیا اور کوئی نقصان رساں چور داخل ہو۔

3

بر مثالِ دائرۂ تعویذِ ہودؑ

کاندراں صرصر امانِ آل بود

ترجمہ: حضرت ہود علیہ السلام کے دائرۂ حصار کی مانند۔ کہ اس صرصر (عذاب) میں (جس سے قومِ عاد ہلاک ہو رہی تھی) وہ حصار (حضرت هود علیہ السلام کی) امت (مؤمنہ) کے لیے امن تھا۔

4

ہشت روزے اندریں خط تن زنید

وز بروں مُثلہ تماشا مے کنید

ترجمہ: (اور حصار کے اندر والوں کو حکم ہوا کہ) اس خط کے اندر آٹھ دن تک خاموش بیٹھے رہو۔ اور باہر سے (قومِ عاد کی) دھجیاں بکھرنے کا تماشا دیکھتے جاؤ۔

5

بر هوا بُردے فگندے بر حَجر

تا دریدے لحم و عظم از هم دگر

ترجمہ: (چنانچہ بادِ تندان لوگوں کو) خلا میں (اٹھا) لے جاتی (اور) پتھر پر دے مارتی۔ یہاں تک کہ (ان کا) گوشت اور ہڈیاں بکھر جاتیں۔

6

یک گرہ را بر ہوا برہم زدے

تا چو خشخاش استخواں ریزہ شدے

ترجمہ: ایک جماعت کو وہ (باد) خلا میں (لے جا کر) آپس میں ٹکرا دیتی ہے۔ یہاں تک کہ (ان کی) ہڈیاں خشخاش کی طرح ریزہ ریزہ ہو جاتیں۔

7

آں سیاست را کہ لرزید آسمان

مثنوی اندر نگنجد شرحِ آں

ترجمہ: (آہ!) اس (دردناک) سزا (کے بیان) کی مثنوی میں گنجائش نہیں جس (کے ذکر) سے آسمان بھی کانپ اٹھتا ہے۔(آگے اہلِ طبیعیات کی تردید ہے جو عناصر کے اس قسم کے افعال کو لازمِ ذات کہتے ہیں:)

8

گر بطبعِ ایں مے کنی اے بادِ سرد

گردِ خطِّ دائرہ آں ہودؑ گرد

ترجمہ: اے ٹھنڈی ہوا! اگر تو (قومِ عاد کے ساتھ) یہ (ہولناک سلوک خدا کے حکم سے نہیں، بلکہ) اپنی طبیعت (کے مقتضا) سے کرتی ہے۔ تو ذرا حضرت ہود علیہ السلام کے (کھینچے ہوئے) خط دائرہ کے گرد تو گھوم کر (دکھا۔)

مطلب: ہوا اس دائرہ کے قریب پہنچ کر نرم ہو جاتی تھی، اگر ہوا کا وہ فعل جو قومِ عاد کے ساتھ کر رہی تھی طبعی ہوتا، تو دائرہ کے پاس بھی وہی فعل کر سکتی۔ کیونکہ دونوں جگہ اس کی طبیعت یکساں تھی۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس کا یہ فعل طبيعی نہیں بلکہ قرّی اور بامرِ خداوندی تھا۔ جس سے ایک قوم کو ہلاک کرنا، اور ایک جماعت کو محفوظ رکھنا منظور تھا۔ یہاں بظاہر ہوا سے خطاب ہے، مگر روئے سخن طبیعی کی طرف ہے۔

9

ور بحرص ایں مے کند گرگِ نژند

گو بیا در خطِّ راعی کن گزند

ترجمہ: اور (اسی طرح) اگر ایک غضب ناک بھیڑیا (عام بکریوں کے ساتھ) یہ (چیر پھاڑ کا سلوک، گوشت کی) حرص سے کرتا ہے۔ تو (اس سے کہو کہ آ!(اور شیبان) راعی کے خط میں (داخل ہو کر بھی) نقصان پہنچا۔

10

اے طبیعی فوقِ طبع ایں مُلک بیں

یا بیا و محو کن از مُصْحَف ایں

ترجمہ: اے طبیعی (مقتضیاتِ) طبع (کا جو سبق تونے رٹ رکھا ہے اس) سے بالا یہ (قدرتِ خدا کی) عمل داری دیکھ۔ (کہ تمام کائنات کے افعال و آثار طبع سے نہیں، بلکہ حکمِ الٰہی سے وابستہ ہیں) یا آ جا، اور قرآن مجید سے اس قصّہ کو محو کر دے۔

