دفتر ششم: حکایت: 143
خطابِ حق تعالٰی بعزرائیل علیہ السلام کہ ترا رحم بر کہ بیشتر آمد، ازیں خلائق کہ قبض کردی جانِ ایشان را، و جواب دادنِ او
حق تعالٰی کا عزرائیل علیہ السلام سے خطاب فرمانا کہ ”تم کو اس مخلوق میں سے، جن کی جان تم نے قبض کی ہے کس پر زیادہ رحم آیا؟“ اور ان کا جواب دینا
1
حق بعزرائیل مے گفت اے نقیب!
بر کہ رحم آمد ترا از ہر کئیب
ترجمہ: حق تعالٰی نے عزرائیل علیہ السلام سے فرمایا اے سردار! تم کو تمام غم زدوں میں سے کس پر رحم آیا۔
2
گفت بر جملہ دلم سوزد بدرد
لیکن ترسم امر را اہمال کرد
ترجمہ: انہوں نے عرض کیا سب پر میرا دل درد سے سوختہ ہوتا ہے۔ لیکن میں حکم کی بجا آوری میں کوتاہی کرتے ہوئے ڈرتا ہوں۔
3
تا بگویم کاشکے یزداں مرا
در عوض قربان کند بہرِ فتا
ترجمہ: یہاں تک کہ میں کہنے لگتا ہوں کہ کاش۔ حق تعالٰی مجھ کو (اس) جوان (متوفی) کے عوض میں قربان کر دے۔
4
گفت بر کہ بیشتر رحم آمدت
از کہ دل پُر سوز و بریاں تر شُدت
ترجمہ: فرمایا تم کو سب سے زیادہ رحم کس پر آیا؟ کس شخص سے تمہارا دل زیادہ پُر سوز و بریاں ہوا؟
5
گفت روزے کشتیئ بر موجِ تیز
مے شکستم ز امر تا شد ریز ریز
ترجمہ: انہوں نے عرض کیا ایک دن میں نے حکم پا کر ایک کشتی توڑی، (جو) تیز موج پر (جا رہی تھی۔) یہاں تک کہ وہ ریزہ ریزہ ہو گئی۔
6
پس بگفتی قبض کُن جانِ ہمہ
جز زنے و طفلکے را زاں رَمہ
ترجمہ: تو آپ نے حکم دیا کہ اس جماعت میں سے ایک عورت اور (اس کے) بچے کے سوا، (باقی) سب کی جان قبض کر لے۔
7
ہر دو بر یک تختۂ درماندند
تختہ را آں موجہا مے راندند
ترجمہ: دونوں (ماں بیٹا) ایک تختہ پر رہ گئے۔ (اور) تختے کو (پانی کی) موجیں بہائے لیے جا رہی تھیں۔
8
چوں بساحل اوفگند آں تختہ باد
از خلاصِ ہر دو ام دِل گشت شاد
ترجمہ: جب ہوا نے اس تختہ کو دریا کے کنارے پر لا ڈالا۔ تو (ان) کی نجات سے میرا دل خوش ہوا۔
9
باز گفتی جانِ مادر قبض کن
طفل را بگذار تنہا ز امرِ کُن
ترجمہ: پھر آپ نے فرمایا کہ ماں کی جان قبض کر لے۔ (اور) بچے کو اکیلا چھوڑ دے بسبب امرِ کُن کے۔
10
چوں ز مادر بگسلیدم طفل را
خود تو مے دانی چہ تلخ آمد مرا
ترجمہ: جب میں نے بچے کو ماں سے جدا کیا۔ تو آپ خود جانتے ہیں کہ مجھے یہ کس قدر تلخ معلوم ہوا۔
11
پس بدیدم درد ماتمہاے زفت
تلخیِ آں طفل از فکرم نرفت
ترجمہ: تو میں نے (ماں کی جان قبض کرتے وقت اپنے دل میں) ایک درد اور سخت ماتم دیکھے۔ (اور) اس بچے (کی تنہائی) کی تلخی میرے خیال سے دور نہیں ہوئی۔
12
گفت حق آں طفل را از فضلِ خویش
موج را گفتم فگن در بیشہ ایش
ترجمہ:حق تعالٰی نے فرمایا: (لو! تم اب اس بچے کے کرتوت سن لو) ہم نے اپنے فضل سے اس بچے کے لیے۔ موج کو حکم دیا کہ اسے ایک جنگل میں ڈال دے۔
