دفتر 6 حکایت 142: شہزادہ کے استغناء اور خود پسندی اور بادشاہ کے باطن سے زخم کھانے کا بیان

دفترِ ششم: حکایت: 142

در بیانِ استغناء و عُجبِ شاہزادہ، و زخم خوردن از باطنِ شاہ

شہزادہ کے استغناء اور خود پسندی اور بادشاہ کے باطن سے زخم کھانے کا بیان

1

چوں مُسلَّم گشت بے بیع و شرے

از درونِ شاہ در جانش جری

ترجمہ: جب بادشاہ کے باطن سے، اس (شہزادہ) کی روح میں (فیوضِ باطنیہ کا) روزینہ، بلا خرید و فروخت (پہنچنا) مقرر ہوگیا۔

2

قُوْت مے خوردے ز نورِ جانِ شاہ

ماہِ جانش ہمچو از خورشید ماہ

ترجمہ: تو اس کی روح کا چاند، بادشاہ کی روح کے، نور سے (اس طرح) غذا پانے لگا۔ جس طرح چاند سورج سے پاتا ہے۔ (نُوْرُ الْقَمَرِ مُسْتَفَادٌ مِّنْ نُّوْرِ الشَّمْسِ)

3

راتبہ جانی ز شاہِ بے ندید

دمبدم در جان مستش مے رسید

ترجمہ: (اس) شاہ بے نظیر کی طرف سے روحانی روزینہ۔ دم بدم اس کی مست جان میں پہنچتا تھا۔

4

آں نہ کِش ترسا و مشرک میخورند

زاں غذائے کِش ملائک میخورند

ترجمہ: وہ جسمانی روزینہ نہیں جس کو نصرانی و مشرک (تک بھی) کھاتے ہیں۔ بلکہ وہ غذا ہے جس کو ملائکہ کھاتے ہیں۔

مطلب: اس میں یہ اشارہ ہے کہ کمالاتِ باطنیہ کفّار و مشرکین کا حصہ نہیں ہیں، یہ محض اسلام کے ساتھ مختص ہیں۔ باقی فقرائے کفار سے جو کشف وغیرہ خوارق کا ظہور ہوتا ہے تو وہ ان کی ریاضات کا ثمرہ ہے، جو کوئی کمال نہیں۔ بلکہ اس قسم کے خوارق، خاص خاص مشقوں کے نتائج ہوتے ہیں، اور جس قسم کی مشق کی جائے، اس سے کوئی خاص ملکہ حاصل ہونا لازمی امر ہے۔ یہ بات ہر فاسق و فاجر کو حاصل ہوسکتی ہے، جو کل مذاہب کے معیار میں بدکار ہو۔ پس اس قسم کے خوارق قربِ حق کی دلیل کیونکر ہوسکتے ہیں؟ اور کمالِ باطنی یا ولایت، قربِ حق کا نام ہے۔ اور قربِ حق کا راستہ محض اسلام ہے: ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ(آل عمران: 19) بعض جہلاء جو کہا کرتے ہیں کہ ہنود وغیرہ دیگر مذاہب کے لوگ، اپنے اپنے مذہب کے موافق اس قدر طاعت و عبادت بجا لاتے ہیں، جس میں ان کی نیّت بھی خالص ہوتی ہے، تو کیا اللہ تعالٰی اس کو قبول نہیں کرے گا۔ سو اللہ تعالٰی نے اس شُبہ کا قلع قمع ان کلمات سے کر دیا ہے: ﴿”وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ“﴾(آل عمران: 85) ”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش میں ہو تو خدا کے ہاں اس کا وہ دین مقبول نہیں اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں ہوگا۔“

دوسرے مصرعہ میں ملائکہ کے لیے ”خوردن“ کا اطلاق بطورِ مُشاکله کیا ہے ورنہ ملائکہ اکل و شرب سے منزّہ ہیں۔ مطلب یہ کہ شہزادہ اس لطیف ترین روحانی فیض سے متمتّع ہو رہا ہے، جس سے ملائکہ بہرہ مند ہیں کیونکہ وہ خود ارواح ہیں۔ جسم و جسمانیات سے پاک ہیں اور مقربِ حق بھی ہیں۔ شہزادہ عروجِ باطن کی اس بلندی کو پہنچ کر بدقسمتی سے اب گرتا ہے۔