مطلب: یعنی اے طبیعی اپنے طبیعیات کے خَبط سے نکل قدرت کے کارخانہ کا مشاہدہ کر، ورنہ قرآن کے اس قصہ کا جواب دو جس میں ہوا کے بامرِ حق کام کرنے کا ذکر ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا صَرۡصَرًا﴾(حم السجدۃ: 16) ”تو ہم نے بھی ان پر زور کی ہوا چلائی“ جس سے ثابت ہوتا ہے ہوا کا عاد کے ساتھ یہ سلوک بامرِ حق تھا۔ جس نے اسے اسی لیے، قوم عاد کی طرف بھیجا تھا طبعًا نہ تھا۔ حضرت ہود علیہ السلام کے دائرۂ خط کا ذکر اگرچہ قرآن مجید میں صراحتًا نہیں ہے مگر بادِ صرصر کی اس تباہ کاری میں ان کا اپنے متعلقین سمیت سلامت رہنا تو مسلّم ہے۔ پس ہوا کا ان کو گزند نہ پہنچانا بھی بامرِ حق ہوا۔ ورنہ ہوا کا طبعی فعلِ عام ہونا چاہیے تھا۔ اس میں عاد اور ہود کا فرق کیوں ملحوظ رہا؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ لَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا نَجَّیۡنَا ہُوۡدًا وَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ بِرَحۡمَۃٍ مِّنَّا ﴾ (ھود: 58) ”اور جب ہمارا حکم عذاب آپہنچا تو ہم نے ہودؑ کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ان کو اپنی مہربانی سے بچا لیا“۔ پس ہوا کا ایک گروہ کو تباہ کر دینا، اور ایک جماعت کا بال بیکا نہ کرنا، طبیعی کے خلاف کافی حجت ہے۔ جو دائرہ کے ثبوت پر موقوف نہیں۔ غرض طبیعی کو کہتے ہیں کہ جا قرآن مجید سے اس قصہ کو محو کر دے۔

11

مُقریاں را منع کن بندے بنہِ

یا معلّم را بمال و سہم دہ

ترجمہ: (اور) قرأت والوں کو (قرآن پڑھنے سے) منع کر دے (اور ان کو) بیڑی ڈال دے۔ یا قرآن پڑھانے والے کی گوشمالی کر اور (اسے) خوف دلا۔

مطلب: مولانا فلسفی طبعی کو الزامًا کہتے ہیں، اگر تم مقتضائے طبع کے عقیدہ سے باہر نہیں جا سکتے تو قرآن مجید کے اس سچے واقعہ کا کیا جواب دو گے؟ جس میں ہوا نے خلافِ طبع کام کیا ہے۔ اگر کچھ اور بس نہیں چلتا تو قرآن مجید کے اس اِجمال کو جو تمہارے لیے سوہانِ روح بن رہا ہے محو کر دو، یا پڑھنے پڑھانے والوں کو مقیّد کر لو تاکہ تمہارے خلاف اس کی حجیّت کا سلسلہ بند ہو جائے، اور تمہارا ناطقہ بند کرنے والے، تاریخی حالات نگاہوں کے سامنے نہ لائیں۔

12

عاجزی و خیرہ کایں عجز از کجاست

عجز تو دانی ازاں روزِ جزاست

ترجمہ: (مگر) تو (محوِ قرآن سے) عاجز ہے اور (ساتھ ہی) حیران (بھی) ہے کہ یہ عجز کہاں (پیدا ہوا) ہے۔ یاد رکھ! تیرا عجز اس روز قیامت (کی تاثیراتِ پیشین) سے ہے (جس میں تمام کائنات عاجز و بے بس ہو گی۔)