مطلب: بعض اوقات دریا یا سمندر کے پانی کی موج جب زور کے ساتھ آتی ہے، تو ساحل سے میل میل تک اس سے بھی زیادہ دور، خشکی کی طرف نکل جاتی ہے، اور جب وہ موج اپنے اوپر تیرنے والی چیز کو خشکی میں ڈال کر واپس چلی جاتی ہے، تو وہ چیز اپنے آپ کو سمندر سے میلوں دور کسی جنگل میں پاتی ہے۔ اسی طرح بحکمِ حق یہ بچہ دریا سے جنگل میں پہنچا۔ سیاقِ بیان سے ظاہر ہے، کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام اس بچے کی ماں کی روح کو قبض کرکے ان سے جدا ہوگئے، اور بچے کی بے مادری کا درد اپنے دل میں لے گئے۔ مدّتِ مَدید کے بعد جناب باری تعالٰی سے ان کو خطاب ہوا: کہ تم کو قبضِ ارواح میں کس درد مند پر زیادہ رحم آیا ہے؟ تو اس بے مادر بچے کا قصہ عرض کیا، تو حق تعالٰی نے اس بچے کا باقی ماندہ حال ارشاد فرمایا، جس کا مفاد یہ ہے کہ تم کو تو اس بچہ پر کس قدر رحم آ رہا ہے، مگر دیکھو وہ بڑا ہو کر سرکش اور کیسا باغی و نافرمان نکلا۔ لو سنو! ہم نے اپنی قدرت سے اس کو ایک جنگل میں پہنچا دیا تھا۔
13
بیشۂ پُر سوسن و ریحان و گل
پُر درختِ میوہ دار و خوش اُکُل
ترجمہ: (وہ ایک) ایسا جنگل تھا جو سوسن اور ریحان اور گل سے پر تھا۔ (اور) میوہ دار درختوں اور اچھے میووں سے پُر تھا۔
14
چشمہائے آب شیرینِ زلال
پروریدم طفل را با صَد دَلال
ترجمہ: (اور اس میں) خالص آبِ شیریں کے چشمے (تھے۔ غرض) میں نے (اس) طفل کو (وہاں) سو ناز سے پرورش کیا۔ (یہ بچہ شیر خوار تھا حق تعالٰی کی قدرت سے ایک جانور، اس کو دودھ پلانے پر مامور ہو گیا۔ جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ پھر جب ذرا بڑا ہوا تو یہ لذیذ میوے کھانے، اور شیریں پانی پینے لگ گیا ہوگا، یہاں حق تعالٰی اس ناز و نعمت کا ذکر فرماتے ہیں جس میں اس بچے کی پرورش ہوئی۔)
15
صد ہزاراں مرغ مُطْرِب خوش صدا
اندراں روضہ فگندہ صد نوا
ترجمہ: لاکھوں طرب انگیز و خوش آواز پرندے۔ اس باغ میں سینکڑوں چہچہے بلند کر رکھتے تھے۔
16
بسترش کردم ز برگِ نسترن
کردم او را ایمن از صدمہ فتن
ترجمہ: میں نے نسترن کے پتوں سے اس کا بستر بنایا۔ (اور) اس کو فتنوں کے آسیب سے امن میں رکھا۔
17
گفتہ من خورشید را کو را مگز
باد را گفتہ برو آہستہ وز
ترجمہ: میں نے سورج کو حکم دیا کہ اس کو (اپنی دھوپ کی تیزی سے) مت کاٹ۔ اور ہوا کو حکم دیا کہ اس پر آہستہ (آہستہ) چل۔
18
ابر را گفتہ برو باراں مریز
برق را گفتہ برو مگر اے تیز
ترجمہ: بادل کو حکم دیا کہ اس پر مینہ مت برسا۔ برق کو حکم دیا کہ اس پر تیزی سے مت مائل ہو۔
مطلب: بادل کو برسنے سے مطلقًا منع کرنا مراد نہیں، کیونکہ بارش کے بغیر تو سبزہ زار کی سرسبزگی و تازگی ہی ممکن نہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کے سر پر برس کر باعثِ پریشانی نہ ہو، جب وہ کسی پناہ میں ہو تو برسے۔ ”برق“ سے بجلی کی چمک مراد ہے۔ یعنی ایسی تیزی سے مت چمکے جس سے اسکی آنکھوں کو تکلیف پہنچے۔
19
زیں چمن اَے دے مبر آں اعتدال
پنجہ اَے بہمن بریں روضہ ممال
ترجمہ: (اور موسم کو حکم دیا کہ) اے خزاں کے موسم اس چمن سے وہ اعتدل جو ایام بہار میں ہوتا ہے زائل نہ کر۔ اور اے بہمن کے مہینے اس باغ پر ہاتھ مت پھیر۔
مطلب: آفتاب ہوا، ابر، برق، موسم اور ایامِ سرما وغیرہ تمام عناصر، اور دیگر کائنات خدا کے حکم سے اس بچے کے ساتھ خوشگوار سلوک کرتی تھی۔ آگے اس کی تائید میں دو قصے ارشاد ہیں: ایک میں ذکر یہ ہے کہ بھیڑیوں نے ایک ولی کا لحاظ رکھا۔ دوسرے میں یہ بیان ہے کہ ہوا نے ایک نبی کے حق میں رعایت کی۔ یہی دونوں قصے پہلے دفتر میں بھی درج ہیں۔