5

اندرونِ خویش استغنا بدید

گشت طغیانے ز استغنا پدید

ترجمہ: اس شہزادہ نے اپنے اندر ایک استغناء دیکھا۔ (اس) استغناء سے (اس میں) ایک سرکشی پیدا ہوئی۔

مطلب: یعنی اس کو اپنے اندر انوار و برکات کا جو احساس ہوا، تو وہ اپنے کامل ہونے کا گمان کرنے لگا، اور سمجھا کہ مجھے اب بادشاہ سے فیض حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں اس سے کچھ کم نہیں ہوں۔ چنانچہ آگے یہی مضمون چل رہا ہے:

6

کہ نہ من ہم شاہ و ہم شہزادہ ام

چوں عنانِ خود بدیں شہ داده ام

ترجمہ: (اس میں یہ سرکشی پیدا ہوئی) کہ کیا میں بھی (اَقلیمِ ولایت کا) بادشاہ اور شہزادہ نہیں ہوں؟ (پھر) کیوں میں نے اپنی باگ اس بادشاہ کے ہاتھ میں دے رکھی ہے۔

7

چوں مرا ماہے برآمد با لَمَع

پس چرا باشم غبارے را تبع

ترجمہ: جب کہ میرا (کمالات کا) ماہِ درخشاں طلوع ہوچکا ہے۔ تو میں ایک غبار کا تابع کیونکہ ہوں؟

8

آب در جوے من ست و وقتِ ناز

نازِ غیر از چہ کشم من بے نیاز

ترجمہ: (کمالات کا) پانی میری (ہستی کی) نہر میں (موجزن) ہے، اور (میرے لیے یہ) فخر کا وقت ہے۔ (پھر) میں (جو) بے نیاز (ہوں تو) دوسرے کی ناز برداری کیوں کروں؟

9

سر چرا بندم چو دردِ سر نماند

وقت رُوے زار و چشمِ تر نماند

ترجمہ: میں سر کیوں باندھوں؟ جب دردِ سر نہیں رہا۔ اور زرد چہرے اور پُر اشک آنکھ کا وقت نہیں رہا۔ (یعنی جب امراض باطنی زائل ہو گئے، تو شیخ سے استفادہ کیوں کروں جو ان امراض کا علاج تھا؟)

10

چُوں شکر لب گشتہ ام عارضِ قمر

باز باید کرد دُکّانِ دگر

ترجمہ: میں جب (حُسنِ کمالات سے خود) شِیریں لبوں والا اور چاند کے سے رخسار والا بن گیا ہوں۔ تو دوسری دکان کھولنی چاہیے (یعنی الگ مسندِ مشِیخت بچھانی چاہیے۔

11

زیں منی چُوں نفس زائیدن گرفت

صد ہزاراں ژاژ خائیدن گرفت

ترجمہ: جب (شہزادہ کا) نفس اس قسم کی غرور کی باتیں پیدا کرنے لگا۔ تو اس نے (جی ہی جی) میں لاکھوں بیهوده گوئیاں شروع کیں۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں:)

12

صد بیاباں زاں سُوئے حرص و حسد

تا بدانجا چشم بَد ہم مے رسد

ترجمہ: حرص و حسد سے پرے اگر سو جنگل (بھی) ہوں۔(اور ان جنگلوں سے پرے کوئی صاحبِ کمال ہو تو) وہاں تک بھی نظرِ بد پہنچ سکتی ہے۔

مطلب: نظرِ بد کا منشاء حرص و حسد ہوتا ہے چنانچہ ایک شخص کا جاہ و منصب، غیرت و فضیلت، دوسرے کی نگاہ میں اس لیے کھٹکتی ہے کہ وہ ان خوبیوں کے لیے اس پر حسد کرتا ہے، اور خود ان کو حاصل کرنے کی اسے حرص ہے۔ بعض اوقات محض کسی چیز کی پسندیدگی سے نظرِ بد اثر کر جاتی ہے۔ جیسے ماں باپ کی نظر اپنی اولاد پر، یا کسی کی نظر خود اپنے آپ پر لگ جانا، حالانکہ وہاں حرص اور حسد نہیں ہوتا۔ شہزادہ پر بھی خود اس کی اپنی نظرِ بد کار گر ہوئی تھی۔ یہاں حرص و حسد کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اکثر نظرِ بد کا منشاء یہی ہوتا ہے۔ خصوصًا جب کہ نظر والا اور نظر زدہ دو الگ شخص ہوں۔ اس لیے یہاں یہ کہا ہے کہ کوئی خوبی والا شخص خواہ کتنی ہی دور مسافت پر ہو، وہاں بھی نظر پہنچ کر اپنا اثر کرتی ہے۔ غرض شہزادہ کے دل میں یہ فضول خطرات گزرے تو:

13

بحرِ شہ کہ مرجع ہر آب اوست

چوں نداند آنچه اندر سیل و جوست

ترجمہ: (بادشاہ کشف سے اس پر مطلع ہوگیا، کیونکہ) بادشاہ کا دریائے (قلب) جو ہر (مرید کے) آبِ (واردات) کا مرجع ہے۔ اس (پانی) سے کیوں نہ آگاہ ہو جو بہاؤ اور نہر میں (جاری) ہے۔

14

شاہ را دل درد کرد از فکرِ او

نا سپاسیِ عطائے بکرِ او

ترجمہ: بادشاہ کے دل کو اس کے خیال سے تکلیف پہنچی۔ (یعنی) اس کی عطائے جدید کی ناشکری (سے۔)

مطلب: ”فکر“ سے یا تو شہزادہ کا وسوسہ مراد ہے۔ جس کے کشف سے بادشاہ کا دل رنجیدہ ہوا، یا خود بادشاہ کا خیال مراد ہے، جو اس کو شہزادہ کے متعلق ہوا۔

15

گفت آخر اے خسِ واہی ادب

ایں سزائے دادِ من بود اے عجب

ترجمہ: (تو) اپنے دل میں وہ کہنے لگا اے کمینے، بے ادب! تعجب ہے کہ آخر میری عطا کا یہی بدلہ تھا (جو تو نے دیا۔)

16

من چه کردم با تو زیں گنجِ نفیس

تو چه کردی با من از جوئے خسیس

ترجمہ: میں نے تو تیرے ساتھ اس (روحانی) نفیس خزانے (کی عطا) سے کیا (سلوک) کیا۔ (بخلاف اس کے تو نے (اپنی) بُری خصلت کے تقاضے سے میرے ساتھ کیا برتاؤ کیا۔

17

من ترا ماہے نهادم در کنار

کہ غروبش نیست تا روزِ شمار

ترجمہ: میں نے تیری آغوش میں (انوارِ باطن) کا وہ چاند رکھ دیا۔ جو قیامت تک غروب نہ ہوگا۔

18

در جزائے آں عطائے نورِ پاک

تو زدی در دیدۂ من خار و خاک

ترجمہ: اس نورِ پاک کے عطیہ کے عوض میں۔ تو نے میری آنکھ میں خار و خاک جھونک دیا۔

19

من ترا بر چرخ گشتہ نرد باں

تو شدہ در حربِ من تیر و کماں

ترجمہ: میں تو تیرے لیے آسمان پر (عروج کرنے کے لیے) سیڑھی بن گیا۔ تو (الٹا) مجھ سے جنگ کرنے کے لیے تیر و کمان بن گیا۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

کس نیا موخت علمِ تیر از من

کہ مرا عاقبت نشانہ نکرد

20

دردِ غیرت آمد اندر شہ پدید

عکسِ دردِ شاہ اندر وے رسید

ترجمہ: (شہزادہ کی اس ناسپاسی و غداری سے) بادشاہ کے دل میں غیرت کا درد پیدا ہوا۔ (اور) بادشاہ کے درد کا عکس اس کے باطن میں پہنچا۔ (اور اس کے اندر ضرر ظاہر ہوا۔)

21

مرغِ دولت در عتابش برطپید

پردۂ آں گوشہ گشتہ بر درید

ترجمہ: (شہزادہ کے) اقبال کا پرندہ اس (شاہ) کے عتاب کے سبب سے تڑپنے لگا۔ (جیسے جان توڑ رہا ہو اور اس کی تڑپ نے) اس کناره گیر (شہزادہ) کی پردہ دری کر دی۔

مطلب: شہزادہ کی روحانیت یا تو بادشاہ کے فیوض سے مدارجِ عروج میں مائل بہ پرواز تھی، یا یکبارگی وہ مرغِ بسمل کی طرح جان توڑ کر رہ گئی۔ جس نے شہزادہ سے فیوض سلب ہونے کا پردہ فاش کر دیا۔