مطلب: قرآن مجید کی آیات و بیانات کو محو کرنے کا خیالِ باطل، کون کر سکتا ہے؟ جب کہ خود خداوند تعالٰی اس کا محافظ ہے: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر: 9) البتہ طبیعی کو یہ حیرت ہے کہ یہ محو کیوں نہیں ہوتا۔ طولِ زمان، گردشِ دوران، تقلّبِ احوال، تبدّلِ رُوداد، انقلابِ دُول، انقراضِ اُمم، وغیرہ صدہا تغیّرات ہیں، جو بڑی سے بڑی اشیاء کو محو کر دیتے ہیں۔ زبانیں کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں۔ مراسم کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ تمدّن و معاشرت کا رنگ بدل جاتا ہے، اور ان تغیّرات کا طبیعی تقاضا یہ ہے کہ اپنے ساتھ ماحول کی اشیاء کو ملیامیٹ کر دیں، مگر قرآن مجید کے ایک حرف میں اب تک کوئی فرق نہیں آیا۔ طبیعی متحیّر ہے کہ گردشِ زمانہ نے جہاں اپنی طبعی تاثیر سے لیل و نہار کو بدل ڈالا، قرآن مجید کے بارے میں اس کا طبعی خاصہ کیا ہوا۔ وہ نہ صرف قرآن کو محو کرنے سے ہی عاجز ہے۔ بلکہ گردشِ زمانہ اس کے محو نہ ہونے کی وجہ سمجھنے سے بھی عاجز ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز تمام مخلوق حکمِ حق کے آگے عاجز و بے بس ہوگی۔ تیری یہ عاجزی اور بے بسی اسی عاجزی کا اثرِ پیشین ہے، جو قبل از وقت دنیا میں نمودار ہو رہی ہے۔ صاحبِ کلیدِ مثنوی نے دوسرے مصرعہ میں کچھ اشکال محسوس کرکے لکھا ہے کہ روزِ جزاء سے مراد مالکِ روزِ جزا ہے۔ یعنی تیرا عجز خدا کی طرف سے ہے، مگر یہ سراسر تکلّف اور اصل الفاظ میں بے بنیاد تصرّف ہے۔ ہم نے جو تشریح اس مصرعہ کی کی ہے، اس کی تائید منہج القوٰی سے بھی ہوتی ہے۔ جس میں یہ مصرعہ یوں لکھا ہے۔ “عجزِ تو تابے ازاں روزِ جزاست“ اور اس کا ترجمہ لکھا ہے ”عِجْزَکَ مِنْ یَوْمِ الْجَزَاءِ“ (غیاث) میں ”تاب“ کے معنی طاقت و توانائی اور رونق اور روشنی کے لکھے ہیں۔ بس مطلب ظاہر ہے کہ اے طبیعی تیرا یہ عجز اسی عجز کی ایک چمک اور پرتَو ہے، جو قیامت کے روز تمام مخلوق پر حاوی ہوگا۔ قلمی نسخے میں یہ شعر یوں درج ہے:

عاجزی و خیرہ لیکن از کجاست

عجزِ تو تابے ازاں روزِ جزاست

اور اس کے حاشیے پر ”تابے“ کے بدلہ عکس لکھا ہے، معلوم نہیں کہ یہ اس لفظ کی توضیح کی ہے، یا کوئی اور نسخہ ظاہر کیا ہے۔ بہر کیف ان سب شہادات سے ہمارے اختیار کردہ مضمون کی تائید ہوتی ہے۔ آگے قیامت کے عجز کا ذکر ہے:

13

عجزہا داری تو در پیش اے لجوج

وقت شُد پنہانیاں را نک خروج

ترجمہ: اے جھگڑالو! تجھے بہتیرے عجز درپیش ہیں۔ اب وقت آرہا ہے کہ تو پوشیدہ امور کا ظہور دیکھ لے۔ (جن میں سے ایک مخلوق کا عجز بھی ہے۔ طبیعی کا مذکورہ بالا عجز مذموم تھا، آگے عجزِ محمود کا ذکر ہے:)

14

خُرّم آنکہ عجز و حیرت قوتِ اوست

در دو عالم خفتہ اندر ظلِّ دوست

ترجمہ: مبارک ہے وہ شخص کہ عجز (محمود) اور حیرت (محمودہ) اس کی غذا ہے۔ (اور) وہ دونوں عالم میں محبوب (حقیقی) کے سایۂ (حمایت) میں سو رہا ہے۔

مطلب: عجزِ مذموم تو یہ تھا کہ حق کی مخالفت میں باوجود کوشش کے ناکامی نصیب ہوئی۔ اور عجزِ محمود یہ ہے کہ حق کے ساتھ غایتِ موافقت کے لیے اپنے ارادہ و قدرت کو اس کے آگے فنا کر دیا جائے، اور ”مِنْ کُلِ الْوُجُوْہ“ رضائے حق کے تابع ہوجائیں، بلکہ طبعِ اشیاء کا مقتضا سمجھا، تو انہی اشیاء سے خلافِ طبع افعال کے صدور کی وجہ سمجھ میں نہ آئی اور حیرانی لاحق ہوئی۔ اور حیرتِ محمودہ وہ ہے جو سالک پر کثرتِ علوم اور متواتر تجلیات سے طاری ہوتی ہے۔

15

ہم در اول عجزِ خود را او بدید

مردہ شد دینِ عجائز را گزید

ترجمہ: اس کو شروع ہی سے اپنے عجز کا احساس ہے۔ (اور احکامِ حق کے سامنے) وہ مردہ کی (مانند) ہوگیا۔ (اور) اس نے بوڑھی عورتوں کا دین اختیار کر لیا۔

مطلب: بوڑھی عورتوں کے دین سے مراد یہ ہے کہ جس طرح بوڑھیوں میں معاملاتِ دِینیہ کے متعلق قوّتِ اعتقاد، حُسنِ اِنقیاد، اور کامل استقامت ہوتی ہے، وہی روش اس نے اختیار کر لی۔ اس میں اس مشہور حدیث شریف کی طرف اشارہ ہے کہ ”عَلَیْکُمْ بِدِیْنِ الْعَجَائِزِ“ ”لازم پکڑو تم بوڑھیوں کے دین کو۔“ کتاب اللؤلؤ المرصوع میں لکھا ہے کہ حدیث ”عَلَیْکُمْ بِدِیْنِ الْعَجَائِزِ“ موضوع ہے۔ کتاب تمییزُ الطیب میں لکھا ہے کہ ہمارے شیخ کے نزدیک ان الفاظ میں اس حدیث کی اصل نہیں، اور اس کی ہم معنٰی جو احادیث وارد ہوئی ہیں وہ بھی ضعف سے خالی نہیں ہیں۔ موضوعاتِ کبیر میں لکھا ہے کہ ان الفاظ میں اس حدیث کی اصل نہیں اس کی ہم معنٰی احادیث وارد ہوئی ہیں جو ضعف سے خالی نہیں ہیں، اور زرکشی نے کہا ہے کہ دیلمی نے اس کو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بدیں لفظ روایت کیا ہے: ”اِذَا کَانَ اٰخَرُ الزَّمَانِ وَاخْتَلَفَتِ الْاَهْوَاءُ فَعَليْکُمْ بِدِیْنِ الْبَادِیَۃِ وَالنِّسَاءِ“ یعنی ”جب آخری زمانہ ہوگا اور خیالات میں اختلاف پیدا ہوا تو تم اہلِ بادیہ اور عورتوں کا سا مذہب اختیار کر لو“ اور اس روایت کی سند کمزور ہے بلکہ صغانی نے کہا ہے کہ موضوع ہے۔ (انتہٰی) آگے دینِ عجائز کی لفظی مناسبت فرماتے ہیں:

16

چوں زلیخا یوسفش بر وے بتافت

از عجوزی در جوانی راہ یافت

ترجمہ: (اگر اس نے ایسا کیا تو سمجھ لو کہ) زلیخا کی طرح اس شخص کا یوسفِ (مقصود) اس کے آگے جلوہ گر ہوگیا۔ (اور) اس نے بڑھاپے سے (نکل کر) جوانی میں (داخل ہونے کا راستہ پا لیا۔)

مطلب: زلیخا کے قصے میں لکھا ہے کہ اس کو حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا سے از سرِنو، جوانی حاصل ہوگئی۔ اس واقعہ کے استعارہ میں فرماتے ہیں کہ وہ شخص جو احکامِ حق کے آگے مثل مردہ ہوگیا، اس کو فناء کے بعد بقاء حاصل ہوگئی۔

17

زندگی در مردن و در محنت ست

آبِ حیواں در درونِ ظلمت ست

ترجمہ: (بس جب احکامِ حق کے آگے مردہ ہونے سے تازہ جوانی ملتی ہے تو ثابت ہوا کہ) زندگی (اس) موت (اختیاری یعنی فنا) اور ریاضت میں ہے۔ (جیسے) آبِ حیات تاریکی میں ہے۔ (آگے پھر عود ہے اس بے مادر بچے کے قصے کی طرف جو بڑا ہو کر نمرود بادشاہ ہوا:)