22

چوں درونِ خود بدید آں خوش پسر

از سِیَہ کاریِ خود کرده اثر

ترجمہ: جب اس اچھے لڑکے نے اپنا باطن دیکھا۔ اپنی سیاہ کاری سے متاثر دیکھا۔

23

آں وظیفۂ لطف و نعمت گم شدہ

خانۂ شادیِ او پُر غم شدہ

ترجمہ: وہ لطف و نعمت کا روزینہ گم ہوگیا۔ (اور) اس کی خوشی کا گھر پُر غم ہوگیا۔

24

با خود آمد او ز مستی عقار

زاں گنہ گشتہ سرش خانہ شمار

ترجمہ: تو وہ شراب (غرور) کی مستی سے ہوش میں آیا۔ (اور) اس گناہ سے اس کا سر پُرخمار ہو رہا تھا۔ (آگے مولانا بطور عبرت فرماتے ہیں:)

25

ہر کہ خود بینی کند در راہِ دوست

مغز را بگذاشت کُلّی دید پوست

ترجمہ: جو شخص راہِ محبوب میں خود بینی کرے۔ اس نے مغز کو چھوڑ دیا اور بالکل چھلکے پر نظر کی۔ (یعنی امورِ غیرحقیقیہ پر اس کی نظر محدود رہی اور حقیقت اس سے محجُوب ہوگئی۔)

26

دشمنِ من در جہاں خود بیں مباد

زانکه از خود بیں نیامد جز فساد

ترجمہ: (خودبینی تو بدترین ذلّت ہے) خدا کرے میرا کوئی دشمن بھی دنیا میں خود بین نہ ہو۔ کیونکہ خود بین سے سوائے خرابی کے کچھ نہیں بن پڑتا۔

27

مَے ازاں آمد حرام اندر جہاں

کہ خوری خود بیں شوی اندر زماں

ترجمہ: شراب اسی لیے تو دنیا میں حرام ٹھہری۔ کہ تم اس کو پی کر فورًا خود بین ہو جاؤ گے۔

28

بہتر از خود در تصوّر نایدت

ویں ہمہ از نفسِ خود بیں زایدت

ترجمہ: (پھر) تم کو اپنے سے بہتر کوئی تصور نہیں آئے گا۔ اور یہ سب خود پسندی کی باتیں تمہارے اندر نفسِ خود بین سے پیدا ہوتی ہیں۔

مطلب: حرمتِ خمر کی یہ حکمت قرآن مجید سے مُستَنبط ہوسکتی ہے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِـعَ بَـیْـنَـکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِر۔۔۔الآیۃ﴾(المائدۃ:91) اور عداوت و بغض کا منشا اکثر خود بینی ہے کہ اپنے کو اوروں سے زیادہ، مال کا مستحق سمجھے یا جاہ کا (کلید) آگے ایک شبہ کا جواب ہے: وہ شبہ یہ ہے کہ بعض اوقات اہل اللہ سے بھی کلمات مُوھِمۂ عُجب و دعوٰی خواہ از قبیلِ شطحیات یا کسی خاص کے خطاب میں صادر ہوتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب دیتے ہیں کہ منشأِ دعوٰے ہمیشہ مستی ہوتی ہے۔ لیکن تم اپنی مستیِ کبر و غرور کو، ان کی مستیِ حال یا مستی غیرتِ دین پر قیاس مت کرو، دونوں میں بڑا فرق ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

29

آنکه با خود می خورد مَے با خودست

ایں چنیں مے خوار خوار و مرتدست

ترجمہ: جو شخص اپنی خودی کے ساتھ (انانیت کی) شراب پیتا ہے، وہ بے خود ہو جاتا ہے۔ ایسا شراب خور ذلیل اور (طریقت کا) مرتد ہے۔ (جس طرح شہزادہ شیخ سے برگشتہ ہو کر مرتدِ طریقت ہوگیا۔)

30

ہر کہ با او مے خورد بادش حلال

وانکه بے او دم زند بادش و بال

ترجمہ: (اور) جو شخص اس محبوبِ حقیقی کے ساتھ (انانیت کی) شراب پیتا ہے۔ اس کو حلال ہے اور جو شخص اس (کی معیّت) کے بدوں (انانیت کا) دعوٰی کرے اس کے لیے وبال ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ اہل اللہ کا دعوٰی نفس سے نہیں ہوتا، بلکہ وہ ناطق بِالحق ہوتے ہیں۔)

31

چونکہ با او مَے خورد از جامِ ہو

چشم بکشایم بہ بینم رُوے او

ترجمہ: جب وہ اس (کی معیت) کے ساتھ جامِ حق سے (انانیت کی) شراب پیتا ہے۔ (تو وہ بزبانِ حال یوں کہہ رہا ہے کہ) میں آنکھ کھولتا ہوں (اور) اس (محبوب) کا جمال دیکھتا ہوں (یعنی تجلیات کا مورد ہوجاتا ہوں۔)

32

بعد ازاں از خود بکلّی بگسلم

ہم ز مے خوردن شود ایں حاصلم

ترجمہ: اس کے بعد میں اپنے آپ سے بالکل منقطع ہوجاتا ہوں۔ (اور انانیت کی) شراب پینے سے مجھے یہ ثمرہ ملتا ہے۔ (یعنی میرے دعوائے انانیت کا حاصل یہ ہے کہ موردِ تجلیّات اور فانی ہوگیا۔ آگے اس مرتبہ کی ترغیب دیتے ہیں:)

33

ایکہ میخواهی که از خود بگسلی

تا کے اندر بند ایں جان و دلی

ترجمہ: اے طالب جو اپنے آپ سے قطع تعلق کرنا چاہتا ہے۔ تو کب تک اس جان و دل کی قید میں رہے گا۔

34

جاں بجاناں وا گزار اے جانِ من

تا بہ بینی یارِ دل رنجانِ من

ترجمہ: پیارے (اپنی) جان محبوب کے سپرد کر دے۔ تاکہ تو میرے یارِ دلِ آزار کا جمال دیکھے۔

35

دل بدِلدارے دہ و آزاد شو

غمخوارِ او باش و از وَے شاد شو

ترجمہ: دل (اپنے) دلدار کو دے دے اور آزاد ہوجا۔ اس کا غم کھایا کر اور اس سے خوش رہ۔ (حاصل یہ کہ حق کا مطیع و منقاد بدرجہ فنا ہوجا۔ آگے فرماتے ہیں کہ نفس کی اطاعت نہ کر:)

36

نفسِ خود بر خود مگر داں چیرِ تو

زود او را باز گیر از شیرِ تو

ترجمہ: اپنے نفس کو اپنے اوپر غالب نہ کر۔ (اور) جلدی اس کو (لذات دنیوی کے) دودھ سے علیحدہ کر۔

مطلب: جس طرح بچہ دودھ پی کر نشو و نما پاتا ہے، اسی طرح نفس لذّاتِ دنیوی کے دودھ سے قوّت پکڑتا ہے، اس کو ان لذّات سے علیحدہ کر دو، تاکہ قوّت پا کر تم پر غالب نہ ہوجائے۔ آگے یہ فرماتے ہیں کہ ”دودھ“ سے مراد وہ اشیاء ہیں جن سے خود بینی کی مستی پیدا ہو، خواہ اشیاء مباح ہوں جیسے شیر و شہد یا غیر مباح جیسے خمر، سب کو چھوڑو یعنی پہلی قسم کی اشیاء میں انہماک چھوڑ دو اور دوسری قسم کو مطلقًا ترک کر دو۔

37

هر چه ہست آں مستیے دارد یقین

خواہ شیر و خواه خمر و انگبین

ترجمہ: جو چیز (مرغوباتِ نفس کی قسم سے) ہے وہ یقینًا کچھ نہ کچھ مستی رکھتی ہے۔ خواہ (وہ) دودھ (ہو) یا شراب (ہو) اور یا شہد (ہو۔)

38

مستیِ گندم بداں اے آدمی

کہ بکرد آں آدمےؑ را اَعجمی

ترجمہ: (چنانچہ) اے آدمی! یہ سمجھ لے کہ گندم کی مستی نے۔ آدم علیہ السّلام کو (جو مسجودِ ملائکہ تھے) نا واقف بنا دیا (”آدمےؑ“ مصرعہ ثانیہ میں بیانِ مجہول ہے، اور یہ یائے تفخیم ہے۔)

39

خورد گندم حُلّہ زو بیروں شدہ

خُلد بر وَے بادیہ و ہامُوں شدہ

ترجمہ: (جونہی) انہوں نے گندم کا دانہ کھایا تو بہشتی لباس ان سے دور ہوگیا۔ اور بہشت ان کے لیے دشت و صحرا بن گیا۔ (آگے پھر شہزادہ کی حالتِ زار کا ذکر ہے:)

40

دید کاں شربت وُرا بیمار کرد

زہرِ آں ما و منی ہا کار کرد

ترجمہ: اس (شہزادہ) نے دیکھا کہ اس (خودبینی و غرور کے لذیذ) شربت نے اس کو بیمار کیا ہے۔ اسی خودی و انانیت کا زہر (اپنا) کام کرگیا۔

41

جان چوں طاؤس در گلزارِ ناز

ہمچوں چُغدے شد بویرانہ مجاز

ترجمہ: اس کی روح جو عالمِ علوی کے تعلق کے بدولت گویا گلزارِ ناز میں ایک طاؤس تھی۔ اب دنیا (کے) مجازی ویرانہ کا ایک اُلّو بن کر رہ گئی۔ (یعنی وہ ترقیِ روحانی سے محروم ہو کر تنزّل کے گڑھے میں گر گیا۔)

42

اشک میراند او کہ اے ہند وے زاؤ

شیر را کردی اسیرِ دُمِّ گاؤ

ترجمہ: وہ آنسو بہاتا (اور اپنے نفس سے کہتا تھا) کہ اے قوی چور۔ تو نے (مجھ جیسے) شیر کو دمِ گاؤ کا قیدی کردیا۔

مطلب: دمِ گاؤ کا قیدی کرنا کنایہ ہے علائقِ جسمانیہ میں مقیّد کرنے سے، کیونکہ کھیتی باڑی کا کام عام جسمانیت کے بڑے کاروبار سے ہے، اور کاشتکار جب ہل چلاتا ہے، بیل کی دم اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ نفس کو چور بدن پر اعتبار کہاں کہ وہ انسان کے وجود میں پنہاں ہے۔ اگر ”زاو“ بمعنی مِعمار ہو تو اس سے یہ مقصد ہوگا کہ اس نے شہزادہ کے دل میں خیالاتِ فاسد کی ایک بے بنیاد تعمیر بنا کھڑی کی۔

43

کردۂ اے نفسِ بد بارِد نَفَس

بے حفاظی با شہِ فریاد رس

ترجمہ: اے برے (اور) بے مروّت نفس!۔ تو نے (مجھ جیسے) شاہِ فریاد رس کے ساتھ حفظِ حق (کا سلوک) نہ کیا۔

44

دام بگزیدی ز حرصِ گندمے

بر تو شد ہر گندُمِ او کژدمے

ترجمہ: تو نے (لذاتِ دنیا) کے گیہوں کے حرص سے (حرماں کے) جال (میں پڑنا) اختیار کیا۔ حتٰی کہ تجھ پر گیہوں کا ہر دانہ بچھو بن گیا۔

45

در سرت آمد ہواے ما و من

قید بیں بر پائے خود پنجاہ من

ترجمہ: تیرے سر میں خودی و انانیت کی ہوا سما گئی۔ (اب اس کی پاداش میں اپنے پاؤں پر پچاس مَن کی زنجیر (پڑی ہوئی) دیکھ لے۔ (یعنی تیری رفتارِ ترقی رک گئی، کیونکہ پا بہ زنجیر آدمی چل نہیں سکتا۔)

46

نوحہ مے کرد ایں نمط بر جانِ خویش

کہ چرا گشتم ضدِّ سلطانِ خویش

ترجمہ: (غرض) وہ اسی طرح اپنی جان پر نوحہ کر رہا تھا۔ کہ میں اپنے باشاہ کے خلاف کیوں ہوگیا؟

47

آمد او با خویش و استغفار کرد

با انابت چیزِ دیگر یار کرد

ترجمہ: وہ (غرور کے نشے سے اب) ہوش میں آیا اور (اپنے گناہ سے) استغفار کی۔ اور توبہ کے ساتھ ایک چیز بھی شامل کی (”چیزِ دیگر“ سے مراد یا تو اعمالِ حسنہ ہیں، یا اپنے قصور کا اعتراف۔ (بحر العلوم) آگے مولانا فرماتے ہیں:)

48

درد کاں از وحشتِ ایماں بود

رحم کن کاں درد بے درماں بود

ترجمہ: جو درد ایمان کی وحشت سے ہو۔ (اے مخاطب! اس پر) رحم کر، کیونکہ وہ درد لاعلاج ہوتا ہے۔

مطلب: ”ایمان“ سے مراد ایمانِ کامل یعنی عرفان و فیضان اور ”وحشت“ سے مراد وہ وحشت ہے، جو اس ایمان کے مقدمہ میں یعنی اس عرفان و فیضان کے سبب سے عارضی ہوتی ہے، اور یہ وحشت اس قدر شدید ہوتی ہے کہ اگر کوئی شیخِ کامل فورًا دستگیری نہ کرے، تو اختلافِ طبائع سے کبھی تو غم خفیف ہو کر حجابِ شدید ہوتا چلا جاتا ہے۔ حتّٰی کہ بعضوں نے ایمان ہی کو جواب دے دیا۔ اللہ تعالٰی سے پناہ مانگنی چاہیے: ”نَعَوْذُ بِاللہِ مِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْرِ“ حجابِ شدید کا اوّل مرتبہ، اعراض اور آخر مرتبہ، عداوت ہے۔ اور کبھی نزاع ضعیف نہیں ہوتا، تو خودکشی کی نوبت آ جاتی ہے، اور علاج اس کا عرفِ شیخ کامل کی تدبیر مناسب ہے۔(کلید) غرورِ کمال کے بیان کے بعد، اب غرورِ مال کا ذکر فرماتے ہیں:

49

مر بشر را خود مبا جامہ درست

چوں رہید از صبر در حیں صدر جُست

ترجمہ: آدمی (کے سامان) کا جامہ درست نہ ہو (تو اچھا ہے۔کیونکہ) جہاں وہ (تنگدستی کے) صبر سے چھوٹا تو فورًا آسودگی پاتے ہی (صدر کی جگہ) کا طالب ہوا۔

کما قیل رحمۃ اللہ علیہ ؎

نشہ دولت کا کسی شخص کو جس آن چڑھا

سر پر شیطان کے اک اور ہی شیطان چڑھا

50

مر بشر را پنجہ و ناخن مباد

کُو نہ دِیں اندیشد آنگہ نے سداد

ترجمہ: آدمی کے پاس تو (قوّت کا) پنجہ اور ناخن ہی نہ ہوں۔ (تو بہتر ہے) کیونکہ اس وقت وہ نہ دین کا لحاظ رکھتا ہے نہ راست روی کا۔ (یعنی نہ مذہبًا برائیوں سے بچتا ہے نہ اخلاقًا)

کما قیل؎

ناخن نہ دے خدا تجھے اے پنجۂ جنوں

رکھ دے گا ورنہ شرم کے بخیے ادھیڑ کر

51

آدمی اندر بلا گشتہ بہ است

نفس کافرِ نعمت ست و گمرہ است

ترجمہ: آدمی کا (کسی نہ کسی) مصیبت میں مبتلا ہونا اچھا ہے۔ کیونکہ فراغت کی حالت میں اس کا نفس، کافرِ نعمت اور گمراہ (ہوجاتا) ہے۔

52

نفسِ کافر خود ہمے ندہد اماں

گشتہ طاغی چونکہ فارغ شد ز ناں

ترجمہ: ناشکرا نفس یوں بھی چین (سے بیٹھنے) نہیں دیتا۔ (پھر جب) روٹی سے بے فکر ہوا تو (اور بھی) سرکش ہوجاتا ہے۔

53

آدمی خود مبتلا بہتر بود

زانکہ زار و عاجز و مضطر بود

ترجمہ: آدمی تو (فقر و محتاجی میں) مبتلا ہی اچھا ہے۔ کیونکہ اس وقت وہ کمزور اور عاجز اور مجبور رہتا ہے۔

مطلب: فراغت و رفاہیت کے سامان کی کثرت انسان کو خدا سے باغی و طاغی بنا دیتی ہے۔ کما قیل رحمۃ اللہ علیہ ؎

نشہ دولت کا کسی شخص کو جس آن چڑھا

سر پہ شیطان کے اک اور ہی شیطان چڑھا

جیسے آگے نمرود کا قصہ آتا ہے، کہ اس کی دولت و حکومت باعثِ طغیان و کفران ہو گئی۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَاۤجَّ اِبْرَاھِیْمَ فِیْ رَبِّہٖۤ اَنْ اٰتَاہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ﴾ (البقرۃ: 258) (یعنی اے پیغمبر! صلی اللہ علیہ وسلم ”کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر نظر نہیں کی جو صرف اس وجہ سے کہ خدا نے اس کو سلطنت دے رکھی تھی (شیخی میں) ابراہیمؑ سے ان کے پروردگار کے بارے میں لگا حجّت کرنے۔“